سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(159) آفتاب کا کیچڑ کے چشمہ میں غروب اور شیطان کے سینگوں میں طلوع ہونا

  • 3941
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1500

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

ایک شخص اعتراض کرتا ہے کہ نماز فجر کے متعلق مسلم کی ایک حدیث میں لکھا ہے کہ وقت نماز صبح کا فجر کے طلوع ہونے سے آفتاب کے طلوع ہونے تک ہے۔ پس جس وقت سورج طلوع ہو تو تو نماز سے ہٹ جا، کیونکہ وہ درمیان شیطان کے دو سینگوں کے طلوع ہوتا ہے ۔‘‘ ( اب اس پر حاشیہ لکھا ہے) سورج کا شیطان کے دو سینگوں کے درمیان طلوع ہونا ملاحظہ ہو، اب اگر اس حدیث کی بنا پر آریہ ، عیسائی اسلام پر ہنسی اڑالیں تو اس کا کیا قصور ہے۔ سورج بالاتفاق زمین سے بہت بڑا ہے تو خیال کیجئے شیطان کے سینگ کتنے بڑے ہوں گے جن کے درمیان خود اتنا بڑا سورج آجاتا ہے اور خود شیطان کتنا بڑا ہو گا، جس کے اتنے بڑے سینگ ہیں، پھر یہ شیطان اہلحدیث کے دلوں میں گھس جاتا ہے اور وسوسے بھی ڈالتا ہے ،یہ نہیں بتایا گیا کہ شیطان کے سینگ پر سورج کیوں لادا گیا کیسی معقول حدیث ہے اور پھر شرح کیسی معقول ہوئی کیا یہ ممکن ہو سکتا ہے کہ اللہ کا رسول جو کہ عقل ودانش ہر بات میں اپنے تمام لوگوں سے افضل ہوتا ہے ایسی لغو اور بے سروپاباتیں کہے ہرگز نہیں قطعاًناممکن ہے ۔ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ذمہ یہ خرافات کیسی ایسے شخص نے گھڑ کر لگائے ہیں جو کہ عقل کا بو دا اور آپ کا پکا دشمن ہے، کوئی یہودی یا عیسائی ہے ایسا قبیح کام کسی مسلمان باایمان کا نہیں ہو سکتا ،بیچارے امام مسلم نے بے سوچے سمجھے کسی یہودی یا عیسائی کی حدیث کو جو کہ پیغمبر اسلام علیہ السلام کا پکا دشمن ہے اپنی کتاب میں درج کر دیا، ورنہ پیغمبر علیہ السلام کی شان نہیں جو ایسی باتیں کہے، اس کا مدلل جواب دیجئے؟ ( محمد اکرم خان ناظ رسڑک توپ خانہ محلہ نمدہ گراں دہلی)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

انسان کو چاہیے کہ س بات پر اعتراض کرے پہلے اس کا صحیح مطلب سمجھے کیونکہ بے سمجھی سے اعتراض درحقیقت اس بات پر اعتراض نہیں ہوتا بلکہ اپنی عقل کی خفت ہوتی ہے مخالفین قرآن کو جھٹلاتے تھے تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿بَل کَذَّبُوا بِمَا لَمْ یَحْیطُوا بِعِلْمِه﴾

’’یعنی انہوں نے ایسی شئے کو جھٹلادیا جس کے علم کا احاطہ نہیں کیا۔‘‘

سوجو اس حدیث پر اعتراض کرتا ہے اس کو اس حدیث کا اصل مطلب سمجھ لینا چاہئے ورنہ ویسے تو مخالف قرآن مجید پر بھی مذاق اڑاتے ہیں۔مثلاً کہتے ہیں کہ قرآن میں ہے :

﴿تَغْرُبُ فِی عَیْنٍ حَمِئَةٍ﴾

’’یعنی آفتاب کیچڑ والے چشمے میں غروب ہوتا ہے۔‘‘

تو کیا اس مذاق سے قرآن مجید پر کچھ اثر پڑا؟ ہرگز نہیں کیونکہ آیت کا مطلب وہ نہیں جو مخالف سمجھتے ہیں۔ بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ ذوالقرنین کو ایسا معلوم ہوا کہ اس کے علاوہ اس کی اور توجیہات بھی ہیں۔ اسی طرح اس حدیث کا مطلب صرف اتنا ہے کہ ہمارے لحاظ سے آفتاب شیطان کے سینگوں کے درمیان نکلتا ہے ،جیسے قرآن میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:

﴿تَطْلُعُ عَلٰی قَوْمٍ لَّمْ نَجْعَلْ لَّہُمْ مِّنْ دُوْنِہَا سِتْرًا﴾

’’یعنی ذوالقرنین نے آفتاب کو ایک قوم پر نکلتے پایا جن کے لیے آفتاب کے ورے ہم نے کوئی پردہ نہیں کیا۔‘‘

کیا اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ آفتاب اس قوم پر طلوع کرتا ہے ہم پر طلوع نہیں کرتا ہرگز نہیں، بلکہ مطلب یہ ہے کہ چونکہ وہ مشرق کی جانب ہماری نسبت سورج کے قریب ہیں، تو ہمارے لحاظ سے آفتاب ان پر نکلتا دکھائی دیتا ہے، اسی لیے فرمایا کہ ذوالقرنین نے ایسا پایا نہ کہ حقیقت میں ایسا تھا۔ جیسے موسیٰ علیہ السلام کی بابت فرمایا:

﴿یُخَیَّلُ اِلَیْهِ مِنْ سِحْرِهِمْ اَنَّہَا تَسْعٰی﴾

’’یعنی موسیٰ علیہ السلام کو خیال آیا کہ جادوگروں کی سوئیاں رسیاں دوڑتی ہیں۔‘‘

ٹھیک اسی طرح حدیث کا مقصود ہے کہ ہمارے لحاظ سے سورج شیطان کے سینگوں میں نکلتا ہے۔ سینگوں سے مراد (۱) سر ہے ، سورج نکلتے وقت اور غروب ہوتے وقت سورج کے پوچنے والے سورج کی پوجا کرتے ہیں تو شیطان اس وقت سورج کی طرف نزدیک ہوتا ہے، تاکہ وہ پوجا درحقیقت اس کی ہو، جیسے وہ پتھر اور درخت جن کی پوجا ہوتی ہے ان میں شیطان قرب کرتا ہے تاکہ اس کو سجدہ ہو، چنانچہ قرآن مجید ہے:

(۱) ۔جیسے معاویہ رضی اللہ عنہ نے اپنی خلافت کو ثابت کرتے ہوئے کہا من یطلع لنا قرنہ کون ہمارے لیے پانا سینگ نکالتا ہے ؟ یعنی ہمارے مقابلہ میں سرا ٹھاتا ہے۔

﴿اِنْ یَّدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِه اِلَّآ اِنٰثًا وَ اِنْ یَّدْعُوْنَ اِلَّا شَیْطٰنًا مَّرِیْدًا﴾

’’یعنی یہ لوگ نہیں پکارتے مگر عورتوں کو ( جنیوں کو) نہیں پکارتے مگر شیطان سرکش کو۔‘‘

چونکہ اس دین میں توحید کامل ہے اس لیے مشابہت شرک سے بھی منع فرما دیا جیسے قبرستان میں نماز پڑھنا منع ہے، گھروں میں تصویریں رکھنا منع ہے ،اسی طرح غروب اور طلوع کے وقت نماز منع ہے، تاکہ سورج کے پوجنے والوں سے مشابہت نہ ہو،بس اس حدیث کا صرف اتنا مطلب ہے اس کے علاوہ بعض او روجوہات بھی ہیں مگر کمی فرصت کی وجہ سے اسی پر اکتفا کی گئی ہے۔ ( عبداللہ امرتسری روپڑ۱۲ ربیع الثانی ۱۳۵۳ھ فتاویٰ روپڑی: جلد اول، صفحہ ۱۷۹)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 349-352

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ