السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
حضرت آدم علیہ السلام کا حضرت داؤد علیہ السلام کو زندگی کا کچھ حصہ دے کر انکار کرنا یہ جھوٹ ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
حدیث ابوہریرہ رضی اللہ عنہ میں آیا ہے کہ عالم ازل میں جب اللہ تعالیٰ نے آدم علیہ السلام کو پیدا کیا تو اس کی اولاد بھی اس سے پیدا کی ، اور ان کو نور دیا، آدم علیہ السلام نے جب حضرت داؤد علیہ السلام کا نور دیکھا، تو اپنی عمر سے ہزار برس سے چالیس برس اس کو دے دئیے اور فرمایا:
’’رب زدہ من عمری اربعین سنة‘‘
مگر بعد میں آدم نے عمر دینے سے انکار کر دیا:
’’فجحد آدم فجحدت ذریته الحدیث رواہ الترمذی، مشکوۃ باب القدر ، ص ۱۲۳)
اب دریافت طلب امر یہ ہے کہ آدم علیہ السلام نے باوجود نبی ہو کر اپنی عمر چالیس برس دینے سے دیدہ دانستہ کیس یانکار کر دیا۔ حالانکہ فرشتہ نے بھی یاد دلایا ، انبیاء علیہم السلام تو کذب بیانی سے منزہ اور معصوم عن الخطا ہیں۔ اور اس حدیث سے آدم علیہ السلام کی کذب بیانی تو صریح ظاہر ہے اس کا معقول جواب دیں؟
جواب:دینے سے انکار جھوٹ نہیں ہاں اگر یوں کہتے کہ میں نے دینے کو کہا ہی نہیں تب جھوٹ ہوتا، حجد سے مراد یہاں دینے سے انکار ہے کہ میں نہیں دیتا اس سے یہ مسئلہ نکلا کہ اولاد کو کوئی شے دے کر واپس لے سکتا ہے۔
اور اگر حجد سے مراد یہ ہو کہ میں نے دینے کو کہا ہی نہیں تو اس کا یہ مطلب ہو گا کہ میری یادداشت میں اور یہ کوئی ضرور نہیں کہ دوسرے کے یاد دلانے سے بات یاد آجائے رہی یہ بات کہ پھر عملدرآمد کیا ہوا۔ تو اس صورت میں اس کا حدیث مذکور میں کوئی ذکر نہیں ممکن ہے کہ فرشتہ کے یاد دلانے سے دینا منظور کر لیا ہو اور ممکن ہے نہ کیا ہو۔ ( عبداللہ امرتسری روپڑی ۲۰ ربیع الاول ۱۳۶۰ھ فتاویٰ روپڑی: جلد اول، صفحہ ۱۶۳)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب