السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص کہتا ہے کہ جس جگہ طاعون واقع ہوتی ہے وہاں کے باشندے اپنی طبعی موت سے نہیں مرتے، بلکہ طاعون جو غضب الٰہی کی شکل میں وارد ہوئی ہے اس سے مرتے ہیں خواہ ان کی عمر باقی ہو یا پوری کر چکے ہوں، اور وہ اس کو بھی مانتا ہے کہ عمر نیکیوں کے سبب بڑھتی ہے اور بداعمالیوں سے گھٹتی ہے جیسا کہ سورۃ نوح کی آیت (ویوخرکم الی اجل مسمی) سے واضح ہے چونکہ طاعون عذاب الٰہی ہے اور عذاب الٰہی سوائے بدعملوں کے نہیں آتا، لہٰذا طاعون سے جو متواتر مرتے ہیں یہ سب معذب ہوتے ہیں اور وہ عذاب سے قبل از وقت مر جاتے ہیں ،اور وہ یہ بھی کہتا ہے کہ تقدیر الٰہی میں کسی کے متعلق یہ نہیں لکھا گیا کہ وہ جنتی یا ناری ہے متقی یا سعید ہے، اگر ایسا ایمان رکھا جائے تو اعمال کا کیا فائدہ جو عمل کیا جاتا ہے بعد وقوع وہ لکھا جاتا ہے دوسرا شخص کہتا ہے کہ طاعون سے جو شخص مرتا ہے اس کی عمر زیادہ نہیں ہوتی اور جس کی عمر باقی ہوتی ہے وہ طاعون سے نہیں مرتا، عمر کا کم وبیش ہونا، کلیہ نہیں ہاں بعض نیک عمل اور بدعمل کی بیشی اور کمی کا سبب ہوتے ہیں مگر یہ بھی تقدیر الٰہی سے ہوتا ہے قضا مبرم میں نہ معلق میں اور ہر آدمی کے متعلق تقدیر میں لکھا ہوا ہے کہ وہ جنتی ہے یا ناری ہے شقی ہے یا سعید ہے۔
ان ہر دو شخصوں میں کون حق پر ہے۔ جو تحقیقات کے بعد حق کو نہ مانے اس کو امام بنایا درست ہے۔ ( سائل احمد دین از بستی مان ڈاکخانہ مخدوم رشید ضلع ملتان ۲۷ شوال ۱۳۴۲ھ
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
آپ جو کچھ سوال کیا ہے اس کا جواب خیر القرون میں دیا جاچکا ہے تاریخ ابن جریر جلد ۴ صفحہ ۱۹۹ میں ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ جب ملک شام کو گئے رستہ میں خبر ملی کہ شام میں طاعون کا زور ہے تو لوگوں نے جمع ہو کر مشورہ کیا کہ شام کو جائیں یا نہ پہلے مہاجرین کو بلایا ان کا اختلاف ہو گیا کسی نے کہا جانا چاہئے کسی نے کہا نہ جانا چاہئے، پھر انصار کو بلایا ان کا بھی اس طرح اختلاف ہو گیا، پھر پرانے پڑانے مہاجرین کو بلایا ان سب نے بیک زبان یہی کہا کہ نہ جانا چاہئے آپ نے واپسی کا اعلان کر دیا، ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ جو شام میں فوجوں کے سپہ سالار تھے جن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس امت کے آمین کا خطاب فرمایا ہوا تھا انہوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ پر اعتراض کیا کہ آپ اللہ کی تقدیر سے بھاگتے ہیں۔( اس لیے کہ شام میں جا کر مریں گے تو تقدیر الٰہی سے مریں گے۔)حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: کاش یہ کلمہ تیرے جیسے سمجھدار کی زبان سے نہ نکلتا، ہاں ہم اللہ کی تقدیر سے اللہ کی تقدیر کی طرف بھاگتے ہیں یعنی جیسے شام میں جا کر مرنا اللہ کی تقدیر سے ہو گا اسی طرح واپسی کا معاملہ بھی اللہ کی تقدیر سے ہو گا، پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ سے تنہائی میں کچھ باتیں کرنے لگے اتنے میں حضرت عبدالرحمن بن عوف رضی اللہ عنہ آگئے جو مشورہ کے وقت موجود نہ تھے کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جہاں طاعون ہو وہاں نہ جاؤ اگر تمہاری زمین میں پڑ جائے تو وہاں سے بھاگ کر نہ نکلو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے خدا کا شکر ادا کیا کہ میری رائے حدیث کے موافق ہو گئی۔ انتہی۔
اس سے معلوم ہوا کہ طاعون وغیرہ میں مرنا بچنا یہ سب تقدیر الٰہی سے ہوتا ہے اور کسی کا سعید یا شقی لکھا ہونا اس کی بابت تو مشکوٰۃ وغیرہ میں کثرت سے احادیث موجود ہیں اور عمل کی بابت بھی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہو چکا ہے ۔ جس کا جواب آپ نے یہ دیا کہ ’’ فکل میسر لما خلق لہ‘‘ چنانچہ مشکوٰۃ وغیرہ میں یہ حدیث موجود ہے۔
غرض سب معاملہ تقدیر سے ہے، لیکن تقدیر جبر کا نام نہیں، بلکہ خدا نے اپنا علم لکھ دیا ہے اور ظاہر ہے کہ علم ایک چیز ہے اور فعل الگ مثلاً مجھے کشف والہام سے معلوم ہوجائے کہ فلاں شخص کل چوری کرے گا اور میں اس بات کو لکھ دوں یا لوگوں کو اطلاع کر دوں پھر وہ شخص چوری کرے تو یہ چوری کا قصور سمجھا جائے گا کیونکہ فعل چوری کا مجھ سے صادر نہیں ہوا پس اللہ تعالیٰ کسی کو مجبور نہیں کرنا۔ جان لینا یا لکھ دینا الگ چیز ہے اور جو تقدیر ایمان نہ رکھے وہ فرقہ قدریہ سے ہے جو گمراہ فرقہ ہے۔ (عبداللہ امرتسری مورخہ ۱۵ ذی قعدہ ۱۳۴۲ھ فتاویٰ روپڑی: جلد نمبر ۱ صفحہ ۱۳۶،۱۳۷)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب