سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(123) ایمان میں امتیازی کیا فرق ہے؟

  • 3905
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 1149

سوال

(123) ایمان میں امتیازی کیا فرق ہے؟

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

اصل ایمان میں کمی زیادتی ہوتی ہے یا کمال ایمان میں ، خوارج اور محدثین کے درمیان تعریف ایمان میں امتیازی کیا فرق ہے؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن مجید میں کلمہ شہادت کو شجرہ طیبہ( درخت) سے تشبیہہ دی گئی ہے ارشاد ہوتا ہے:

﴿اَلَمْ تَرَکَیْفَ ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا کَلِمَةً طَیِّبَةً﴾

حدیث شریف میں آیا ہے :

(الایمان بضع وسبعون شعبة افضلها قول لا اله الا اللہ ۔۔۔ الحدیث))

ایمان کی مثال درخت سے دی گئی ہے جس طرح درخت کی جڑ زمین کے اندر پوشیدہ رہتی ہے اور اوپر اس کا تنا اور ڈالیاں اور شاخیں ہوتی ہیں اسی طرح ایمان بھی ظاہر وباطن اندر اور باہر کے مجموعہ کا نام ہے ، ایمان کی جڑیا تو مومن کے قلب میں یقین و ادغان کی صورت میں ہوتی او رپوشیدہ رہتی ہے اور اس کا اعلیٰ شعبہ یعنی تنہ زبان شہادت ہے اور بقیہ اعمال اس جزوتنہ کی شاخ اور ڈالیاں ہیں، جس طرح اندر سے باہر تک درخت کے مجموعی حصہ کو درخت کہتے ہیں اگرچہ تفصیل کے وقت کسی کو جڑ کسی کو شاخ اور تنے سے تعبیر کتے ہیں اسی طرح ایمان اعتقاد وعمل کے مجموعہ کا نام ہے اور جس طرح بعض شاخ یا تنے کے نکل جانے سے اصل درخت کا وجود باقی رہتا ہے۔

مگر اس میں نقص آجاتا ہے ، اس طرح بعض اعمال کے نہ پائے جانے سے اصل ایمان کے اندر نقص آجاتا ہے اور اگر کل اعمال متروک ہو جائیں تو ا سکی مثال اس درخت ہے جو صرف جڑ ہی جڑی ہے اور درخت کی کوئی حیثیت اس کے اندر موجود نہیں۔ ایسی صورت میں پھر اصل درخت ہی کالعدم بلکہ معدوم ہو جاتا ہے یہی حال ایمان کا ہے اس اسلامی تعریف کو مدنظر رکھتے ہوئے جزو کامل وغیرہ کو جس طرح چاہیں تعبیر کرلیں۔

عباداتنا شتی وحسنك واحد

وکل الی ذالك الجمال یشیر

شرعی ایمان

پھر ایمان کی یہ تعریف شعی معنی سے ہے یعنی شریعت کے نزدیک یقین وعمل کے مجموعہ کا نام ایمان ہے، بغوی معنی ایمان کے ایک تو امن دینے کے ہیں جس کا مفہوم ان لفظوں میں بتلایا گیا ہے ’’ المومن من امن الناس بوائقه‘‘ دوسرے معنی یقین وتصدیق کے ہیں جیسے اخوان یوسف نے حضرت یعقوب علیہ السلام سے کہا تھا کہ ’’ وما انت بمومن تناولو کنا صادقین‘‘ کیونکہ مومن کے لیے کتاب وسنت کی باتون اور ان کی خبروں پر یقین کرنا ضروری ہے اور یہی چیز انسان کو عذاب سے امن میں رکھنے والی ہے۔ لہٰذا اس لفظ کو اس موقع پر دونوں معنی ملحوظ رکھتے ہوئے استعمال کیا گیا ہے۔ اور چونکہ تصدیق کا ثبوت اعمال سے ہوتا ہے۔ جیسے درخت کا وجود اس کے تنا وشاخوں سے اس لیے حکیم کامل نے اس کو درخت سے تشبیہہ دی اور جس طرح درخت کی ڈالیاں مختلف حیثیت رکھتی ہیں، کوئی بہت بڑی جو قائم مقام درخت کے قرار دی جاتی ہے ، تو کوئی بالکل معمولی اسی طرح اعمال کی نوعیت ہے اور ج سطرح درخت کی شاخ اور پتیاں کبھی درخت سے الگ ہو جاتی ہیں، او رکبھی صرف ٹہنیوں اور پتوں کی تازگی اور رونق مفقود ہو جاتی ہے اسی طرح اعمال کا اثر کبھی تو نفس ایمان پر پڑتا ہے کبھی اس کی رونق اور رنگت پر لہٰذا کبھی اصل ایمان میں نقص آتا ہے کبھی کمال یعنی ا سکی رونق ووبجت پر۔

محدثین وخوارج کا تعریف ایمان میں امتیازی فرق

محدثین اعتقاد واعمال کو ایمان کی تعریف میں لیتے ہوئے پھر بھی ترک عمل کو کفر نہیں کہتے، بخلاف خوارج کے ان کے نزدیک انسان باوجود یقین واعتقاد کے ترک عمل سے کافر ہو جاتا ہے اور محدثین کے نزدیک ایسے شخص کا شمار کافر میں نہیں بلکہ فاسق میں ہو گا، خوارج آیت:

﴿وَ اَمَّا الَّذِیْنَ فَسَقُوْا فَمَاْوٰیہُمُ النَّارُ کُلَّمَآ اَرَادُوْٓا اَنْ یَّخْرُجُوْا مِنْہَآ اُعِیْدُوْا فِیْہَا وَ قِیْلَ لَہُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ﴾

لیتے ہوئے اس کو کافر قرار دیتے ہیں، مگر حضرات محدثین کہتے ہیں کہ یہاں فسق سے مراد ہی کفر ہے کیونکہ اس کے بعد آتا ہے:

﴿وَ قِیْلَ لَہُمْ ذُوْقُوْا عَذَابَ النَّارِ الَّذِیْ کُنْتُمْ بِه تُکَذِّبُوْنَ﴾

ہے کیونکہ یہاں غیر مشرک کے لیے مغفرت مقید بشیت کا اظہار کیا گیا ہے اگر صرف توحید سے مومن نہیں اور ترک اعمال سے کافر ہو گیا تو اس کی مغفرت کے لیے صحیح مشیت الٰہی بھی نہیں ہو گی، اس لیے محدثین کے نزدیک باوجود اعمال کے داخل ایمان ہونے کے ان کے ترک سے آدمی کافر نہیں ہوتا اور خوارج کے نزدیک کافر ہو جاتا ہے۔(عبداللہ امرتسری ۱۴ ذی قعدہ ۱۳۵۳ھ جلد اول ص۱۶،۱۷، فتاویٰ روپڑی)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 299

محدث فتویٰ

تبصرے