السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید کہتا ہے کہ کنجیاں رزق مخلوقات کی اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو تفویض کر دی ہیں جس کو جتنا چائیں دیں عمرو اس کے خلاف ہے وہ کہتا ہے کہ یہ بات بالکل غلط ہے کسی کو ایک ذرا بھر اختیار نہیں دیا سب کچھ اللہ واحد لا شریک لہ کے قبضہ میں ہے جس کو چاہے دے نہ چاہئے نہ دے ان دونوں میں کون سچا ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
رزق مخلوقات کی کنجیاں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے سپرد ہونے کی یوں بات ہے کہ اس امر میں زید کا قول بالکل غلط ہے ،زید مذکور نے یا قرآن وحدیث کو دیکھا سنا نہ ہو گا یا جان بوجھ کر ہٹ دھرمی کرتا ہے قرآن حدیث نے تو بڑے زور سے اس بات کی تردید کر دی ہے فرمایا اللہ تعالیٰ نے سورہ ہود کے پہلے رکوع میں :
﴿وَمَا مِنْ دَآبَّةٍ فِی الْاَرْضِ اِلَّا عَلَی اللّٰہِ رِزْقُہَا﴾
’’یعنی کوئی نہیں چلنے والا زمین پر مگر اللہ پر ہے روزی اس کی۔‘‘
یعنی چلتا پھرتا جیتا جاگتا جو کوئی ہے سب کو اللہ ہی رزق دیتا ہے اور سورہ فاطر کے پہلے رکوع میں ہے:
﴿هَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰہِ یَرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآءِ وَ الْاَرْضِ﴾
’’یعنی کوئی بتانے والا اللہ کے سوائے جو روزی دیتا ہے تم کو آسمان زمین سے۔‘‘
اور سورہ شوریٰ رکوع دوم میں ہے:
﴿لَه مَقَالِیدُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ یَبْسُطُ الرِّزْقَ لِمَنْ یَّشَآءُ وَیَقْدِرُ اِِنَّه بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمٌ﴾
’’یعنی اللہ ہی کے ہاتھ میں ہیں کنجیاں آسمانوں کی اور زمین کی پھیلا دیتا ہے روزی واسطے جس کے چاہے اور ماپ دیتا ہے وہ ہر چیز کی خبر رکھتا ہے۔‘‘
مطلب یہ ہوا کہ یہ تو رزق کی کنجیاں کسی اور کے ہاتھ میں ہیں اور نہ کسی کو یہ خبر ہے کہ کس کو روزی زیادہ ملنی چاہئے اور کس کو کم اور سورہ ذاریات کے تیسرے رکوع میں ہے:
﴿اِِنَّ اللّٰہَ هُوَ الرَّزَّاقُ ذُو الْقُوَّةِ الْمَتِیْنُ﴾
’’یعنی اللہ جو ہے وہی ہے روزی دینے والا ۔ آور مضبوط۔‘‘
اور سورہ ذاریات کے پہلے رکوع میں ہے:
﴿وَفِی السَّمَاءِ رِزْقُکُمْ﴾
’’یعنی اور آسمان میں ہے روزی تمہاری۔‘‘
یعنی رزق کا خزانچی اور کفیل اللہ کے سوا کوئی نہیں ہے سب کی روزی آسمان سے اللہ تعالیٰ اتارتا ہے اور مشکوٰۃ ،باب الاستغفار میں مسلم کی روایت سے آیا ہے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے حدیث قدسی میں :
((یا عبادی کلکم جائع الا من اطعمته فاستطعمونی اطعمکم یا عبادی کلکم عادالا من کسوته فاستکسونی اکسکم))
’’یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اے میرے بندو! تم سب کے سب ننگے ہو مگر جس کو میں پہنا دوں، پس تم مجھ سے کپڑا مانگو میں تم کو کپڑا دوں گا ۔‘‘
پس قرآن وحدیث میں صاف صاف بیان ہو گیا کہ روزی رزق کی کنجیاں محض اللہ پاک کے ہاتھ میں ہیں اس میں ذرہ برابر کسی دوسرے کا دخل یا تعلق نہیں ہے اور جو صفات ایسے ہیں جو اللہ پاک کے واسطے خاص ہیں ان میں کسی کا دخل یا تعلق سمجھنا شرک ہے ایسے عقیدے سے بہت بچنا چاہئے۔
(حررہ حمید اللہ ،سید محمد نذیر حسین دہلوی فتاویٰ نذیریہ جلد اول ص ۵)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب