السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
جو شخص ہمارے نبی محمد مصطفی احمد مجتبیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات سے کچھ ذرہ بھی بغض رکھے اور تمام جہان پر آنحضرت کے بزرگ وافضل ہونے کا قائل نہ ہو اور شفاعت کا اور آنحضرت کے خاتم النبین ہونے کا انکار کرتا ہو وہ کافر ہے یا نہیں ؟ بینوا توجرؤ۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
جس نے ایسا اعتقاد رکھا وہ کافر ہے ،جنت ۔اس پر حرام ہے ۔ہمیشہ دوزخ میں رہے گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا دوست وہ اللہ کا دوست اور کوئی چاہئے کہ بعد بعثت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بلا وساطت آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے اللہ سے دوستی رکھے وہ مردود ہے ۔ ایسے ہی لوگوں کے واسطے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ﴾
’’آپ کہہ دیں اگر تم اللہ تعالیٰ سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ اللہ تعالیٰ تم کو اپنا محبوب بنائے گا۔‘‘
اور فضیلت وبزرگی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی تمام جہان پر قرآن وحدیث سے صاف ظاہر وباہر ہے ۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ کسی نبی کو اس لقب سے یادنہیں فرمایا ہے :
﴿وَمَا اَرْسَلْنَكَ اِلَّا رَحْمَةً لِلْعَالَمِیْنَ﴾
’’اے نبی ہم نے تم کو سب کے واسطے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔‘‘
’’قوله فقیله ای بین عینیه وقد ترجم علیه النسائی واوردہ صریحاً فتح الباری ۱۲
اور صحیح مسلم کتاب الصلوٰۃ باب المساجد ومواضع الصلوٰۃ میں ہے :
((عن ابی هریرة ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال فضلت علی الانبیاء بست اعطیت جوامر الکلم ونصرت بالرعب واحلت بی الغنالم وجعلت لی الارض طہور او مسجداً وارسلت الی الخلق کافة وختم بی النبیون وفی روایة اعطیت الشفاعة))
’’ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے دوسے انبیاء پر چھ فضیلتیں عطا کی گئی ہیں میں جامع کلمات عطا کیا گیا ہوں رعب سے میری مدد کی گئی ہے میرے لیے غنیمتیں حلال کی گئی ہیں میرے لیے تمام زمین وضو کے قائم مقام اور مسجد بنا دی گئی ہے میں تمام لوگون کی طرف رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں اور میرے ساتھ نبیوں کو ختم کیا گیا ہے اور ایک روایت میں ہے مجھے شفاعت عطا کی گئی ہے۔‘‘
اور دوسرے مقام میں ہے :انا سید ولد آدم اور خاتم الانبیاء ہونا بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مثل آفتاب نیم روز کے کتاب اللہ اور سنت رسول اللہ سے واضح دلائل :
﴾مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَآ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَلٰکِنْ رَّسُوْلَ اللّٰہِ وَخَاتَمَ النَّبِيين﴾
’’محمد صلی اللہ علیہ وسلم تم میں سے کسی مرد ک یباپ نہیں ہیں لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں اور نبیوں کو ختم کرنے والے ہیں۔‘‘
اور صحیح مسلم کے کتاب الفضائل میں ہے:
«عَنْ أَبِی هرَیْرَةَ رضی اللہ عنه أَنَّ رَسُولَ اللَّہِ صلی اللہ علیه وسلم قَالَ مَثَلِی وَمَثَلُ الأَنْبِیَاءِ مِنْ قَبْلِی کَمَثَلِ رَجُلٍ بَنَی بُنْیَانًا فَأَحْسَنَه وَأَجْمَلَه إِلاَّ مَوْضِعَ لَبِنَةٍ مِنْ زَاوِیَةٍ مِنْ زَوَایَاہُ فَجَعَلَ النَّاسُ یَطُوفُونَ بِهِ وَیَعْجَبُونَ لَهُ وَیَقُولُونَ ہَلاَّ وُضِعَتْ ہَذِہِ اللَّبِنَة قَالَ فَأَنَا اللَّبِنَة وَأَنَا خَاتَمُ النَّبِیِّینَ وفی روایة فانا موضع اللبنة جئت فختمت الانبیاء علیہم السلام۔۔۔۔۔۔)) ( رواہ مسلم:باب ذِکْرِ کَوْنِهَ صلی اللہ علیهَ وسلم خَاتَمَ النَّبِیِّینَ)
’’آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہونا ابوہریرۃ رضی اللہ عنہ سے روایت کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری مثال اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایک آدمی جیسی ہے جس نے ایک عمارت کو بنایا اور اچھا بنایا اور بہت خوبصورت بنایا مگر اس کے گوشوں میں سے ایک گوشے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی رہ گئی لوگ اس کے گرد پھرنے لگے اور اس کی خوبصورتی سے تعجب کرنے لگے اور کہنے لگے کاش! اس جگہ اینٹ لگا دی جاتی تو آپ نے فرمایا میں وہ اینٹ ہوں میں خاتم النبیین ہوں اور ایک روایت میں ہے میں اس اینٹ کی جگہ آگیا ہوں۔ سو میں نے نبیوں کو ختم کر دیا ہے۔‘‘
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا شفاعت کرنا قیامت میں اپنی امت کے لیے بلکہ تمام امتوں کے واسطے قرآن وحدیث سے خوب صاف ہر کسی کو معلوم ہو جاتا ہے کچھ پوشیدہ امر نہیں ہے ، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
﴿اَنْ یَّبْعَثَكَ رَبُّكَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا﴾
’’تم کو تمہارا رب مقام محمود میں پہنچائے گا۔‘‘
﴿وَلَسَوْفَ یُعْطِیكَ رَبُّكَ فَتَرْضٰی﴾
’’آپ کو آپ کا رب اتنا دے گا کہ آپ راضی ہو جائیں گے۔‘‘
حدیث میں ہے:
((وعن عوف بن مالك قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم تانی ات من عند ربی فخیر نی بین ان یدخل نصف امتی الجنة وبین الشفاعة فاخترت الشفاعة و هی لمن مات لا یشرك باللہ رواہ الترمزی وابن ماجه، وعن انس رضی اللہ عنه ان النبی صلی اللہ علیه وسلم قال شفاعتی لاهل الکبائر من امتی رواہ الترمذی وابو داؤد وابن ماجه عن جابر ))
’’اور عوف بن مالک سے روایت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میرے پاس میرے رب کی طرف سے ایک آنے والا آیا اور مجھ کو اختیار دیا کہ یا تو میرے امت میں نصف امت جنت میں داخل ہو جائے گی اور یا پھر آپ شفاعت کر لیں، سو میں نے شفاعت کو پسند کر لیااور وہ ہر اس آدمی کے لیے ہو گی جو اس کے حال میں مر جائے کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہراتا ہو اس کو ترمذی اور ابن ماجہ نے روایت کیا اور انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ میری شفاعت میری امت کے کبیرہ گناہوں کے مرتکب لوگوں کے لیے ہو گی اس کو ترمذی ، ابو داؤد اور ابن ماجہ نے حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے۔‘‘
اور ایک بڑی حدیث میں بخاری ومسلم کے آیا ہے کہ قیامت یعنی حشر کے روز سب لوگ واسطے طلب شفاعت کے آدم ونوح وموسیٰ وعیسیٰ تمام انبیاء علیہم السلام کے پاس جائیں گے وہ سب اپنا قصور بیان کریں گے ۔شفاعت نہیں کرے گا حضرت عیسیٰ فرمائیں گے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاؤ۔ حضرت کے پاس آئیں گے پہلے دردازہ شفاعت کا ہمارے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھولیں گے، بعدہ سب شفاعت کریں گے، حضرت کے آگے کسی کی دم مارنے کی طاقت نہیں رہے گی اللہ تعالیٰ مقرر فرما دے گا اس کے موافق حضرت بار بار حکم اللہ لیتے جائیں گے سجدہ کرتے جائیں گے اور شفاعت کرتے جائیں گے اور صدہا احادیث اسی مضمون کی صحاح ستہ وغیرہ میں موجود ہیں جس کا جی چاہے وہ دیکھ لے اور بعد اس کے بھی جو شخص پھر حضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی بزرگی اور خاتم ہونے کا اور قیامت میں شفاعت کرنے کا منکر ہو تو بموجب آیت ۔
﴿فَمَاذَا بَعْدَ الْحَقِّ اِلَّا الضَّلٰلُ﴾
گمراہ کافر خالداً مخلدا دوزخ کا کندہ بن رہے گا، المجیب ابو البرکات محمد عبدالحی تقی عرف صدر الدین حیدر آبادی
الجواب صحیح والدای نجیح ومنکرها مردود کافر
(حررہ العاجز محمد نذیر حسین دہلوی ۔فتاویٰ نذیرہ ،جلد اول،ص ۱۰،۱۱)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب