السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم دیکھتے ہیں کہ دنیا کا ہر فرد وبشر کسی نہ کسی دکھ درد میں مبتلا ہے جب یہاں ہر شخص کو کسی نہ کسی رنگ میں ہر سزا مل رہی ہے تو پھر قیامت کو لانے اور کام بڑھانے کا کیا سبب ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس دنیا کے رنج والم کے بنانے والے خالق کل کا یہ قانون پہلے ذہن نشین رکھنا حد درجہ ضروری ہے کہ یہ دنیا یہ کشمکش موت وحیات کیوں بنائی گی ہے سو قرآن کریم جواب دیتا ہے:
﴿اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَة لَّہَالِنَبْلُوَہُمْ اَیُّہُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ (الکہف:۷)
’’زمین کی ہر چیز باعث زینت اور دلچسپی ہے اور یہ اس لیے کہ ہم دیکھیں کون شخص بہترین اور اچھے عمل کرتا ہے ۔‘‘
اور دوسری جگہ ارشاد ہے:
﴿خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَیَاةَ لِیَبْلُوَکُمْ اَیُّکُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا﴾ (الملک:۲)
’’یہ کشمکش موت وحیات محض اس لیے پیدا ہوئی ہے کہ تمہارے حسن عمل کی جانچ پڑتال ہو ۔‘‘
ان آیات بینات سے پتہ چلا کہ دنیا کو درالعمل بنایا گیا ہے زندگی محض اس لیے ملی ہے کہ عمل کی کیف آفرنیوں میں انسان کی جانچ پرکھ ہو اور دیکھا جائے کہ انسان اس دنیا میں کیا کچھ کرتا ہے لہٰذا یہ دارالجزاء نہیں ہے جزا سزا کے لیے اس دنیا کو نہیں بنا یا گیا اس کے لیے زمان اور مکان اور جیس یاسلامی اصطلاح میں عالم آخرت کہا گیا ہے اور عالم آخرت کو لانے کے لیے جو انقلاب برپا ہو گا اس کا نام قیامت ہے عالم دنیا اور عالم آخرت دونوں کے مقاصد واغراض الگ الگ ہیں جنہیں سمجھنے سمجھانے کے لیے اسلامی تعلیمات کا محتاج ہونا پڑتا ہے سو اسلام نے بالوضاحت فرمایا ہے :
(الیوم یوم عمل ولا حساب )
وبعد الیوم یوم وبعدالغد یوم حساب ولا عمل کما قال صلی اللہ علیہ وسلم
آج کچھ کرنے کا دن ہے حساب اور سزا کا دن نہیں ہے اور اس دنیا کے بعد حساب وجزا کا دن ہے وہاں عمل نہیں ہو سکے گا ہم دیکھتے ہیں اس کا دارالعمل دنیا میں کسی نیک کی نیکی کا اسے مکمل معاوضہ نہیں ملا اور نہ ہی کسی بد اور سرکش کو اس کی بدی کی پوری سزا ملی ہے انبیاء کرام جو صالح ترین مخلوق ہے اور اگناہ سے قطعی محفوظ اور بالکل معصوم ہے بتائے اس طبقہ صالح نے اپنی صالحیت کا دنیا میں کیا معاوضہ پایا حالانکہ قرآن صاف ناطق ہے۔
﴿مَسَّتْہُمُ الْبَاْسَآءُ وَ الضَّرَّآءُ وَ زُلْزِلُوْا حَتّٰی یَقُوْلَ الرَّسُوْلُ﴾ (البقرة:۲۱۴)
سابقہ صالحین کو جو درجہ مصائب ونوائب پہنچتے اور متزلزل ہو گئے حتی کہ رسول اور اس کے سب ساتھی رحمت الٰہی کے لیے چلا اٹھے حدیث پاک میں آتا ہے کہ اللہ کے پیغمبروں کو تمام مخلوق سے زیادہ تکلیفیں اور مصیبتیں پہنچتی ہیں یہ تو پہلی باتیں ہوئیں آپ اب اپنا روزانہ مشاہدہ دیکھتے کہ صالحہ خیال مخلص اللہ والا بندہ دنیا اور دنیا داروں کے ہاتھوں کس قدر تکلیف میں ہے ضرر ہائے مادی کے علاوہ اس کی شرافت کو شرارت اس کے سچ کو جھوٹ اس کے اخلاص کو دغا وفریب اس کی ہمدردی کو خود غرضی اس کی خیر سگالی کو مکاری اور اس کے ہر کام کوجاہ وطلبی سمجھا جاتا ہے یہ فلسفہ ہے اس حدیث کا
(( الدنیا سجن المومن))
’’مخلص اور اللہ والے کے لیے دنیا جیل خانہ کے مشابہ ہے ۔‘‘
لہٰذا ثابت ہوا کہ دنیا میں پورا پورا معاوضہ ایک نیک کو اس کی نیکی کا نہیں ملا اور نہیں مل سکتا آپ کہیں گے کہ کئی اصحاب کرام اولیاء عظام اور اس وقت بھی کئی صلحاء دنیا داری اور زرومال میں پورے طور پر انعام یافتہ ہیں تو معاوضہ مل گیا بدلہ پانے میں کیا کسر رہ گئی جواباً عرض ہے کہ یہی سوال پیغمبر علیہ السلام سے ہوا تھا کہ ایک صالح کو دنیا کا وافر حصہ ملنا کہیں اسے پورا پوا معاوضہ دے کر اس کا حساب وکتاب تو نہیں پنٹا یا جا رہا تو آپ نے جواب میں فرمایا:
((تلك وعاجل بشر للمؤمن)) (الحدیث)
’’ مکمل معاوضہ تو آخرت میں ملنا ہے یہ تو بطور نمونہ مشتے از خردار ہے ۔‘‘
اب ایک بد کو لیجئے فرعون بدوں کا سرغنہ تھا سوائے غرقابی کے اس کے ظلم واستبداد قتل وقتال اور دعویٰ خدائی کی اسے کیا سزا ملی اور اب بھی مشہور ہے کہ رب کا باغی طاغی خوش وخرم ہوتا ہے اور بغاوت الٰہی سے الٹا مزے اڑاتا اور لطف پاتا ہے چور کمینے کمیخت نے ہزاروں لاکھوں روپے اڑا لیے مگر کسی مقام پر نہ پکڑا گیا اور عیش سے زندگی گزارتا رہا بتائیے اب اس اسے جرم کی سزا کون اور کب دے قاتل قتل کر کے ماخوذ نہیں، اور اگر پکڑا گیا تو دے لے کر بری ہو گیا ظالم شرابی زانی راشی بلیک کرنے والا جھوٹی قسم کے مقدمہ جیتنے والا ،غاصب وغیرہ بیشتر مجرم دنیوی سزاؤں سے بچ رہے ہیں اور گل چرے اڑا رہے ہیں انہیں یہاں تو کچھ نہیں ہو رہا اگر حکومتوں کے قانون سے بچ رہے ہیں تو خدائی سزا سے بھی ماموں ہیں کسی کی ٹانگ نہیں ٹوٹی کسی کو ہر وقت سزا نہیں ملتی کہ مظلوم کا دل ٹھنڈا کرنے کا سبب بنے حالانکہ انصاف کا تقاضا یہ ہے کہ مجرم کو سزا ملے اور مظلوم کو جزا مگر ایسا نہیں ہو رہا آخر یہ کون ہے منکر اسلام لوگ بار بار پیغمبروں سے یہ مطالبہ کرتے تھے:
﴿فَاْتِنَا بِمَا تَعِدُنَآ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ﴾
’’اگر سچے ہو تو جیسا کہ ہمیں وعدہ دے رہو ہماری مخالفت کی ہمیں سزا دلاؤ ۔‘‘‘
مگر انہیں یہی جواب ملتا رہا کہ وقت پورا ہو لینے دو وقت آجانے پر منٹ بھرکی کمی بیشی نہ ہو گی موت ایک سرحدی چوکی ہے جونہی آخرت کی طرف عبور کرے گا اپنی سزا یا اپنے انعام اور صلہ پا لے گا:
((مَنْ مَاتَ فَقَدْ قَامَتْ قِیَامَتُه))
’’جو شخص مر گیا اس کی قیامت شروع ہو گئی۔
پس انعقاد قیامت کی وجہ صرف یہ ہے اور عالم آخرت کو لانے کا سبب یہ یہی ہے کہ نیک وبد شخص کو جو دنیا میں جزا سزا نہیں مل سکتی اس کا حساب اب پورا کر دیا جائے اور مظلوم کو جیسے دنیا میں بدلہ نہیں ملا یہ تو اب ظالم سے اس کا حق لے کر اسے دیا جائے باقی رہا یہ سوال کہ دنیاوی تکالیف میں ہی اخروی قصہ ختم کر دیا جاتا ہے تو اس کے متعلق اسلام کا نظریہ یہ ہے کہ صالح کی آزمائش کرنے اور صبر سے اس کا اجر بڑھانے کے لیے تکلیفیں آتی ہیں اور بدعمل شخص کو بطور یاد داشت کے مصائب بھیج کر زجرو تو بیخ کی جاتی ہے مساق بداعمال کے متعلق ارشاد ہے:
﴿وَ لَنُذِیْقَنَّہُمْ مِّنَ الْعَذَابِ الْاَدْنٰی دُوْنَ الْعَذَابِ الْاَکْبَرِ لَعَلَّہُمْ یَرْجِعُوْنَ﴾ (السجدة:۲۱)
’’بڑا عذاب آنے سے پہلے پہلے دنیوی تکالیف مخص اس لیے آتی ہیں کہ وہ رجوع الی اللہ ہوں۔‘‘
﴿لَہُمْ عَذَابٌ فِی الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا وَ لَعَذَابُ الْاٰخِرَةِ اَشَقُّ﴾
(از قلم مولانا عبدالمجید سوہدروی رحمہ اللہ اہلحدیث سوہدرہ جلد نمبر ۵ شمارہ نمبر ۴۳،۲۴)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب