سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

حرام کھانے والے کی عبادت کا حکم

  • 389
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-26
  • مشاہدات : 866

سوال

سوال: السلام علیکم کیا حرام کھانے والے کی عبادت قبول ہوتی ہے؟مثلا بینک کا منافع۔ اور کیا اگر کوئی بینک کے منافع سے کوئی نیک کام کرتا ہوکیا وہ قبول ہو گا؟اور اگر کوئی حرام کھاتا رہا اور پھر اس نے صدق دل سے توبہ کر لی تو کیا اس کا یہ گناہ حرام کھانا نیکی میں بد

جواب: کیا حرام کھانے والے کی عبادت قبول ہوتی ہے؟مثلا بینک کا منافع۔ سود کھانے والے کے بارے نصوص شرعیہ میں بہت زیادہ وعید وارد ہوئی ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
(الرِّبَا سَبْعُونَ حُوبًا أَيْسَرُهَا أَنْ يَنْكِحَ الرَّجُلُ أُمَّهُ) رواه ابن ماجه (2274) وصححه الألباني في صحيح ابن ماجه ، وقال المنذري : إسناده صحيح أو حسن أو ما قاربهما .
سود کے گناہ کے ستر درجات ہیں اور ان میں سے سب سے ہلکا گناہ یا درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے بدکاری کرے۔ علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے اور امام منذری رحمہ اللہ نے کہا ہے کہ اس روایت کی سند صحیح یا حسن یا ان کے قریب ہے۔
اس وعید کے باوجود ہمارے علم میں کوئی ایسی صحیح روایت نہیں ہے کہ جس سے معلوم ہو کہ حرام کھانے والی کی عبادت قبول نہیں ہوتی ہے۔
اور کیا اگر کوئی بینک کے منافعے سے کوئی نیک کام کرتا ہو ت کیاو قبول ہو گا؟
اس میں اہل علم کا اختلاف ہے۔ بعض اہل علم کے بقول بینک سے سود لینا ہی حرام ہے، چاہے اس کو خود استعمال نہ بھی کرے اور غربا ومساکین میں صدقہ کر دے۔ اہل علم کے ایک دوسرے گروہ کا کہنا یہ ہے کہ آپ بینک کے پاس سود چھوڑنا بھی جائز نہیں ہے اور خود استعمال کرنا بھی حرام ہے۔ بینک کے پاس چھوڑنا اس لیے جائز نہیں ہے کہ اس سے عالمی سودی نظام کو تقویت ملتی ہے اور آپ تو سود نہیں لیتے لیکن آپ کے حصے کا سود بینک لے کر مزید قوی و مضبوط ہو جاتا ہے لہذا بینک سے سود لے کر اسے مالی نقصان پہنچائیں اور یہ سود کی رقم بغیر صدقہ وثواب کی نیت کے ایسے لوگوں میں تقسیم کر دیں جن کے لیے دو وقت کا کھانا پورا کرنا مشکل ہے۔ میرے خیال میں پہلا مسلک محتاط ہے اور عام حالات میں اس پر عمل ہونا چاہیے جبکہ ودسرے مسلک پر بعض خاص صورتوں میں عمل ہو سکتا ہے مثلا اگر کسی شخص کی بچہ اغوا ہو گیا اور اسے ڈاکووں نے پچاس لاکھ تاوان ڈال دیا تو ایسے ڈاکووں کو تاوان کی رقم اس قسم کے سود سے ادا کی جا سکتی ہے کیونکہ وہ تو پہلے ہی حرام کھانے کو بیٹھے ہیں یا کسی شخص نے بینک سے قرضہ لیا اور اس پر سود در سود چڑھ گیا۔ اب اس شخص نے صدق دل سے توبہ کر لی لیکن سود کی رقم ادا کرنے کیے پیسے نہیں ہیں اور لوگ بھی کتنی مدد کرتے ہیں؟ لہذا ایسے افراد کے لیے بھی اس دوسرے قول کے مطابق سود کی رقم سود ہی کی ادائیگی میں کھپا کر ایک گردن آزاد کروائی جا سکتی ہے۔ واللہ اعلم بالصواب
اور اگر کوئی حرام کھاتا رہا اور پھر اس نے صدق دل سے توبہ کر لی تو کیا اس کا یہ گناہ حرام کھانا نیکی میں بدل جائے گا؟
کافر کے گناہ کے بارے تو موجود ہے کہ ایمان لانے سے نیکیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں لیکن مسلمان کے گناہ بھی نیکیوں میں تبدیل ہو جاتے ہیں، اس بارے کوئی نص میرے علم میں نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے؛
إِلَّا مَن تَابَ وَآمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَأُولَـٰئِكَ يُبَدِّلُ اللَّـهُ سَيِّئَاتِهِمْ حَسَنَاتٍ ۗ وَكَانَ اللَّـهُ غَفُورًا رَّحِيمًا ﴿٧٠﴾ وَمَن تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَإِنَّهُ يَتُوبُ إِلَى اللَّـهِ مَتَابًا ﴿٧١﴾
سوائے ان لوگوں کے جو توبہ کریں اور ایمان ﻻئیں اور نیک کام کریں، ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ تعالیٰ نیکیوں سے بدل دیتا ہے، اللہ بخشنے واﻻ مہربانی کرنے واﻻ ہے۔ اور جو شخص توبہ کرے اور نیک عمل کرے وه تو (حقیقتاً) اللہ تعالیٰ کی طرف سچا رجوع کرتا ہے ۔

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ