السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ جو شخص اپنی تعلی میں باو صفے کہ افراد انسان میں سے ایک فرد مبتذل ہو ، انبیاء کرام سے اپنی برتری بیان کرے اور اس شعر کے ساتھ تفاخر کناں ہو کر اپنی بڑائی میں زبان کو نجاست آلودہ کرے شعر
تکیہ ام برذات پاکت بر عصاز عمش بود
ار کلیم اللہ اعلی پائیہ پالائے من
آیا یہ سب اہانت اور استحفاف انبیاء اللہ کے یہ شخص کافر ہے یا باوجود ایسی دریدہ دہنی اور بے ادبی کے ہنوز مومن ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
در صورت وانمود مستفتی وصدق سائل جو شخص کہ اپنے تئیں افضل اور اکمل اور برتر تمامی انبیاء سے جانے اور کہے وہ بلا شک کافر ہے اور بے تامل قابل قتل ہے اور وہ بلا ریب مہین اور منقص اور مسخف انبیاء علیہم السلام کا ہے اور منکر قرآن اور احادیث متواتر کا ۔ رسول بحسب اعتقدہ اس شخص کے مفضول ہوئے اور یہ فاضل حالانکہ تفضیل نبی کی امتی پر قرآن اور اہادیث اور اجماع سے ثابت ہے اور باوجود اس عقیدہ مذمومہ کے بطعن لپیش آوے اور تفوہ کرے کہ چراتکیہ اور اعتناد اوپر ذات الٰہی کے ہے اور حضرت موسیٰ علیہ السلام کا تکیہ اوپر اعتماد کے معاذ اللہ پھر کون سا اس کے کفر میں شک رہا رہی یہ بات کہ اگر ایسا شخص توبہ کر لے تو اس کی توبہ مقبول ہے یا نہیں؟ بعض یائمہ دین حکم دیتے ہیں کہ اس کو قتل کیا جائے اور توبہ نہ قبول کی جائے اور بعض کہتے ہیں کہ توبہ قبول کی جائے کتاب الشفافی حقوق المصطفی میں ہے:
((فمن شتم الانبیاء واحدا منهم او تنقصه قتلِ ولم یستتب ۔۔۔الخ))
’’جو آدمی کسی نبی کو گالی دے یا اس کی توہی کرے اس کو قتل کر دیا جائے اور اس کی توبہ قبول نہ کی جائے ۔۔۔۔الخ‘‘
’’وقاسل ابو حنفیة واصحابه علی اصلہم من کذب ماجد من الانبیاء او تنقص احدا منہم او بری او شك فی شئی من ذلك فهو مرتد فقط۔‘‘
’’امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ اور آپ کے شاگردوں کافتویٰ ہے کہ جو شخص کسی نبی کو یا اس کی توہین کرے یا اس سے بزاری کا اظہار کرے اس کی نبوت میں شک کرے وہ کافر ہے۔‘‘ ( محمد شفیع، محمد یعقوب)
الجواب صحیح: سید محمد نذیر حسین۔ فتاویٰ نذیریہ جلد اول ص ۱۷،۱۸)
بائد دانست کہ ازین حدیث وان اراد، عونا فلیقل یا عباداللہ اعینونی یا عباد اللہ اعینونی یا عباد اللہ اعینونی چنانچہ صاحب حصن حصین از طبرانی نقل کردہ کسے کہ استدلال وحجت گیر در باب استعانت ومدد خواستین بغیر او تعالیٰ جل شانہ از اموات چہ اعلیٰ وچہ ادنی جائز نیست ونمی تو اندشد بچند وجوہ درامور سے کہ موجبات شرک وکفر باشد
’’ترجمہ مسئلہ: صاحب حصن حصین نے طبرانی کی حدیث نقل کی ہے کہ اگر مدد طلب کرنا چاہئے تو کہے اے اللہ کے بندو میری مدد کرو اے اللہ کے بندو میری مدد کرو اے اللہ کے بندو میری مدد کرو، اس س یخدا تعالیٰ کے سوا مدد سے مدد مانگنے پر استدلال کرنا صحیح نہیں ہے خواہ وہ مرد سے اعلیٰ مرتبہ کے ہو یا ادنی درجہ کے اس سے استدلال کرنا کئی طرح سے علط ہے۔
وجہ اوّل: آنکہ درسند این حدیث ابن حسان راوی ضعیف است کما قال الہیثمی و دیگر راوی درین حدیث عتبۃ بن غزوان مجہول الحال است کما قال فی التقریب من کتب اسماء الدجال پس بنا بر ضعیف ومجہول الحال بودن راوی این حدیث قابل اعتماد نیست
’’پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اس حدیث کا ایک راوی ابن حسان تو صعیف ہے اور دوسرا عتبہ بن غزوان مجہول الحال ہے۔‘‘
واجتجاج نماندہ ومراداز عباداللہ ملائکہ حفاظت کنندگان ونگہبان ہستند نہ اموات چنانکہ در فیض القدیر شرح جامع الصغیر مذکور است حیث :
((قال فی فیض القدیر ان اللہ ملائکة فی الارض یسمون الحفظة یکتبون ما یقع فی الارض من ورق الشجر فاذا اصاب احدکم حرجة واحتیاج الی عون بفلاة من الارض فلیقل اعینو فی یا عباد اللہ رحمکم اللہ فان یحصل ان شاء اللہ رواہ ابن السنی والطبرانی من حدیث الحسن بن عمرو عن ابن حسان عن سعید بن ابی عروبة عن قتادة عن ابن بریرة عن ابن مسعود قال ابن حجر حدیث غریب وفیه معروف وقالو فیه منکر الحدیث و قد تفرربه وفیه انقطاع بین ابن بریرة وابن مسعود۔۔۔۔۔۔ انتہی وقال الہیثمی فیه معروف بن حسان ضعیف قال وجاء فی معناہ خبر اخرجه الطبرانی بسند منقطع عن عتبة بن غزوان مرفوعاً اذا اضل احدکم شیئا اواردعونا وهو بارض لیس بہا انیس فلیقل یا عباد اللہ اعینونی ثلاثاً فان اللہ عباداً لا نراہم الی اخر ما فی فیض القریرشرح جامع الصغیر ۔‘‘
پس حدیث حجت مدد خواستگان از موتیٰ ثابت نمی شود
’’لہٰذا یہ حدیث حجت اور استدلال کے قابل نہیں ہے اور اللہ کے نیک بندوں سے مراد حفاظت کرنے والے فرشتے ہیں نہ کہ مردے جیسا کہ فیض القریر شرح جامع الصغیر میں اس کی پوری تشریح اور تصریح کی گئی ہے او راس حدیث کو ابن السنی نے بھی اسی سند سے روایت کیا ہے لہٰذا اس کی روایت بھی قابل استدلال نہیں ہے لہٰذا مردوں سے مدد مانگنے والوں کا اس حدیث سے استدلال درست نہ ہوا۔‘‘
و دوم: آنکہ اگر مورد این حدیث رابر جلب منافع وسلب مضار وسبب فراخی و تنگی وصحت ومرض وطلب رزق فرزند ودیگر حاجات از غیر خدا تعالیٰ حمل کنی پس این اصلاً جائز نخواہد شد زیرا کہ این معنی را آیات قرآنیہ واحادیث صحیحہ واجماع امت قرون ثلثہ وغیر رومی کند، چہ این خبرواحمد معارض ومقابل قرآن شریف نمی شود، اگرچہ این خبر بسند صحیح باشد چیہ جائیگہ بسند ضعیف ومنگرا باشد یرد خبرالوا حد فی ( معارضۃ الکتاب لان الکتاب مقدم لکونہ قطعیا متواتر النظم لا شبہۃ فی سندہ کما فی التوضیح والتلویح و شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمہ اللہ ورحجۃ اللہ البالغہ می نویسند کہ ومنہا ( الی منمطنات الشرک) انہم کانو(یستعینون بغیر اللہ فی حوائجہم رجابر کتہا فاوجب اللہ علیہ ان یقولوا فی صلواتہم (ایاک نعبد وایاک نستعین وقال اللہ تعالیٰ ولا )تدعوا مع اللہ احد اولیس المراد من الدعا العبادۃ کما قال بعض المفسرین بل ہوا الاستعانۃ لقولہ تعالیٰ(بل ایاہ ترعون فیکشف ما ترعون ۔۔۔انتہی خلاصہ ما فی حجۃ اللہ البالغہ پس از آیت (ایاک نعبدوایاک نستعین) واز ایت واستعینوا باللہ واز آیت (ولا تدعوا مع اللہ احداً) وغیرہ استعانت بغیر خدا تعالیٰ اور امورے کہ موہم شرک باشد ناجائز شد موجب شرک ولہٰذا محمد طاہر محدث ور مجمع البحار گفتہ است کہ ن قصد لزیادۃ قبورالانبیاء والصلحاء ان یصلی عند قبورہم ویدعو عندہا ویسألہم الحوائج نہذا لا یجوز عند احد من علماء المسلمین فان العبادۃ وطلب الحوائج والاستعانت حق اللہ وحدہ انتہی کلامہ۔
’’دوسری وجہ یہ ہے کہ اگر اس حدیث کا مطلب یہ لیا جائے کہ خدا تعالیٰ کے سوا کسی اور سے منافع کے حصول اور مصائب کے دور کرنے میں یا رزق کی تنگی یا فراخی میں یا صحت وبیماری کے متعلق مدد حاصل کی جائے تو یہ قطعاً ناجائز ہے ، کیونکہ قرآن کی آیات اور احادیث صحیحہ اور قرون ثلاثہ میں امت کا اجماع اس کی تردید کرتے ہیں پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہئے کہ یہ خبر واحد ہے اور خبر خبر واحد اگر صحیح بھی ہو تب بھی قرآن مجید کے معارض نہیں ہو سکتی ، چہ ئیکہ حدیث بھی ضعیف ہو، جیسا کہ توضیح و تلویح میں مذکور ہے شاہ ولی اللہ صاحب نے حجۃاللہ البالغہ میں لکھا ہے کہ شرک کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ مشرک لوگ اللہ کے سوا اوروں سے مدد مانگا کرتے تھے لہٰذا ان کو حکم دیا گیا کہ نماز میں (ایا ک نعبدو وایاک ) کہو اور (ولا تدعو مع اللہ احد) اور یہاں دعا سے عبادت مراد نہیں ہے۔ جیسا کہ مفسرین نے لکھا ہے بلکہ اس سے مدد مانگنا مراد ہے۔‘‘
وجہ سوم: آنکہ مخالف ومعارض ازین حدیث مذکور در مضمون واحد حدیثے دیگر نیز درطبرانی وابن ابی شیبہ وارد شدہ و درحصن حصین موجود است ،خلاصہ مضمونش انبیکہ وقت گم شدن یا گریختن غلام خدا تعالیٰ رندا کر دہ بگویدیا اللہ یا بازگردان چیز گم شدہ وگریختہ ر قال فی حصن حصین وا ذا منا ع لہ شئی او ابق (اللہم راد الضالۃ وہادی الضلالۃ )) کآدمکم ونوح کنوحکم وعیسٰ کعیسٰکم وقال صحیح الاسناد۔
’’تیسری وجہ یہ ہے کہ اس حدیث کے بالکل مخالف مضمون ایک اور حدیث میں آیا ہے جس کو طبرانی اور ابن ابی شیبہ نے روایت کیا ہے اور حصن حصین میں وہ بھی موجود ہے جس کا مضمون یہ ہے کہ جب کسی کو کوئی چیز ضائع ہو جائے یا بھاگ جائے تو اللہ تعالیٰ سے دعا کرے کہ یا اللہ اپنے فضل وکرم سے میری یہ چیز مجھے واپس کر دے اس حدیث میں شرط اورجزا کے طور پر مضمون ادا کیا گیا ہے یعنی جب بھی کوئی ضرورت پیش آئے تو اللہ تعالیٰ ہی سے مدد مانگے۔ تمہارے عیسیٰ جیسا عیسیٰ ہے اور کہا اس کی سند صحیح ہے۔‘‘
(جواب سب صحیح اور درست ہیں۔رشید احمد گنگوہی)
محمد ہاشم، سید محمد عبدالسلام غفرلہ، پیر محمد دارم صد شکر کہ من ۔فتاویٰ نذیریہ جلد اول:ص ۵۳)
’’وقال بن جریر حدثنا عمرو بن علی ومحمد بن المثنی قالا حدثنا محمد بن جعفر حدثنا شعبة عن عمرو بن مرة عن ابی الضحی عن ابن عباس رضی اللہ عنهما انه قال فی کل ارض اٰدم کادمکم ونوح کتوحکم وابراهیم کا براهیمکم و نبی کنیکم ‘‘
’’اور ابن جریر نے کہا کہ ہم کو عمرو بن علی او رمحمد بن مثنیٰ نے حدیث سنائی انہوں نے محمد بن جعفر سے سنی اس نے شعبہ سے اس نے ابو عمرو بن مرہ سے اس ابو الضحی سے اس نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے آپ نے کہا کہ ہر زمین میں ایک آدم ہے تمہارے آدم جیسا او نوح ہے تمہارے نوح کی طرح اور ابراہیم ہے تمہارے ابراہیم جیسا اور عیسیٰ ہے تمہارے عیسیٰ جیسا ۔‘‘
اور بن حجر عسقلانی فی فتح الباری شرح صحیح بخاری لکھتے ہیں:
’’ویدل للقول الظاهر مارواہ بن جریر من طریق شعبة عن عمرو بن مرة عن ابی الضحی عن ابن عباس فی هذاہ الایة (ومن الارض مثلہن )قال فی کل ارض مثل ابراهیم ونحوها علی الارض من الخلق هکذا اخرجه مختصر او اسنادہ صحیح واخرجه الحاکم والبیقی من طریق عطاء بن السائب عن ابی الضحی مطولا واولاہ الی سبع ارضین فی کل ارض ادم کادمکم ونوح کنوحکم وابراہیم کا براہیمکم وعیسیٰ کعیسکم ونبی کنبیکم قال البیہقی اسناد صحیح الا انه شاذ انتہی۔۔۔
’’ظاہر قول کی تائید کرتی ہے وہ روایت جس کو ابن جریر نے شعبہ عن عمرو بن مرہ عن ابی الضحیٰ عن ابن عباس رضی اللہ عنہما اس آیت کی تفسیر میں نقل کیا ہے ( ومن الارض مثلہن) اور زمینیں بھی اتنی ہی ہے ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا: ہر زمین میں ابراہیم جیسا پیغمبر ہے اور اسی طرح ہر زمین میں مخلوق ہے اس کو اس نے مختصر روایت کیا ہے اور اس کی سند صحیح ہے اور اس کو حکم اور بیہقی نے عطاء بن السائب عن ابی الضحی کے طریق سے مفصل روایت کیا ہے اور اس کی ابتدا اس طرح ہے یعنی سات زمین ہیں ہر زمین آدم ہے تمہارے آدم جیسا اور نوح ہے تمہارے نوح جیسا اور ابراہیم ہے تمہارے ابراہیم جیسا اور عیسٰ ہے تمہارے عیسی جیسا اور نبی ہے تمہارے نبی جیسا بیہقی نے کہا اس کی سند صحیح یہ مگر یہ روایت شاذ ہے۔
اور تدریب الراوی شرہ تقریب النواوی میں مرقوم ہے:
’’ولم ازل التعجب من تصحیح الحاکم له حتی رایت البیہقی قال اسنادہ صحیح ولکنه شاذ بمرة ‘‘
اور تفسیر درمنشور من مسطور ہے۔
’’عبد بن حًید وابن الضربی وابن جریر عن ابن عباس رضي اللہ عنہما فی قوله( ومن الارض مثلهن) قال لو حدثنکم بتفسیرہا لکفر لم وکفر کم تکذیبکم بہا واخرج ابن جریر وابن ابی حاتم والحاکم وصحیحه والبیہقی فی انت تہدی من الضلالة اردد علی ضالتی بقدر ربك وسلطانك فانہا من عطائك وفضلك رواہ الطبرانی وهکذا رواہ ابن شیبة‘‘
’’عبید بن حمید اور ابن الغر اور ابن جریر نے حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے (ومن الارض مثلہن) کی تفسیر میں ان کا یہ قول نقل کیا ہے کہ اگر میں تم کو اس کی تفسیر بتاؤں تو تم کفر کرو اور تمہارے کفر تمہاری اس کی تکذیب ہو گا اور ابن جریر اور ابن ابی حاتم ‘‘
پس درین حدیث بطریق شرط وجزاکم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نیز ارشاد فرمودند کہ درہمچو امور کہ ازاد تعالیٰ برائے رد واستردا دآن مدومی خوانند نیزاز او تعالیٰ استعانت بایدنموداز غیر دے نہ شاید واللہ تعالیٰ اعلم وعلمہ!
حررہ سید محمد نذیر حسین عفی عنہ، فتاویٰ نذیریہ جلد اول ص ۵۵۶،۵۵۷ طبع لاہور)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب