السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے دین اس مسئلہ میں کہ یہ عقیدہ رکھنا کیسا ہے کہ کوئی بشر کچھ نہیں کر سکتا جو کچھ کرتا ہے خدا کرتا ہے۔ ایک حضرت جاہل مسلمانوں میں نہایت زور کے ساتھ علی الاعلان عقیدہ مندرجہ بالا کو لکھتے ہیں کہ خاص اہل سنت والجماعت کا یہی عقیدہ ہے پس سوال یہ ہے کہ اگر ایسا ہی عقیدہ عند الشرع درست ہے اور خاص اہل سنت والجماعت کا یہی عقیدہ ہے تو سب کو تسلیم کرنا چاہئے اور اگر عند الشرع درست نہیں ہے اور خلاف عقیدہ اہل سنت تو جواب شافی فرمایا جائے کہ ایسے عقیدے والے کا کیا حکم ہے اور ایسے شخص کے پیچھے نماز بھی ہوگی یا نہیں ،کیونکہ غریب ناواقف مسلمان گرداب بلا میں مبتلا ہو کر تباہ ہو جائیں گے، یہ معاملہ عقائد کا ہے؟ بینوا توجروا!
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اگر شخص مذکورہ کا یہ مطلب ہے کہ نفع وضرر حقیقت میں خدا ہی کی جانب سے ہوتا ہے ۔ خدا کے سوا کسی اور میں یہ طاقت نہیں ہے کہ کسی کو بغیر اذن خدا کے نفع وضرر پہنچائے تو یہ عقیدہ بے شک اہل سنت والجماعت کا ہے اور ایسا ہی عقیدہ ہر مسلمان کو رکھنا چاہیے اس عقیدہ کے حق ہونے پر متعدد آیات قرآنیہ واحادیث نبویہ صاف اور صریح طور پر دلالت کرتی ہیں:
قال اللہ تعالیٰ:
﴿قُلْ لَّآ اَمْلِکُ لِنَفْسِیْ نَفْعًا وَّ لَا ضَرًّا اِلَّا مَا شَآءَ اللّٰہُ﴾
’’آپ کہہ دیجئے کہ میں اپنی جان کے نفع اور نقصان کا مالک بھی نہیں ہوں، مگر جو اللہ چاہئے وہی ہو گا۔‘‘
اور اگر شخص مذکورہ کا یہ مطلب ہے کہ انسان مجبور محض ہے اس کو کچھ بھی اختیار نہیں ہے اس کے حرکات مثل جمادات کے ہیں تو یہ عقیدہ بالکل غلط وباطل ہے اور یہ عقیدہ فرقہ جبریہ کا ہے ایسے عقیدہ باطلہ سے ہر مسلمان کو بچنا فرض ہے ایسے عقیدے سے ان آیتوں کا انکار لازم آتا ہے۔
﴿ہَلْ تُجْزَوْنَ اِلَّا مَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ﴾
’تم صرف وہی بدلہ دیئے جاؤ گے جو تم کیا کرتے تھے۔‘‘
﴿فَمَنْ شَآءَ فَلْیُؤْمِنْ وَّ مَنْ شَآءَ فَلْیَکْفُرْ ﴾
’پھر جو شخص چاہئے ایمان لے آئے اور جو چاہئے کفر کرے۔‘‘
﴿جَزَآءً بِمَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ﴾
’’بدلہ ہے اس چیز کا جو وہ کیا کرتے تھے۔‘‘
ایسے عقیدہ باطلہ والے کے پیچھے نماز پڑھنے سے احتراز چاہے۔ واللہ اعلم الصواب! ( سید محمد نذیر حسین، فتاویٰ نذیریہ: جلد اول، ص ۱۹،۲۰)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب