السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مولانا محمد اسماعیل شہید ومولوی خرم علی بآدردن کلمات توہین انبیاء واولیاء کہ در تقویۃ الایمان اند کافر وکتاب او شان لایق خرق بچند وجہ، وجہ اول درباب ندمت شرک وترجمہ آیت(ان الشرک لظلم عظیم) گفتہ کہ جاننا چاہیے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا اللہ تعالیٰ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے آہ اور اسی طرح کے کلمات او کسے از مفسران در تفاسیر قدیمہ وجدیدہ بایں طور معنے وفائدہ نیا دردہ ازادلہ اربعہ شرعی جواب فرمانید؟
سوال:’’مولوی خرم علی اور مولانا محمد اسماعیل رحمہ اللہ شہید جو اپنی کتابوں میں انبیاء واولیاء کی شان میں توہین آمیز کلمات لائے ہیں چنانچہ مذمت شرک کے باب میں آیت’’ ان الشرک لظلم عظیم ‘‘ کے تحت فائدہ دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ جاننا چاہیے کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا اللہ تعالیٰ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے۔۔۔۔ الخ اور اس طرح کے او بھی چند ایک اقوال ہیں مفسرین میں سے کسی نے بھی اپنی تفسیر میں اس طرح کا فائدہ نہیں لکھا ہے کیا ایسے کلمات کی وجہ سے مولانا کافر ہیں اور کیا ان کی کتاب پھاڑ دین یکے لائق ہے ادلہ اربعہ شرعیہ سے جواب دیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
درپردہ مبادکہ منشائے اعتراض معترض برصاحب تقویۃ الایمان عدم تدبر است دران یا تعصب دغبادت پس در صورت اولیٰ اگر طرز سوق کلام مصنف آن رازاول تا آخر کتا حرف گیری نہ پسندیدے زیرا کہ ادرب العالمین بنا برعدم غور وتدبر قرآن مشرکاں واہل کتاب رابار بار الزام دادہ(افلا یتدبرون القرآن ۔۔۔الآیۃ) کما لایخفے علی الماہر بالقرآن المجید ودر صورت ثانیہ’’لن یصلح العطار ما یفسد الدہر
بے بصیرت چہ شناسدسخن صائب را
تلخ وشیرین بمذاق دل رنجو ریکے است
بردل دانشمندان شرع شریف مخفی نیست کہ مقصود اصلی جناب مولوی محمد اسماعیل صاحب مغفور ومرحوم بیان احکام الٰہیہہ وپندونصیحت وتنبیہ وتخویف عوام کالانعام از فرقہ مسلمان بدکیش نا عاقبت اندیش است لان الامور بمقاصد ہا کہ قاعدہ کلیہ فقہاء است کار بند شد اندچہ عوام بزعم باطل واعتقاد فاسد خودمی وانند کہ اولیاء اللہ از جناب باری مختار اند، ہر چہ خواہندمی کنند وہر کراخواہند اولاد ومال ومنصب وجاہ می وہند، وہر کر اخواہند ذلیل وخوار کنند دبنا برہمین اعتقاد شرکیہ درنذر دنیا زد وظائف باسماء ایشان یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا للہ و یا علی یا علی، یا حسین یا حسین ،یا خواجہ جی یا خواجہ جی بتقرب تام وتذلل تمام اہتمام می کنند ودرورطۂ گور پرستی وپیر پرستی شب دردز مستغرق می مانند وازاحکام شرعیہ محض غافل و بے باک اند واز اولیاء اللہ چنداں می ترسند کہ از خالق بے نیاز درازق کارساز عشر عثیر نمی ترسند، وشعار مسلمانن جہاں در شرک وبدعت ہم چو شعار کفار سابق زمان گردیدہ است پس اعتقاد این چنین کسانرار وکردہ اند۔
’’یہ بات کھل کر سامنے آجانی چاہئے کہ مولانا اسماعیل شہید کی عبارت پر جو اعتراض کیا گیا ہے اس کی دو ہی وجہیں ہو سکتی ہیں یا تو اس عبارت کے سیاق وسباق پر پوری طرح غور نہیں کیا گیا یا پھر تعصب اور ہٹ دھرمی ہے۔
اگر معترض آپ کی عبارت پر اچھی طرح غور کرتا تو اس قسم کے الفاظ زبان پر لانے کی کبھی جرأت نہ کرتا اللہ تعالیٰ نے کفار کو قرآن مجید میں کئی جگہ الزام دیا ہے کہ قرآن پاک کو سمجھنے کے لیے غوروفکر سے کام نہیں لیتے اگر معترض اچھی طرح غور کرتا تو اس کو صحیح سمجھ آجاتی اور اگر دوسری صورت ہے تو اس کا کوئی علاج نہیں۔
شریعت کے واقف لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ مولانا کا اصل مقصود ان عوام کالانعام کے عقیدہ کی اصلاح ہے جن کا عقیدہ ہے کہ اولیاء اللہ جناب باری تعالیٰ کے مختار کل ہیں جو چاہئیں کر سکتے ہیں کسی کو ذلیل کریں کسی کو عزت بخشیں کسی کو اولاد دیں یا نہ دیں کسی کا رزق تنگ کری یا فراخ سب ان کے قبضہ قدرت میں ہے اور یہی وجہ ہے کہ وہ ان کے نام کی نذر ونیاز دیتے ہیں ان کے نام کا وظیفہ کرتے ہیں مثلاً یا شیخ عبدالقادر جیلانی شیئا للہ یا یا علی یا حسین یا خواجہ جی وغیرہ وغیرہ پھر ان کے سامنے پوری عاجزی کا اظہار کرتے ہیں ان کی قبروں پر سجدے میں گر پڑتے ہیں اور ان سے اتنا ڈرتے ہیں کہ خدا تعالیٰ سے اس کا سواں حصہ بھی نہیں ڈرتے، پہلے زمانہ کے کافروں کے بھی ایسے ہی عقیدے تھے چنانچہ آپ کا مقصد یہ تھا کہ ایسے عقائد باطلہ کی تردید کر کے صحیح عقیدہ ان کے سامنے پیش کیا جائے۔
داز پنجا امام رازی در تفسیر کبیر در سورہ یونس تحت آیت کریمہ ﴿وَيَعْبُدُونَ مِن دُونِ اللَّهِ مَا لَا يَضُرُّهُمْ وَلَا يَنفَعُهُمْ وَيَقُولُونَ هَٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّهِ...﴾ می نویسند
’’امام رازی تفسیر کبیر میں سورہ یونس کی تفسیر میں آیت (ہولاء شفعاؤنا عند اللہ) کے تحت لکھتے ہیں کہ ان طلوگوں نے اپنے نبیوں اور ولیوں کی شکل کے بت بنا رکھے تھے ان کا خیال تھا کہ جب ہم ان کے سامنے سجدہ کرتے ہیں تو ان کی روحیں خوش ہو کر اللہ کے پاس ہماری سفارش کرتی ہیں۔‘‘
’’ورابعہا انہم وضعوا هذہ الاصنام والاوثان علی صور الانبیاء هم واکابرهم وزعوا انہم متی اشثغلوا بعبادة هذہ التماثیل فان اولئك الا کابر علی اعتقاد انہم اذا عظموا قبورہم فانہم یکونون شفعا ء لہم عند اللہ تعالیٰ انتہی ما فی الکبیر بقدر الضرورة‘‘
ومولانا شاہ عبدالعزیز دہلوی قدس سرہ تحت آیت کریمہ(فلا تجعلوا للہ انداً) میفر مانید چہارم پیر پرستان گویند، کہ چوں مرد بزرگے کہ بسبب کمال ریاضت ومجاہدہ مستجاب الدعوات ومقبول الشفاعت عنداللہ شدہ بودازین جہاں می گزر د وروح او اقوتے عظیم ودسعتے فخیم ہم میر سد ہر کہ صورت اور ابرزخ سازو یا مکان نشست وبرخاست او یا برگور اور بسجود تذلل نام نماید روح بسبب وسعت و اطلاق برآن مطلع شودد در دنیا وآخرت در حق و شفاعت نمایند انتہی ما فی تفسیر العزیز مختصراً
’’مولانا شاہ عبدالعزیز قدس سرہ تفسیر عزیزی میں ’’ فلا تجعلوا للہ انداداً‘‘ کے تحت فرماتے ہیں کہ چوتھا طبقہ قبر پرستوں کا ہے ان کا عقیدہ ہے کہ جب کوئی بزرگ آدمی اپنے مجاہدہ اور ریاضت کی وجہ سے مستجاب الدعوات ہو جاتا ہے تو مرنے کے بعد اس کی روح کو بہت طاقت اور وسعت نصیب ہو جاتی ہے۔ پھراگر کوئی شخص ان کی قبر یا ان کی نشست وبرخاست کی جگہ یا ان کی تصویر کے سامنے سجدہ کرے تو وہ ( بزرگان دین) اس سے مطلع ہو کر خوش ہوتے ہیں اور ان کی سفارش کرتے ہیں۔‘‘
﴿وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ ﴿٥﴾ الأحقاف الایۃ۔۔۔ لانہم اما جماد واما عباد مسخرون مشتغلون باحرالہم کذا فی البضاوی‘‘
دے کزنور الٰہی نیست روشن
مخوانش دل کہ آن سنگ است وآہن
وے کزگرد غفلت زنگ وار دیہ
ازاں ول سنگ وآہن ننگ دارد
دا وواحد قہار بہمیں عظمت شان سر شار خود دربارہ مقربان مخلصان دربار خود بنا برزغم فاسد مشرکان بدشعار بتہد ید تمام می فرمایا’’ لو اشرکوا ای لو اشرک ہؤلاء الانبیاء مع فضلہم وعلو شانہم لحبط عنہم ما کانوا یعملون لکانوا کغیرہم فی حبوط اعمالہم بسقوط ثوابہم انتہی ما فی البیضاوی والکبیر پس جملہ لکانوا کغیرہ ہم عبارت بیضاوی راملحوظ بایدداشت کہ بچہ نکتہ گفتہ
نزدیک غرتش نہ نشیند غبار شرک
با وحدتش کسے دم شرکت چہ سان زند
ہر طرح کا فگنند بو صفش خیال و وہم
دست کمال آتش غیرت دران زند
اور حقیقت یہ ہے کہ خدا کے سوا کسی کو بھی کسی کی خبر نہیں ہے اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اس آدمی سے گمراہ تر اورکون ہو سکتا ہے جو اللہ کے سوا ان کو پکارے جو قیامت تک بھی ان کو جواب نہ دے سکیں، اور حقیقت یہ ہے کہ وہ ان کے پکارنے سے محض بے خبر ہیں کیونکہ یا تو وہ پتھر ہیں جو سن ہی نہیں سکتے اور یا پھر خدا کے نیک بندے ہیں جو اپنے حال میں مشغول ہیں اور شرک ۔۔۔۔۔۔نے قرآن مجید میں اٹھارہ پیغمبروں کا ذکر کر کے فرمایا ہے کہ اگر یہ لوگ بھی شرک کرتے تو ان کے عمل بھی ضائع اور برباد ہو جاتے۔‘‘
براین معنی او تعالیٰ شانہ درردا اعتقاد فاسد معتقدان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کہ از مرتبہ نبوت بمرتبہ الوہیت رسانیدہ بودار شاد می فرمایا:
﴿لَّقَدْ كَفَرَ الَّذِينَ قَالُوا إِنَّ اللَّهَ هُوَ الْمَسِيحُ ابْنُ مَرْيَمَ قُلْ فَمَن يَمْلِكُ مِنَ اللَّهِ شَيْئًا إِنْ أَرَادَ أَن يُهْلِكَ الْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَأُمَّهُ وَمَن فِي الْأَرْضِ جَمِيعًا...﴾ المائدة
عاقلاں میدانند کہ حضرت عیسٰی مادر وے قابل شائبہ ہلاکت وعذاب نبودند صرف بابطال زعم معتقدان ایشان تنبیہ وزجر فرمودہ کہ معتقدان شان ازین عقیدہ باطلہ توبہ نمایند وبحکم خداوند قہار وجبار فرمانبردار شوند
صَرصِر قہر تواز مکمن وحدت بوزد
خس وخاشاک وساوس ہمہ راباد برد
ہر چہ در عرصہ موجود پدیدآمدہ بود
سیل غیرت ہمہ راتا عدم آباد برد
پس ازیں جہت صاحب تقویۃ الایمان علیہ الرحمۃ والرضوان بر دوا ابطال زعم مذموم عوام کہ درحق بزرگان دین ازا ولیاء اللہ میدارند کہ ہر چہ خواہند بکنند نوشتہ کہ ہر مخلوق بڑا ہو یا چھوٹا اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے۔‘‘
’’اور پھر اللہ تعالیٰ نے ان بدشعار مشرکوں کے عقیدہ کی تردید کرتے ہوئے بڑے سخت لفظ بھی فرمائے یقیناًوہ لوگ کافر ہیں جو کہتے ہیں کہ مسیح ابن مریم ہی خدا ہے ، آپ فرمائیں اگر خداوند تعالیٰ مسیح ابن مریم اور ان کی ماں اور تمام اہل زمین کو برباد کر دیں تو خداوند تعالیٰ کو کون روک سکتا ہے۔‘‘
عقل مند لوگ جانتے ہیں کہ مسیح اور ان کی والدہ تو برباد کر دینے کے لائق نہیں ہیں لیکن ان مشرکوں کے عقیدہ کی تردید کرنے کے لیے ایسا فرمایا ہے۔
بدانکہ درینجا بیان امتیاز فیما بین دو نسبت است یکے نسبت مخلوق باخالق دیگرے نسبت مخلوقے با مخلوق دیگر پس مقصود تمام وکشف مرام صاحب تقویۃ الایمان درین مقام صرف شق اول است یعنی نسبت مرتاب ہمہ مخلوقات بہ نسبت مراتب خالق کائنات بمنزلہ ہباء منشورا است وبمرتبہ ذرہ ہیج گونہ معتد بہ نسبت زیراکہ حادث مفتقررابا قدیم موجد مقتدرچہ مناسبت ومشابہت
’’ یہ بھی یاد رہنا چاہیے کہ یہاں دو نسبتیں الگ الگ ہیں ایک خالق سے مخلوق کی نسبت اور دوسری مخلووق کی مخلوق سے نسبت اور مولانا یہاں پہلی نسبت کے متعلق گفتگو کر رہے ہیں کہ خالق کے ساتھ مخلوق کو کوئی ذرہ بھر کی بھی نسبت نہیں ہے کجا حادث محتاج اور کجا قدیمد موجد اور مقتدران میں آخر کیا انسبت ہے کجا کہ ذرہ بے مقدار اور کجا صحرائے ناپیدا کنارہ وہ باقی یہ فانی وہ ازلی ابدی اور اس کی ہستی ایک آئی تو اس صورت میں مخلوق کو خواہ وکتنا ہی بڑا کیوں نہ۔
’’ العدم علی الوجود ویدخل فی هذا الباب کونه قاهر الہم بالموت والفقر والاذلال ویدخل فیه کل ماذکرہ اللہ تعالیٰ ﴿قل اللهم مالك الملك الی اٰخر الایة انتہی ما فی تفسیر الکبیر‘‘
بر معترض غافل نہاد واجب است کہ تلاوت سورہ اخلاص بکند کہ رفعت شان اوخلاق علیم وقہار حکیم دردلش جاگیر وچہ دریں سورہ دو چیز مذکور است یکے احدیث دوم صمدیت وباقی صفات متفرع بریں ہر دواند چہ شرکت گاہے درعدومے باشد، وآن رابلفظ احد نفی فرمود دگا ہے در مرتبہ وجاہ ومنصب می باشدوآن بلفظ صمد نفی فرمود وگاہے درنسبت مے باشد وآن را (یلم یلدو ولم یولد نفی فرمود دگاہے درکار وتاثیر مے باشد وآن رابکم یکن لہ کفوا احد نفی فرمود و معنی امام جعفر صادق رحمہ اللہ فرمودہ اند، کہ صمدآن ست کہ محتاج کس نہ بود وہمہ محتاج او باشند دو سلسلہ وجود ارذاتے کہ موصوف بصمدیت باشد چارہ نیست زیراکہ درعالم سراسر احتیاج مشاہدہ میشود، وچون ہر چیز محتاج شدلایدذ قی می باید ، کہ احتیاج بآن منتہی شود دا دمحتاج دیگر سے نہ باشد والا سلسلہ احتیاج منقطع نہ شو د این از فادات بعض عالم ازاہل تفسیر است آیت کریمہ﴿لَیسَ کَمِثلِه شَئٌی وَهُوَ السَّمیعُ البَصِير﴾ بران ذات صمدیت صفات منطبق ومرتب می شود، وہمہ مخلوق این صفات فرسنگہا ودردعاری محض ہستند وہمیں معنی است کہ ہر مخلوق بڑا ہویا چھوٹا اللہ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے یعنی محض ضعیف والا چار است ہیچ از ہست ونیست کردن نمی تواند وخود ہرآن زہر حوادث چشان است دور دائرہ افتقار بے کس و بے سروسامان دردکشنان است
خداوند مائی وما بندہ ایم
بہ نیروئے تو یک بیک زندہ ایم
ہمہ زیرو ستیم و فرمان پذیر
توئی پاوری وہ توئی دست گیر
متاع صبر ونقد آر میدن
نیاز غارت وزدیدہ دین
از صفات محبوبی اوست (والذین جاہدو فینا لنہدینہم سبلنا) اشارہ از دست
دلم از خوف تو خون است ندانم چون است
درد لم شوق جمالت زبیان بیرون است
آہ صدآہ تو ہر روز فزوں مے گردو
دل شوریدہ من بین کہ چہ روز افزون است
’’معترض کو چاہیے کہ سورہ اخلاص کی تلاوت بڑے غور سے کرے اس میں خداوند تعالیٰ کی دو صفتیں بیان کی گئی ہیں ایک حدیث اور دوسری صمدیت باقی تمام صفات انہی کی شاخیں ہیں ، کیونکہ شرکت کبھی تعداد میں ہوتی ہے اس کی نفی صفت احد سے فرمائی گئی ہے اور کبھی شرکت صفات جاہ ومرتب اور منصب میں ہوتی ہے اس کی نفی لفظ صمد سے فرمائی گئی ہے اور صمد وہ ہے جو کسی کا محتاج نہ ہو اور سب مخلوق اس کی محتاج ہو اور کوئی ایسی ہستی ضرور ہونی چاہئے ، جہاں احتیاج ختم ہو جائے ورنہ تسلسل اور دور لازم ائے گا۔ ‘‘
آیندہ بگوش ہوش باید شنید کہ او رب العالمین بذات مقدس خود واجب الوجود است وتمام مخلوقات علویہ وسفلیہ بایجاد او تعالیٰ موجود اند دور وجود بقابو سے محتاج ہرآن اند
کہ بلطفم مے نواز وگہ بنازم مے کشد
زندہ می سازو مرا آن شوخ وبازم می کشد
قوله تعالى ﴿وَكُنتُمْ أَمْوَاتًا فَأَحْيَاكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ إِلَيْهِ تُرْجَعُونَ ﴿٢٨﴾ البقرة
شان او جل شانہ است ﴿خلقکم وما تعملون﴾ شان او﴿تَبَارَكَ الذِّی بِیَدِہ ِالمُلكُ وَهُوَ عَلٰی کُلِّ شَئی قَدِیر﴾ الَذِی خَلَقَ المَوتَ وَالحیٰوةَ﴾ شان اوست ﴿وَهُوَ القَاهِرُ فَوقَ عِبَادِہِ وَهُوَ الحَکیمُ الخَبیر﴾ شان او ست پس بمقابلہ چنین شانہائے او (رب العالمین واحسن الخالقین) ہمہ مخلوقات لا چار د ذلیل و ذرہ بے مقدار وضعیف و خوار و بدست قدرت کاملہ اور مجبور رو گرفتار وچمار چندان بہ نسبت بادشاہ لا چار نیست ، زیراکہ ہر دودر وجود دبقاد لو از مبشری مساوی اند بخلاف نسبت مخلوق با خالق ہیچگونہ مشابہت ومناسبت نیست وہمین معنی صاحب تقویۃ الایمان است نزد ارباب عقل ونقل کمالا یخفی علی المنصف الذکی ’’ والقاہر یفید العصر ومعناہ انہ لا موصوف بکمال القدرۃ وکمال العلم الا الحق سبحانہ وعند ہذا لیظہرانہ لا کامل الا ہو وکل من سواہ فہو ناقص اذا عرفت ہذا فنقول اما دلالۃ کونہ قاہر اعلی القدرۃ فلانا نبینا ان ماعداالحق سبحانہ ممکن بالوجود لذاتہ لا یترجح وجودہ علی عدمہ ولا عدمہ علی وجودہ الا بترجیحہ وکتوینہ وایجادہ وابدامہ فیکون فی الحقیقۃ فہو الممکنات تارۃ فی طرف ترجیح الوجود علی العدم و تارۃ فی طرف ترجیح شوکت ظاہری عارضی ہر چند بالفعل برابر نیستند مگر درمحل تغیر وزوال اندچہ شائع است کہ او مالک الملک گاہے بادشاہ صاحب شوکت را از سر یر عزت برحصیر ذلت می نشاندد گاہے چمارے نوار از بستر ذلت حصیر برعزت سر پر میر ساند
قادرا قدرت بے مجزنہ وادی بکس
اقدرت بے عجز تو داری وبس!!!
چنانکہ میفر ماید
﴿قُلِ اللَّهُمَّ مَالِكَ الْمُلْكِ تُؤْتِي الْمُلْكَ مَن تَشَاءُ وَتَنزِعُ الْمُلْكَ مِمَّن تَشَاءُ وَتُعِزُّ مَن تَشَاءُ وَتُذِلُّ مَن تَشَاءُ بِيَدِكَ الْخَيْرُ إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ﴿٢٦﴾ آل عمران
نعم ما قیل
سیہ رو، گرچہ اوچ چرخ گردو!!!
کجا گرور رہا از مخلب باز!
چہ خالق خالق است و مخلوق مخلوق
مرغہارا دام گسترداست اموج نسیم
ماہیاں را نیش قلاب ست موچ چشمہ سا
این از شہ قدرت ونمونہ اوپروردگار است کہ ہمہ مخلوق ازین صنعت وقدرت ذلیل وخوار
ثناہا ہمہ ایزد پاک
ثریادہ تارک تاک را!!
کہ خورشید یک صورت جام ازوست
شراب شفق دزخمہ عشام ازدست
ازصنائع بدائع بو قلمون اوست (فی ای صورتۃ ما شاء رکبک) طراز قدرت او ست
غنچہ گل عطر وان سنبل موئے تو است
آفتاب ازدور گردان سر کوئی تواست
پیش این نقش نگار ہمہ از عہدہ آن لاچار و ذلیل وخوار اندوایں، امر از مورحقہ عقائد اہل اسلام والا تبار است کہ منکر آن مشرک شقی بداطوار
’’کبھی زوال نہیں اور مخلوق اس کے مقابلہ میں ہمیشہ محتاج ہے اس کو کبھی قرار ذاتی نصیب ہی نہیں ہو سکتا پھر مخلوق کو خالق سے وہ نسبت کب میسر ہو سکتی ہے جو ایک چمار کو بادشاہ سے ہے اور تقویۃ الایمان والے کا مدعا بھی یہی کچھ بیان کرتا ہے۔ اور یہ غریب اور نادار ہے ، پھر بسااوقات ایسا بھی ہوتا ہے کہ بادشاہ تخت شاہی سے معزول ہو کر ذلت کی زندگی بسر کرتے ہیں اور کبھی کوئی غریب آدمی تخت شاہی پر جلوہ فراز ہو جاتا ہے لیکن فقط اللہ تعالیٰ کی حکومت ہمیشہ سے ہمیشہ تک ہے اس میں خدا تعالیٰ سے وہ نسبت کبھی نہیں ہو سکتی جو ایک چمار کو بادشاہ سے ہو سکتی ہے کیونکہ خالق اور مخلوق میں جو فرق ہے وہ اصلی اور ذاتی ہے اور چمار اور بادشاہ میں جو فرق ہے وہ صرف اضافی ہے حقیقی نہیں ،کیونکہ زندگی ، موت صحت بیماری ،پریشانی اور خوش حالی، غمی اور خوشی میں بادشاہ اور چمار بہرحال برابیں‘ جیسے ایک چمار محل حوادث ہے ، ویسے ہی بادشاہ بھی محل حوادث ہے، فرق ہے تو صرف حالی ہے کہ وہ ظاہری طور پر دنیاوی بادشاہ ہے ۔‘‘
﴿لَیْسَ کَمِثْلِه شَیْءٌ وَهُوَ السَّمِیْعُ البَصِیْرُ ﴾
﴿اِِنَّمَا اَمْرُهُ اِِذَا اَرَادَ شَيئًا اَنْ یَّقُوْلَ لَه کُنْ فَیَکُوْنُ oفَسُبْحٰنَ الَّذِیْ بِیَدِہِ مَلَکُوتُ کُلِّ شَیْءٍ وَّاِِلَیْهِ تُرْجَعُوْنَ ﴾
عالی شان ادست نعم ما قیل
حرفے است کا ف کن زطوامیرصنع او
از قاف تابقاف بدین حرف گشتہ ولل
بایں دلیل قول صاحب تقویۃ الایمان کہ اللہ تعالیٰ کی شان کے آگے چمار سے بھی ذلیل ہے راست وبجاست ، چہ ہر موحد ہوشمند اعتقا دمیدارد کہ بمقابلہ عزت عظیم او عزیز ذو انتقام ہر مخلوق ذلیل یعنی بغایت ضعیف و عاجز ہے سرو سامان ذرہ مثال است بلکہ کترازان درمعرض فنا وزوال است ہم تبستند آنچہ ہستی توئی
وازیں زیادہ ترذلیل خواہد بود کہ کل شئی ہالک الا وجہہ شان اوست ومراداز ذلیل بغایت ضعیف وبے چارہ است درعبارت تقویۃ الایمان چہ نقیض ذلت عزت است واو تعالیٰ بعزت ذایتہ قدیمی مختص است واز زلت منزہ ومبرا تمام است چنانکہ خود میفرماید ’’ولم یکن له ولی من الذل ای لم یذل فیحتاج الی ناصر وکبرہ تکبیرا ای عظمة عظمة تامة عن تخاذالولد والشوییك والذل وکلما لا یلیق به روی الامام احمد فی مسندہ عن معاذ الجہنی عنه صلی اللہ علیه وسلم انه کان یقول ایة العز الحمد للہ الذی الخ انتہی ما فی الجلالین مختصرا، وان العزت للہ جمیعاً الایة وان القوة للہ جمیعا الایة وان اللہ هو الرزاق ذوالقوة المتن الایة۔
کیوان غلام بارگہ کبریائے تست
گردوں غلام گردش دولت سراے تست
پس شان ہر مخلوق ازاعلی دادنیٰ بہ نسبت شان عظمت نشان اور خالق کائنات کہ منصف بصفات غیر متناہبہ ومستجمع جمیع کمالات ذاتیہ است، مثل ذرہ ہم نیست بخلاف شان چمار بہ نسبت شان بادشاہ دنیا امراضافی است یعنی درد جو دو بقا وافتقار بشری ہر دو براابراند ودرد جاہت وعزت و
چودر لشکر دشمن آری رحیل
زمر غان کشی فیل واصحاب فیل
پس درمیان خالق غنی و بے نیا زومخلوق متصف بآز ونیاز مناسبت ومشارکت ومقاومت و مزاحمت ومنازعت و مبارعت صلا نیست چہ اور خالق مطلق ورازق برحق ازلاًوابداً عزیز وقوی ومالک الملک وقاہر وغالب است ’’ وله الکبریاء فی السموات والارض ۔۔۔الایۃ وحدیث قدسی الکبریاء دائی والعظمۃ ازاری شان عزیز السطان اوست
مراورا رسد کبر یا دمنی
کہ ملکش قدیم است وذاتش غنی
بخلاف مخلوق چہ کبیر دچہ صغیر پیش او جبار قدیر ضعیف فانی وذلیل وحقیر جلی است
ہر کہ ہست آفریدہ ادبندہ است
بندہ دربند آفرینندہ است
پس کجا بندۂ کہ دربند است
لائق شرکت خداوند است
چنانچہ اور رب العزت بتقضائے شان عزت وجلالت خودمی فرما ید’’ ان کل من فی السموت والارض الا اتی الرحمن عبدً، ذلیلا خاضعا کذا فی معالم التنزیل ، الا اتی الرحمن عبداً زلیلا خاضعا یوم القیمة منهُم عزیز وعیسٰ کذا فی الجلالین ‘‘ پس در جلالین منہم عزیز وعیسٰ را صراحۃ ذکر کردہ وذلیل شمردہ چہ بے ادبی کردہ وجندا ما قیل
ہنر بچسم عداوت قبیح تر باشد
ہسد بحاسد طبعی فضیح ترباشد
اتی الرحمن عبداً حال ای خاضعا زلیلا منقاد انتہی ما فی المدارك عبدا مطیعا خاشعا کذا فی التفسیر الکبیر مختصر الخشوع ضراعة وضرع الرجل ضراعة ضعف و زل کذا فی مفردات القرآن للامام الراغب
آن خداوند جہان دار کہ زیبت او
باد برغنچہ نیا رو کہ کند پر دہ دری
’’جب باقی تمام مخلوقات اس کی محتاج ہوئی تو پھر اس کے ساتھ برابری کیسے ہو سکتی ہے چنانچہ اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں کہ زمین اور آسمانوں میں جو کوئی بھی ہے وہ اللہ کے پاس غلامی کی حالت میں انے والا ہے۔ جلالین میں لکھا ہے کہ عبدا کا معنی ذلیل اور خاضع ہے پھر فرماتے ہیں تمام مخلوق اس کے سامنے ذلیل ہے عزیز اور عیسیٰعلیہم السلام بھی۔
معترض غافلنہادراکاش سیر سکندر نامہ نظامی علیہ الرحمۃ میسر بودے ، تابر صاحب تقویۃ الایمان سخن بے ہودہ دلچر نہ نووے۔ ذکر کروند، تعوذ باللہ من سوء الفہم ، وشیخ سعدی رحمہ اللہ نیز بجلالت شان اور خالق قہار و عزیز جبار مے فرمایند
اگر بمجشر خطاب قہر کند
انبیاء اچہ جائے معذرت است
پروہ از روئے لطعت گربروارد
اشقیارا امید مغفرت است
ہم چنین قول صاحب تقویۃ الایمان کہ چمار سے بھی ذلیل ہے باید فہمید ذلیل یعنی ضعیف دعا جزولا چار دبے اختیارات ،زیرا کہ اوجل شانہ مالک الملک وعزیز ذوسلطان وقادرمختار مطلق است ، وہمہ مخلوق چہ اعلیٰ چہ ادنی درجنت عزت وقدرت کاملہ او ذرہ دار ذلیل وخوار بلا ریب وعقیدہاہل اسلام است الملك هو القدرة والمالك هو القادر فقوله مالك الملك معناہ القادر علی القدرة والمعنی ان قدارة الخلق علی کل ما یقدرون علیه لیست الا باقدار اللہ تعالیٰ فهو الذی یقدر کل قادر علی مقدورہ ویملك کل مالك علی مسلوکه، انتہی ما فی الکبیمختصرا۔
درمدارک تحت آیت کریمہ( وہو القادر فوق عبادہ ) می نویسد القہر بلوغ المراد بمنع عیرہ عن بلوغہ انتہی کلامہ وہمین معنی مراد از زلیل، است یعنی ذلیل وضعیف است از مقادمت و مصادمت درکار خانہ الٰہی چہ او عاجز سراپا است کہ برجبب منافع دو فع مصنار وموت وحیات وصحت ومرض درفع حاجات خود ہیچ قدرت یک ذرہ نداروچنانکہ عقل وشرح بدان ناطق است وقول صاحب تقویۃ الایمان برآن صادق چنانچہ او مک الملک بالطال زعم مشرکان در سورہ فرقان می فرماید﴿وَاتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِه آلِه لَا یَخْلُقُوْنَ شَيئًا وَّهُمْ یُخْلَقُوْنَ وَلَا یَمْلِکُوْنَ لِاَنفُسِہِمْ ضَرًّا وَلَا نَفْعًا وَلَا یَمْلِکُوْنَ مَوْتًا وَلَا حَیَاةً وَّلَا نُشُورًا﴾ ۔۔۔الآیة)
حسن غیور او نہ پسند وشریک را
آئینہ رابدست نگیرونگارما!
’’تفسیر مدارک میں آیت (وهُو القاهرُ فوقَ عِبَادِہ) کے تحت لکھا ہے کہ قہر کا معنی ہے اپنی مرضی پوری کر لیتا اور دوسرے کو اپنی مرضی پورا کرنے سے روک دینا اور یہی ذلیل کا معنی ہے کہ کوئی بھی اس کے کار خانہ قدرت میں دم نہیں مار سکتا، کوئی اس کا مقابلہ نہیں کر تا کیونکہ وہ سب کے سب سراپا عاجز ہیں۔
اکنون معنی ذُل و ذلت باید دانست کہ چیست ،ذل بضم خواری ضد عرنا ذلت کذلک فی نسبۃ التاثیرلہ وتامل قوله تعالیٰ فی حق السید عیسیٰ علیه السلام ان هو الا عبد انعمنا علیه) انتہی ما فی الطحاوی ، قال اللہ تعالیٰ (ان ہو الا عبدانعمنا علیه )یعنی ما عیسیٰ الا عبد کسا ئرالعبید۔
پس درین جاغور باید کہ برائے چہ این چنین نوشتہ اگر بقصد استخفاف واہانت نوشتہ کافر خواہد بود ، حاشا کہ ابن مقصود امام ہہمام نیست بلکہنظر تنزیہ ذات باری از لوث شرک درروبد عقیدگان نوشتہ وصاحب تفسیر نیشاپوری تحت آیت کریمہ﴿للہ مَا فِی السموتِ وَمَا فِی الاَرضِ یغفرُ لِمَن یَّشَاءُ ویعذِّبُ مَن یَّشَاءُ واللہ غَفُور رَحِیم﴾ افادہ فرمودہ ثم ذالک لازم الملك والحکم فقال ﴿یَغْفرُ لِمَن یَّشَاءُ﴾تعمیم فضله وان کان من الابالسة والفراعنة عذب من یشاء بحکم الالہیة والقدرة وان کان من الملئکة المقربین والمصدقین انتہی کلامه مکتصر اور حق عیسیٰ ومریم علیہما السلام می فرماید ﴿مَا المَسِیحُ ابنُ مَریَم اِلَّا رَسُول قَد خَلَت مِن قَبْلهِ الرُّسُلُ وَاُمُّهُ صِدِیقة﴾ کسائر النساء اللاتی یلازمن الصدق او صدقن الانبیاء کا نایا کلان الطعام ویفتقران الیه افتقارلحیوانات۔ اتہی ما فی اللبضاوی مختصرا و در جلالین مذکور است کانا یأکلان الطعام کغیرہما من الحیوانات انتہی ما فی الجلالین۔
’’صاحب تفسیر نیشاپوری آیت ﴿للہ مَا فِی السَّمَوٰتِ وَمَا فِی الاَرضِ یَغفِرُ لِمَن یَّشَاءُ وَیُعَذِّبُ مَن یَّشَاءُ﴾ کے تحت لکھتے ہیں کہ یہاں تعمیم ہے، اگر وہ بخشنا چاہے تو ابلیس اور فرعون کو بھی بخش دے اور اگر سزا دینا چاہے تو مقربین ملائکہ اور صدیقین کو سزا دے دے۔‘‘
پس صاحب تفسیر بیضاوی وجلالین حضرت عیسیٰ ومریم علیہم السلام رامانند دیگر حیوانات بنا بر افتقار وضعف وعدم اختیار تشبیہ دادند نہ بقصد حقارت وعدمفاوت اور جات ایشان
دیگر ان را این تصرف کے رواست
اختیار این تصرفہا تراست
’’اور بیضاوی حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کے متعلق فرماتے ہیں ، کا نایا کلان الطعام کہ وہ بھی کھانے کے ایسے ہی محتاج تھے جیسے دوسرے حیوانات محتاج ہوتے ہیں جلالین میں بھیی کل ہی لفظ ہیں اب دیئے صاحب تفسیر بیصاوی وجلالین حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور ان کی والدہ کو حیوانوں سے تشبیہ دے رہے ہیں ’’ حاشا وکلان ‘‘ کا مقصود ان کی توہین کرتا نہیں ہے بلکہ ان کی محتاجی کو بیان کرنا مقصود ہے۔‘‘
واز جملہ علو شان بے نیازی او این است کہ لو ان اللہ عزوجل عذب اہل سموت واہل ارضہ عذبہم وہہو غیر ظالم لہم این حدیث بہ سبیل اختصار نقل کردہشدو روایردہ این را احمد وابوداؤد وابن ماجہ از ابی بن کعب وابن مسعود ، وحذیفہ وزید بن ثابت رضی اللہ عنہ چنانکہ درمشکوۃ وغیرہ بوجہ بسط مرقوم است
کسے زچون وچرفادم نمی نتوا ند زد
کہ نقش بند حواددثورائے چون وچراست
چرامگ کہ چرادست بستہ قدرت است
زچون ملاف کہ چون نیز پائمال قضااست
چہ نسبت خلق را با خالق پاک
اولاً معترض غافل نہاد تکفیر ملا علی قاری ہروی کند، کہ انبیاء واولیاء وفجرہ وکفرہ راوریک مرتبہ زیر تسخیر وتصرف خداوند قدیر آدر وہ وحفظ مراتب شان نمودہ ثانیا تکفیر صاحب تقویۃ الایمان کند نعوذ باللہ من سوء الظن
منکر ان چون دیدہ شرم وحیا برہم نہند
تہمت آلودگی بردامن مریم نہند
’’اب معترض کو چاہیے کہ وہ صاحب جلالین اور ملا علی قاری پر بھی فتویٰ لگائے کہ یہ بھی عزیز اور عیسیٰ علیہم السلام کو ذلیل کہہ رہے ہیاور ملا صاحب کافروں، ،فاسقوں اور فاجروں کو نبیوں اور ولیوں کے ساتھ ایک ہی صفت میں کھڑا کر رہے ہیں اور بعدازاں صاحب تقویۃ الایمان پر بھی فتویٰ لگا لے۔‘‘
حاشاد کلاکہ در کلام ہر دو بزرگان تحقیر وتوہین اکابر اعلام اصلاً نیست بلکہ قصد بیان احکام شرعیہ حسب مرام کلام عزیز علام وسنت آن خیر الانام علیہ الصلوٰۃ والسلام است چنانکہ سید احمد طحطاوی محشی درمختار درباب نذر اللہ ولغیر اللہ می نویسداعلم ان بیان الاحکام الشرعیۃ ممایجب علی اعلماء ولیس فی ذلک تنقیص الولی کما یظنہ بعض من لاخلاق لہ بل ہذا مما یرضی بہ الولی ولو کان حیا وسئل عنہ ذلک اجاب بالحق واغضبہ الصراح وامام راغب درمفردات القرآن می نویسد الذل ما کان عن قہر ویقال الذل القل الذلۃ القلۃ انتہی کلامہ فی الجملہ معنی ذُل وذلت صنعف وعجز وناتوافی دببے سروسامانی است از مقاومت بادیگرے وضدونقیض آن عزاست بمعنی قوت وغلبہ ،چنانکہ امام فخر الدین رازی زیر آیت کریمہ﴿لَقَدْ نَصَرَکُمُ اللہُ بِبَدْرٍ وَّاَنْتُمْ اَذِلَّة﴾ در تفسیر کبیر می نویسد معنی الذل الضعف عن المقادمۃ ونقیضہ العزہوا القوۃ والغلبۃ انتہی ما فی التفسیر الکبیر۔
پر ظاہر کہ ہر مخلوق بمقابلہ قوت و غلبہ خالق بدیع المسوات والارض بلا ریب ذلی است یعنی ضعیف ذرہ دار خوار ناپائید اردر بند حوادث گونا گون گرفتارومنکراین دیوانہ مضحکۃ الصبیان خوابہد بود وتلاوت ﴿سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ العِزَّةِ عَمَّا یَصِفُون‘‘ در حق منکران می باید وتوقیع رفیع ’’ ثم ذرہہم فی خوضہم یلعبون‘‘ حسب حال ایشان می شاید، در تفسیر ابو السعود نوشتہ اذلۃ جمع ذلیل وانما جمع جمع قلۃ للایذان باتصافہم حینئذ بوصفی القلۃ والذلۃ اذ کانوا چلثماءۃ وبضعۃ عشروکان ضعف حالہم فی الغایۃ انتہی مافیہ مختصراً۔ دور تفسیر بیضاوی مرقوم است وانما قال اذلۃ ولم یقل زلائل لیدل علی قلتہم وذلتہہم بضعف الحال وقلۃ المراکب والسلاح انتہی کلامہ۔
’’علامہ طحطاوی شرح درمختار باب نذر اللہولغیر اللہ میں لکھے ہیں کہ علمائے پر احکام شریعت کا بیان کرنا ضروری ہے اور اس میں کسی کی تنقیص نہیں ہوتی جیسا کہ بے سمجھ لوگ خیال کرتے ہیں اگر بالفرض وہ ولی زندہ ہوتے تو وہ بھی یہی کچھ بیان کرتے اور اس سے خوش ہوتے ، اللہ تعالیٰ کے قول برکود فرماؤ کہ وہ عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق فرماتے ہیں وہ تو صرف ایک بندہ تھا جس پر ہم نے احسان فرمایا یعنی عیسیٰ علیہ السلام بھی دوسرے بندوں کی طرح ایک بندے میں غور فرمانا چاہئے کہ علامہ طحاوی عیسیٰ کو دوسرے بندوں کی طرح ایک بندہ قرار دے رہے ہیں اگر نبظر حقارت ایسا کائے تو آدمی کافر ہو جائے ، حقیقت میں یہاں مشرکوں کے عقیدہ کی تردید کرنا مقصود ہے۔‘‘
پس از قرآن مجید وتفاسیر صاف واضح شد، کہ او مالک الملک صحابہ کرام رضی اللہ عنہم رابسبت ضعف وقلت مال ومثال کہ از مقاومت باکفار ضعیف و بے سرمایہ بودند ذلیل فرمودہ چہ جا کہ بمقابلہ عزت کاملہ وسلطنت قاہرہ وقوت باہرہ او مالک الملک کے رسند وچہ ونہ ذلیل وضعیف ونخیف شمروہ نہ شوند، چہ زلت وضعف وافتقارشن انسان است وفرمان عالی شان ’’ خلق الانسان ضعیفا‘‘ برآن برہان است
اگر نہیب دہد چرخ واژگون گردو
دگر عتاب کند آفتاب خون گردو
﴿وَهُوَ القَاهِرُ فَوقَ عِبَادِہ﴾ شان عزیز السلطان او ست القہر ہو الغلبۃ والتذلیل معاد یستعمل فی کل واحد منہما کذا فی مفردات القرآن للامام الراغب پس معنی آیت کریمہ این است کہ آن غالب ومذلل وتذلیل کنندہ بندگان خوداست
ہہر کرا قہر توراند ، کہ تواند خواندن
وآنکہہ را لطف تو خواند کہ تو اندر اندن
وبطش د دارگیر بادشاہ صاحب شوکت برچمار ذلیل وضعیف بمقابلہ بطش د دارگیر خداوند قدیرزوالجلال لایزال بذرہ نیرزد
ہر کہ منصف بود دبدانصاف
وصف تو نیست قدرت وصاف
(ان بطش ربک لشدید) ہر آئینہ دست برد پروردگار تو بسیار سخت است ، زیراکہ ازدست برد دیگران خاص شدن بمقابلہ گریہ وزاری وصبر وشفاعت ممن است، واز عذاب او تعالیٰ بہیچ وجہ خلاصی امکان نہ دارد ونیز دست برد دیگران راہہا تمش آن ست کہ منجز بموت وہلاک شود، وبعد از موت وہلاک نمی تو انند کہ ایذائے رسانند، زیر، کہ قدرت براعادہ معدوم ندارندپس عذاب ابدی نمی تو انند کرو، بخلاف او تعالیٰ کہ مبرون وخک شدن نیز از دستبرداد خلاصی مکن نیست ، می تواند، کہ زندہ گرداندوباز عذاب کند تا ابداً لا باد زیرا کہ (انہ ہو یبدئ ویعید الی اخرما فی العزیزی وایٹی کریمہ فیو مئذ لا یعذب عذابہ احد ولا یوثق وثاقہ) احد نیز برعزت وقدرت کاملہ اور عزیز حکیم ناطق کہ ہر مخلوق بمقابلہ ومشابہہ آن ذرہ وار ذلیل خوار سر شار است
ہیچ میدانی چہا اے سرو قیامت می کنی
می کشی د زندہ میسازی قیامت می کنی
وکل یوم ہو فی شان ای امر یظہرہ فی العالم علی ما قدرہ فی الازل من احیاء و اماتۃ واعزاز واذلال واعدام واعطاء وغیر ذلک صفات عزت مسمات غیر متناہیہ مختصہ بادل شانہ است وانسان اگرچہ کامل واکمل باشد کے بصفات خدائے تعالیٰ مختص ومشابہ شدن می تواند، چنانکہ برعقلاء اظہر من الشمس است
کُلَّ یَومٍ ہُوَ فِی شان چہ شان ست چہ شان
یعنی اوصاف کمال تو نہ دار دپایان
ز تعظیم تو پیش تو ہست ونیست
اگر باشدوگرینا شدیکے است
یعنی درجنب جلال ذات والا صفات تو موجودات ومعہ مات اگر باشند، واگر نبا شند برابر است ، چراکہ تو قادر ہستی مطلقا برہست کردن مدومات ونیست نمودن موجودت پس نزداین ش جلال نشان تو ہمہ موجودات از بس ذلیل وضعیف اند وہمیں مراد صاحب تقویۃ الایمان است کہ چمار سے بھی ذلیل ہے‘‘ آہ
بارہا گفتہ ام بارد گرمے گویم!
من گم گشتہ نہ این راہ خود مے پویم
دربر آئین طوطی صفتم واشتہ اند
آنچہ استاد ازل گفت تبومے گویم
برین معنے تصرف وتسلط بادشاہ برچمار ذلیل زرہ است موہوم بہ نسبت تصرف تام و قدرت تمام او خالق منعام وعزیز علام بر کافہ انام از خواص وعوام کہ علی الدوام است
آن جہان وارے کہ ہرگز طاعتش سر برکشید
روزگارش خط خُذلان تا ابد بر سرکشید
’’پھر ایک اور طرح سے بھی اس پر غور کرنا چاہیے کہ بادشاہ اگر ایک ذلیل چمار پر گرفت کرے اور اس کو سزا دے تو اس کی سزا بالکل محدود ہے کیونکہ موت کے بعد وہ اس کو کچھ سزا نہیں دے سکتا، لیکن خداوند تعالیٰ اگر کسی بندے کو سزا دینا چاہے تواس کی سزا غیر محدود ہو گی کیونکہ موت کے بعد بھی وہ اس کو بار بار زندہ کرنے پر قادر ہے اورسزا دے سکتا ہے تو خداوند تعالیٰ کے صفات غیر متناہی یں اور بندہ اس کے مقابلہ میں سراپا عجز ونیاز ہے۔‘‘
وازین جا ملا علی قاری ہروی کہ ازا عاظم حنفیہ است انبیاء واولیاء وفجرہ وکفرہ راز پر تسخیر وتصرف وانگشت ازا صابع الرحمن شامل دہ بنسق واحد ہمہ رذ کر نمودہ چنانکہ ورمرقاۃ شرح مشکوۃ و رباب قدر زیر حدیث عبداللہ بن عمرو می نویسد عن عبداللہ بن عمرو قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان قلوب بنی اٰدم ای ہذا الجنس وخص لخصوصیت قابلیۃ التقلیب وبہ اکد بقولہ کلها یشمل الانبیاء والاولیاء والفجر والکفرة من لا بین احبعین من اصابع الرحمن بقلب واحد ویصرف کیف یشاء ثم قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم اللهم مصرف القلوب صرف قلوبنا علی طاعتك والظاہران کل واحد من العباد کما یفقرالیه تعالیٰ فی الایجاد لا یستعنی عنه ساعة من الامداد کما رواہ مسلم کذا فی المشکوٰۃ
’’ملا علی قاری رحمہ اللہ مرقاۃ شرح مشکوٰۃ میں حضرت عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ کی حدیث باب القدر کے تحت لکھتے ہیں کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تمام بنی آدم کے دل اللہ تعالیٰ کی دو انگلیوں کے درمیان ہیں وہ جس طرح چاہے ان کو پھرتا ہے اور تمام بنی آدم کی تشریح اس طرح کرتے ہیں کہ نبیوں اور ولیوں ، کافروں فاسقوں، فاجروں اور تمام بدبختوں کے دل خدا کے ہاتھ میں ہیں۔‘‘
جلوہ قدر تراغایت و پایانے نیست
ہر زمان جلوہ دیگر شوداز پردہ عیان
فی الجملہ او خداوند خلاق ومالک علی الاطلاق بشان عزت خالقیت وشان عزت الوہیت و شان عزت قیومیت وشان عزت قہاریت ، موصوف سرمدی است ، دہر مخلوق بشان ذلت عبدیت وشان ذلت عبودیت وشان ذلت مقہوریت وشان ملت افتقاریت مجبور دپابند محصورابدی است ، پس مخلوق بمقابلہ ثانہائے رنگا رنگ او خالق غنی و بے نیاز سراپا درز لتہائے گوناگون سرافگندہ باعجز ونیاز است
شکر فیض تو چمن چوں کنداے ابربہار
کہ اگر خار واگر گل ہمہ پردر وہ تست
پس شرح دبیان عبارت تقویۃ الایمان حسب عنوان کلام ایزدمنان ورسول مقبول آخر زمان وطرز تبیان علمائے ذی شان نگارش یافتہ اکنون صاحب انصاف پر دردالازم است کہ بمقتضائے مکارم اخلاق غور فرمایند، دبر صاحب تقویۃ الایمان غیظ وغضب نہ نمایند
اند کے باتو بگفتم وبدل تر سیدم
کہ دل آزردہ شوی درنہ سخن بسیار است
( سید محمد نذیر حسین)
’’پس تقویۃ الایمان کی عبارت کی شرح خدا تعالیٰ کی توفیق سے قرآن مجید اور حدیث شریف اور علماء ذی شان کے بیان کے مطابق ہو چکی ہے اب انصاف پر در حضرات سے توقع ہے کہ مکارم الاخلاق کے مطابق اس پر غور فرمائیں گئے اور صاحب تقویۃ الایمان پر خواہ مخواہ ناراض نہ ہوں گے۔‘‘
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب