السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر کے علاوہ اور کسی جگہ پر یا رسول اللہ کہنا جائز ہے یا نہیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یا رسول اللہ نداء رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم است وندابرائے حاضر می باشند پس این قول دلیل برآن است کہ این کس رسول صلی اللہ علیہ وسلم را حاضر بہر مکان وزمان اعتقادمی کند، واین معنی بدون علم محیط امکانے ندار دو ’’ العلم المحیط لیس الا اللہ و تعالیٰ کما فی التفسیر الکبیر‘‘ پس اثبات ہجچو علم بغیر خدا شرک باشد،
’’ یا رسول اللہ کا لفظ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو پکارنا ہے اور پکارا اسی کو جاتا ہے جو حاضر ہو ایسے آدمی کا عقیدہ گویا یہ ہے کہ آپ ہر جگہ موجود ہیں اور یہ چیز علم محیط کے بغیر نہیں ہو سکتی، اور علم محیط اللہ تعالیٰ کا خاصہ ہے اور ایسا علم کسی دوسرے کے لیے ثابت کرنا شرک ہے۔‘‘
ودرمفتاح القلوب لملا حسین الخباز مرقوم است واز کلمات کفر است ندا کردن اموات غائبات بگمان آنکہ حاضر اندمثل یا رسول اللہ ویا شیخ عبدالقادر ومانند آن انتہی وازیجا است کہ در عامہ کتب فقہ مسطور است ’’لوتزوج بشہادۃ اللہ ورسولہ لا یعقد النکاح ویکفر لا عتقاد ان النبی صلی اللہ علیہ وسلم یعلم الغیب کذا فی البحرالرائق وغیرہ‘‘ وتفرقہ درمیان ندائے نبی دندائے غیر نبی و درمیان با درود وسلام ونداء بدون درود وسلام از فہم مامردم عالی است چہ نداء برائے حاضر مے باشد ،دنبی حاضر درین جا ہمچو غیر نبی نہ بادرود سلام ونہ بدون درود وسلام وآنچہ درباب درودوسلام ثابت است ہمیں قدر است کہ ملائکہ صلوۃ وسلام رامیر سانند، واین مستلزم حضور نیست پس ندا مطلقاً مشعر باعتقاد حضور مذکور باشد، واین اعتقاد شرک است درغیر خدا، پس تلفظ ہمچو کلمات کہ مشعر باعتقاد باشد بحسب ظاہر شرک باشد’’ ونحن نحکم بالظاہر کما فی المواقف‘‘ ونداء صلوٰۃ الحاجۃ بحضور رسول خدا صلی اللہ علیہ وسلم بووواکنوں برتقدیر عموم آن صلوٰۃ بنا برحکایت آن وقت خواہد بود دہم چنین خطاب درتشہد بطریق حکایت بود شیخ عبدالحق دہلوی در رسالہ سی دہشتم تحصیل البرکات فی معنی بیان التحیات مے نویسد اگر گویند کہ خطاب مر حاضر راست وآن حضرت صلی اللہ علیہ وسلم درین مقام حاضر نیست پس توجیہ این خطاب چہ باشد جوابش آن است کہ در شرح صحیح بخاری می گوید ، کہ صحابہ در زمان جناب آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بصیغہ می گفتند ،وبعد از زمان حیاتش این چنین می گفتند ’’ السلام علی النبی ورحمۃ اللہ وبرکاتہ‘‘ نہ بلفظ خطاب یا این کلمہ دراصل یعنے درشب معراج بصیغہ خطاب بود، دیگر تغیرش ندا دندد برہمان اصل گذاشتند اتنہے پس استدلال بہ ہمچو ندا وخطاب جز خطانبود واللہ اعلم بالصواب ومنہ الہدایۃ فی کل باب ، کتبہ محمد بشیر الدین عفی عنہ، مرقومہ ۱۶ رمضان ۱۶۷۶ھ النداء للغیب لایجوز ، محمد قطب الدین ، سید محمد نذیر حسین ۔فتاویٰ نذیرہ جلد اول،ص۵۵)
’’ملا حسین خباز نے اپنی کتاب مفتاح القلوب میں لکھا ہے ،اموات غائبات کو اس حیثیت اور اعتقاد سے پکارنا کہ وہ حاضر ہیں، مثلاً یا رسول اللہ اور یا شیخ عبدالقادر جیلانی وغیرہ سو یہ کفر ہے یہی وجہ ہے کہ کتب فقہ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی آدمی اللہ اور رسول کی شہادت سے نکاح کرے تو وہ نکاح منعقد نہیں ہو گا اور نکاح کرنے والا کافر ہو جائے گا کیونکہ اس کا عقیدہ یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم غیب جانتے ہیں۔( بحرالرائق وغیرہ)
اور نبی یا کسی دوسرے کو ندا کرنے یا درود اور غیر درود میں ندا کرنے کا جو فرق کیا جاتا ہے وہ ہماری سمجھ سے تو بالاتر ہے کیونکہ ندا تو حاضر کے لیے ہوتی ہے اور نبی بھی حاضر نہیں ہوتا نہ درود کے وقت اور نہ کسی دوسرے وقت اور دو کے متعلق صرف اتنا ثابت ہے کہ اس کو فرشتے پہنچا دیت یہیں پس ندا حاضر ہونے کے عقیدہ کیا طرف اشارہ کرتی ہے اور یہ عقیدہ شرک ہے تو ایسے الفاظ شرکیہ سے پرہیز کرنا نہایت ضروری ہے اگر کوئی صلوۃ الحاجۃ کی روایت سے استدلال کرے تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس وقت نبی صلی اللہ علیہ وسلم حاضر تھے۔ اور اب ان الفاظ کو حکایت حال ماضی کے طور پر پڑھ دیتے ہیں جیسے نماز کے التحیات میں پڑھتے ہیں شیخ عبدالحق محدث دہلوی نے اپنے رسالہ’’ تہصیل البرکات فی بیان معنی التحیات‘‘ میں لکھا ہے کہ اگر کوئی یہ کہے کہ التحیات میں خطاب کے انداز میں سلام پڑھا جاتا ہے حالانکہ رسول پاک وہاں موجود نہیں ہوتے تو اسکا جواب یہ ہے کہ اسے حکایت حال ماضی کے طور پڑھا جاتا ہے اس کے علاوہ بخاری شریف میں مروی ہے کہ صحابہ آپ کی زندگی میں خطاب سے پڑھتے تھے اور آپ کے بعد السلام علی النبی (نبی پر سلام ہو) کے الفاظ پڑھنے لگے تھے پس ان الفاظ سے استدلال کرنا درست نہیں ہے۔ واللہ اعلم!
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب