السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
نحمدہ ونصلی، کیا فرماتے ہیں، علمائے دین و مفتیان شرع متین اس صورت میں، کہ زید موافق طریقہ سلف خیر نسبت شیخ عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ کے اعتقاد ولایت و قوع کرامت کا رکھنا ہے، مگر یہ کہ امت منقولہ شیخ نے جب اس کے مرید کی روح فرشتہ قبض کر کے روانہ ہوا، شیخ نے فرشتہ سے راہ میں مل کر کہا، کہ میرے مرید کی روح دے دے، فرشتہ نے کہا، کہ یہ امر میں نے بحکم ربی کیا ہے، اگر تم کو دے دینے کا حکم ہوتا، تو میں بلاشبہ دے دیتا، جب فرشتے نے انکار کیا، تو شیخ نے ارواح کی زنبیل فرشتہ سے چھین لی، جب فرشتہ اللہ پاک کے پاس ملول آیا، تو خدا نے فرمایا: کہ اے ملک الموت آج تیری محنت ضائع ہوئی، تو نے ایک روح اس کے مرید کی دے دی ہوتی، وہ تو اگر میری خدائی بھی بخش دے، تو مجھ کو کیا انکار ہو سکتا۔‘‘
دوسری یہ کرامت منقولہ، کہ جب منکر نکیر قبر میں شیخ کے مرید کے پاس آئے تو پوچھا ((مَنْ رَبُّك)) ’’تیرا رب کون ہے؟‘‘ اس کے جواب میں مرید نے کہا، کہ میں خدا کو نہیں جانتا، شیخ عبد القادر کو جانتا ہوں، اس وقت فرشتوں نے عذاب شروع کیا، تب مرید نے شیخ سے فریاد کی، شیخ نے عذاب سے منع کیا، فرشتے نہ مانے، تو شیخ نے گرز عذاب چھین لیا، اور یہ کہا کہ جنت کو دوزخ کر دوں، اور دوزخ کو جنت غرض فرشتوں پر غلبہ کر کے اپنے مرید کو عذاب سے بچا لیا،
تیسری یہ نقل کرامت، کہ ایک عوت شیخ کے پاس آئی، کہ میرے واسطے اولاد کے لیے دعا کرو، شیخ نے کہا، کہ اے بدبخت، تیری قسمت میں خدا نے اولاد نہیں چاہی، مگر ہم دعا کرتے ہیں، چنانچہ شیخ نے دعا کی، کہ خدا یا اس کو بیٹا دے، حکم رب العالمین ہوا کہ اس کی قسمت میں اولاد نہیں ((جَفَّ الْقَلْمُ بِمَا ھَوَ کَاءِنٌ)) ’’قلم لکھ کر فارغ ہو گیا۔‘‘ پھر دعا کی کہ خدا اسے دو بیٹے دے، حکم ہوا کہ اس کے اولاد ممکن نہیں، غرض ساتویں بار جب سات بیٹوں پر دعا کی نوبت پہنچی تو خدا نے کہا، کہ اے شیخ بس کر ہم اس کو سات بیٹے دیں گے۔
الغرض زید ان تینوں کرامتوں کا انکار کرتا ہے چونکہ ثبوت ان کا قرآن وحدیث و اجماع سے نہیں، اور جو لوگ ان تین کرامت مذکورہ پر اعتقاد کریں، یہ اعتقاد ان کا کسی قاعدہ شرعی کے مخالف ہو گا یا نہیں فقط، اور ایک مسئلہ یہ بھی اس استفتاء میں شامل فرما دیجئے، کہ قیامت کے دن حضرت عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ ساڑھے تین کو لیاں بھر کرسب مخلوق میں سے جنت میں ڈالیں گے، اور ان کے ہاتھ مشرق سے مغرب تک دراز ہوں گے، آیا یہ قول صحیح ہے یا غلط، افتررار عوام کالانعام ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا اللّٰہِ) صورت مسؤلہ میں زید سنی العقیدہ موحد ہے، کہ امور شرکیہ کا منکر ہے، اور یہ انکار واجب ہے، کیونکہ یہ کرامات مندرجہ سوال بت برستوں کے سے عقیدہ والوں کی ہیں۔
((وقد جاء فی الحدیث من راٰی منکم منکر افلیغیرہ بیدہ ومن لم یستطع فبلسانه ومن لم یستطع فبقلبه ولیس وراء ذلك حبة خردل من الایمان))
’’حدیث میں آیا ہے کہ جو آدمی تم میں سے کوئی برائی دیکھے، اسے اپنی طاقت سے ختم کر دے اور اگر اس کی طاقت نہ ہو تو اپنی زبان سے اس کی تردید کرے اور اگر اتنی بھی طاقت نہ ہو، تو اسے اپنے دل سے برا سمجھے، اور اگر ایسا بھی نہ کرے تو اس کے دل میں ایک رائی کے برابر بھی ایمان نہیں ہے۔ ‘‘ ۱۲
پس زید اس انکار سے گنہ گار کیسا، بلکہ مستحق اجر عظیم اور ثواب نعیم کا ہو گا، اور جو لوگ ان کرامات شرکیہ مذکورہ کو حق جانتے ہیں، اور اس عقیدہ شرکیہ کفریہ پر ہیں، سراسر مخالف قرآن اور حدیث کے ہیں، اور مثل بت پرستوں کے عبد القادر پرست ہیں، بندہ کو خدا اعتقاد کرتے ہیں، العیاذ باللہ بلکہ اس واحد و قہار و جبار کو بندہ کے آگے مجبور جانتے ہیں ایسے عقیدہ والے قطعی کافر اور مشرک ہیں ، اگر کوئی ابتدائے تمیز سے اس عقیدہ پر ہے تو پرانا کافر ہے، جب تک اس کفریہ عقیدہ سے توبہ نہ کرے، اور تجدید اسلام کلمہ شہادۃ سے نہ کرے، مسلمان نہیں۔
(قال اللّٰہ تعالیٰ﴿ اِنَّه مَنْ یُّشْرِك بِاللّٰہِ فَقَدْ حَرَّمَ اللّٰہُ عَلَیْه الْجَنَّة وَ مَاْوٰیه النَّارُ وَ مَا لِلظّٰلِمِیْنَ مِنْ اَنْصَارٍ﴾
’’اللہ تعالیٰ نے فرمایا : جو شخص اللہ کے ساتھ شرک کرے، اللہ نے اس کے لیے جنت کو حرام کر دیا ہے اور اس کا ٹھکانہ آگ ہے، اور ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں ہے۔‘‘ ۱۲
اگر کسی مسلمان کے گناہوں سے ساری زمین لبریز ہو اور شرک نہ ہو، تو حق جل جلالۂ اپنی رحمت سے اس کے گناہ کے بخشنے کا وعدہ فرماتا ہے، مگر مشرک کافر ہر گز نہ بخشا جائے گا:
﴿اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَك بِه وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِك لِمَنْ یَّشَآءُ وَمَنْ یُّشْرَك بِاللّٰہِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا بَعِیْدًا﴾
’’اللہ تعالیٰ کسی آدمی کو شرک معاف نہیں کرے گا، اور اس کے علاوہ دوسرے گناہ، جس کو چاہے بخش دے، اور جو اللہ کے ساتھ شرک کرے، وہ بہت گہری گمراہی میں مبتلا ہے۔‘‘ ۱۲
اور جو لوگ اول عقیدہ توحید کا رکھتے تھے اور بعد میں اس شرکیہ عقیدہ پر ہو گئے ہیں، تو ان کے پہلے نیک عمل سب برباد گئے، اگر اسی کفر پر مر جائیں تو بموجب فرمان واجب الاذعان الٰہی کے وہ دوزخی ہیں، جیسا کہ اللہ فرماتا ہے:
﴿وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِه فَیَمُتْ وَ ہُوَ کَافِرٌ فَاُولٰئِكَ حَبِطَتْ اَعْمَالُہُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَة وَ اُولٰئِكَ اَصْحٰبُ النَّارِ ہُمْ فِیْہَا خٰلِدُوْن﴾
’’جو آدمی بھی تم میں سے اپنا دین چھوڑ کر کفر کی حالت میں مر جائے تو ان لوگوں کے تمام اعمال دنیا و آخرت میں برباد ہو جائیں گے، اور یہی لوگ جہنم والے ہیں وہ اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘ ۱۲
اور جو سوال آخر میں درج ہے کہ قیامت میں عبد القادر رحمۃ اللہ علیہ تین کولیاں بھر کر جنت میں ڈالیں گے، یہ صحیح ہے یا غلط، معاذ اللہ! کس قدر باطل اور دروغ اور کذب پر اہل بدعت کا عقیدہ ہے، یہ سرا سر غلط اور افتراء ہے۔ نعوذ باللّٰہ من شر الکاذبین المبتدعین الباطلین الطاغین الفاسقین۔ واللّٰہ اعلم بالصواب۔ فاعتبروا یا اولی الالباب ۔
(حررہ فقیر محمد حسین) (فقیر محمد حسین دہلوی) (یقال لہٗ ابراہیم) (سید محمد عبد السلام غفرلہ) (سید محمد ابو الحسن) (امیدوار شفاعۃ ز محمد عبد القادر) (الجواب صحیح: محمد عبید اللہ) (الجواب صحیح: سید معتصم باللہ حنفی) (الجواب صحیح: محمد عبد الحق) (محمد عبد الحکیم عفی عنہ)
کرامات مذکورہ بے اصل ہیں، ان کے اعتقاد سے احتراز چاہیے۔ (محمد حسن عفی عنہ)
کرامت مذکورہ کا معتقد مخالف قرآن و حدیث کا ہے، ایسے اعتقاد سے پرہیز لازم ہے۔
جواب مجیبت کا اور مواہیر و دستخط صحیح ہیں (محمد مسعود نقشبندی)
(حسبنا اللہ بس حفیظ اللہ) (جواب صحیح ہے: تلطف حسین) (فتاویٰ نذیریہ جلد اول ص ۷۱) (سید محمد نذیر حسین)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب