السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص کا یہ اعتراض ہے کہ جب اللہ تعالیٰ ستار ہے غفار رحیم ہے تو پھر قہار کیوں ہے، وہ ایک شخص کو خود ہی موقعہ دیتا ہے کہ وہ ظلم کرے کسی کو قتل کرے جیسا کہ شمر نے امام حسین رضی اللہ عنہ کو شہید کیا خدا نے خود ہی یہ اس کے لیے مقدر کر رکھا تھا۔ پھر شمر پر قہر نازل کرنا چہ معنی؟ ازراہ کرم اس عقدہ کو ضرور حل کیجئے (محمد اسمٰعیل خاں محمد بشیر خاں از حیدر آباد سندھ
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
یہ تقدیر کا مسئلہ ذرا ٹیڑھا ہے۔ اس لیے ہر کس و ناقص کی سمجھ میں آنا ذرا مشکل ہے۔ ہاں اس کی ابتدائی منزلوں کو سمجھ لیجئے۔ زیادہ گہرائی میں نہ جائیے۔ خدا تعالیٰ دونوں صفات کا مالک ہے، یعنی وہ رحیم بھی ہے غفور بھی ہے اور اس کی جہ صفت مومنوں کے لیے مختص ہے وہ جبار بھی ہے اور قہار بھی ہے۔ اور یہ وصف منکرین اور کافرین کے لیے مخصوص ہے اس حد تک تو سب کو اتفاق ہے کہ خدا وہی ہو سکتا ہے وجو دو نوں صفات کا مالک ہو۔ اور جب تک یہ دونوں صفات یکجا نہ ہوں۔ خدا خدا ہو ہی نہیں سکتا۔ جب ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ ہر ماں اور ہر باپ میں یہ دونوں اوصاف جمع ہیں۔ وہ اولاد سے محبت و شفقت بھی کرتے ہیں اور کبھی اسے مارتے ہیں اور سرزنش کرتے ہیں۔ یہی حال استاد کا ہے اور یہی حال ہر حکمراں کا۔ اور اس سے نظام عالم قائم ہے۔ پھر اگر خدا میں یہ دونوں وصف موجود ہوں تو اعتراض کیوں؟ اب رہا یہ عقدہ کہ خدا جب جانتا ہے کہ فلاںیہ کام کرے گا فلاں قاتل ہو گا اور فلاں مقتول، تو پھر ان کا قصور کیا؟ اور ان کو سزا کیسی؟ بات یہ ہے کہ عوام نے تقدیر کا مطلب یہ سمجھ رکھا ہے کہ خدا اسے مجبور کرتا ہے کہ وہ ایسا کرے، حالانکہ یہ بات سرے ہی سے غلط ہے۔ خدا تعالیٰ نے ہر شخص کو نیک و بد دونوں راہیں دکھا دی ہیں اور اسے امتیاز کی توفیق بھی عطا فرما دی ہے، وہ جانتا ہے کہ یہ بچھو ہے یہ سانپ ہے نہ ان کے قریب جاتا ہے نہ ان کے بل میں انگلی دیتا ہے۔ وہ سمجھتا ہے کہ یہ شیر ہے بھیڑیا ہے پھاڑ کھائے گا۔ اس لیے ان سے دور دور رہتا ہے اور بچتا ہے۔ مگر اسی طرح جب اسے ستایا جاتا ہے کہ یہ کام برا ہے اس میں تمہاری ہلاکت ہے ۔ جوا نہ کھیلنا، شراب نہ پینا، چوری نہ کرنا، زنا سے بچنا، قتل و غارت سے دور رہنا۔ مگر وہ ان سے نہیں بچتا تو پھر قصور اس کا اپنا ہے نہ کہ کسی اور کا، آپ نے بہت ہی کم سنا ہو گا کہ کسی نے دیدہ دانستہ بقائمی ہوش و حواس از کود اپناہاتھ شیر کے منہ میں دے دیا ہو۔ از خود ہاتھی کے نیچے آ کر کچلا گیا ہو۔ کنویں میں گر کر ہلاک ہو گیا ہو۔ مگر یہ آپ نے عام سنا ہو گا کہ فلاں نے فلاں کو قتل کر دیا، فلاں نے چوری کی، شراب پی، رشوت لی کیوں؟ اس لیے کہ ان کاموں میں اسے مزا آتا ہے شیطان تحریک کرتا ہے۔ رحمان کبھی تحریک نہیں کرتا وہ تو روکتا ہے اس نے روکنے کے لیے پیغمبر بھیجے ان کے نائب چھوڑے اس لیے وہ تو بری الذمہ ہے اور مجرم تو یہ خود ہے اور تقدیر کو محض بہانا بنا رہاہے تقدیر تو خدا تعالیٰ کے ذاتی علم کا نام ہے، وہ ذاتی طور پر ہر شخص کے متعلق جانتا ہے کہ اس کا انجام کیا ہو گا، جس طرح ایک استاد جانتا ہے کہ کون کون لڑکا ہوشیار ہے اور کون کون کمزور، کون فیل ہو گا اور کون پاس، مگر محنت کا حکم سب ہی کو دیتا ہے اگر کمزور لڑکا یہ کہے کہ میرے متعلق تو استاد نے کہا تھا کہ یہ فیل ہو جائے گا۔ اب اس میں میرا کیا قصور ہے؟ تو ساری دنیا اسے ملامت کرے گی کہ اس میں استاد کا قصور نہیں۔ تیرا ہی قصور ہے، اگر محنت کرتا تو پاس ہو جاتا، استادکا تو محض اندازہ تھا۔ جو غلط بھی ہو سکتا تھا۔ انسانی اندازے بکثرت غلط ہوتے رہتے ہیں۔ مگر خدائی اندازہ (جیسے تقدیر کا نام دے دیا گیا ہے) کبھی غلط نہیں ہوتو، وہ ہو کر رہتا ہے۔ بس بات اتنی سی ہے جو سمجھ لے وہ مومن ہے نہ سمجھے تو منکر۔ (مولانا عبد المجید سوہدری رحمۃ اللہ علیہ ، اخبار اہل حدیث سوہدرہ جلد نمبر ۶ شمارہ نمبر۶)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب