السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہم نے نہ نبی کو اپنی آنکھوں سے دیکھا نہ اس کے معجزات کو دیکھا کہ صحیح طور پر ان کا جائز ہ لے سکتے، نبی پر وحی بھی ہمارے سامنے نازل نہیں ہوئی، ہم ایمان لائے ہیں تو صرف اس لیے کہ ہم نے اسلام کی تعلیم کو اچھی اور قابل قبول سمجھا ہے، اچھائی اور برائی میں فرق کرنے کی استعداد ہی کی وجہ سے ہمارے اعمال پر جزا و سزاء بھی مقرر ہے، دوسرے لفظوں میں کسی چیز کی خوبی یا برائی کا اصل معیار عقل ہے قرآن مجید میں بھی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ﴿اَفَلَا یَعْقِلُوْنَ۔ اَمْ عَلٰٰ قَلُوْبٍ اَقْفَالُہَا﴾ جس سے ثابت ہوتا ہے کہ قرآن مجید کو بھی عقل ہی سے پرکھنا چاہیے اگر خدانخواستہ قرآن مجید کی کوئی بات ہماری سمجھ میں نہ آئے یا ہم اسے اپنی عقل کے خلاف سمجھیں تو فیصلہ کی کیا صورت ہو گی؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال دو ہیں۔ ایک یہ کہ سمجھ میں نہ آئے، ایک یہ کہ عقل کے خلاف ہو، سمجھ میں نہ آنے سے کسی چیز کا انکار نہیں ہو سکتا، اس کے متعلق قرآن مجید کا فیصلہ موجود ہے:
﴿بَلْ کَذَّبُوْا لَمْ یُحِیْطُوْا بِعِلْمِہٖ﴾
’’بلکہ انہوں نے اس چیز کو جھٹلا دیا جس کے علم کا انہوں نے احاطہ نہیں کیا۔‘‘
اس کی مثال ایسی ہے کہ جیسے ہم نے روح کو جھٹلا دیں، صرف اس بناء پر کہ ہمیں اس کی حقیقت معلوم نہیں۔ تو یہ بالکل غلط ہے۔ کیونکہ جب تک کسی چیز کی حقیقت معلوم نہ ہو تو اس کا انکار عقل کی کمزوری ہے۔
دوسرا سوال یہ ہے کہ قرآن کی کوئی بات عقل کے خلاف ہو۔ اس کا جواب یہ ہے کہ کئی دفعہ انسان اپنی کمزوری سے کسی بات کو اپنی عقل کے خلاف سمجھ لیتا ہے، اور واقعہ میں وہ عقل کے خلاف نہیں ہوتی۔ اس کی مثال ایسی ہے جیسے کفار کہتے تھے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہڈی بوسیدہ ہو کر خاک میں مل جائے اور پھر وہ دوبارہ انسان بن جائے جیسے اللہ تعالیٰ سورۂ یسین میں فرماتے ہیں:
﴿قَالَ مَنْ یُحْیِ الْعِظَامَ وَھِیَ رَمِیْمٌ﴾
’’یعنی انسان کہتا ہے کہ ہڈیوں کو کون زندہ کر سکتا ہے حالانکہ وہ بوسیدہ ہو چکی ہوں۔‘‘
ہاں کوئی بات ہر ایک کی عقل کے خلاف ہو تو اس کو جھٹلایا جا سکتا ہے۔ مگر قرآن مجید میں کوئی ایسی بات موجود نہیں۔ (تنظیم اہل حدیث جلد نمبر ۱۷ ، شمارہ نمبر۹)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب