السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسئلہ تقدیر کی کیا اصلیت ہے اور کسبؔ اور خلق میں کیا فرق ہے۔ یعنی جن اشخاص کو اللہ تعالیٰ نے دوزخی بنا دیا ہے اور ان کو اسی کے لیے پیدا کیا، تو پھر ان پر کیا الزام ہے، اور پھر ان سے انبیاء کی اتباع و تصدیق کا مطالبہ کرنا کیسے ہو سکتا ہے۔ (ابو محمد عبد الجبار کہنڈیلوی، رحمۃ اللہ)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مسئلہ تقدیر کی اصلیت دو چیزیں ہیں۔ ایک علم ایک قدرت علم اس طرح کہ بندے کو جب اللہ تعالیٰ نے پیدا کیا تو اس نے نیکی کرنی تھی یا بدی۔ اس کا علم اللہ تعالیٰ کو پہلے ہی تھا، سو اس کو لوح محفوظ کی صورت میں پہلے ہی لکھ دیا۔
لوگ جو کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے لکھا، اس لیے بندے نے کیا، یہ غلط ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ بندے نے کرنا تھا، اس لیے لکھا۔ چنانچہ حدیث میں ہے، قلم کو حکم ہوا: اُکْتُبْ (لکھ) قلم نے کہا: ما اکتب (میں کیا لکھوں) حکم ہوا: اکتب القدر فکتب ماکان وما ھو کائز الی الابدر (تقدیر لکھ۔) پس قلم نے جو کچھ ہو چکا تھا اور جو کچھ ہونا تھا لکھ دیا) بتلائیے! اس میں اللہ کا کیا قصور؟ ہاں اگر اللہ کا لکھنا بندے کے لیے رکاوٹ ہوتی تو پھر اعتراض کرنے والا اعتراض کر سکتا تھا کہ بندے کا کیا قصور، لیکن جب ایسا نہیں بلکہ بندے نے جو کچھ کرنا تھا قلم نے اللہ تعالیٰ کے حکم سے وہی لکھا، پھر اتنے پر بھی بندے کو نہیں پکڑا۔ بلکہ بندے نے جب فعل کر لیا اس وقت پکڑا۔ پس اب علم کے لحاظ سے کوئی اعتراض نہ رہا۔ زیادہ وضاحت کے لیے اس کو یوں سمجھئے کہ اگر بالفرض اللہ تعالیٰ کو علم نہ ہوتا تو بھی بندے نے نیکی یا بدی کرنی تھی، تو اللہ کو علم ہونے سے کون سا جبر آ گیا۔
رہا قدرت کا معاملہ، سو یہ نہایت نازک ہے۔ بڑے بڑے عقلاء اس میں حیران ہیں، اللہ تعالیٰ بندوں کو ہر طرح سے آزماتا ہے۔ بدنی آزمائشیں بھی آتی ہیں، عقل بھی۔ تقدیر کا مسئلہ عقل آزمائش ہے۔ مگر اس کو ایسا بھی نہیں کیا کہ بالکل مبہم رکھا ہو بلکہ ایمان کے لیے جس قدر ضرورت تھی اتنا پردہ اٹھا دیا۔ تفصیل اس کی یہ ہے کہ ہر مخالف، موافق اس بات کو تسلیم کرتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہر نقص و عیب سے پاک ہے اور یہ بھی ظاہر ہے کہ جبر جیسا کوئی نقص نہیں ایک تو ا س میں حکمت کے خلاف ہے کہ خود ہی ایک فعل کرے اور اس پر سزا دے دوسرے اس میں بندے کو ناحق تکلیف دینا ہے جس کو ادنیٰ عقل والا بھی اچھا نہیں سمجھتا۔ ایک کی جان دکھ میں ہو، دوسرے کا تماشا، اور اس مین بھی شبہ نہیں کہ اللہ تعالیٰ قادر مطلق ہے، جس کا اثر اس کا خالق ہونا ہے۔
اگر بندہ بھی خالق ہو تو یہ شرک فی الربویۃ ہے۔ جو بڑا شرک ہے۔ پس معلوم ہوا کہ بندہ مجبور بھی نہیں اور مطلق بھی نہیں۔ بلکہ اس کے بین بین ہے۔ جس کو کسب اور اکتساب سے تعبیر کیا جاتا ہے۔
پس ایمان کے لیے اتنی معرفت کافی ہے کیونکہ ایمان کے لیے یہ ضروری نہیں کہ حقیقت شئے کا علم ہو تب ایمان لائے۔ دیکھئے روح کی حقیقت ہم نہیں جانتے۔ لیکن اس کے آثار کی وجہ سے ہم مانتے ہیں۔ اسی طرح خدا کی ذات و صفات پر ہم ایمان رکھتے ہیں لیکن کنہ اور حقیقت کا علم نہیں، ٹھیک اسی طرح کسب و اکتساب کو سمجھ لینا چاہیے اس سے آگے بحث میں خیر نہیں۔ اسی لیے رسول اللہﷺ نے مسئلہ تقدیر میں بحث سے منع فرمایا ہے۔ میرے ذہن میں میں دفن بھی کیا جائے گا۔ چنانچہ اس کے متعلق حضرت العلام محدث روپڑی رحمۃ اللہ کا فتویٰ تنظیم اہل حدیث کے سابقہ شمارہ میں شائع ہو چکا ہے۔ حافظ عبد القادر روپڑی نام جامعہ اہل حدیث تنظیم اہل حدیث لاہور جلد نمبر ۲۱ شمارہ نمبر ۱۷
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب