السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا جو پھل حضرت مریم علیہ السلام کے پاس آئے تھے وہ جنت سے آئے تھے یا کسی دوسرے علاقے سے آئے تھے، اگر وہ جنت سے تھے تو «تومَا لَا عَیْنٌ رَأَتَ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ وَلَا خَطَرَ عَلٰی قَلْبِ بَشَرِ» کا کیا مفہوم ہو سکتا ہے؟
(۴) اگر کوئی شخص کہے کہ فلاں قبر میں جنتی پھل میں نے خود کھایا ہے کیونکہ اس جیسا یا اتنا میٹھا آج تک ہم نے کہیں پھل دیکھا ہی نہیں، کیا یہ بات صحیح ہو سکتی ہے؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
قرآن نے (مریم علیہ السلام کے پاس جو پھل آئے تھے اس کے متعلق) جنت کا پھل ہونے کا ذکر نہیں کیا، صرف ﴿مِنْ عِنْدِ اللّٰہِ﴾ کہا ہے یعنی اللہ کے ہاں سے ہے ہو سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے مریم علیہ السلام کے پاس ہی پیدا کیا ہو یا کہیں اور جگہ یا ملک سے پہونچایا ہو۔ ہو سکتا ہے جنت سے مہیا کیا ہو، ہر بات کا احتمال ہے اور اگر جنت سے ہی مہیا کیا ہو تو پھر بھی یہ واقعہ (مَا لَا عَیْنٌ رَأَتْ وَلَا اُذُنٌ سَمِعَتْ) والی حدیث سے متعارض نہیں ہے، کیونکہ اسی حدیث کے آخر میں آپ کا یہ فرمان بھی ہے: ((بل ما اطلعتم علیه)) ان نعمتوں کا ذکر ہی چھوڑ دو جن پر تمہیں مطلع کیا گیا ہے معلوم کہ جنت کے کئی اشیاء ایسی ہیں جن پر ہمیں مطلع کیا گیا ہے لیکن کچھ ایسی باتیں بھی ہیں جن کو کسی آنکھ نے دیکھا اور نہ سنا اور نہ سنا اور نہ کسی کے دل میں خیال تک آیا،ا گر مریم والے پھل جنتی ہوں تو پھر وہ ان میں شمار ہوں گے جن پر ہمیں مطلع کیا گیا ہے۔
(۴) اگر اس کہنے والے کا یہ مقصد ہو کہ میں فلاں قبر کے پاس گیا تو وہاں مجاورین بہت اعلیٰ پھل تقسیم کر رہے تھے میں نے لے کر کھایا تو اتنا میٹھا جیسا کہ جنت کا پھل ہے تو یہ ایک قسم کا محاورہ ہے اور تشبیہی کلام ہے اس طرح کہنے میں کوئی حرج نہیں اور اگر اس کا مقصد قبر کے اندر سے جنت کا پھل کھانے کا ہو تو پھر یہ درست نہیں، کیونکہ اس قسم کا کلام ایک صاحب وحی کے سوا اور وکئی نہیں کہہ سکتا، اور یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ اس قسم کے کلام صاحب وحی سے ثابت نہیں ہے لہٰذا اس قسم کی بات فضول ہے۔ (مولانا ابو البرکات شیخ الحدیث جامعہ اسلامیہ گوجرانوالہ)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب