السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خداوند تعالیٰ کلام مجید میں ایک جگہ فرماتا ہے کہ یہ قرآن مجید پہاڑ پر نازل کیا جاتا تو پہاڑ خوف سے شق ہو جاتا۔ اس میں تردد ہے کہ پہاڑ بے حس اور آدمی ظاہری اور باطنی حس حواس رکھتا ہے جس کے اندر خوف کا مادہ بھرا ہوا ہے اس کو جنبش تک نہ ہو۔ سو یہ اللہ تعالیٰ نے کیسے فرمایا۔ اس کا ثبوت عقلی و نقلی دلائل سے دے کر اطمینان فرمائیں۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سائل نے دو غلط دعوے کر لیے۔ اولؔ یہ کہ پہاڑ بے حس چیز، دوم: یہ کہ انسان کو باوجود حواس کے جنبش تک نہیں ہوئی۔ قرآن مجیا کا یہ بتلانا کہ بعض پہاڑ اللہ تعالیٰ کے خوف سے گر پڑتے ہیں۔ (وَاِنَّ مِنْھَا لَمَا یَھْبِطُ مِنْ خَشْیَہِ اللّٰہِ) قرآن مجید کا یہ بتلانا کہ ہر ایک چیز اللہ تعالیٰ کی تسبیح و تحمید کہتی ہے۔ (وَاِنْ مِنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِہٖ) اور (یُسَبِّحُ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰاتِ وَمَا فِی الْاَرْضِ) قرآن مجید کا یہ فرمانا کہ پہاڑ داؤد علیہ السلام کے ساتھ صبح و شام اللہ تبارک و تعالیٰ کی تسبیح کہتے تھے۔ (وَسَخَّرْنَا مَعَ دَاؤدَ الْجَبَالَ یُسَبِّحْنَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِثْرَاقِ) قرآن مجید کا یہ ارشاد کہ قرآن پہاڑ پر نازل کرتے تو اس کو مارے خشوع کے شق شدہ دیکھتے۔ (لَوْ اَنْزَلْنَا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ عَلٰی جَبَلِ لَرَاَیْتَه خَاشَعًا مُتَصَدِّعًا مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ) قرآن مجید کا یہ بتلانا کہ جب آسمان و زمین پھٹ جائیں اور اپنے رب کے حکم کو کان لگا کر سن لیں۔ (اِِذَا السَّمَآءُ انشَقَّتْ وَاَذِنَتْ لِرَبِّہَا وَحُقَّتْ وَاِِذَا الْاَرْضُ مُدَّتْ وَاَلْقَتْ مَا فِیْہَا وَتَخَلَّتْ وَاَذِنَتْ لِرَبِّہَا وَحُقَّتْ) قرآن مجید کا یہ بتلانا کہ زمین جب اپنے زلزلہ میں آ کر اپنے اثقال کو پھینک دے گی۔ تب زمین رب کے حکم سے اپنے اخبار سنا دے گی۔ (اِِذَا زُلْزِلَتِ الْاَرْضُ زِلْزَالَہَا وَاَخْرَجَتِ الْاَرْضُ اَثْقَالَہَا وَقَالَ الْاِِنسَانُ مَا لَہَا یَوْمَءِذٍ تُحَدِّثُ اَخْبَارَہَا بِاَنَّ رَبَّکَ اَوْحٰی لَہَا ) قرآن مجید کا یہ بتلانا کہ آسمان و زمین فرعونیوں پر نہ روئے۔ (فَمَا بَکَتْ عَلَیْہِمُ السَّمَاءُ وَالْاَرْضُ) اس سے معلوم ہو گیا کہ آسمان زمین اللہ کے نیک بندوں پر رویا کرتے ہیں۔ قرآن مجید کا یہ بتلانا کہ نزدیک ہے کہ آسمان و زمین پھٹ جائیں اور پہاڑ گر کر ریزہ ریزہ ہو جائیں اس سے کہ وہ رحمن کے واسطے اولاد کا دعویٰ کرتے ہیں۔ (تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَ تَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الْجِبَالُ ہَدًّااَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدً) ((اِلیٰ غیرھا من نصوص الکتاب والسنۃ واقول خیار الامۃ)) یہ سب اس بات کی شہادت علی طریق التنصیص والتصریح دے رہے ہیں کہ آسمان و زمین پہاڑ و دیگر بے جان چیزوں میں بھی ایک قسم کی معرفت و ادراک حس ہے۔ گو وہ ہر ایک آدمی کے فہم و عقل میں نہ آ سکے۔ (وَلٰکِنْ لَا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَھُمْ) میں اسی کی طرف اشارہ ہے۔ سوجو چیز آدمی کے فہم و عقل میں کم علمی ناتجربہ کاری کے سبب سے نہ آ سکے تو اس کو اس چیز کے وجود سے انکار کرنا عقلاً و نقلاً ناجائز بلکہ مردود ہے۔ (وَمَا یَعْلَمْ جُنُوْدَ رَبِّکَ اِلَّا ھُوَ وَمَا ھِیَ اِلَّا ذِکْرٰی لِلْبَشَرِ) اس کے لیے شاہد عادل ہے۔ ایسی چیزوں کے اثبات کے واسطے بجز صادق کے اخبار کافی ہے۔ (الم ذٰلِکَ الْکِتٰبُ لَا رَیْبَ فِیْہ ہُدًی لِّلْمُتَّقِیْنَ الَّذِیْنَ یَؤْمِنُوْنَ بِالْغَیْبِ) سائل نے نمبر ۱ کے سوال میں ایک اپنے غلط خیال کے اثبات کے لیے فطرت کی آیت سے استدلال کر کے لکھا اور خدا کا کلام اور وعدہ بالکل سچا ہے۔ پس پہاڑ کا شق ہو جانا اور تمام چیزوں کا تسبیح و تحمید کہنا اور مارے کوف کے اوپر سے گر جانا اور اس حکم کو کان لگا کر سننا وغیرہ وغیرہ یہ بھی اللہ تعالیٰ کی پاک کلام میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔ اپنی خام خیالی کے واسطے اس کا سچا ماننا اور یہاں پر اس کی تصدیق میں متردد رہنا ناسمجھی ہے (اَفَتُؤْمِنُوْنَ بِبَعْضِ الْکِتٰبِ وَ تَکْفُرُوْنَ بِبَعْضٍ) اللہ تبارک و تعالیٰ ہر وقت ہر مقام ہر بیان میں سچا اور بالکل سچا ہے۔ پس متردد کا موجب یہاں پر کیا ہے ہم اور ہمارے تمام مسلمان بھائی سلفاً و خلفاً شرقاً و غرباً رب العزت کے واسطے اپنی مخلوق کے ہر گز ہر گز قائل نہیں ہو سکتے۔ جس کو رب العالمین کے ساتھ نہ کچھ معرفت ہو نہ کچھ تعلق اور نہ اس سے کچھ خوف ہو۔ یہی ہمارا اعتقاد یہی ہماری فطرت یہی ہماری عقل اور سچا یقین ہے۔ (وَ اِنْ مِّنْ شَیْءٍ اِلَّا یُسَبِّحُ بِحَمْدِهِ وَ لٰکِنْ لَّا تَفْقَہُوْنَ تَسْبِیْحَہُمْ الایة کُلٌّ قَدْ عَلِمَ صَلٰوتَه وَتَسْبِیْحَه) سائل یوں لکھتا کہ پہاڑ میرے نزدیک بے حس چیز ہے اور میرے قبل قالب میں قرآن مجید کے سبب سے کبھی کچھ جنبش نہیں ہوئی تو یہ لکھنا اس کا درست بھی ہوتا کیونکہ ممکن ہے کہ پہاڑ اس کے نزدیک بے حس چیز ہو اور قرآن مجید کے سبب سے نہ اس کو جنبش تک ہوتی ہو اور نہ اس نے کسی زندہ دل صاحب تاثیر کو کبھی دیکھا ہو۔ پس علی سبیل الاطلاق ہر دو امر موجودہ سے اس کا انکاری ہو جانا جہل و نادانی پر مبنی ہے (والانسان عدد لما جہل) صدر اول کے برگزید گان اور ان کے رنگ سے رنگین اتباع و اولیاء کرام و دیگر ارباب قلوب و اصحاب ذوق و جذبات کا تو ہم ایسے مسائل کے پاس کیا ذکر کریں، جس کو اللہ تعالیٰ کے اخبار میں تردد و شک ہے۔ ہم موجودہ زمانہ کے عربستان، خراسان ہندوستان مین ایسے موجودہ لوگوں کا تذکرہ کرتے ہیں کہ قرآن مجید کو پڑھتے ہوئے اپنے آپ کو قابو میں نہیں رکھ سکتے ہیں اور غلبۂ بکاء اور رقت کی وجہ سے قرأت نہیں سنا سکتے اور شوق و ذوق کے سبب سے بالکل بے خبر محض ہو جاتے ہیں اور ان کے مقتدی مجلسی لوگ بھی ان کے رنگ سے رنگین ہو کر کانپ کر روتے ہیں، بلکہ بعض لوگ تو مارے تاثیر کے بے ہوش ہو کر گر جاتے ہیں۔ (وَ اِنَّ مِنَ الْحِجَارَۃِ لَمَا یَتَفَجَّرُ مِنْہُ الْاَنْہٰرُ وَ اِنَّ مِنْہَا لَمَا یَشَّقَّقُ فَیَخْرُجُ مِنْہُ الْمَآءُ وَ اِنَّ مِنْہَا لَمَا یَہْبِطُ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ ) میں آدمیوں کی مختلف اقسام کی طرف ایک لطیف اشارہ ہے۔ یعنی جیسے زمین کے مختلف طور پر تم مشاہدہ کر رہے ہو۔ اسی طرح انسانی افراد بھی اپنی طبیعت میں نرمی سختی کے اعتبار سے متفاوت ہیں۔ بعض الٰہی کلام سن کر ان کی آنکھوں سے آنسو نہر کی طرح جاری رہتے ہیں اور بعض لوگ ان کی آنکھوں سے کبھی کبھی آنسو جاری ہو جاتا ہے اور بعض لوگ اللہ تعالیٰ کی باتیں سن کر اس کے خوف سے بے ہوش ہو کر گر پڑتے ہیں اور یہ آیہ: (اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُہُمْ وَ اِذَا تُلِیَتْ عَلَیْہِمْ اٰیٰتُہٗ زَادَتْہُمْ اِیْمَانًا وَّ عَلٰی رَبِّہِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ الایہ اور اَلَا بِذِکْرِ اللّٰہِ تَطْمَءِنُّ الْقُلُوْبُ اللّٰہُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِیْثِ کِتٰبًا مُتَشَابِہًا مَثَانِیَ تَقْشَعِرُّ مِنْہُ جُلُودُ الَّذِیْنَ یَخْشَوْنَ رَبَّہُمْ ثُمَّ تَلِیْنُ جُلُودُہُمْ وَقُلُوْبُہُمْ اِِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ ذٰلِکَ ہُدَی اللّٰہِ یَہْدِیْ بِہٖ مَنْ یَّشَآءُ وَمَنْ یُّضْلِلْ اللّٰہُ فَمَا لَہٗ مِنْ ہَادٍ) میں بھی اسی مضمون کی طرف اشارہ ہے۔ ہم حق تعالیٰ و تقدس کا کیا شکر ادا کریں جس نے اپنے فضل و کرم سے قرآن مجید کے یہ عجیب و غریب تاثیرات اس کثرت سے دکھائے کہ ہم گن نہیں سکتے، بلکہ اپنے قافلہ میں اپنے والد ماجد (عبد اللہ بن محمد الغزنوی) قدس روحہ کے عہد میں ہمیشہ دیکھا کرتے تھے اور ان کے بعد بھی بحمد اللہ اکثر مشاہدہ کرتے ہیں۔ نیز دیگر بلاد میں بارہا دیکھ چکے ہیں۔ پس سائل کا علی سبیل الاطلاق یوں لکھنا کہ انسان کو جنبش تک نہ ہو۔ کس قدر خلاف واقع ہے۔ قرآن مجید میں اگر کچھ تاثیر نہیں تو عربوں کے درندہ خصلت وحشی لوگ کس چیز کی تاثیر سے موم صفت بن کر اعلیٰ درجہ کے عقل مند ہو گئے۔ (وَنُنَزِّلُ مِنَ الْقُرْاٰنِ مَا ھَُوَ شِفَاءٌ وَرَحْمَۃً) طبیب ارواح و مصلح اشباہ حضرت محمد مصطفیa کے دہان مبارک میں وہ کون سی حیات بخش چیز تھی جس کا اثر آج تک مسلمانوں میں موجود و مشہود ہے۔ (یٰٓاَیُّہَا النَّاسُ قَدْ جَآءَ تْکُمْ مَّوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ شِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُوْرِ وَ ہُدًی وَّ رَحْمَةٌ لِّلْمُؤْمِنِیْنَ قُلْ بِفَضْلِ اللّٰہِ وَ بِرَحْمَتِه فَبِذٰلِکَ فَلْیَفْرَحُوْا ہُوَ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ) سائل کو اگر میری اس شہادت میں بھی تردد ہو تو وہ تحقیق و ترقی علم کے واسطے اللہ تعالیٰ کی کھلی زمین میں اس کے باتاثیر بندوں کو ڈھونڈ کر قرآن مجید کی اس عجب تاثیر کو مشاہدہ کر سکتا ہے۔ (وَھٰذَا ذِکْرٌ مُبَارَكٌ اَنْزَلْنَاہُ اَفَاَنْتُمْ لَه مُنْکِرُوْنَ) کے مصداق دیکھ سکتا ہے۔
(حضرت مولانا عبد الجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ امرتسری الاعتصام جلد نمبر ۹ شمارہ نمبر ۴۳)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب