سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(03) علما کرام مندرجہ ذیل سائل کے متعلق ازروئے، شریعت کیا فرماتے ہیں۔

  • 3785
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-25
  • مشاہدات : 2136

سوال

(03) علما کرام مندرجہ ذیل سائل کے متعلق ازروئے، شریعت کیا فرماتے ہیں۔

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

علما کرام مندرجہ ذیل سائل کے متعلق ازروئے، شریعت کیا فرماتے ہیں۔

۱۔ شریعت محمدیہ میں پیر و مرشد بنانا کیاس ہے؟

۲۔ اپنے آپ کو کسی پیر کا مرید کہلوانا کیا حکم رکھتا ہے۔؟

۳۔ پیر کی بیعت کرنی جائز ہے یا نہیں؟

۴۔ بعض مسجدوں میں کچھ لوگ جمع ہو کر مغرب کی نماز کے بعد سو مرتبہ لاالہ الا اللہ اور سو دفعہ صرف الا اللہ اور سو دفعہ اللہ اور سودفعہ ہوگا ورد پڑھتے ہیں۔ پھر کچھ خاموش ہو کر مراقبہ پیر کا تصور کرتے ہیں کیاشریعت میں ایسی صورت جائز ہے۔:

۵۔ ایسی مسجد میں جس کا نقشہ مندرجہ ذیل ہے نماز جائز ہے یا نہیں

جہاں لکیر ہے یہ سب چھوٹے درواز ے ہیں ( نقشہ کتاب سے دیکھیے)

۶۔ بعض لوگوں میں دیکھا گیا ہے کہ کچھ لوگ اکٹھے ہو کر کسی پیر کے گھر جا کر اس کے دروازے پر کھڑے ہو جاتے ہیں جب وہ نکلتا ہے تو تکبیریں کہنے لگ جاتے ہیں اور اس کے آباؤ و اجاد کی تعریف میں مدحیہ قصیدے پڑھتے ہیں۔ اور نبی صلی اللہ کی تعریف میں شعر پڑھتے ہیں۔ اس کے پیچھے پیچھے مسجد تک چلے جاتے ہیں۔ کیا یہ صورت شریعت محمدیہ میں جائز ہے یا نہیں۔:

۷۔ مذکورہ بالا مسجد کے دائیں طرف حجرہ ہیں قبروں کے گرد اگر د دیوار بنی ہوئی ہے ۔ کہیں سے دس فٹ اونچی ہے کہیں سے پندرہ فٹ اور اقل کیا یہ دیوار قبوروں کی حفاظت کے لیے جائز ہے یا نہیں:

۸۔ مذکورہ بالا مسجد کے حجرہ میں جمعہ کی نماز پڑھنے کے بعد امام و مقتدی داخل ہو جاتے ہیں اور قبروں پر ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں۔ کیا شریعت میں جائز ہے یا نہیں۔؟

۹۔ ایک پیر نے کہا کہ میرے آباؤ و اجداد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتے چلے آئے ہیں یہ کیاہے:

۱۰۔ ایک پیر کبھی کبھی اپنے مریدوں میں جاتا ہے۔ اور اپنا ضروری حق جتا کر ان سے روپیہ وغیرہ وصول کرتا ہے اور مریدوں کے دل میں یہ بات جتادی ہے کہ ان کے ال میں پیر صاحب کا حق ہے۔ اس لیے وہ لوگ اپنے اوپر ضروری جان کر پیر صاحب کو اپنے مال دیتے ہیں۔ آیا یہ صورت شریعت میں جائز ہے باوجود حاجت مندنہ ہونے کے پیر صاحب لوگوں سے ان کا مال لیں؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

بسم اللہ الرحمن الرحیم

((الحمد اللہ الذی خلق فسری  والذی قدرفھدی وسلام علی عبادہ الذین اصطفے))

۱۔ پیر و مرشد کی دوغرضیں ہوتی ہیں ایک یہ کہ سیدھا راستہ بتائے۔ گمراہی سے بچائے دوسری یہ کہ شفاعت کرے۔ قیامت کے دن بخشوائے۔ سو ان دونوں غرضوں کے لیے آج کل کے مروجہ پیرو مرشد کی ضرورت نہیں۔ کیوں کہ پہلی غرض کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے

تزکت فیکم امرین لن تضلواما تمسکتم بھما کتاب اللہ وسنة رسوله (مشکوٰة)

یعنی میں نے تم میں دو امر چھوڑے ہیں جب تک ان دونوں کو تھامے رہو گے گمراہ نہیں ہوگے جو شخص پڑھا ہوا ہو وہ دیکھ کر عمل کرے۔ جو ناواقف ہو وہ جس عالم سے موقعہ ملے پوچھ کر عمل کرے جیسے سلف کے زمانہ میں دستور تھا۔ قرآن مجید میں ارشدا ہے۔

﴿فاسئلوا اھل الذکران کنتم لاتعلمون ﴾

اگر تمہیں علم نہ ہو تو علم والوں سے پوچھ

دوسری غرض کی بابت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں۔

اتانی ات من مند ربی فخیرنی بین ان یدخل نصف امتی الجنة وبین الشفاعة فاخترت الشفاعة وھی، ملن مات لایشرك باللہ شیئا (رواہ الترمزی و ابن ماجه/مشکوٰة)

میرے پاس خدا کی طرف سے ایک آنے والا آیا۔ مجھے اختیار دیا کہ تیری نصف امت جنت میں داخل کی جائے یا تو شفاعت کرے میں نے شفاعت اختیار کی شفاعت ہر شخص کو پہنچے گی جو اس حال میں مرگیا کہ اللہ کے ساتھ شرک نہ کرتا ہو۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم توحید والوں کی شفاعت کریں گے پھر اس غرض سے پیرو مرشد کی کیا ضرورت ہے۔

ایک اور حدیث ہے:

یشفع یوم القیامة ثلثة الانبیاء ثم العلماء ثم الشھداء (راوہ ابن ماہ، مشکوٰة)

قیامت کے دن تین قسم کے لوگ شفاعت کریں گے۔ پہلے انبیاء پھر علماء پھر شہید ان کے علاوہ بعض اور کا بھی ذکر ہے۔ لیکن مروجہ پیر و مرشد کا کہیں ذکر نہیں۔

پھر شفارش کا ذمہ دار وہی شخص ہوسکتا ہے جس کو اپنے خاتمہ کا عل ۔ اور یہ نبی کو ہوسکتا ہے۔ یا جس کی بابت نبی کی شہادت ہو۔ دوسرے کو کیا پتہ ہے۔ کہ میرا خاتمہ کیسا ہوگا۔ بڑے بڑے بزرگ اسی خطرہ میں رہے کہ خدا جانے خاتمہ کس حال پر ہوگا۔ بلکہ جن کی جنت کی خوشخبریاں ملیں۔ ان کی کمریں بھی اس خوف سے ٹیڑھی ہوگئیں۔ حضرت عمرؓ اپنی دعا میں روتے ہوئے کہا کرتے تھے۔

((اللھم ان کنت کتبت علی شقوة اوذنبا فامحه فانک تمحوما تشاء وتثبت وعندك ام الکتاب فاجعله سعادة ومغفرة. (ابن کثیر جلد نمبر۲۷۰)

’’اے اللہ اگر تو نے مجھ پر بدبختی لکھی ہے یا گناہ لکھا ہے تو اس کو مٹا دے کیونکہ تو مٹاتا ہے جو چاہتاہے۔ اور ثابت رکھتاہے جو چاہتا ہے اور تیرے نزدیک ہے ان کتابوں کی پس اس بدبختی کو نیک بختی کردے اور گناہ بخش دے۔‘‘

عبداللہ بن مسعود بھی یہی دعا مانگا کرتے تھے۔ بلکہ خاتمہ تو آیندہ کی چیز ہے صحابہؓ تو اپنی موجودہ حالت پر بھی اطمینان نہیں رکھتے تھے۔ بخاری کتاب الایمان ہے۔

عبداللہ بن ابی ملیکہ کہتے ہیں ۔ میں تیس صحابہؓ کو ملا ہوں سب اپنی جان پر نفاق سے ڈرتے تھے جب ان بڑے بڑے بزرگوں کی یہ حالت تھی تو اور کون ایسا پیر و مرشد ہے جو شفاعت وغیرہ کی ذمہ داری لے سکے۔ یہ بالکل واھی خیال ہے۔ بلکہ ایک طرح کی دوکانداری ہے۔ خدا اس سے بچائے اور طریق سلف پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ (آمین)

۲۔ جب اس طرح کا پیر پکڑنا شریعت سے ثابت نہ ہوا چنانچہ نمبر اول میں تفصیل ہوچکی ہے۔ تو نسبت لگانی کیسے درست ہوگی۔ مذہبی نسبت تو ایک ہی پیرو مرشد کی طرف کرنی چاہیے جو سب کا پیر و مرشد ہے۔ یعنی امام اعظم نبی اکرم محمد مجتبےٰ احمد مصطفےٰ صلی اللہ علیہ وسلم یا حدیث کی طرف یا سف کی طرف نسبت کرے۔ جن کی ابتاع ہم پر واجب ہے۔ مثلاً اہل سنت یا اہل حدیث یا سلفی کہلائے تو کوئی حرج نہیں۔ کیوں کہ رسول اللہ ﷺ نے ناجی فرقے کی علامت یہی فرمائی ہے :

ما انا علیه واصحابي ما انا علیه

حدیث ہوئی۔ اور اصحابی سے مراد طریق سلف ہوا۔ سو انہی دور سے اپنی نسبت اور تعلق پیدا کرنا مناسب ہے۔

۳۔ پیری مریدی کی بیعت کا کوئی تسلی بخش مسئلہ نہیں۔ کیونکہ کہ خیر قروں میں اس کا کوئی ثبوت نہیں ملتا۔

۴۔ اس قسم کے اذکار قرآن و حدیث سے ثابت نہیں ۔ یہ خیر قرون میں کسی نے کیئے نہ اما مان دین نے بتائے رسول خدا ﷺ فرماتے ہیں:

من احدث فی امرنا ھذا فھورد

یعنی جو ہمارے دین میں نیا کام جاری کرے گا وہ مردود ہے۔

اب جو صورت سوال میں ذکر ہے اس میں بھی کئی باتیں ہیں۔ ایک وقت مغرب ہمیشہ کے لیے اپنی طرف سے مقرر کرنا پھر سوکی تعداد پر کلمہ کی تقسیم پہلے لاالہ پھر الااللہ پھر اللہ پھر ہو۔ پھر چپ رہنا اور مراقبہ میں شیخ کا تصور کرنا یہ کتنی باتیں اپنی طرف سے ملائی ہیں۔ جن کا شریعت میں نام و نشان نہیں۔ تو کیا ان لوگوں کے سوا خاتہ کارڈ نہیں۔

خاص کر تصور شیخ تو ایک طرح کا شرک ہے کیوں کہ مشکوٰۃ کے شروع میں حدیث ہے:

ان تعبد اللہ کانك نزاہ فان لم تکز نزاہ فانه یراك

اللہ کی عبادت اس طرح کر کہ گو یا تو اس کو دیکھ رہا ہے۔ اگر تجھے یہ مرتبہ حاصل نہ ہو تو کم سے کم تیرے دل میں یہ تو ضرور ہونا چاہیے کہ وہ تجھے دیکھتاہے

جو تصور شیخ کرتے ہیں۔ وہ عبادت غیر اللہ کی صورت دل میں بٹھاتے ہیں۔ اور اس کی مشق اور ریاضت کرتے ہیں۔ اور ظاہر ہے۔ کہ خدا کی جگہ دوسرے کو دینی یہی شرک ہے۔ اگر صفائی مقصود ہے تو بدعت طریق سے صاف درحقیقت صفائی نہیں بلکہ ظلمت ہے خدا اس سے بچائے۔آمین

عن ابی مرثد الغنوی ؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لاتصلوا الی القبورولا تجلسو اعلھا رواہ الجماعة الاالبخاری و ابن ماجه (منتقی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تمام زمین مسجد ہے مگر قبرستان اور حمام

عن اب عمر ؓ قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم اجعلو امن صلوٰتکم فی بیوتکم والا تتخذ و ھا قبورا(رواہ الجماعة الا ابن ماجه (منتقی)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کچھ نماز گھروں میں پڑھو اور ان کو قبریں نہ بناؤ۔

عن عائشه ؓ ان رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم قال فی مرضه الذی لم یقم منه لعن اللہ الیہود والنصاریٰ اتخذ واقبور انبیاء ھم مساجد (متفق)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آخیری بیاری میں فرمایا۔ اللہ یہود و نصاری کو لعنت کرے۔ انہوں نے اپنے پیغمبروں کی قبروں کو مسجدیں بنایا۔

عن ابی ھریرة رضی اللہ عنه قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لا تجعلو ابیوتکم مقابران الشیطان ینفرمن البیت الذی یقرافیه سورة البقرة۔ (رواہ مسلم۔ مشکوٰة کتاب فضائل القران)

اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ بے شک شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے جس میں سورۃ بقر پڑھی جائے۔

پہلی حدیث میں بروں کی ڑف نماز پڑھنے سے منع فرمایا، سوال میں جس مسجد کا ذکر ہے۔ اگر اس کے سامنے کے سارے دروازے کھلے ہوں تو نماز قطعاً حرام ہے کیوں کہ قبریں سامنے ہیں اگر دروازے بند ہوں تو بھی ٹھیک نہیں دروازوں کا قبلہ رخ ہونا شبہ ڈالتا ہے۔ کہ یہ مسجد قبرستان کے متعلق ہے کیونکہ دروازے قبروں کی خاطر رکھے ہیں ایسی مسجد میں نماز ٹھیک نہیں کیوں کہ چوتھی حدیث میں قبروں کو مسجد بنانے میں لعنت کی ہے دوسری حدیث میں قبرستان میں نماز سے منع فرمایا ہے۔ اور اس کے دائیں بائیں قبروں کا ہونا یہ بھی اس بات کی تائید ہے۔ کہ یہ مسجد قبرستان کا حصہ ہے۔ اگر بالفرض مسجد پہلے ہو اور قبریں پیچھے بنی ہوں۔ توبھی کچھ خلل آگیا۔ کیوں کہ تیسری اور پانچویں حدیث میں گھروں کو قبریں بنانے سے نہی کی ہے۔ اور گھر میں قبر کی یہی صورت ہوتی ہے۔ کہ گھر کی حدود اور صحن وغیرہ میں بنا دی جائے۔ دائیں طرف قبر اسی قسم کی معلوم ہوتی ہے۔ اور دوسری قبروں کا حال بھی مشتبہ ہے۔ اس لیے ایسی مسجد میں نماز سے احتیاط کرنا چاہیے اگر قبریں یہاں سے ہٹا دی جائیں۔ اور ہڈیاں دوسری جگہ دفن کی جائیں۔ تو پھر نماز میں کوئی کھٹکا نہیں۔ لیکن قبریں اس وقت ہٹائی جاسکتی ہیں۔ جب مسجد پہلے ہو۔ کیوں کہ اس صورت میں یہ قبریں خلاف شرع ہوں گی جن کا ہٹانا ضروری ہوگا۔ ورنہ مسجد کو یہاں سے ہٹانا چاہیے ہاں اگر مشرکوں کی قبریں ہوں۔ تو ہر صورت میں ہٹائی جاسکتی ہیں۔ مسجد نبوی اسی طرح بنی تھی۔ ہاں اگر قبریں حدود سے بالکل الگ ہوں اور مسجد قبرستان کے حصے میں نہ ہو تو پھر ہٹانے کی ضرورت نہیں۔ مگر قبروں اور مسجد کے درمیان دیوار بنا دینی چاہیے۔ تاکہ کسی وقت اتفاقیہ مسجد کا کوئی دروازہ کھلا رہ جائے تو نظر نہ پڑے۔

اس مسئلہ کی کچھ تفصیل سوال نمبر۶ کے جواب میں دیکھئے

۶۔ منہ پر تعریف منع ہے۔ رسوال اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ منہ پر تعریف کرنے والوں کے منہ میں مٹی ڈالو۔ (مشکوٰۃ ص ۴۱۲) اکثر پیروں کی مجالس میں ان کے سامنے مدحیہ قصائد مبالغہ آمیز پڑھے جاتے ہیں وہ بجائے منع کرنے کے خوش ہوتے ہیں۔ بلکہ اکثر کو دیکھا گیاہے وہ انعام دیتے ہیں۔ سو یہ سب حرام کے مرتکب ہوتے ہیں۔ ہاں نبی کی تعریف منہ پر درست ہے جس کی دو وجہیں ہیں۔ ایک یہ کہ نبی کو فخر نہیں آسکتا۔ اللہ ان کی حفاظت کا ذمہ دار ہوتا ہے۔ دوسری یہ کہ نبی کی بنوت ایمان اور کفر کی کسوٹی ہے اس پر ایمان لانا فرض ہے اس لئے نبی نبوت کا دعوےٰ کرتاہے۔ پس جب اس کو اپنے منہ سے نبوت کے دعویٰ کا حکم سوا جو بڑی عالی مقام ہے تو دوسروں کی مدح معمولی بات ہے کسی اور کا یہ مقام نہیں اس لیے خلفا اور بزرگان دین کے سامنے ایسا کا کبھی نہیں ہواج۔

پھر اس طرح گھر سے نکلنا اور اپنی تعظیم کرانا یہ بھی خلاف شرع ہے۔ اور تو اضع کے منافی ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت حدیث میں آیا ہے۔

ولا یطاء عقببه رجلان (مشکوٰة ص ۳۵۸)

آپ کی ایڑی کو دو آدمی نہیں لتاڑتیت ھے۔ یعنی جیسے دنیاداروں کی عادت ہوتی ہے۔ کہ ان کے پیچھے خادم ہوتے ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایسے نہ تھے۔ بلکہ آپ کی آمد و رفت گھر میں سادی تھی۔

((عن طارق قال خرج عرالی الشام و معنا ابو عبیدة فقال ابو عبیدة و عمر علی ناقة له فنزل و خلع خفیه فو ضعہما علی عاتقه فخاض فقال ابو عبیدة یا ایر المؤمنین انت تفعل هذا مایسرنی ان اھل البلد استشرفوك فقال اوہ ولوقال ذاك غیرك یا ابا عبیدة جعلنه نکالا لامة محمد اناکنا اذل قوم فاعزنا بالا سلام فمہما نطلب العز بغیر ما اعزنا اللہ بدا ذلنا اللہ۔ رواہ الحاکم وقال صحیح علی شر لھما))

(و ترغیب تربیب مندزی ص ۴۴۵)

حضرت عمرؓ ملک شام کی طرف نکلے ابو عبیدہؓ بھی ساتھ تھے۔ رستہ میں چھوٹا چھوٹا پانی آیا۔ حضرت عمرؓ اونٹنی پر تھے۔ اونٹنی سے اتر کر جوتا اتار کر کندھے پر رکھ لیا۔ اور اونٹنی کی مہار ہاتھ میں پکڑلی۔ ابو عبیدہؓ نے کہا اے امیرالمومنین آپ ایسا کرتے ہیں۔ مجھے یہ بات اچھی نہیں لکتی۔ کہ اہل شہر آپ کو اس حالت میں دیکھیں۔ فرمایا افسوس! اے ابوعبیدہؓ اگر کوئی اور ایسی بات کہتا تو میں اس کو رتنبیہ کر کے امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے عبرت بنا دیتا۔ ہم بہت ذیل قوم تھے ۔ اللہ نے ہمیں اسلام کے ذریعہ سے عزت دی۔ پس جب اسلام کے علاوہ کسی اور شے میں ہم عزت ڈھونڈیں گے۔ تو اللہ ہمیں ذلیل کردے گا۔

اس حدیث سے معلوم ہوا کہ آج کل پیر جس طرح سے اپنی عزت کراتے ہیں۔ یہ درحقیقت عزت نہیں بلکہ دوجہاں کی ذلت ہے۔ اور اسلام کے بالکل خلاف ہے۔ اعاذنا اللہ منہ۔

۷۔ جب گھروں میں قبریں بنانی جائز نہ ہو ہیں تو ان کی حافظت کیسے ہوگی۔ بلکہ یہ منکر کام ہے۔ اس کو بدلنا چاہیے ۔ حدیث میں ہے۔

یعنی جو شخص کوئی منکر کام دیکھے اس کو حتیٰ الوسع بدل دے پس یہ قبریں اگر مسلمانوں کی ہیں تو ان کی ہڈیاں نکال کر کسی اور جگہ دفن کی جائیں۔ اگر مشرکوں کی ہیں۔ تو ویسے صاف کردی جائیں۔ ہاں اگر مسجد بعد بنی ہو اور قبریں مسلمانوں کی ہوں۔ تو مسجد کو یہاں سے ہٹا دینا چاہیے۔

اور قبروں کے اوپر کی بنا گرا دینی چاہیے۔ تاکہ یہ قبریں عام قبرستان کی طرح بن جائیں۔ بلکہ اگر پختہ ہوں تو سرے سے مسما ر کردی جائیے جیسے علیؓ کی حدیث الاسویتہ(مشکوۃ) سے بظاہر معلوم ہوتا ہے ۔ ورنہ کم سے کم سنت کے مطابق کچی کردی جائیں۔ کیوں کہ حدیث میں ہے۔

نہی رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم ان یحصص القبوروان یکتب علیھا وان توطاء (رواہ الترمذی۔ مشکوٰة)

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے قبر کو پختہ کرنے سے نہی کی ہے۔ نیز اس پر لکھنے اور لتاڑنے سے نہی کی ہے۔

۸۔ ان قبروں کی زیارت کے لیے جانا اس وقت مسنون ہے جب قبریں سنت کے مطابق ہوں ورنہ منکرا مر کے قیام کے اسباب پیدا کرنا اور ہمیشہ ہر جمعہ کو اجتماعی حالت میں ان کی زیارت کرنا جس سے عوام کے دل یں ان قبروں کی اچھی حالت پر ہونے کا جذبہ پیدا ہو یہ ٹھیک نہیں۔

۹۔ اس قسم کا دیکھنا بیداری میں تو کہیں رہا۔ خواب میں بھی خدا کی طرف سے نہیں ہوتا۔ خیرالقرون میں اور بعد میں بہتیر سے بزرگ گزرے ہیں۔ مگر کبھی کسی کو مقرر طور پر ہمیشہ اس طرح خواب نہیں آیا۔ یہاں تک کہ موروثی ہوگیاہو۔ بلکہ بغیر موروثی ہونے کے بھی اس طرح نہیں آیا۔ ہاں لوگوں کے حیلے اور عملیات ایسے ہوسکتے ہیں۔ تفسیر ابن کثیر جلد نمبر۴۰ ص ۲۴۹ میں ایک لمبی حدیث ذکر کر گئی ہے۔

ہشام بن حاصؓ اموی کہتے ہیں۔ کہ میں اور ایک شخص ابو بکر کی طرف سے ان کی خلافت کے دنوں میں ہر قل بادشاہ روم کے پاس قاصد ہو کر گئے۔ تو اس دربار میں زبان سے کلمہ لا الہ اللہ واللہ اکبر نکلا۔ یہ کلمہ نکلتے ہی وہ محل اس طرح ہلنے لگا۔ جیسے آندھی سے درخت ہلتا ہے۔ دو دفعہ اسی طرح ہوا۔ ہر قل نے کہا اپنے گھروں میں جب تم یہ کلمہ پڑھتے ہو ہمیشہ اسی طرح ہوتا ہے۔ کہا نہیں۔ کہنے لگا اگر تمہارے میں ہمیشہ ایسا ہوتا تو میں اپنا نصف ملک خوشی میں الٹا دیتا ہم نے کہا کیوں؟ کہا اگر ایسا ہوتا ہوتا تو یہ نبوت کا اثر نہ ہوتا بلکہ لوگوں کے حیلوں اور عملیات کی قسم کا ہوتا (جس کا مجھے کوئی خطرہ نہ تھا)

دیکھئے اہل کتاب بھی اس بات سے واقف تھے۔ کہ جو باتیں خدا کی طرف سے بندے کی بزرگی اور کرامت کے اظہار کے لیے ہوتی ہیں۔ وہ اتفاقی ہوتی ہیں ۔ چنانچہ صحابہ وغیرہ کے حالات سے ظاہر ہے ۔ موروثی طور پر خواب کا چلنے آنا یہ عملیات کی قسم سے ہے۔ پھر اعتبار نہیں۔ کہ کہنے واا پیر سچ کہتا ہے یا جھوٹ ۔ اگر سچ کہتا ہے تو اس کو کیا پتہ ہے ۔ کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل ہے۔ یا کسی اور کی بہر صورت یہ کوئی بزرگی کی علامت نہیں ہے۔

۱۰۔ قرآن و حدیث میں کہیں نہیں آیا۔ کہ پیروں کا حق اللہ تعالیٰ نے رکھا ہے بلکہ زکوٰۃ جو سال بسال غنی مسلمانوں پر اللہ تعالیٰ نے فرض کی ہے وہ اہل بیت پر حرم ہے۔ یہ ان لوگوں کے گزرارے کا ڈھنگ بنایاہے۔ لوگوں کو جھوٹ مسئلے بتلا کر حرام کھاتے ہیں ۔ خدا ان کو ہدایت کر دے۔ (اخبار تنظیم اہلحدیث لاہور جلد نمبر۱۳ ش نمبر ۵)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 09 ص 14-22

محدث فتویٰ

تبصرے