السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ہندوپاک کے حاجی اور عمرہ کرنے والے کہاں سے احرام باندھیں؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
مولانا عبدالسلام صاحب رحمانی مدیر ’’ترجمان‘‘ دہلی
جماعت اہلحدیث ہند کے اخبار ’’ترجمان‘‘ دہلی نے (دسمبر ۱۹۷۶ء میں) علمی مقالات پر مشتمل ایک حج نمبر شائع کیا ہے، جس میں یہ بحث بھی اٹھائی گئی ہے، کہ موجودہ حالات میں بحری جہاز کے ذریعہ حج اور عمرہ کرنے والے زائرین راستہ میں احرام باندھنے کی بجائے جدہ میں اتر کر احرام باندھ سکتے ہیں کیونکہ ان کے لیے جدہ ہی گویا میقات ہے، پھر اس کے دلائل بڑی تفصیل سے نمبر کے ایک مقالے میں دئیے گئے ہیں، جو مشہور دیوبندی صاحب علم وقلم مولانا محمد منظور نعمانی (لکھنؤ) کا تحریر کردہ ہے، مقالہ سے پہلے ادارتی نوٹ میں مختصر طور پر موضوع کو منقح کیا گیا ہے، ہمارے علم کی حد تک یہ مسئلہ چونکہ ہمارے ہاں کے حلقوں میں پہلی دفعہ زیر بحث آیا ہے، اس لیے سردست مذکورہ ادارتی نوٹ ’’الاعتصام‘‘ میں بشکریہ ’’ترجمان‘‘ شائع کیا جا رہا ہے، اہل علم وتحقیق اس پر غور فرمائیں واضح رہے کہ مولانا رحمانی مبارک پوری مدظلہ کے جس مبحث کا نوٹ میں حوالہ ہے اس میں تفصیلی دلائل موصوف نے ذکر فرمائے ہیں۔
’’الاعتصام‘‘ کے کالم اس مسئلہ کی تحقیق و تدقیق کے لیے حاضر ہیں۔ واللہ الموفق (ع۔ح)
آفاقی یعنی حدود وحرم مکہ مکرمہ سے باہر کے لوگ حج یا عمرہ کی نیت سے مکہ مکرمہ جائیں ان کے لیے شریعت نے کچھ مقامات متعین کر دئیے ہیں، جہاں سے انہیں حالت احرام میں اندر داخل ہونا چاہیے لیکن ہندوپاک کے حجاج اب بحری راستہ سے مکہ مکرمہ جاتے ہیں، اس راستے میں ان مقاماتِ متعینہ میں سے کوئی مقام نہیں پڑتا، اس لیے سوال پیدا ہوتا ہے کہ یہ لوگ کہاں سے احرام باندھیں، پہلے جب اہل ہند یمن کے راستے سے مکہ مکرمہ پہنچتے تھے تو یلملم سے احرام باندھ کر جاتے تھے جو کہ یمن کی طرف سے مکہ مکرمہ جانے والوں کا میقات ہے، لیکن اب ہندوپاک سے بحری جہاز سیدھے جدہ پہنچتے ہیں اور اس راستہ میں نہ یلملم آتا ہے نہ مواقیت متعینہ میں سے کوئی اور میقات۔ لیکن اب بھی ہندوپاک کے اکثر حجاج یلملم ہی کو اپنا میقات ٹھہرا کر ایک جگہ سے احرام باندھ لیتے ہیں، جسے محاذات یلملم قرار دیا جاتا ہے، حالانکہ اب اس راستے سے جانے کی صورت میں یلملم کو میقات ٹھہرانے کی کوئی معقول وجہ نہیں ہے، چنانچہ اب ہندوپاک کے بہت سے علمائے احناف واہل حدیث اس بات پر متفق ہیں کہ اس راستہ سے جانے والے حجاج کو جدہ سے پہلے احرام باندھنے کی ضرورت نہیں ہے، حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی نے جو ایک جید محقق حنفی عالم ہیں اس موضوع پر اپنے ماہنامہ ’’الفرقان‘‘ لکھنؤ ماہ (شعبان ۱۳۸۷ہجری) میں ایک مدلل مقالہ شائع کیا تھا، جماعت اہل حدیث ہند کے ممتاز محقق ومحدث حضرت مولانا عبیداللہ صاحب رحمانی مبارک پوری حفظہ اللہ نے مرعاۃ شرح مشکوٰۃ کتاب المناسک میں اس مسئلہ پر بڑی تفصیلی بحث کی ہے، آپ بحث کا آغاز کرتے ہوئے فرماتے ہیں، ہندوپاک کے حجاج جو بحری راستہ سے سفر حج میں نکلتے ہیں ان کا معمول ہے کہ جب ان کا جہاز یمن کے بعض سواحل کے قریب پہنچتا ہے، اور وہ ابھی جدہ بندرگاہ سے ایک شب و روز کی یا اس سے زائد کی دوری پر ہوتا ہے، تو حجاج وہیں سمندر میں احرام باندھ لیتے ہیں، اس خیال سے کہ اب وہ یلملم کے محاذات میں آگئے جو کہ میقات ہے اہل یمن کا اور ان لوگوں کا جو اس راستہ سے مکہ جائیں، ہندوپاک کے حجاج کا یہ عمل میرے نزدیک محل نظر ہے، میرے نزدیک صحیح یہ ہے کہ جدہ پہنچنے سے پہلے سمندر میں کہیں بھی احرام باندھنا ان کے لیے ضروری نہیں ہے، حجاج کو چاہیے کہ اپنا احرام موقوف رکھیں، یہاں تک کہ جب وہ جدہ پہنچ جائیں‘ تو وہیں سے احرام باندھ کر مکہ کے لیے روانہ ہوں۔‘‘ (ص ۲۳۵ ج ۱۶ طبع بنارس)
اس کے بعد صاحب مرعاۃ نے اس بحث کو بہت ہی مدلل ومفصل بیان کرتے ہوئے لکھا ہے:
’’البتہ ہندوپاک کے وہ حجاج جو ہوائی جہاز سے جدہ جائیں، وہ چونکہ قرن المنازل یا ذاتِ عرق سے ہو کر گزرتے ہیں اور یہ دونوں ان مواقیت متعینہ میں سے ہیں جن سے بغیر احرام گزرنا جائز نہیں ہے اس لیے ہوائی جہاز سے سفر کرنے والے حجاج کو چاہیے کہ وہ احرام کا لباس جہاز میں سوار ہونے سے پہلے پہن لیں اور جب ان دونوں مقامات میں سے کسی میقات پر پہنچیں تو تلبیہ پکارنا شروع کر دیں اگر ان پر سے گزرنے کی ساعت معلوم نہ ہو سکتی ہو تو احتیاطاً جہاز پر سوار ہونے کے ساتھ ہی احرام باندھ لیں۔‘‘ (مرعاۃ ص ۲۳۸ ج۶)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب