السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
مسجد نبویؐ کی زیارت اور اس کے آداب
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(حضرت علامہ شیخ عبدالعزیز بن باز وائس چانسلر مدینہ منورہ یونیورسٹی سعودی عرب)
حج سے پہلے یا حج کے بعد مسجد نبویؐ کی زیارت سنت ہے، بخاری مسلم میں سیدنا ابوہریرہؓ سے روایت ہے سید الانبیاء حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری مسجد میں ایک نماز بیت اللہ کے سوا ہر مسجد میں پڑھی ہوئی ایک ہزار نماز سے بہتر ہے۔ صحیح مسلم میں حضرت عمر فاروقؓ سے روایت ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا میری مسجد میں ایک نماز مسجد الحرام بیت اللہ کے علاوہ باقی ہر مسجد کی ہزار نماز سے افضل ہے، مسند احمد، ابن خزیمہ، ابن حبان میں روایت ہے، عبداللہ بن زبیرؓ فرماتے ہیں، سرورکائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری مسجد میں پڑھی ہوئی ایک نماز مسجد الحرام کے علاوہ باقی ہر مسجد میں پڑھی ہوئی ایک ہزار نماز سے افضل ہے۔ مسند احمد اور ابن ماجہ میں ہے۔ حضرت جابرؓ فرماتے ہیں نبی اکرمصلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسجد الحرام کے سوا میری مسجد میں ایک نماز باقی ہر مسجد کی ایک ہزار نماز سے بہتر ہے اور مسجد الحرام کی ایک نماز باقی ہر مسجد کی ایک لاکھ نماز سے افضل ہے، اس مفہوم ومعنی کی اور بھی بہت سی احادیث ہیں، مسجد نبویؐ میں نماز پڑھنا دعا کرنا، عبادت اس قسم کے امور کے لیے مدینہ منورہ کا قصد سفر کرنا نہ صرف حاجیوں کے لیے بلکہ سب مسلمانوں کے لیے جائز ومشروع ہے۔
سنت طریق یہ ہے کہ زیارت کرنے والا پانچ وقت نماز مسجد نبویؐ میں ادا کرے اور مسجد نبویؐ میں نماز، دعا، ذکر الٰہی کو اپنے لیے غنیمت سمجھے، اس لیے کہ مسجد نبویؐ میں عبادت بڑے اجر و ثواب کا ذریعہ ہے اور مستحب ہے کہ اس جگہ میں جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے روضۃ من ریاض الجنۃ فرمایا ہے، بکثرت نفل نماز پڑھے، صحیح حدیث میں اس جگہ کی فضیلت کا بیان ہے، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا وہ خطہ زمین جو میرے منبر اور گھر کے درمیان ہے، وہ جنت کے باغیچوں میں سے ایک باغیچہ ہے، زیارت کنندہ وغیرہ کے لیے مناسب ہے کہ وہ فرض نماز کے لیے آگے بڑھے حتیٰ الامکان پہلی صف کی محافظت کرے اگرچہ صف اول پہلی تو سیع شدہ جگہ میں ہو، چنانچہ صحیح احادیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلی صف میں شامل ہونے کی ترغیب دی ہے، آپ نے فرمایا اگر لوگوں کو اذان اور پہلی صف میں شامل ہونے کا علم ہو جائے تو وہ گھٹنوں کے بل چل کر بھی آئیں گے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ کو فرمایا، آگے بڑھو، تم میری اقتدا کرو اور تمہارے بعد آنے والے تمہاری اقتدا کریں اور آدمی نماز میں پیچھے ہٹتا ہٹتا ایسا ہو جاتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اس کو پیچھے ہٹا دیتا ہے۔ مسلم ابوداود نے حضرت عائشہ صدیقہ سے بسند صحیح بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، آدمی پہلی صف سے پیچھے ہٹتا رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ بھی اس کو آگ میں پیچھے رکھے گا، اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہؓ کو یہ بھی فرمایا کہ تم نماز میں اس طرح صف کیوں نہیں باندھتے جیسا کہ فرشتے اپنے رب کے سامنے صف باندھتے ہیں، صحابہؓ نے دریافت کیا کہ اللہ کے رسولؐ فرشتے اپنے رب کے سامنے کس طرح صف باندھتے ہیں۔ آپؐ نے فرمایا وہ سب سے اول پہلی صف کو پورا کرتے ہیں اور سیسہ پلائی دیوار کی طرح صف باندھتے ہیں۔ (مسلم) اس معنی کی اور بھی بے شمار احادیث ہیں جو مسجد نبوی کی توسیع سے پہلے اور توسیع کے بعد ساری مسجد کو شامل ہیں اور یہ بھی صحیح ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہؓ کو صفوں کی دائیں طرف کھڑے ہونے کی ترغیب دیتے تھے، اور یہ بات بھی معلوم ہے کہ توسیع سے پہلی مسجد نبویؐ میں صف کی دائیں جانب روضہ سے الگ ہے۔ مذکورہ بالا احادیث سے ظاہر ہے کہ پہلی صفوں اور صفوں کی دائیں جانب کھڑا ہونا روضہ میں جگہ لینے سے مقدم ہے اور ان ہر دو کی محافظت روضہ میں نماز ادا کرنے کی محافظت سے بہتر ہے، جو شخص اس مسئلہ میں وارد شدہ اہادیث میں تامل کرے گا، اس پر ہماری بات اچھی طرح واضح ہو جائے گی اور یہ بات قابل یاد ہے کہ کسی شخص کے لیے قطعاً جائز نہیں کہ وہ مسجد نبویؐ یا روضہ نبویؐ کے کسی پتھر کو چھوئے یا بوسہ دے یا روضہ رسول کا طواف کرے اس لیے کہ ایسے کام کرنا سلف صالحین سے ثابت نہیں، بلکہ بری بدعت ہے اور یہ بھی جائز نہیں کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے حاجت روائی یا شفا وغیرہ کا سوال کیا جائے۔ اس قسم کا سوال اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں کرنا چاہیے فوت شدہ بزرگوں سے حاجات طلب کرنے میں جہاں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک لازم آتا ہے، وہاں اس میں غیر اللہ کی عبادت پائی جاتی ہے۔
دین اسلام کی بنیاد دو باتوں پر ہے، اول اللہ تعالیٰ کے سوا کسی دوسرے کی عبادت نہ کرنا۔ دوم: حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایت کے مطابق عبادت کرنا۔ کلمہ شہادت لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں کسی شخص کے لیے یہ بھی جائز نہیں کہ حضورؐ سے وہ شفاعت کا سوال کرے اس لیے کہ شفاعت کا کام تو اللہ تعالیٰ کے قبضہ میں ہے اس لیے شفاعت کا سوال اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں کیا جا سکتا، اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: قل للہ الشفاعۃ جمعیا،(پ۲۴ع۲) اے پیغمبر اعلان کر دیجئے کہ سب شفاعت کا مالک صرف اللہ تعالیٰ ہے۔ یہ بات یاد رکھو کہ فوت شدہ بزرگ خواہ وہ نبی ہوں یا ان کے علاوہ دوسرا کوئی ولی بزرگ ہو ان سے نہ شفاعت کا سوال کیا جا سکتا ہے اور نہ ان سے کسی اور شئے کا مطالبہ ہو سکتا ہے، اس لیے کہ ایک تو شریعت نے اس کی اجازت نہیں دی اور دوسرے اس لیے کہ میت کے اعمال تو منقطع ہو چکے ہیں، البتہ جو اس نے صدقہ جاریہ قسم کے اعمال کیے ہیں، ان کا ثواب ان کو بدستور پہنچ رہا ہے، ایسے اعمال کو شریعت نے بیان کر دیا ہے، چنانچہ مسلم میں حدیث ہے، بروایت ابوہریرہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ انسان کے مرتے ہی تمام اعمال منقطع ہو جاتے ہیں، مگر تین عمل جاری رہتے ہیں۔ (۱) صدقہ جاریہ (۲)علم جس کا فیض جاری ہو۔ (۳)نیک اولاد جو دعا کرتی ہو، اس حدیث سے ظاہر ہے کہ جاری اعمال میں شفاعت نہیں ہے، اس لیے فوت شدہ نبی یا کسی ولی سے شفاعت کا سوال نہیں ہو سکتا البتہ دو وقت میں سوال ہو سکتا ہے، موت سے پہلے یا قیامت کے دن ان دو وقتوں میں حضورؐ کو شفاعت پر قدرت حاصل ہے، ہمارا ایمان ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھ کر اپنے رب سے شفاعت کا اذن طلب کریں گے، اور موت سے پہلے شفاعت پر حضور صلی اللہ علیہ وسلم قادر ہیں، مگر یہ شفاعت حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا خاصہ نہیں کہ آپؐ کے بغیر دوسرا کوئی سفاعت نہیں کرسکتا، بلکہ دنیا میں شفاعت کا مسئلہ عام ہے، ایک بھائی دوسرے بھائی سے سوال کر سکتا ہے کہ وہ اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے شفاعت کرے، مگر اس دنیا میں شفاعت کا معنی کسی کام کے لیے اللہ تعالیٰ سے دعا کرنا ہے، اس لیے سفارشی کے لیے جائز ہے کہ وہ دعا کرے، شرط یہ ہے کہ جس کام کے لیے سفارش ہو وہ جائز ہونا جائز نہ ہو، قیامت کے دن شفات تو ہو سکتی ہے مگر اللہ تعالیٰ کی اجازت کے بغیر کوئی شخص بھی شفاعت کا مجاز نہیں ہے، اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: من ذالذی یشفع عندہ الا باذنہ کہ اللہ تعالیٰ کے اذن کے بغیر کوئی شخص شفاعت نہیں کرے گا، ایک تیسری موت کی حالت ہے کہ نہ اس کو دنیا کی زندگی کہا جا سکتا ہے اس لیے کہ اس حالت میں تو عمل منقطع ہو چکے ہیں اور نہ ہی موت کی حالت کو قیامت کے دن کی زندگی پر محمول کیا جا سکتا ہے، ایک تو اعمال منقطع ہیں، دوسرا وہ اپنے اعمال کی بنا پر قید ہے، ہاں جو اعمال منقطع نہیں وہ شریعت نے بیان کر دئیے ہیں مگر ان اعمال میں شفاعت کا مسئلہ نہیں ہے۔
یہ ٹھیک ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر میں زندگی ایک برزخی زندگی ہے، جو شہداء کیز ندگی سے بہت زیادہ کامل اور اکمل ہے، مگر برزخی زندگی کو موت سے پہلے اور قیامت کے دن کی زندگی پر محمول نہیں کیا جا سکتا۔ بلکہ قبر کی زندگی ایسی برزخی زندگی ہے کہ جس کی حقیقت اور کیفیت کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا جیسا کہ حدیث میں ہے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جب کوئی شخص مجھ پر سلام کہتا ہے تو میری روح اللہ تعالیٰ مجھ پر لوٹا دیتا ہے، میں اس کے سلام کا جواب دیتا ہوں، اس حدیث سے ظاہر ہے کہ آپ پر موت واقع ہو چکی ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی روح آپ کے جسد مبارک سے علیحدہ ہے، مگر سلام کے وقت روح جسد میں لوٹائی جاتی ہے، اس حدیث کے علاوہ قرآن وسنت کی نصوص کثیرہ اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ موت آپؐ پر وارد ہو چکی ہے، سلف کا بھی اس مسئلہ میں کوئی اختلاف نہیں مگر موت کے وارد ہونے کا قطعاً یہ مطلب نہیں کہ قبر میں آپؐ کو برزخی زندگی حاصل نہیں۔ دیکھئے شہداء کی موت آچکی ہے، مگر موت کے باوجود قبر میں ان کو برزخی زندگی حاصل ہے، اس کی دلیل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ
﴿وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآءٌ عِنْدَ رَبِّہِمْ یُرْزَقُوْنَ﴾ (اٰل عمران: ۱۶۹)
’’جولوگ اللہ کی راہ میں قتل ہو جاتے ہیں، ان کو مردہ مت کہو بلکہ وہ اپنے رب کے پاس زندہ ہیں وہ رزق دئیے جاتے ہیں۔‘‘
جس طرح شہداء پر موت وارد ہونے کے باوجود آپ کو برزخی زندگی حاصل ہے مگر شہداء کی برزخی زندگی سے آپؐ کو جو زندگی ملی ہے، بہت اکمل ہے، زائرین میں سے بعض قبری نبویؐ کے نزدیک آواز بلند کرتے ہیں اور احتراماً دیر تک قیام کرتے ہیں، یہ شریعت کے خلاف ہے، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ نے پوری امت کو منع کیا ہے کہ وہ نبی کی آواز سے اپنی آواز کو اونچا کریں یا آپ کو اس طرح آواز دیں جیسا کہ بعض کو آواز دیتا ہے اور ان کو ترغیب دی ہے کہ حضورصلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی آواز کو پست کریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
﴿یٰٓاََیُّہَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلَا تَجْہَرُوْا لَه بِالْقَوْلِ کَجَہْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَo اِِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَہُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُوْلٰٓئِكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَہُمْ لِلتَّقْوٰی لَہُمْ مَغْفِرَة وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ﴾(الحجرات: ۱۔۲)
یعنی ’’اے ایمان والو! اپنی آواز کو نبی کی آواز سے اونچا نہ کرو اور نہ اس طرح آواز دو جیسا کہ تم میں سے بعض بعض کو آواز دیتا ہے، ایسا نہ ہو کہ تمہارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تمہیں پتہ بھی نہ ہو، بے شک وہ لوگ جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس اپنی آواز کو پست کرتے ہیں، یہ لوگ ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ان کے دلوں کو تقویٰ کے لیے خاص کر دیا ہے، ان کے لیے بخشش اور بڑا اجر ہے۔‘‘
علاوہ ازیں قبر کے پاس دیر تک قیام کرنا اور بکثرت سلام پڑھنا، اس سے قبر کے پاس لوگوں کو اژدھام ہو جاتا ہے اور چیخ وپکار شروع ہو جاتی ہے، یہ ان آیات حکمت کے خلاف ہے، حضور صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگی میں بھی قابل احترام ہیں اور وفات کے بعد بھی واجب الاحترام ہیں، پس مومن کے مناسب مال نہیں کہ وہ قبر نبویؐ کے پاس کھڑے ہو کر شرعی آداب کی مخالفت کرے۔
اسی طرح زائرین میں سے بعض زائر قبر کے نزدیک ہو کر قبر کی طرف اپنا رخ کر کے ہاتھ اٹھا کر دعا کرتے ہیں، یہ بھی سلف صالحین صحابہ کرامؓ اور تابعین کے خلاف ہے بلکہ یہ بدعت۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((علیکم بسنتی وسنة الخلفاء الراشدین المهدیین من بعدی تمسکوا بہا وعضوا علیہا بالنواجذ وایاکم ومحدثات الامور فان کل محدثة بدعة وکل بدعة ضلالة))
یعنی ’’میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم اور مضبوط پکڑو، بدعت کے کاموں سے بچو پس بلا شبہ نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔‘‘
اس حدیث کو ابوداؤد ونسائی نے حسن سند سے روایت کیا ہے، اور آپؐ نے یہ بھی فرمایا: من احدث فی امرنا هذا ما لیس منه فہورد۔ یعنی ’’جو شخص ہمارے امر دین میں نئی بات نکالے جو اس میں سے نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘ اس حدیث کو بخاری اور مسلم نے روایت کیا ہے، مسلم کی ایک روایت کے یہ الفاظ ہیں من عمل عملا لیس علیه امرنا فهو رد۔ یعنی ’’جو شخص ایسا عمل کرے کہ اس پر ہماری اجازت نہیں ہے تو وہ مردود ہے۔‘‘ امام زین العابدین علی بن حسین نے ایک شخض کو قبر نبوی کے پاس دعا کرتے دیکھا تو اس کو روکا اور فرمایا کہ میں تجھ کو ایک ایسی حدیث نہ سناؤں جو میں نے اپنے باپ اور انہوں نے میرے دادا سے اور میرے دادا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہے، آپؐ نے فرمایا میری قبر کو میلہ نہ بناؤ اور اپنے گھروں کو قبریں نہ بناؤ، مجھ پر درود پڑھو، تم کہیں بھی ہو، تمہارا درود مجھ تک پہنچایا جاتا ہے، اس حدیث کو حافظ محمد بن عبدالواحد مقدسی نے اپنی کتاب المختار میں بیان کیا ہے۔
اسی طرح زائرین میں سے بعض سلام پڑھتے وقت اپنے سینے پر یا اس کے نیچے ہاتھ باندھتے ہیں جیسا کہ نمازی ہاتھ باندھتا ہے، سلام حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر ہو یا کسی بادشاہ یا کسی زاعیم وغیرہ کے لیے ہو سلام کے وقت یہ حالت اختیار کرنی ناجائز ہے اس لیے کہ یہ حالت عاجزی انکساری اور عبادت کی ہے، جو اللہ تعالیٰ کے سوا کسی کے لیے لائق نہیں جیسا کہ حافظ ابن حجرؒ نے علماء سے بیان کیا ہے، یہ بات صاف ہے اور اس پر واضح ہے، جو سلف صالحین کی اتباع کرتا ہے اور جس پر تعصب، خواہش، اندھی تقلید غالب ہے اور سلف صالحین کی ہدایت کی دعوت دینے والوں پر سوء ظن ہے، اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے، ہم اپنے لیے اور اس کے لیے اللہ تعالیٰ سے ہدایت اور باطل کے خلاف ایثار حق کی توفیق کا سوال کرتے ہیں، اور بہتر مسئول وہی ہے، اس طرح زائرین میں بعض زائرین دور ہی سے قبر کی طرف منہ کرتے ہیں سلام یا دعا کے لیے اپنے ہونٹ ہلاتے ہیں۔ یہ بھی ما قبل کی طرح بدعت میں شامل ہے، کسی مسلمان کے شایان شان نہیں کہ دین میں ایسی بات نکالے جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت نہیں دی۔ ایسا کرنے سے وہ دوستی اور قرب کی نسبت جن کے زیادہ قریب ہے۔ امام مالکؒ نے اس عمل اور اس جیسے دوسرے اعمال کا سختی سے انکار کیا ہے، اور فرمایا ہے: لن یصلح اخر ہذہ الامۃ الا ما اصلح اولہا۔ ’’یعنی اس امت کے پچھلے لوگ صالح نہیں ہوں گے، مگر اس نیکی سے جس کو پہلوں نے اپنایا ہے۔‘‘ اور یہ بات اچھی طرح معلوم ہے، کہ اس امت کے اول لوگوں نے جس بات کی اصلاح کی ہے، وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور خلفاء راشدین اور آپ کے صحابہ کرامؓ اور تابعینؒ کی سیرت وعمل ہے اور اس امت کے پچھلے لوگ اس کے بغیر صالح نہیں ہو سکتے۔ تاوقتیکہ وہ پہلے لوگ کی سیرت سے تمسک نہ کریں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ مسلمان کو ایسے کاموں کی توفیق دے، جن سے ان کی نجات اور سعادت ہو، اور اللہ تعالیٰ ان کو دنیا اور آخرت میں باعزت رکھے، انہ جواد کریم۔ (اخبار تنظیم اہلحدیث لاہور جلد۲۲ شمار ۴۵،۴۶)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب