الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اس روایت كو امام عجلونی رحمہ اللہ نے اپنی کتاب كشف الخفاء میں ذكر کیا ہے۔ (كشف الخفاء: 2016)
یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان نہیں ہے، بلکہ لوگوں نے اس کو حدیث کہہ کر مشہور کیا ہوا ہے۔
امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ اس روایت کے حوالے سے فرماتے ہیں:
هذا ليس من كلام النبيّ صلّى الله عليه وسلم، ولا أعرف له إسنادا صحيحا ولا ضعيفا.(مجموع الفتاوى: 18/122)
یہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی کلام نہیں ہے۔ ميرے علم کے مطابق اس کی کوئی صحیح سند تو كجا ضعیف سند بھی نہیں ہے ۔
امام عجلونی رحمه الله اس روایت کو ذكر كرنے کے بعد فرماتے ہیں: کہ حافظ ابن حجر، امام زرکشی اور امام سیوطی رحمهم الله نے بھی اس روایت کے بارے ایسا ہی تبصرہ کیا ہے جیسے امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔ (كشف الخفاء: 2016)
امام البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
أنه حديث لا أصل له(الضعيفة: 1/ 166)
یقینا یہ بے بنیاد حدیث ہے (اس کی کوئی سند نہیں ہے)۔
والله أعلم بالصواب
محدث فتویٰ کمیٹی
01. فضیلۃ الشیخ ابومحمد عبدالستار حماد حفظہ اللہ
02. فضیلۃ الشیخ عبدالخالق حفظہ اللہ