السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
(۱)کیا عورت پر فرضیت حج کے لیے اس کے ساتھ محرم کا ہونا بھی شرط ہے، جیسے زاد وراحلہ یعنی اگر اس کے ساتھ جانے والا شوہر یا محرم موجود نہ ہو، تو عورت پر حج فرض ہوگا یا نہیں؟
۲۔ اگر عورت بغیر محرم کے حج کر آئے تو کیا فرضیت حج ساقط ہو جائے گی، یعنی پھر کبھی محرم اس کے ساتھ جانے والا ہو اور زاد وراحلہ بھی ہو تو اس پر حج فرض تو نہ ہوگا۔ (ایک سائل از مسلمانان چک نمبر ۲۴۹لائلپور)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
امام احمد اور امام ابوحنیفہ کے نزدیک عورت پر فرضیت حج کے لیے شوہر یا محرم کا موجود ہونا زاد و راحلہ کی طرح شرط ہے، بغیر محرم اور شوہر کے حج کو چلی جائے تو امام احمد کے نزدیک یہ حج اس کو کفایت کر جائے گا۔ قال فی الروض المربع وان حجت بدون محرم اجزء انتہی، ان دونوں اماموں کے نزدیک عورت کے حق میں استطاعت مشرط فی القرآن سے مراد زاد وراحلہ اور محرم کا مجموعہ ہے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((لا تحج امراة الا معها محرم فقال رجل یا نبی اللہ انی اکتتبت فی غزوة کذا وکذا، الحدیث اخرجه البزار عن ابن عباسؓ قال الحافظ فی الدرایة واخرجه الدارقطنی بنحوہ واسنادہ صحیح وهو فی الصحیحین من هذا الوجه بلفظ لا تسافر انتہی وقال فی الفتح صح حدیث الدارقطنی ابو عوانه))
علامہ شوکانیؒ کا میلان اسی قول کی طرف سے کما لا یخفی علی من طالع النیل اور امام مالک اور امام شافعی کے نزدیک عورت کے لیے زادوراحلہ کے ساتھ محرم یا شوہر کی ضرورت تو ہے لیکن جس عورت کا خاوند یا محرم موجود نہ ہو یا ہو لیکن ساتھ جانے سے انکار کر دے یا جانے سے عاجز و معذور ہو تو ایسی عورت دیندار ثقہ عورتوں کی جماعت کے ساتھ جو اپنے شوہروں یا محروموں کے ساتھ حج کو جارہی ہوں، چلی جائے، ان دونوں اماموں کے نزدیک ثقہ دیندار عورتوں کی جماعت شوہر یا محرم کے قائم مقام ہو جائے گی، یعنی جس عورت کو زاد وراحلہ پر قدرت ہو اور محرم یا شوہر موجود نہ ہو لیکن مومن ثقہ عورتوں کی جماعت عازم حج موجود ہے تو اس پر حج فرض ہو جائے گا، غرض یہ کہ ان کے نزدیک عورت فرضیت حج کے لیے محرم یا شوہر شرط نہیں کما صرح به ابن رشد والنووی وابن قدامة والبغوی وعیاض وغیرهم والیه ذهب ابن حزم، اس دوسرے مذہب پر نو دلیلیں پیش کی جاتی ہیں، من شاء الوقوف علیہا فلیراجع المحلی لابن حزم ص۵۶ ج۷ والنیل للشوکانی والمغنی لابن قدامة ج۳ ص ۹۲ والفتح للحافظ وقد اجاب عن بعضہا اصحاب قول الاول واغمضوا عن بعضہا لکونہا عقیمة عن الجواب۔
دلائل کی رو سے دوسرا مذہب راجح ہے، یعنی وہ عورت جو زاد وراحلہ پر قدرت رکھتی ہو، لیکن اس کا محرم یا خاوند موجود نہ ہو، وہ دیندار متقی عورتوں کے ساتھ جو اپنے شوہروں یا محروموں کی معیت میں حج کو جا رہی ہوں چلی جائے، لوقوع اجماع الصحابۃ فی عہد عمر علی جواز سفر المرأۃ للحج من غیر زوج ومحرم، رہ گئی، حضرت ابن عباسؓ کی مرفوع حدیث لا تحج امرأۃ الا ومعہا محرم، تو اولاً یہ حدیث صحاح میں بجائے اس لفظ کے لا تسافر امرأۃ کے لفظ کے ساتھ مروی ہے، صرف بزار اور دارقطنی کی روایت میں لاتحج کا لفظ وارد ہے اور اس کی سند بقول حافظ اگرچہ صحیح ہے لیکن صحت سند صحت متن کو مستلزم نہیں ہے اور ثانیاً اگر یہ لفظ لا تحج محفوظ ہو تو اس کو نفلی حج پر محمول کریں گے۔
۲۔ دوسرے سوال کا جواب بھی اسی میں آگیا ہے۔ (اخبارالاعتصام جلد۲۴ ش۳)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب