السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
زید کے دلائل: زید کہتا ہے، عورت کو محرم کے سوا حج کے لیے جانا جائز نہیں ہے، وہ عموم سفر والی احادیث پیش کرتا ہے، ایک وہ حدیث جو صحابی نے دربار نبوت میں عرض کیا تھا۔
کہ میرا نام فلاں جنگ میں لکھا گیا ہے اور میری بیوی حج کے لیے تیار ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تم اپنی بیوی کے ساتھ حج کو جاؤ تمہاری جگہ کسی اور کو بھرتی کر لیا جائے گا۔ اس حدیث سے ثابت ہوا کہ حج کا سفر غیر محرم کے ساتھ ناجائز ہے۔
عمرو کے دلائل: عمرو کہتا ہے عورت اکیلی یا عورتوں کے ہمراہ حج کو جا سکتی ہے، اس کے دلائل یہ ہیں:
دلیل اوّل: بخاری مسلم میں حدیث ہے خثعم قبیلہ کی ایک عورت نے عرض کی اے اللہ کے رسولؐ میرا باپ بہت بوڑھا ہے، میں اس کی طرف سے حج کروں، تو کیا حج ہو جائے گا۔ فرمایا ہو جائے گا، اس حدیث کے تحت امام نوویؒ نے لکھا ہے۔
عورت محرم کے سوا حج کو جا سکتی ہے۔
دلیل دوم: صحیح بخاری میں حدیث ہے، ایک عورت نے خدمت نبویؐ میں عرض کی کہ میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی لیکن وہ نذر پوری کرنے سے پہلے فوت ہوگئی کیا میں اس کی طرف سے نذر پوری کروں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جواب دیا کہ ہاں پوری کرو۔
دلیل سوم: بخاری مسلم کے حوالہ سے مشکوٰۃ میں ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ازواج مطہرات کے ہمراہ ابن عباسؓ کو روانہ کیا کہ تم منیٰ میں پہنچ جاؤ۔
دلیل چہارم: بخاری باب حج النساء میں ہے کہ حضرت عمرؓ کی اجازت سے عثمان بن عفان اور عبدالرحمن بن عوف کے ہمراہ حرم مبارک حج کو گئے۔
دلیل پنجم: صحیح مسلم میں حدیث ہے نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت سودہؓ کو غلام کے ہمراہ منیٰ ۱؎ میں روانہ فرمایا۔
۱؎ قسطلانی میں اس حدیث کے تحت لکھا ہے، آپ کے ساتھ دیگر عورتیں بھی تھیں۔ عام عورتیں محرم کے قائم مقام ہو جاتی ہیں۔
ان دلائل سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت سفر حج کر سکتی ہے، اکیلی ہو یا عورتوں کے ساتھ امام نوویؒ لکھتے ہیں: عطائ، سعید بن جبیر، امام اوزاعی، امام شافعی رحمہم اللہ اور دیگر بہت ائمہؒ فرماتے ہیں کہ عورتوں کی جماعت ہو تو جائز ہے کیونکہ ایک دوسری کے ساتھ مل جل کر عورتیں محرم ہو جاتی ہیں اور دل مطمئن ہو جاتا ہے، اور امام مالکؒ نے تو باب ہی باندھا ہے۔
حج المرأۃ بغیر ذی محرم۔ یعنی امام مالکؒ نے فرمایا ہے کہ جس عورت کا خاوند نہیں اور اس نے حج نہیں کیا اگر ان کا کوئی مرد نہ ہو یا ہو مگر ساتھ نہ جا سکے تو وہ عورت فریضہ حج ترک نہ کرے بلکہ دوسری عورتوں کے ساتھ جائے۔
موطا امام مالکؒ کیونکہ عورتیں عام ہوں تو قائم مقام محرم کے ہو جاتی ہیں اور ایک دوسری کی محرم بن جاتی ہیں۔
سوال:… یہ ہے کہ زید اور عمرو دونوں میں سے حق بجانب کون ہے، مدلل جواب فرمائیں، تحقیق مسائل میں آپ کی ہستی پر جماعت کو بحمد للہ فخر ہے۔ (عطاء اللہ مولوی فاضل)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
اصول کا قاعدہ ہے وقائع الاعیان لا یحتج بہا علی العموم، (نیل الاوطار ج ۳ص ۱۰۷) یعنی خاص واقعات سے عام استدلال صحیح نہیں۔ اس بنا پر عمرو کی پہلی دلیل اور دوسری دلیل قابل استدلال نہیں رہیں کیونکہ خاص عورت کا واقعہ ہے محرم کے عدم ذکر سے یہ لازم نہیں آتا کہ وہاں فی الواقعہ محرم نہ ہو اور حقیقت بھی یہی ہے، حافظ ابن حجرؒ نے فتح الباری جلد ۷ ص ۲۲۲ میں پہلی حدیث پر لکھا ہے کہ اس عورت کا باپ ساتھ تھا اور اس کا یہ کہنا کہ میرا باپ شیخ فانی ہے اس سے مراد اس کا دادا ہے۔ حافظ ابن حجرؒ نے قوی سند کے ساتھ ابو یعلی کی ایک روایت ذکر کی ہے، جس میں تصریح ہے کہ اس عورت کا باپ ساتھ تھا۔ تیسری حدیث بھی دلیل نہیں کیونکہ ابن عباسؓ اس وقت نابالغ تھے اور مزدلفہ سے روانہ فرمایا تھا، مزدلفہ سے منیٰ تقریباً دو میل ہے، یہ مسافت سفر کے لیے کافی نہیں۔ پانچویں دلیل بھی اسی قسم کی ہے۔
نیز اپنے غلام سے پردہ نہیں بلکہ سیدہ عائشہؓ مطلق غلام سے پردہ کی قائل نہیں، پس یہ محرم کے حکم میں ہوگیا، چوتھی حدیث میں بھی وہی شبہ ہے جو اول اور دوم میں ہے اور حضرت عثمان بن عفان کے ساتھ اجازت دینے کا مطلب یہ ہے کہ وہ اس سال حج کے امیر تھے، زید کے دلائل بھی کمزور ہیں، زید نے پہلی دلیل سفر کی عام احادیث پیش کی ہیں اور دوسری دلیل حج کی خاص بیان کی ہے، اس دوسری دلیل کے الفاظ یہ ہیں:
((قال رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم لا یخلون رجل بامرأة ولا تسافرن امراة الا وعمها محرم فقال رجل یا رسول اللہ اکتتبت فی غزوة کذا وکذا فخرجت امراتی حاجة قال اذهب فاحجج مع امراتك)) (متفق علیه، مشکوٰة کتاب المناسك)
’’رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کوئی مرد کسی عورت کے ساتھ تنہا نہ ہو اور نہ کوئی عورت سفر کرے مگر اس حال میں کہ اس کے ساتھ اس کا محرم ہو، ایک شخص نے کہا اے اللہ کے رسول میں فلاں جنگ میں لکھا گیا ہوں اور میری عورت حج کے لیے نکلی ہے، آپ نے فرمایا ہ جا اپنی بیوی کے ساتھ حج کر۔‘‘
اس شخص مذکور نے محرم کی خصوصیت نہیں سمجھی کہ ضرور محرم ہی ساتھ۔ بلکہ یہ سمجھا کہ عورت کے تنہا جانے میں فتنہ ہے، اس لیے اپنا ذکر کیا کہ میں فلاں جنگ لکھا گیا ہوں، اگر محرم کی خصوصیت سمجھتا تو خود کو ذکر نہ کرتا۔ کیونکہ خود تو خاوند ہے محرم نہیں۔ کیونکہ محرم وہ ہے جس سے ہمیشہ نکاح حرام ۱؎ ہو۔ پس جبم قصد اس سے عورت کے فتنہ میں پڑنے کی روک ہے تو جب فتنہ کا اندیشہ نہ ہو تو عورت سفر کر سکتی ہے مثلاً قابل اعتماد عورتوں کی جماعت ہو یا اس قسم کے مرد ہوں تو اس کو سفر کی اجازت ہو ۲؎ چاہیے۔
۱؎ اگر کسی قصور کے باعث حرمت ابدی پیدا ہوگئی ہو تو یہ اس سے محرم مستثلی ہے جیسے لعان کرنے والے ہمیشہ ایک دوسرے پر حرام ہیں، مگر محرم نہیں۔
۲؎ جیسا کہ جنگ بدر کے قیدیوں میں سے عمرو بن عاص کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو اس شرط پر رہا کیا تھا کہ میری بیٹی زینب کو فلاں مقام میں پہنچا دو حضرت علی اور زید کو حکم دیا کہ میری بیٹی زینب کو اس مقام سے لے آنا چنانچہ وہ جا کر لے آئے۔
پس زید کی دلیل زید پر الٹ گئی، ہاں اگر خاوند کو محرم میں داخل کیا جائے، جیسے بعض نے کہا ہے چنانچہ مغنی مع الشرح الکبیر جلد۳ ص ۱۹۲ میں ہے: والمحرم زوجہا او من تحرم علیہ علی التابید بنسب او سبب مباح کابنہا وابیہا واخیہا من نسب اورضاع وربیبہا ورابہا۔
یعنی محرم خاوند ہے یا جس پر عورت حرام ہو، حرمت کی وجہ نسبت ہو یا کوئی سبب مباح ہو، جیسے اس کا بیٹا، باپ، بھائی نسبی یا رضاعی یا اس کا پچھلگ، یا جس کی یہ پچھلگ ہے تو اس صورت میں زید کی دلیل زید پر نہیں الٹے گی مگر خاوند کو محرم میں داخل کرنا کمزور ہے، پس زید کی دلیل کی کمزوری بحال رہی۔
جو لوگ محرم کی شرط کے قائل نہیں وہ مندرجہ ذیل دلائل بھی پیش کرتے ہیں۔
اول: قرآن مجید میں ہے: وللہ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا، یعنی لوگوں پر حج بیت اللہ فرض ہے جو اس راستہ کی طاقت رکھے، راستہ کی طاقت کی تفسیر دوسری حدیث میں زاد راہ اور راحلہ۔ سواری کے ساتھ کی ہے پس اس حکم میں عورت بھی آگئی۔
دوم: عدی بن حاتمؓ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یوشك ان تخرج الضعینة لحج لا جوار معہا لاتخالف الا اللہ عنقریب عورت حج بیت اللہ کے لیے نکلے گی، اس کے ساتھ کوئی نہ ہوگا، اللہ تعالیٰ کے سوا کسی سے نہیں ڈرے گی یعنی ایسا امن ہو جائے گا کہ عورت اکیلی بے کھٹکا سفر کرے گی۔
سوم: اگر کوئی عورت کفار کے قبضہ میں آجائے، پھر وہ رہائی حاصل کرے تو وہ بالاتفاق اکیلی سفر کر سکتی ہے، پس معلوم ہوا کہ محرم شرط نہیں ہے، یہ تین دلائل وہ مزید پیش کرتے ہیں، مگر یہ بھی کمزور ہیں۔ اول اس لیے کہ اس سے لازم آتا ہے کہ نہ محرم کی ضرورت ہے اور نہ قابل اعتماد جماعت کی حالانکہ وہ اس کے قائل نہیں۔ دوم اس لیے کہ اس میں امن کی پیشگوئی ہے، جائز ناجائز بتلانا مقصود نہیں۔ سوم اس لیے کہ یہ مجبوری کا سفر ہے کیونکہ دارالکفر میں تو وہ رہ نہیں سکتی۔ ورنہ پھر کفار قید کر لیں گے اور حج کا سفر تو وہ اپنے اختیار سے کرتی ہے، اس میں کوئی مجبوری نہیں، پس اس کا قیاس اس پر صحیح نہیں، یہ تینوں دلائل اور ان پر جرح مغنی ابن قدامہ مع الشرح الکبیر جلد ۳ میں مذکور ہے۔ اور جو محرم کی شرط کرتے ہیں، ان کی ایک دلیل مغنی مع الشرح الکبیر میں ابن عباسؓ کی یہ حدیث بھی لکھی ہے، جو دارقطنی ۱؎ میں ہے لا تحجن امراۃ الا معہا ذومحرم، یعنی کوئی عورت محرم کے بغیر سفر حج نہ کرے، لیکن اوپر معلوم ہو چکا ہے کہ جب مقصود اس سے عورت کے فتنہ میں پڑنے کی روک تھام ہے تو قابل اعتماد جماعت کے ساتھ ہونے کے وقت اجازت ہونی چاہیے۔ ہاں کہنے والا کہہ سکتا ہے کہ صرف فتنہ کی روک تھام مقصود نہیں، بلکہ یہ مقصود ہے کہ عورت کمزور جنس ہے، سواری پر اترنے چڑھنے کے وقت اکثر سہارے کی مہتاج ہوتی ہے، خاص کر بیمار ہو جائے جو عموماً لمبے سفر کا لازمہ ہے تو پھر اٹھانا بٹھانا، کپڑا لینا دینا حاجت روائی وغیرہ محرم یا خاوند ہی کا کام ہے، بیگانہ مرد کے لیے مشکل ہے اور ہر وقت ایسی ہمدردی عورتوں سے میسر آنا مشکل ہے، بسا اوقات اپنی اپنی ضرورتوں کے تحت قافلے آپس میں جدا ہو جاتے ہیں، عورتیں اپنے مردوں کے تابع ہوتی ہیں۔ اس لیے کون ٹھہر سکتا ہے اور کون اس کی حفاظت و نگرانی کر سکتا ہے، اس لیے اپنا خاص محرم یا خاوند ساتھ ہونا چاہیے مگر یہ وجہ کچھ کمزور ہے کیونکہ ایسا اتفاق بہت کم پڑتا ہے کہ قابل اعتماد جماعت گھر سے ساتھ چلے۔ پھر بیماری کے وقت کوئی مناسب انتظام نہ کرے، پس اصل مقصد حدیث کا فتنہ کی روک ہے اور اگر بالفرض اس کمزور وجہ کا کچھ لحاظ کیا جائے تو بوجہ کمزور ہونے کے زیادہ سے زیادہ اس سے احتیاط ثابت ہو سکتا ہے، نہ کہ وجوب یعنی احتیاطاً اول نمبر خاوند یا محرم کا ہے اگر یہ نہ ہوں تو پھر قابل اعتماد جماعت ہونی چاہیے، ایسا نہ ہو کہ خاوند یا محرم نہ ہو تو عورت حج ہی سے محروم ہو جائے۔
۱؎ دارقطنی مطیع فاروقی دہلی ص ۲۵۷۔
یہ کہ ایک لحاظ سے زید کے خیال کو کچھ قوت ملتی ہے، وہ یہ کہ جب خاوند یا محرم ہو تو وہی ساتھ جائے تاکہ ظاہر حدیث پر عمل ہو جائے اور کسی قسم کا کھٹکا نہ رہے کیونکہ مسلم ۱؎ کی ایک روایت میں یہ الفاظ آئے ہیں لا یحل لا مراة تومن باللہ والیوم الاخران تسافرا یکون ثلاثة ایام فاصعدا الا ومعها ابوها اوابنہا اوزوجہا او ذومحرم عنہا، (مسلم) یعنی کوئی عورت جو اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتی ہے اس کے لیے تین دن یا زیادہ سفر حلال نہیں تاوقتیکہ اس کے ساتھ اس کا باپ یا خاوند یا محرم نہ ہو۔
اس حدیث کا ظاہر زید کے مذہب کو تو تقویت دیتا ہے کیونکہ اس میں خاوند کا بھی ذکر ہے اور خاوند یا محرم نہ ہوں یا کسی شرعی عذر کی وجہ سے اس کا جانا مشکل ہو جیسے بیمار وغیرہ تو پھر اصل مقصد حدیث پر نظر رکھتے ہوئے عمرو کے خیال پر عمل کرنا چاہیے یعنی بعض قابل اعتماد جماعت کے ساتھ جائے اگر قابل اعتماد جماعت نہ ملے تو پھر عورت بالکل نہ جائے، نہ اس پر حج فرض ہے کیونکہ اس صورت میں سراسر حدیث کی مخالفت لازم آتی ہے، نہ تو ظاہر حدیث پر عمل ہوا، نہ اس کے اصل مقصد کی پرواہ ہوئی۔ پس زید کا مطلق یہ کہنا کہ خاوند یا محرم کے بغیر عورت حج کر ہی نہیں سکتی یا بالکل نہ کرے، یہ بھی ٹھیک نہیں اور عمرو کا اکیلی کا فتویٰ دینا یہ بھی ٹھیک نہیں۔ بلکہ ہر ایک کے قول کا کچھ حصہ ٹھیک ہے اور کچھ ٹھیک نہیں۔ مسلم کی حدیث مذکور کا ظاہر تو یہ چاہتا ہے، خاوند یا محرم ساتھ ہو، پس جب یہ موجود ہوں اور ساتھ جا سکیں تو ان ہی کو ساتھ لے جائے اور متفق علیہ حدیث جو مشکوٰۃ کے حوالہ سے گزر چکی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اصل مقصد فتنہ کی روک ہے کیونکہ اس حدیث میں خاوند کا ذکر نہیں۔ صرف محرم کا ذکر ہے، مگر باوجود اس کے صحابیؓ نے اس سے محرم کی خصوصیت نہیں سمجھی، اس لیے خود کو پیش کیا، حالانکہ خاوند تھا تو گویا اصل مقصد فتنہ کی روک ہوا۔ پس اس کا لحاظ کرتے ہوئے جب خاوند یا محرم نہ ہوں تو قابل اعتماد جماعت کافی ہے، بہرصورت ان دوحالتوں میں عورت کو حج کرنا چاہیے، ان کے علاوہ تیسری حالت میں یعنی اکیلی حج نہ کرے، رہی یہ بات کہ اس تیسری حالت میں اگر عورت حج کرے تو اس کا فرض ادا ہوگا یا نہیں۔ تو جہاں تک مجھے علم ہے، سب متفق ہیں کہ اس کا فرض حج ادا ہو جائے گا، اس پر اور حج فرض نہیں۔ (عبداللہ امرتسری روپڑی جامع قدس لاہور ۱۶ شعبان ۱۳۸۰ہجری، ۳ فروری ۱۹۶۱ئ، فتاویٰ اہلحدیث روپڑی جلد ۲ ص ۵۸۰)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب