السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
ایک شخص نے اپنی منکوحہ عورت جو ان کو غیر محرم مرد مجرد جوان کے ساتھ حج کرنے کو بھیجا ہے، اس عورت اور اس کے خاوند اور اس غیر محرم مرد تینوں کو کہا گیا تھا کہ غیر محرم عورت کا غیر محرم مرد کے ساتھ حج کرنے کو سفر کرنا ناجائز ہے، اور علمائے دین کا فتویٰ ہے کہ محرم کے ساتھ ہونے کے سوا عورت حج کو نہ جائے ان تینوں نے انکار کر دیا کہ ہم علمائے دین کا حکم نہیں مانتے اپنی مرضی کریں گے اور کر لی اب آپ فرمائیں سوا فرض نمازیں اور روزے کبھی ادا نہیں کیے اور جس نے غیر محرم مرد کے ساتھ عورت حج کرنے کو بھیج دی، حالانکہ یہ خاوند اس کا اور وہ عورت دونوں مسکین ہیں، اس عورت پر حج فرض ہی نہ تھا، جو ساتھ لے گیا ہے، اس نے اس عورت کا خرچ وغیرہ اپنی گرہ سے خرچ کرنا ہے، اور سنا گیا ہے کہ راستے میں اور دربار خداوندی میں محرم ہی جھوٹ بول کر بتائیں گے۔ (۱)اور آپ یہ بھی فرمائیں کہ جب وہ حج کر کے آئیں تو ان کی تعظیم و تکریم حاجی سمجھ کر بجا لانی ضروری ہے یا نہیں؟ (۲)غیر محرم مرد جو اپنی گرہ سے حج کو لے گیا ہے، اس کو اس حج کرانے کا اجر ملے گا یا نہیں؟ اور اپنا بھی اس کا حج جائز ہے یا ناجائز؟ (۳)غیر محرم مرد کے ساتھ جو عورت حج کو گئی ہے، اس کا حج جائز ہوگا یا نہیں؟ (۴)اس عورت کے خاوند کو کیا اجر ملے گا، جو کہتا ہے کہ میں نے حج کی اجازت عورت کو دی ہے، نماز روزہ تو ادا نہیں کرتا؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
تمام سوالات کا مجملاً جواب یہ ہے کہ عورت کو نامحرم کے ساتھ سفر کرنا جائز نہیں۔ بحکم حدیث باقی رہا حج کا قبول ہونا یا نہ ہونا اس کا علم اللہ کو ہے جو نیات سے پورا وقف ہے مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہیے کہ جس عورت کے ساتھ جانے والا محرم نہ ملے اور خاوند نہ جا سکے تو اس کا حج ملتوی ہے۔ (فتاویٰ ثنائیہ جلد اول ص۵۱۳)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب