السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام اس مسئلہ میں کہ زید کہتا ہے کہ میت کی جانب سے کسی غیر قرابت دار کا حج کرنا صحیح نہیں ہے کیونکہ اس کا حکم حدیث میں نہیں آیا ہے، عمرو کہتا ہے کہ صحیح ہے، حدیث میں جس سائل کو میت کی جانب سے حج کرنے کی اجازت ملی ہے، اس کے قرابت دار ہونے کی وجہ سے یہ نہیں کہہ سکتے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کا قرض میت کی جانب سے ادا کرنا صحیح ہونے کو صحت حج کا مقیس علیہ قرار دیا ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ اجنبی کا حج بھی صحیح ہے، جس طرح کوئی اجنبی آدمی میت کا قرض ادا کرے تو اس کا ادا کرنا صحیح ہے، قال اریت لو کان علی امک دین فقضیتہ الیس کان مقبولا منک قالت بلی فرمرہا ان تحج اور حدیث من حج عن میت فللذی حج عنہ مثل اجر، عام ہے اجنبی اور قرابت دار کو شامل ہے الحاصل عمرو کہتا ہے کہ غیر قرابت دار کا حج میت کی جانب سے بے شک صحیح ہے، پس زید کا قول حق ہے یا عمرو کا بینوا توجروا
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
عمرو کا قول حق ہے بے شک غیر قرابت دار بھی میت کی طرف سے حج کرے تو صحیح ہوگا کیونکہ کسی حدیث سے میت کی طرف سے حج صحیح ہونے کے لیے قرابت دار کی تخصیص ثابت نہیں ہوتی ہاں اتنی بات ہے کہ میت کی طرف سے وہ شخص حج کرے۔ جو اپنی طرف سے حج کر چکا ہو۔ جیسا کہ شبرمہ کے قصہ میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے, واللہ اعلم بالصواب، حررہ العبد العاجز عین الدین عفی عنہ، (سید محمد نذیرحسین، فتاویٰ نذیریہ جلد۲ ص ۱۱۹ طبع لاہور)
غیر قرابت دار میت کی طرف سے حج کر سکتا ہے، حج صحیح ہے، لیکن قرابت دار قرابت کی وجہ سے میت کی طرف سے حج کرنے کا زیادہ حق دار ہے، کیونکہ حدیث شبرمہ میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ شبرمہ کون اس نے کہا کہ میرا رشتہ دار ہے۔ (الراقم علی محمد سعیدی عفی عنہ ۱۳۶۵ہجری)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب