سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(26) حج سے حقوق العباد کی معافی

  • 3719
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1867

سوال

(26) حج سے حقوق العباد کی معافی

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

آپ نے حرم میں وعظ کرتے ہوئے فرمایا تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عرفات کے میدان میں باری تعالیٰ سے عرض کی تھی کہ جو اشخاص حج کے لیے آتے ہیں، یا اللہ ان سب کو بخش دے، مولا کریم نے فرمایا کہ اے حبیب میں نے سب کو بخش دیا، ماسوائے ناحق قاتل، خائن اور کسی کا ناحق مال کھانے والا۔ ان تینوں کے لیے مزدلفہ میں دعا کی ہے کہ مولا کریم تیرے دربار میں کس چیز کی کمی ہے تو ایسے گنہگاروں کو بھی بخش دے تو حضورؐ  کو یہ جواب ملا کہ اے حبیب میں نے ان کو بخش دیا۔ مزید آپ نے یہ فرمایا تھا کہ یہ پورے طور پر کہنا واضح کرنا باقی ہے کہ یہ بخشش صرف ان حاجیوں کے لیے ہی تھی یا تاقیامت حج پر جانے والوں کے لیے بھی ہے، پھر آپ نے فرمایا تھا کہ یہ امر فیصلہ شدہ ہے کہ قیامت تک کے حاجیوں کے لیے بھی یہی بخشش آپ کا یہ وعظ واپس آکر ایک دو جگہ کیا۔ مگر ایک مولوی صاحب نے اس کا انکار کر دیا ہے، کیا ان کا انکار صحیح ہے یا نہیں۔ (فتح علی خاں فیروزپوری)


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

عرفات کے میدان میں حضورصلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کا حقوق العباد میں قبول نہ ہونا اور مزدلفہ میں قبول ہونا یہ مفصل حدیث مشکوٰۃ باب الوقوف بعرفہ اور ترغیب وترہیب باب الوقوف بعرفہ والمزدلفہ وفضل یوم عرفہ میں موجود ہے۔ حقوق العباد عام ہیں۔ خواہ ناحق خون کی قسم سے ہوں یا خیانت کی قسم سے ہوں یا ناحق مال کھانے کی قسم سے ہوں۔ ترغیب ترہیب کے اسی صفحہ میں ہے کہ عبداللہ بن مبارکؒ امام ابوحنیفہؒ کے شاگرد سفیان ثوریؒ سے وہ زبیر بن عدی سے وہ انس بن مالکؓ سے روایت کرتے ہیں کہ حضرت عمرؓ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا کہ اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کیا یہ صرف ہمارے لیے ہے، فرمایا: تمہارے لیے بھی ہے اور تمہارے بعد جو قیامت تک آئے اس کے لیے بھی ہے لیکن یہ یاد رکھنا چاہیے کہ ان حقوق العباد سے وہ مراد ہیں جن کی ادائیگی وسعت انسانی سے باہر ہوگی اگر ادا کرنے کی جلدی یا دیر سے تا عمر طاقت رکھتا ہو تو اس صورت میں معافی نہیں ہوگی۔ (عبداللہ امرتسری روپڑی ۲۰ جمادی الثانی ۱۳۵۶ہجری ۱۹۳۷ئ، فتاویٰ اہلحدیث روپڑی جلد۱ ص ۵۷۵)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاوی علمائے حدیث

جلد 08 ص 49

محدث فتویٰ

تبصرے