السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علمائے کرام ومفتیان عظام دریں مسئلہ:
۱۔ ایک آدمی جس پر حج فرض ہے، حج کے لیے رقم جمع کرائی لیکن متعدد بار قرعہ اندازی میں نام نہ نکلا، کسی آدمی نے ان کو یہ مشورہ دیا کہ رقم بطور قرض مسجد یا مدرسہ پر خرچ کر دیں جب حج کا موقع آئے گا تو یہ رقم میں اپنی ذمہ داری پر جمع کرا دوں گا کیا یہ صورت صحیح ہے؟
۲۔ مذکورہ بالا شخص بذاتِ خود حج کو جانے سے شرعاً معذور ہے اگر کوئی اس کے حج بدل کا ذمہ لے کر اس سے حج کی رقم وصول کر کے کچھ مدت کے لیے یہ رقم مسجد یا مدرسہ پر صرف کر دے اور پھر حج بدل کرے کیا یہ صورت جائز ہے؟
۳۔ اگر کوئی شخص حج کے لیے مخصوص کردہ رقم کو (اس خدشہ کی بنا پر کہ شاید قرعہ اندازی میں متعدد بار کی ناکامی کے بعد میرا قرعہ نہ نکلے اور اس آخری عمر میں میں یونہی چل بسوں اور اسے اپنے ورثاء سے یہ بھی اندیشہ ہو کہ وہ اس رقم سے اس کی طرف حج بدل بھی نہیں کریں گے) مسجد بنانے پر صرف کر دے تو کیا ان مجبوریوں کی وجہ سے حج ساقط ہوگا۔ بینواتوجروا (محمد اکبر بلوچ موضع رتی پنڈی تحصیل قصور ضلع لاہور)
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
۱۔ حج کا وقت مقرر ہے اس سے قبل حج کی رقم کو کسی مفید مصرف میں بصورت قرض استعمال کرنے میں کوئی حرج نہیں۔ بشرطیکہ یہ یقین ہو کہ وقت پر رقم ادا ہو سکے گی اور حج کی ادائیگی میں تاخیر بھی نہیں ہوگی۔
۲۔ اس کا جواب پہلے سوال کے جواب میں گذر چکا ہے۔
۳۔ حج اس کے ذمے فرض ہے، وہ خود حج کرے اگر وہ مر جائے تو اس کا ولی یا کوئی دوسرا شخص اس کی طرف سے حج کرے، حدیث میں ہے:
ان امراة من جرینة جاء ت الی النبی صلی اللہ علیه وسلم فقالت ان امی نذرت ان تحج فلم تحج حتی ماتت انا حج عنها قال نعم حجی عنہا، ارایت لو کان علی امك دین اکنت قاضیه اقضوا اللہ احق بالوفاء…
یعنی ’’جہینہ قبیلہ کی ایک عورت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور اس نے دریافت کیا کہ میری ماں نے حج کی نذر مانی تھی، پس وہ مر گئی حج نہیں کر سکی، کیا میں اس کی طرف سے حج کروں پھر فرمایا، اگر تیری ماں کے ذمہ قرض ہوتا تو اس کو ادا کرتی، اس نے کہا ہاں! فرمایا، اللہ تعالیٰ کا قرض بھی ادا کر، اس لیے کہ اللہ تعالیٰ وفا کا زیادہ حق دار ہے۔‘‘
اس حدیث سے ظاہر ہے کہ جس طرح قرض کو ادا کرنے کی بجائے کسی دوسرے کارخیر میں رقم کو خرچ کرنا جائز نہیں اس طرح حج کی بجائے حج کی رقم کو کسی دوسرے کارخیر میں خرچ کرنا جائز نہیں، اس لیے حج اس کے ذمے قرض ہے اور کار خیر اس کے ذمہ قرض نہیں۔ (اخبار تنظیم اہل حدیث لاہور جلد ۲۲ شمارہ۵)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب