السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
احکام حج
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
از شاہ عبدالعزیز محدث دہلوی رحمہ اللہ
جاننا چاہیے کہ جس کا ارادہ حج کا ہو اور ہندوستان سے روانہ ہو اور سورت کی راہ سے جہاز پر مکہ معظمہ کی طرف جائے تو چاہیے کہ جب جہاز یلملم کے سامنے پہنچے تو احرام باندھے اور احرام باندھنے کا چار طریقہ ہے ایک طریقہ یہ ہے کہ صرف حج کا احرام باندھے اور اس کو افراد کہتے ہیں اور دوسرا طریقہ یہ ہے کہ عمرہ کا احرام باندھے اور جب مکہ معظمہ میں پہنچے تو عمرہ کے افعال حج کے مہینوں میں ادا کر لے اور حلال ہو جائے یعنی احرام اتار دے اور پھر حج کا احرام باندھے اور حج ادا کرے۔ اور اس کو تمتع کہتے ہیں اور تیسرا طریقہ یہ ہے کہ حج کے مہینوں کے علاوہ کسی دوسرے مہینہ میں عمرہ کا احرام باندھے اور حج کے مہینے یہ ہیں، شوال، ذیقعدہ، ذی الحجہ اور عمرہ کے افعال ادا کر لے اور احرام اتار دے۔ اور چوتھا طریقہ یہ ہے کہ جب میقات پر یا اس کے سامنے پہنچے تو حج اور عمرہ دونوں کا ایک ہی ساتھ احرام باندھے اور جب مکہ معظمہ میں پہنچے تو عمرہ کے افعال ادا کرے لیکن ابھی احرام نہ اتار سکے گا۔ بلکہ احرام کی حالت میں رہے گا۔ تو جب حج کے ایام آئیں تو حج کے افعال ادا کرے اور احرام اتار دے اور اس کو قران کہتے ہیں اور یہ قسم یعنی قران بہتر اور افضل ہے۔ امام اعظمؒ کے نزدیک تمتع اور افراد سے اور جب ارادہ ہو کہ احرام باندھے تو چاہیے کہ ہاتھ اور پاؤں کے ناخن کٹوا دے اور بغل کے بال منڈوا دے اور زیر ناف کے بال دور کر لے اور مونچھ کے بال کٹوا دے یا منڈوا دے اور اگر سر منڈوانے کی عادت ہو تو سر بھی منڈوا دے، ورنہ صرف کنگھی کرے اور اگر زوجہ یا شرعی لونڈی ہمراہ ہو تو اس کے ساتھ جماع کرے اور خوشبو لگائے اور احرام کے وقت یہ سب افعال کرنا مستحب اور بہتر ہیں لیکن احرام کے واجبات اور ضروریات سے نہیں، پھر وضو کرے اور مستحب ہے کہ غسل کرے اور پاکیزہ اور نئی لنگی اور چادر پہنے یا دھوئی ہوئی لنگی اور چادر پہنے اور دو رکعت نفل کی نماز پڑھے اور اگر قران کا ارادہ ہو تو اس طرح نیت کرے:
((اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اُرِیْدُ الْحَجَّ فَیَسِّرْہُمَا لِی، وَتَقَبَّلْہُمَا مِنِّی))
’’یعنی اے پروردگار حج اور عمرہ کا ارادہ کرتا ہوں آسان فرما، ان دونوں کو میرے حق میں اور یہ دونوں میری عبادت قبول فرما۔‘‘
اور اگر تمتع کا ارادہ ہو تو اس طرح نیت کرے:
((اَللّٰہُمَّ اِنِّیْ اُرِیْدُ الْعُمْرَۃَ فَیَسِّرْهَا لِی، وَتَقَبَّلْہَا مِنِّی))
’’یعنی اے پروردگار! ارادہ کرتا ہوں عمرہ کا وہ میرے حق میں آسان فرما اور قبول فرما۔‘‘
پھر حج یا عمرہ کی نیت سے تلبیہ کہے اور تلبیہ کی عبارت یہ ہے:
((لَبَّیْکَ اَللّٰہُمَّ لَبَّیْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ لَبَّیْکَ اِِنَّ االْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَکَ وَالْمُلْکَ لَا شَرِیْکَ لَکَ))
’’یعنی اے پروردگار! تیری اطاعت کے لیے حاضر ہوں، تیری اطاعت کے لیے حاضر ہوں، تحقیق سب حمد تیرے لیے ثابت ہے اور سب نعمت تیری طرف سے ہے، اور ملک تیرے واسطے ہے، تیرا کوئی شریک نہیں۔‘‘
اور ان الفاظ سے کم نہ کرے اور اگر اس سے زیادہ کہے تو مضائقہ نہیں، پھر اس کے بعد اکثر اوقات تلبیہ بآواز بلند کہتا رہے، خصوصاً زیادہ بہتر ہے کہ فرض اور نفل کی نماز کے بعد ہمیشہ برابر کہا کرے اور ایسا ہی سحر کے وقت بھی تلبیہ کہتا رہے اور جب قافلہ سے ملاقات ہو تو اس وقت بھی بہتر ہے کہ تلبیہ کہے اور جب میدان میں بلند جگہ پر چڑھے یا بلندی سے نیچے اترے۔ تو اس وقت بھی تلبیہ کہنا بہت بہتر ہے، غرض کہ یہ سفر گویا بمنزلہ نماز کے ہے، تو جیسے نماز میں ایک رکن سے دوسرے رکن میں جاتے ہیں۔ تو تکبیر یعنی اللہ اکبر کہتے ہیں، اسی طرح اس سفر میں بھی جب بلندی سے نیچے اترے یا نیچے سے بلندی پر چڑھے تو اس وقت تلبیہ کہے۔ بلکہ تلبیہ اکثر ورد زبان رہے اور احرام کی حالت میں واجب ہے کہ چند چیز سے پرہیز کرے، منجملہ اس کے یہ امور ہیں کہ سلا ہوا کپڑا نہ پہنے مثلاً کرتہ اور جامہ جبہ اور قبا اور پائجامہ اور بارانی اور موزہ اور دستانہ اور ٹوپی وغیرہ سلا ہوا کپڑا نہ پہنے اور جو کپڑا زعفران سے رنگا ہوا ہو یا کسم کے پھول سے رنگا ہوا ہو یا اور کسی خوشبودار رنگ سے رنگا ہو وہ کپڑا بھی استعمال میں نہ لائے اور اگر ہمیانی یعنی ڈوڈونراکہ اس میں روپیہ رکھا جاتا ہے، کمر میں باندھے تو اس میں کچھ مضائقہ نہیں اور جماع نہ کرے اور عورت کا بوسہ بھی نہ لے اور نہ اس کو شہوت کی حالت میں چھوئے، اور نہ کوئی دوسرا ایسا فعل کرے کہ اس سے جماع ہو جانے کا خوف ہو اور بیہودہ بات نہ کہے اور عورتوں کے سامنے جماع کا ذکر زبان پر نہ لائے اور فسق و فجور نہ کرے اور جنگ و جدال نہ کرے اور صحرائی جانور کا شکار نہ کرے حتیٰ کہ نہ اس میں مدد کرے اور نہ اس کی طرف اشارہ کرے اور نہ کوئی دوسرا فعل کرے کہ احتمال ہو کہ اس سے کسی دوسرے شخص کو صحرائی جانور معلوم ہو جائے اور وہ شکار کرے اور دریائی جانور کا شکار مثلاً مچھلی کا شکار جائز ہے اور خوشبو کے استعمال سے پرہیز کرے اور ناخن نہ کٹوائے اور سر اور داڑھی کا بال خطمی وغیرہ سے نہ دھوئے اور اپنا منہ اور سر کسی چیز سے نہ چھپائے اور سلا ہوا کپڑا جس طرح اس کپڑے کے پہننے کا معمول ہو اس طرح نہ پہنے اور اگر خلاف معمول دوسری طرح استعمال کرے تو اس میں مضائقہ نہیں مثلاً کرتہ اور پائجامہ کو لنگی کی طرح پہنے تو اس میں مضائقہ نہیں اور چند جانور ہیں کہ حالت احرام ان کو مار ڈالنا جائز ہے، نہ دم واجب ہوتا ہے اور نہ صدقہ واجب ہوتا ہے اور وہ جانور یہ ہیں۔ زاغ اور چیل، سانپ اور بچھو، موش اور چچڑی، کچھوا اور بھیڑیا، شغال اور پروانہ، مکھی اور مورچہ، آفتاب پرست اور زنبور پسو اور ساہی مچھر اور درندہ جانور کہ حملہ کرتے ہیں اور باقی جو دوسرے موذی جانور ہیں۔
فرائض حج: حج میں چار چیزیں فرض ہے: اول فرض احرام ہے اور دوسرا فرض عرفات میں ٹھہرنا ہے، عرفہ کے دن اور اس کا وقت عرفہ کے دن زوال کے وقت سے شروع ہوتا ہے اور دوسرے دن یعنی عیدالاضحی کی فجر تک باقی رہتا ہے، اور تیسرا فرض طواف زیارت ہے اور عیدالاضحی کے دن طواف کرنا افضل ہے۔ اور ایام نحر کے بعد تک طواف کرنے میں دیر کرنے سے دم لازم آتا ہے۔ اور چوتھا فرض یہ ہے کہ یہ افعال بترتیب ادا کرے، یعنی پہلے احرام باندھے، پھر اس کے بعد عرفات میں وقوف کرے، یعنی ٹھہرے پھر اس کے بعد طواف زیارت کرے اور اگر ان میں سے کوئی فوت ہو جائے تو حج ادا نہ ہوگا۔
واجبات حج: حج میں واجب چند چیز ہے ایک مزدلفہ میں وقوف کرنا یعنی ٹھہرنا۔ (۲)دوسرے سعی کرنا درمیان صفا اور مروہ کے۔ (۳)تیسرے کنکری پھینکنا۔ (۴)چوتھے آفاقی پر واجب ہے، طواف رخصت کرنا۔ (۵)پانچواں سر کا بال منڈانا یا کاٹنا۔ (۶)چھٹے احرام میقات سے باندھنا۔ (۷)ساتواں عرفات میں وقوف کرنا یعنی ٹھہرنا غروب آفتاب تک۔ (۸)آٹھواں طواف شروع کرنا حجر اسود سے اور بعضے علماء کے نزدیک یہ سنت ہے۔ (۹) طواف شروع کرنا داہنے طرف سے۔ (۱۰) دسویں جب عذر نہ ہوئے تو طواف پیادہ پا کرنا۔ (۱۱)گیارہویں طواف باطہارت کرنا۔ (۱۲)بارہویں طواف میں ستر عورت چھپانا۔ (۱۳)تیرہویں سعی کرنے میں درمیان صفا اور مروہ کے صفا سے شروع کرنا۔ (۱۴)چودھویں سعی درمیان صفا اور مروہ کے پیادہ پا کرنا جب عذر نہ ہو۔ (۱۵)پندرہویں ذبح کرنا، بکری یا اس کے ماند کوئی دوسرا جانور اور یہ قارن اور متمتع پر واجب ہے۔ (۱۶)سولہویں ہر سات شوط کے بعد دو رکعت نماز پڑھنا۔ (۱۷)سترہویں ترتیب سے کنکری پھینکنا اور بال منڈوانا اور ذبح کرنا۔ اس طرح کہ پہلے کنکری پھینکے، پھر اس کے بعد ذبح کرے، پھر بال منڈوائے، پھر طواف زیارت کرے۔ (۱۸)اٹھارہویں طواف زیارت ایام نحر میں کرنا، یعنی طواف زیارت کرنا عیدالاضحی اور اس کے بعد کے دو دن میں۔ (۱۹)انیسویں طواف اس طرح کرنا کہ حطیمہ بھی طواف میں داخل ہو۔ (۲۰)بیسویں سعی درمیان صفا اور مروہ کے کرنا۔ (۲۱)اکیسویں بال منڈوانا مقام معین اور وقت معین میں یعنی حرم کے مقام میں ایام نحر میں بال منڈوانا۔ (۲۲)بائیسویں ممنوعات سے باز رہنا بعد وقوف عرفہ کے مثلاً جماع وغیرہ نہ کرنا۔
سنت: مستحب اور آداب حج میں وہ امور ہیں، جو امور مذکورہ بالا کے علاوہ افعال حج کے ہیں اور جس چیز کے ترک کرنے سے دم لازم آتا ہے، وہ چیز واجب ہے۔ اور دم سے مراد تین چیزیں ہیں۔ (۱)اونٹ (۲)گائے (۳)بکری اور بکری کا دم دینا کافی ہے مگر دو صورت میں کافی نہیں ایک یہ کہ طواف فرض جنابت کی حالت میں کیا جائے اور دوسری یہ کہ جماع بعد وقوف کے کیا جائے۔ تو ان دونوں صورت میں بکری کا دم دینا کافی نہیں۔ بلکہ گائے یا اونٹ ذبح کرنا چاہیے، قران اور تمتع کی ہدی کے گوشت میں سے خود کھانا جائز ہے بلکہ مستحب ہے جیسے یہی حکم قربانی کے گوشت کا ہے اور نفلی ہدی کے گوشت میں سے بھی خود کھانا جائز ہے اور ان صورتوں کے علاوہ اور کسی دوسری صورت میں جو حج میں دم دیا جائے اس کا گوشت خود کھانا جائز نہیں اور اگر قران اور تمتع کا ہدی دینے سے عاجز ہو تو اس پر لازم ہے کہ دس روزہ رکھے، اس ترتیب سے کہ تین روزہ یوم نحر کے قبل اس ترتیب سے رکھے کہ تیسرا روزہ عرفہ کے دن پڑے اور سات روزہ حج سے فراغت ہونے کے بعد رکھے اور یہ سات روزہ جس جگہ چاہے وہاں رکھے اور اگر بال منڈوانے کے قبل ہدی پر قادر ہو تو اس پر ہدی لازم ہے، روزہ اس کے عوض نہیں ہو سکتا ہے اور جبکہ مکہ معظمہ میں جانے کا ارادہ کرے تو چاہیے کہ غسل کرے اور یہ مستحب ہے اور مکہ معظمہ کی بلند زمین کی طرف سے داخل ہو۔ اور بلندی کی جگہ ثنیۃ ہے اور اس کو ثنیہ ابراہیم بھی کہتے ہیں اور بہ نسبت رات کے دن کو داخل ہونا بہتر ہے اور جب مکہ معظمہ میں داخل ہو تو چاہیے کہ پہلے مسجد حرام جائے پھر اس کے بعد جہاں اپنا مال واسباب رکھنا منظور ہو، وہاں رکھے اور مستحب ہے کہ جب مسجد حرام میں داخل ہو تو تلبیہ کہے اور بنی شیبہ کے دروازہ کی طرف سے کہ اس کو باب اسلام بھی کہتے ہیں۔ مسجد حرام میں جائے اور نہایت ادب اور تعظیم اور خشوع خضوع اور عاجزی کے ساتھ جائے اور جب بیت اللہ پر نظر پڑے، یعنی اس کو دیکھے تو تہلیل کرے یعنی یہ کہے اللہ اکبر ولا الہ الا اللہ، یعنی ’’اللہ بڑا ہے اور نہیں ہے کوئی معبود و قابل پرستش کے سوا اللہ کے۔‘‘ اور جب کعبہ شریف کے اندر جانے کا ارادہ کرے تو اللہ تعالیٰ کی رحمت یاد کرتا ہوا جائے اور طواف عمرہ کا اور طواف قدوم بجا لائے اور یہ امر اس قارن اور مفرد کے لیے سنت ہے کہ وہ مکہ معظمہ کا رہنے والا نہ ہو اور اس طرح طواف کرے کہ پہلے منہ حجر اسود کی طرف کرے تکبیر اور تہلیل کہے اور جب بوسہ دینے کے واسطے حجر اسود کے پاس جائے تو دونوں ہاتھ اٹھائے جیسے تکبیر تحریمہ کے وقت دونوں ہاتھ اٹھایا جاتا ہے، اور حجر اسود کو بوسہ دے بشرطیکہ ممکن ہو کہ کسی کو بغیر ایذا پہنچانے کے بوسہ دے سکے اور اگر ہجوم اور مجمع زیادہ ہو اور اس سبب سے بوسہ نہ دے سکے تو حجر اسود کو ہاتھ سے مس کر لے اور ہاتھ کو چومے اور اگر یہ بھی ناممکن ہو تو کسی دوسری چیز سے حجر اسود کو مس کر لے اور اس چیز کو چومے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو حجر اسود کے سامنے اپنا رخ کرے تکبیر اور تہلیل وحمد کہے اور درود شریف پڑھے اور طواف حجر اسود کی طرف سے شروع کرے اور سات مرتبہ کعبہ شریف کے گرد اگرد طواف کرے اور طواف ساتھ تقلیب اضطباع کے کرے اور تقلیب اضطباع سے مراد یہ ہے کہ اپنی چادر داہنی بغل کے نیچے کر لے اور دوسرا کنارہ بائیں مونڈھے پر ڈال دے اور اسی ہیئت کے ساتھ سات مرتبہ مع حطیم کے طواف کرے اور پہلے جو تین مرتبہ دورہ کرے تو اس میں رمل بھی کرے یعنی تیز چلے اور دونوں مونڈھے ہلاتا ہوا چلے اور جب حجر اسود کے سامنے پہنچے تو جیسا سابق میں مذکور ہوا اسی طرح استلام اور تہلیل و تکبیر کہے اور درود شریف پڑھے اور استلام حجر اسود سے مراد یہ ہے کہ حجر اسود کو بوسہ دے۔ بشرطیکہ بوسہ دینے میں دوسرے کو ایذا نہ پہنچائے۔ اور اگر ہجوم کے سبب نہ دے سکے تو ہاتھ سے چھو کر ہاتھ چوم لے اور اگر یہ بھی ممکن نہ ہو تو کسی چیز سے حجر اسود کو چھوئے اور وہ چیز چوم لے اور یہ بھی اگر ممکن نہ ہو تو اس کے سامنے رخ کر کے کھڑا ہو اور جب طواف ختم ہو جائے تو اس وقت بھی ایسا ہی کرے اور بہتر ہے کہ رکن یمانی کو بوسہ دے اور رکن ایمانی حجر اسود کے مقابلہ میں ہے پھر اس کے بعد دو رکعت نماز پڑھے اور یہ نماز حنفیہ کے نزدیک واجب ہے اور یہ نماز مقام ابراہیم کے پاس پڑھے اور اگر بسبب ہجوم کے وہاں نہ پڑھ سکے تو مسجد حرام میں جہاں چاہے، وہاں پڑھے اور پہلی رکعت میں الحمد کے بعد قل یا ایہا الکافرون پڑھے اور دوسری رکعت میں الحمد کے بعد قل ہو اللہ احد پڑھے اور نماز کے بعد اپنی مراد کے لیے دعا کرے اور چاہ زمزم پر جائے اور زم زم کا پانی شکم سیر ہو کر پیئے اور پھر ملتزم کے مقام میں آئے اور حجر اسود کو بوسہ دے تکبیر اور تہلیل کرے اور درود شریف پڑھے اور مفرد کے حق میں بہتر ہے کہ طواف زیارت کے بعد صفا اور مروہ کے درمیان سعی کرے اور اگر بعد طواف قدوم کے سعی کرے تو یہ بھی جائز ہے اور مسجد حرام ہے باہر نکل کر صفا کے پاس آئے اور صفا کے اوپر اس قدر بلندی پر جائے کہ وہاں سے خانہ کعبہ نظر آئے اور وہاں کعبہ کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو اور آسمان کی طرف دونوں ہاتھ اٹھائے اور تکبیر اور تہلیل اور تحمید کہے اور درود شریف پڑھے اور جو چاہے دعا کرے پھر اتر کر مروہ کے پاس آئے اور مشی کرے اور جب بطن وادی میں پہنچے تو میل اخضر سے دوسرے میل تک سعی کرے یعنی تیز چلا جائے اور مروہ کے اوپر جائے اور قبلہ رو کھڑا ہو، حمد اور تہلیل و ثناء کرے اور درود شریف پڑھے اور جس طرح صفا پر تکبیر اور رفع یدین کیا جاتا ہے، اسی طرح یہاں بھی کرے اور اسی طرح سات مرتبہ آمد و رفت کرے، صفا سے شروع کرے اور مروہ پر ختم کرے اور سعی میں شرط ہے کہ طواف کے بعد ہو اور اگر طواف کے قبل سعی کرے تو ضرور ہے کہ پھر دوبارہ سعی کرے اور اس سعی کے لیے طہارت ضرور نہیں اور اگر باطہاعت سعی کرے، تو افضل ہے اور اولیٰ ہے بلکہ عرفات اور مزدلفہ میں ٹھہرنے کے لیے بھی طہارت شرط نہیں اور ایسا ہی کنکری پھینکنے میں بھی طہارت شرط نہیں اور طواف کے لیے طہارت ضروری ہے اور طواف اور سعی کرنے کے وقت بات کرنا مکروہ ہے اور جب سعی سے فارغ ہو تو پھر مسجد حرام میں جائے اور وہاں دو رکعت نماز پڑھے اور یہ بہتر ہے واجب نہیں، پھر اس کے بعد مکہ معظمہ میں اقامت کرے اور جس قدر چاہے نفل کے طور پر طواف کرے اور اگر احرام اتار ڈالا ہو تو تردیہ کے دن یعنی آٹھویں ذی الحجہ کو پھر حج کا احرام باندھے اور اگر ساتویں ذی الحجہ کو امام خطبہ پڑھے اور اس میں حج کے احکام بیان کرے مثلاً عرفات اور مزدلفہ میں ٹھہرنے کے لیے جانا اور کنکری پھینکنا اور بال منڈوانا اور جانور ذبح کرنا طواف کرنا اور منیٰ میں رہنا وغیرہ حج کے احکام بیان کرے تو بہتر ہے یہ خطبہ سنے اور ایسا ہی عرفہ کے دن عرفات میں امام خطبہ پڑھے اور سب لوگ سنیں اور گیارہویں ذی الحجہ کو منیٰ میں حج کے احکام بیان کیے جاتے ہیں تو چاہیے کہ وہ بھی سنے اور آٹھویں ذی الحجہ کو احرام باندھے ہوئے فجر کے بعد آفتاب طلوع ہونے پر منیٰ میں جائے اور اگر ظہر پڑھ کر کے جائے تو اس میں بھی مضائقہ نہیں اور عرفہ کی رات منیٰ میں گذارے اور فجر کی نماز تاریکی میں عرفہ کے دن پڑھے اور اس کے بعد عرفات کی طرف چلے اور اگر آٹھویں ذی الحجہ کو منیٰ میں نہ آے اور صرف عرفہ کے دن عرفات میں جائے تو یہ بھی جائز ہے لیکن سنت کے خلاف ہے اور عرفات میں جہاں چاہے وہاں اترے مگر بطن عرفہ میں نہ اترے اور افضل ہے کہ پہاڑ کے نزدیک ٹھہرے اور سنت ہے کہ عرفہ کے دن زوال کے بعد غسل کرے اور فرض ہے کہ عرفات میں ٹھہرے کہ بغیر اس کے حج ادا نہیں ہوتا ہے اور امام کا خطبہ سنے اور امام کے ساتھ احرام باندھے ہوئے ظہر اور عصر کی دونوں نماز ایک ساتھ پڑھے اور نہایت خشوع خضوع اور خلوص کے ساتھ استغفار اور تلبیہ اور تہلیل تسبیح اور ثنا کرے، اور درود شریف پڑھے اور اپنی حاجت کے واسطے دعا مانگے اور آفتاب غروب ہونے وقت امام کے ہمراہ مزدلفہ میں جائے اور اثناء راہ میں استغفار، تلبیہ، ذکر اور حمد بہت کرے اور درود شریف اکثر پڑھتا رہے اور مزدلفہ میں جا کر امام کے ساتھ مغرب اور عشاء کی دونوں نماز ایک ساتھ پڑھے اور عشاء کے بعد رات وہیں گزارے اور رات کو وہاں رہنا واجب ہے۔ اور مستحب ہے کہ تمام رات نماز اور قرآن مجید کی تلاوت ذکر اور دعا میں مشغول رہے اور بیدار رہے اور بے مجرد فجر ہونے کے تاریکی میں فجر کی نماز ادا کرے اور جہاں چاہے مزدلفہ میں ٹھہرے، مگر وادی محسر میں نہ ٹھہرے اور جب اس وادی میں گذرے تو نہایت تیزی کے ساتھ وہاں سے نکل جائے اور فجر کے بعد روشنی ہونے تک وہاں ٹھہرا رہے اور جب روشنی ہو جائے تو منیٰ کی طرف آئے اور منیٰ جمرہ عقبہ پر سات کنکری پھینکے اور ہر کنکری پھینکنے کے وقت تکبیر کہے اور جب پہلی کنکری پھینکے تو تلبیہ موقوف کرے پھر جانور ذبح کرے پھر بال منڈوائے یا بال کتروائے اور اس کے بعد مکہ معظمہ میں آئے اور طواف زیارت کرے اور اگر پہلے سعی کر چکا ہو تو اس وقت سعی کی ضرورت نہیں اور اگر پہلے سعی نہ کی ہو تو طواف زیارت کے بعد سعی کرے اور سعی کا طریقہ اوپر مذکور ہوا ہے اور بال منڈوانے کے بعد مستحب ہے کہ ناخن کٹوائے اور مونچھ کا بال کٹوائے اور زیر ناف کا بال دور کرے اور جو چیز احرام کی وجہ سے حرام تھی وہ سب چیز اس کے لیے بال منڈانے کے بعد حلال ہو جاتی ہے، مگر جماع اور توابع جماع کا حلال نہیں ہوتا ہے بلکہ جماع اور توابع اس کا طواف زیارت کے بعد حلال ہوتا ہے اور طواف زیارت کے بعد منیٰ میں آئے اور تین رات وہاں شب باش رہے اور دن کے وقت مکہ معظمہ میں جا کر کعبہ کی زیارت کا طواف کرے اور رات کے وقت منیٰ میں اقامت کرے اور یوم نحر سے دوسرے دن تینوں جمرہ پر کنکری پھینکے پہلا جمرہ مسجد خیف کے متصل ہے، اس جمرہ پر سات کنکری پھینکے، پھر اس کے بعد جمرہ وسطیٰ پر کنکری پھینکے پھر اس کے بعد جمرہ عقبہ پر کنکری پھینکے اور کنکری پھینکنے کے وقت تکبیر کہے اور اسی طرح تیسرے دن بھی تینوں جمرہ پر سات سات کنکری پھینکے اور چوتھے دن بھی وہاں رہے تو اس پر لازم ہوگا کہ اس دن بھی تینوں جمرہ پر کنکری پھینکے اور اگر وہاں سے کوچ کیا تو اس کے ذمہ سے رمی ساقط ہو جائے گی، اور رمی کا وقت ان تینوں دن میں زوال کے بعد ہے لیکن چوتھے دن اگر فجر کے بعد قبل زوال کے رمی کرے تو جائز ہے مگر مستحب اور مسنون ہے کہ زوال کے بعد رمی کرے، دوسرے اور تیسرے دن زوال کے قبل رمی جائز نہیں اور مستحب ہے کہ کنکری چھوٹی چھوٹی ہو بہت بڑی نہ ہو اور پاک ہو اور کنکری جمرات کے نزدیک سے نہ اٹھائے بلکہ مزدلفہ میں یا راہ میں لے لے اور انگوٹھا اور کلمہ کی انگلی کے درمیان کنکری لے کر پھینکے اور رمی کے وقت جمرات سے پانچ ہاتھ سے کم فاصلہ پر نہ رہے اور اگر زیادہ فاصلہ ہو تو مضائقہ نہیں اور جس رمی کے بعد پھر رمی ہے وہ رمی پیادہ پا کرے اور جس رمی کے بعد رمی نہیں، اس میں دونوں برابر ہے۔ چاہے پیادہ رمی کرے چاہے سوار ہو کر رمی کرے اور وادی میں کھڑا ہو اور اوپر کنکری پھینکے اور چاہے کہ کنکری پھینکتے وقت منیٰ داہنے طرف ہو اور کعبہ شریف بائیں طرف ہو اور اگر کنکری جمرات سے دور کرے گی تو کنکری پھینکنا درست نہ ہوگا چاہے کہ کنکری جمرات پر پڑے یا اس کے نزدیک گرے اور داہنے ہاتھ سے پھینکے اور ہر کنکری علیحدہ علیحدہ پھینکے اگر سب کنکری ایک ہی مرتبہ ہاتھ میں لے کر پھینک دے تو درست نہیں وہ صرف ایک مرتبہ پھینکنا شمار ہوگا اور ان افعال کے بعد وادی محضب میں آئے اور وہاں ایک ساعت ٹھہرے اور پھر مکہ معظمہ میں جائے اور طواف صدر کر لے اور یہ حکم اس صورت میں ہے کہ وہاں سے مراجعت کرنے کا ارادہ ہو، ورنہ مکہ معظمہ میں جائے اور وہاں اقامت کرے اور یہ طواف واجب ہے اور اس طواف میں رمل اور سعی نہیں اور طواف کے بعد چاہ زم زم پر جائے اور شکم سیر ہو کر زمزم کا پانی پیئے اور چند مرتبہ کر کے پانی پیئے اور ہر مرتبہ کعبہ شریف کی طرف نظر کر کے پانی پیئے اور اپنے منہ سر اور بدن میں بھی زم زم کا پانی ملے اور پھر بیت اللہ کی طرف آئے اور اگر ہو سکے تو کعبہ شریف کے اندر داخل ہو اور اندر داخل ہونا ممکن نہ ہو تو آستانہ اور مقام ملتزم کو بوسہ دے اور اپنا منہ اور سینہ اس پر رکھے اور ملتزم سے سینہ کو پنا دے اور کعبہ کا آستانہ پکڑے اور نہایت گریہ وزاری کرے اور اس وقت بھی تکبیر و تہلیل وغیرہ اشغال واذکار اور حمد وثنا میں مشغول رہے اور اپنی حاجت کے لیے اللہ تعالیٰ کی درگاہ میں دعا کرے اور کعبہ شریف کی طرف منہ کیے ہوئے پس پا مسجد حرام سے باہر آئے اور جہاں چاہے وہاں روانہ ہو اور عمرہ سنت ہے واجب نہیں اور ہر سال چند مرتبہ ادا ہو سکتا ہے اور عمرہ کا وقت تمام سال ہے، مگر ایام حج میں مکروہ ہے اور ایام حج کا روز عرفہ اور روز نحر اور ایام تشریق ہے اور ایام حج میں بھی عمرہ اس کے حق میں مکروہ کہ وہ قارن نہ ہو اور عمرہ میں احرام اور طواف ہوتا ہے اور عمرہ میں واجب دو چیز ہے ایک سعی کرنا درمیان صفا اور مروہ کے اور دوسرے بال منڈوانا یا کتروانا اور حج میں جو شرائط ہیں وہی عمرہ میں بھی شرائط ہیں اور حج میں جو سنن اور آداب ہیں وہی عمرہ میں بھی سنن اور آداب ہیں اور احکام جنایات کے یہ ہیں کہ اگر محرم کسی ایک عضو میں کامل طور پر خوشبو استعمال کرے یا اپنے سر میں مہندی کا خضاب لگائے یا روغن زیتون استعمال کرے یعنی بدن میں لگائے یا ایک روز تمام دن سلا ہوا کپڑا اس طرح پہنے رہے کہ اسی طرح وہ کپڑا پہننے کا معمول ہو یا ایک روز تمام دن اپنا سر چھپائے رہے یا چوتھائی سر کا بال منڈوا دے یا ایک بغل دور کرے یا زیر ناف کا بال دور کرے یا گردن کا بال دور کرے یا اپنے ہاتھ کے ناخن کٹوا دے یا دونوں پاؤں کا ناخن کٹوائے یا ایک ہاتھ اور ایک پاؤں کا ناخن کٹوائے یا طواف قدوم یا طواف صدر جنابت کی حالت میں کرے یا طواف فرض بلا وضو کرے یا عرفات سے جو دن واپس آنے کا ہے، اس سے پہلے پھر آئے یا سعی ترک کرے یا مزدلفہ کا وقوف ترک کرے یا ایک دن کی رمی ترک کرے یا روز اول کی رمی ترک کرے یا احرام کی حالت میں اپنی عورت کا بوسہ لے یا اپنی عورت کو شہوت کے ساتھ چھوئے یا سرمنڈوائے میں ایام نحر سے تاخیر کرے یا طواف زیارت میں ایام نحر سے تاخیر کرے یا حج کے اعمال سے کوئی عمل دوسرے عمل پر شرع کے خلاف مقدم کرے مثلاً رمی کے قبل سر منڈوائے یا جانور ذبح کرنے قبل سر منڈوائے تو ان سب صورتوں میں دم واجب ہے اور اگر قارن نے جانور ذبح کرنے کے قبل سر منڈوایا تو اس پر دو دم لازم آئے گا اور اگر احرام کی حالت میں کسی عضو میں خوشبو لگائے مگر اس عضو میں تمام جگہ خوشبو نہ لگاؤ یا اپنا سر چھپائے یا ایک دن سے کم وقت سلا ہوا کپڑا پہنے رہے یا چوتھائی سر سے کم منڈوائے یا پانچ انگلی سے کم انگلی کا ناخن کٹوائے مگر ایک ہی جگہ نہ کٹوائے بلکہ دو تین جگہ کٹوا دے یا طواف قدوم یا طواف صدر بلا وضو کرے یا تین جمرہ سے کسی ایک جمرہ کی رمی بعد یوم نحر کے ترک کرے یا دوسرے کا سر مونڈے تو ان صورتوں میں صدقہ واجب ہے اور صدقہ آدھا صاع گیہوں دینا چاہیے اور اگر محرم کو بیماری کا عذر ہو اور اس وجہ سے خوشبو استعمال کرے یا بال منڈوائے یا سلا ہوا کپڑا پہنے تو اس صورت میں محرم پر لازم آئے گا کہ تین چیز سے کوئی ایک چیز عمل میں لائے یعنی ایک بکری ذبح کرے یا چھ مسکین کو تین صاع گیہوں تین دن تک ہر روز دے اس طرح کہ ہر مسکین کو آدھا آدھا صاع دے اور تین دن پے در پے دے یا متفرق دے یا تین دن روزہ رکھے اور اگر محرم صحرائی جانور کا شکار کرے یا شارہ وغیرہ ہے دوسرے کو شکار کے جانور سے آگاہ کرے تو اس پر جزا لازم آئے گی اور جس جگہ شکار کرے وہاں اس جانور کی جو قیمت ہو وہی اس کی جزا ہوگی، پھر اس قیمت سے ہدی خرید کرے اور وہ ہدی مکہ معظمہ میں ذبح کرے یا گیہوں خرید کرے اور چھ مسکین کو ہر روز نصف نصف صاع تین دن تک دے اور تین دن پے در پے دے یا متفرق دے یا ایک ایک صاع خرما یا چھ مسکین کو گیہوں یا جو دینے کے بدلے میں ایک روزہ رکھے اور یہ جنایات قصداً کرے یا سہواً ہو دونوں صورت میں ایک ہی حکم ہے اور ایسا ہی اس کو معلوم ہو کہ یہ جنایت ہے یا نہ معلوم ہو دونوں برابر ہے اور خوشی سے کرے یا کسی غیر کے جبر کرنے سے کرے تو دم لازم آئے گا اور اگر محرم خالص خوشبو زیادہ استعمال کرے تو دم لازم آئے گا اور اگر محرم خوشبودار چیز سونگھے یا خوشبودار میوہ سونگھے تو اس پر کوئی امر لازم نہ آئے گا مگر یہ فعل مکروہ ہے اور اگر محرم جوئیں مار ڈالے تو کچھ گیہوں مثلاً ایک مٹھی کے انداز سے صدقہ دے اور یہ حکم اس صورت میں ہے کہ اپنے بدن یا اپنے سریا اپنے کپڑے سے جوئیں نکال کر مار ڈالے اور اگر زمین سے اٹھا کر مار ڈالے تو کچھ لازم نہ آئے گا اور کپڑا دھوپ میں اس عرض سے نہ ڈالے کہ جوئیں وغیرہ مر جائیں اور اگر ایسا کرے اور جوئیں مر جائیں تو اس پر لازم آئے گا کہ نصف صاع گیہوں دے اور اگر کپڑا دھوپ میں خشک ہونے کی غرض سے ڈالے اور یہ غرض نہ ہو کہ جوئیں مر جائیں لیکن دھوپ میں کپڑا رکھنے سے اتفاقاً جوئیں مر جائیں تو اس پر کچھ لازم نہ آئے گا۔ (فقط فتاویٰ عزیزی جلد ۲ ص ۱۸ فخر المطباع لکھنو)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب