سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(122) ایک قوم مسلمانوں میں یہ دستور ہے کہ جب کوئی مرد یا عورت مرجاوے..الخ

  • 3688
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 1098

سوال

(122) ایک قوم مسلمانوں میں یہ دستور ہے کہ جب کوئی مرد یا عورت مرجاوے..الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلے میں کے ایک قوم مسلمانوں میں یہ دستور ہے کہ جب کوئی مرد یا عورت مرجاوے۔اور کفن وغیرہ کا فکر کیا جاوے۔تو ساتھ ہی اس کی برادری کے  آدمی دفن کرانے کو ہمراہ میت کے جاتے ہیں۔ان کے کھانے کا بھی انتظام کیا جاتا ہے۔اور برادری کے آدمی سب مل کر کھاتے ہیں۔اس کھانے کا نام حاضری رکھا ہے۔چاہے اس کو مقدور ہو یا نہ ہو ایسا ہی دسواں اور بیسواں اور اس سے زیادہ چالیسواں کہ کل برادری کو کھانا کھلانا پڑتا ہے۔اور اگر کسی شخص کے پاس کچھ نہ ہو اور برادری کو نہ کھلاوے تو برادری کے لوگ زبردستی سے کھا لیتے ہیں۔بلکہ مجبور ہوکر سودی روپیہ لے کر برادری کو کھانا کھلانا پڑتا ہے۔ایسا کھانا شرعا جائز ہے۔یا مکروہ یا حرام ہے۔بینوا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مسئولہ میں اہل موتیٰ کے گھر جو برادری کے لوگ اس دن کھانا کھاتے ہیں۔وہ بدعت ہے۔شرعیت میں کہیں ثابت نہیں ان کو چاہیے کہ اس سے توبہ کریں۔بلکہ یہ لوگ خود کھانا پکا کر اس دن اہل موتیٰ کے گھر روانہ کریں۔کونکہ ترمزی شریف میں عبد اللہ بن جعفعر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ جب حضرت ﷺ کو حضرت جعفر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے شہید ہونے کی خبر پہنچی تو لوگوں سے آپ ﷺ نے فرمایا کہ جعفر کے گھر والوں کے واسطے کھانا تیار کرو۔کہ ان کو اس مصیبت میں کھانا پکانے کی فرصت نہیں۔اور مشککواۃ شریف میں بھی یہ حدیث موجود ہے۔لفظوں میں کچھ فرق ہے۔اس طرح دسوان بیسواں چالیسواںکہ اس کی بھی شرعیت میں کچھ اصل نہیں ہے۔ مطلق ثواب پہنچانا  میت کے لئے بلاقید ایام مذکورہ کے درست ہے۔اورشریعت سے ثابت ہے۔کہ میت کو سعی احیائ سے دو طرح پر نفع پہنچتا ہے۔ اول یہ کہ خود وہ اپنی حیات میں کوئی سبب اپنے ثواب کا مثل خیرات جاریہ مقرر کر جائے۔اور احیاء اس کو جاری رکھیں۔دوسرے یہ کہ مسلمان اس کو دعائے مغفرت و صدقہ حج وغیرہ کے ساتھ یاد کریں۔(سید نزیر حسین فتاوی نزیریہ جلد اول ص 282)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 417

محدث فتویٰ

تبصرے