السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلے میں کہ ماتم و تعزیت پرسی کرنے والوں کو اہل بیت کے گھر کا کھانادرست ہے یا نہیں؟اوردوسرے تیسرے چوتھے دن جو مرد اورعورتیں رسم کے طور سے جمع ہوتی ہیں۔اس میں کھانا کھانا اور جمع ہونا درست یا نہیں۔بینوا توجروا
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
درصورت مرقومہ ارباب شرعیت غرا پر مخفی نہیں کہ طریق مسنون یہ ہے کہ تعزیت اورماتم پرسی کرنے والے جو نزدیک اور اایک بستی کے ہوں۔ان کو کھانا کھانا اہل بیت کے گھر کا نہ چاہیے۔کیونکہ یہ امر جاہلیت سے ہے۔بلکہ قریب اور پاس والوں کو چاہیے کہ تعزیت اہل بیت کی کہ کے اپنے اپنے گھر چلے جاویں۔نہ یہ کہ اہل بیت کے گھر دہر نادیں کھانا کھانے کے لئے اور جو لوگ دور دراز مسافت سے بعیدہ سے تعزیت کے لئے آویں۔ان کو کھانا کھانا اہل بیت کے گھر کا مضائقہ نہیں۔اس لئے کہ ان کو اپنے گھر پہنچنا دشوار ہے۔اور یہ رسم نا مشروع جو مروج ہے۔کہ دوسرے دن یا تیسرے دن یا چھوتھے دن جو رجال و نساء کے برادری وغیرہ کے اہل میت کے گھر میں جمع ہوتے ہیں۔اور اہل بیت چارو ناچار اگر زی مقدور نہ ہوں۔روپیہ سودی یا فرض دام کر کے کھانا پکوا کر حاضرین کو کھلاتے ہیں۔سو یہ امور جاہلیت سے ہے۔اس کو سارے علماء قرنا بعدقرن منع کرتے ہیں۔اور نا مشروع جانتے ہیں۔اور جس مقام میں عورتیں رونے پیٹنے کے لئے جمع ہوتی ہیں۔اور اہل میت ان کے لئے کھانا پکواتے ہیں۔اور کھلاتے ہیں۔ان کوزیادہ موجب معصیت کا ہے ک اعانت اوپر نوحہ و معصیت کے کرتے ہیں اور ضیافت شرح شریف میں بروقت سرور اور مقام خوشی کے جیسے تقریب شادی و عقیقہ وغیرہ کے مشروع ہے نہ بروقت شرور حزن و ماتم و معصیت کے کہ ایسے وقت میں ضیافت کرنی بدعات مستقبحہ سے ہے۔
1اتخاذ الطعام من اهل الميت بدعة مستقبحة لانه شرع في السرور لافي الشرور كذافي فتح القدير والبحر والطحاوي وغيره ن كتب الفقة
1''۔میت کے گھر والوں کی طرف سے کھانے کا بندوبست ہونا بہت بری بدعت ہے۔کیونکہ دعوت خوشی کے وقت ہوتی ہے۔نہ کے معصیت کے وقت فتح القدیر بحر الطھاوی وغیرہ کتب فقہ میں ایسا ہی لکھا ہے۔''
اس نظر سے وصیت کی جو ایسے کھانے کی کر جاوے باطل ہے۔امور جاہلیت کا مٹانا اور موقوف کرنا عین ثواب ہے اور خیرا خواہی شرع شریف کی ہے۔اور اس سے غفلت اور در گزر کرنا کمال سفاست اور قباحت ہے۔واللہ اعلم(حررہ سید محمد نزیر حسین۔فتاوی نزیریہ۔جلد نمبر 1 ص281)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب