السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کیا فرماتے ہیں علماء دین و مفتیان شرح متین اس مسئلے میں کہ اگر مسلمان کوئی میلہ کریں۔جس کی مذہب میں کوئی اصل نہیں۔جیسے تعزیہ داری۔اور کافرنہ اس لہاظ سے کہ مسلمانوں کو بحیثیت مزہب ہزیمت ہو مزاحم ہوں تو ایسی صورت میں میلہ والے مسلمانوں کی شرکت دوسرے مسلمانوں کو جائز ہے یا نہیں۔؟
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
در صورت مرقومہ ارباب فطانت و دیانت پر مخفی نہیں۔کہ مسلمانوں کو بحیثیت مذہب ہزیمت جب ہو کہ یہ میلہ تعزیہ داری کا مذہب و ملت یا ادنے شعائر اسلام میں بھی داخل ہوتا۔حالانکہ داخل نہیں۔اور جب یہ میلہ مزکورہ داخل ہی نہیں ہوا۔بلکہ یہ میلہ بعض وجہ سے میلہ فقیہ ہے۔اور بعض وجوہ سے میلہ شرکیہ ہے تو اس صورت میں مسلمانوں کو من حیث مذہب دینی و ملت یقینی کیوں کہ ہزیمت مقصور ہوگی یہ خیال خام بعض بلایان نافرجام ہے و قول ۔ ﴿يُوحِي بَعْضُهُمْ إِلَىٰ بَعْضٍ زُخْرُفَ الْقَوْلِ غُرُورًا ۚ وَلَوْ شَاءَ رَبُّكَ مَا فَعَلُوهُ ۖ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ ﴿١١٢﴾
مناسب حال و مقال ملایا ن بدخصال کے ہے پس۔﴿ فَذَرْهُمْ وَمَا يَفْتَرُونَ ﴿١٣٧﴾ (ان کو اور ان کے بہتانوں کو چھوڑ دو۔)مشعر چال ڈھال ان کی کا ہے۔تفصیل اس اجمال کی یہ ہے کہ میلہ تعزیہ داری کا میلہ فسقیہ ہے۔بااعتبار اجماع فساق تماش بین کے اور یہ میلہ با اعتبار بنانے والے اور تعظیم کرنے والے۔اور تقرب لغیرا اللہ چاہنے والے کے میلہ شرکیہ ہے۔پس صورت اولہ میں تماشہ دیکھنا ان کے میلہ کا اورتماشہ دیکھنا تعزیہ کے میلہ کا دونوں برابر ہیں ۔
1۔ان میں سے بعض بعض کی طرف جھوٹی اور ملمع کی باتیں القا کرتے ہیں۔وہصرف ظن کی پیروی کر رہے ہیں۔اور ایک اندازہ کر رہے ہیں۔
زور وکزب۔اور غیر مشروع ہونے میں بموجب اس آیت کریمہ ۔﴿ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٦٨﴾ کے نیز بدلیل آیت سورہ فرقان کے۔ ﴿وَالَّذِينَ لَا يَشْهَدُونَ الزُّورَ﴾ قرآن ہر چند یہ آیت محتمل احتمالات کثیرہ کو ہے۔لیکن احتمال اقوی یہی ہے۔
يحتمل حضور نل موضع يجري فيه ما لا ينبغي ويدخل فيه اعياد المشركين ومجامع الفساق لان من خالط اهل الشر ونظر الي افعالهموحضر مجا معهم فقد شاركعم في تلك المعصية انتهي ما في تفسير الكبير والفصول العمادية
اور مدد دینا بنا بر تکثیر سوا اور اشاعت و رونق تعزیہ کی زیادہ ترسخت گناہ ہے۔حسب منطوق لازم الوثوق کے ۔﴿وَتَعَاوَنُوا عَلَى الْبِرِّ وَالتَّقْوَىٰ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوا عَلَى الْإِثْمِ وَالْعُدْوَانِ﴾ ونیز مطابق فرمودہ آپﷺ من كثر سواد قوم فهو منهم الحديث اور صورت ثانیہ میں یہ میلہ شرکیہ بلاریب ہے کیونکہ یہ تعزیہ منصوبہ في ما نصب وعبد من دون الله میں داخل ہے۔
پس تعزیہ بنانا او ر ساتھ نشان توقیر و تعظیم کے چبوترہ یا کسی بلند مقام پر قائم کرنا اور کھنا اور نزرو نیاز بتوقع حصول مطالب دنیاوی و امید حاجت روائی اور فراخی روزی و طلب اولاد و جاہ منصب کے اس پ چڑھانا اور اس کی بے ادبی میں نقصان جان ومال کا اعتقاد رکھنا اور بجہت عقیدہ واجب التعظیم کے سلام اور مجرا اور سجدہ اس کو کرنا۔جیسا کہ رسم ورواج و عرف وعات تعزیہ پرستون کی ہ۔صریح بت پرستی ہے۔مانند بت پرستی کفار مکہ مکرمہ وغیرہم کے ایام جاہلیت ہیں کیونکہ کفار مکہ معظمہ نے تین سوبت تقریبا گرد اگرد خانہ کعبہ شریفہ کے کھڑے کرکھے تھے اور نزرونیاز اورذبح جانور بنا پر تعظیم بتول کی کیا کرتے تھے۔پس درمیان تعزیہ داران اور کفار بت پرستان مکہ مکرمہ وغیرہ کے کچھ فرق نہیں ہے۔اس لئے کہ تعزیہ دار تعزیہ سے اعتقاد جلب منفعت ودفع مضرت کا رکھتے ہیں جیسے کفار بتوں سے معتقد حصول منافع و فع مضار کے ہیں جیسے کفار خدا تعالیٰ کو خالق ارض وسماء کل مخلوقات و مدبر امور کاینات کا جانتے ہیں۔ویسے ہی تعزیہ دار بھی جانتے ہیں۔پھر کفار کو مشرک و کافر کہنا۔اورتعزیہ دار کو نہ کہنا بلا دلیل ہے۔
﴿وَلَئِن سَأَلْتَهُم مَّنْ خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ لَيَقُولُنَّ اللَّـهُ ۚ قُلِ الْحَمْدُ لِلَّـهِ ۚ بَلْ أَكْثَرُهُمْ لَا يَعْلَمُونَ ﴿٢٥﴾
اب اگر کوئی اعتراض کرے کہ جب کفار اللہ تعالیٰ ہی کو خالق و مالک ورازق و مدبر کل امور ممی و ممیت جانتے تھے۔پھر اللہ تعالیٰ نے ان کو کافر اور مشرک کیوں کہا ان کے اعمال دنیا کے کیوں ہباء منثورا اور برباد کر ڈالے جواب اس کا یہ ہے کہ جب انہوں نے اللہ تعالیٰ کی عبادت خالصتاً چھوڑدی۔اور عبادت غیر اللہ حجر وشجر ونشان و جھندا و بعض عباد اللہ کا ملین کی کرنے لگے تو ظاہرا ھال کفار کا عبادت غیر اللہ میں مشابہ حال اس شخص کے ہوا کہ جو ماسوائے اللہ کو واجب بالذات قرار دیتا ہوں۔اور اعتقاد رکھتا ہوں۔کفار بھی سوائے اللہ تعالیٰ کے کسی کو واجب بالذات اورمدبر امور حقیقہ نہیں جانتے تھے۔چنانچہ جا بجا قرآن مجید اورتفااسیر مثل بیضاوی وغیرہ سے صاف مستفاد ہوتا ہے۔اور ماہران شریف پر مخفی نہیں۔
''مشرکوں کے من دون اللہ معبودوں کو اندادکیوں کہا گیا حالانکہ وہ ان کو خدا کے برابر نہ ذات میں سمجھتے تھے نہ صفات میں تو جواب یہ ہے کہ جب انہوں نے خدا کوچھوڑ کر ان کو پوجنا شروع کر دیا۔تو گویا اس نے اس شخص جیسا معاملہ کیا جو سمجھتا ہے کہ وہ بھی مستقل بالذات حیثیت رکھتے ہیں۔وہ اللہ کے عذاب کو روک سکتے ہیں۔یا ان کی حاجتیں پوری کر سکتے ہیں۔تو ان کو اس کا الزام دیا۔اوران کی برائی بیان کیا۔''
الغرض جو معاملہ کفار اپنے بتوں کے ساتھ کرتے تھے۔وہی معاملہ تعزیہ دار تعزیہ سے کرتے ہیں۔نصب صنم بت کا نام نہیں۔صنم تو وہ پتھر وغیرہ تھے جن کی شکلیں تراشی جاتی تھیں۔اور نصب وہ پتھر ہے جن کو خانہ کعبہ کے ارد گرد گاڑ رکھا تھا۔ان کے پاس بتوں کو خوش کرنے کےلئے جانور ذبح کرتے تھے۔ان کو خون لگاتے۔تو مسلمانوں نے کہا اے اللہ کے رسولﷺ کافر بتوں کی تعلیم ک ےلئے ان کو خون وغیرہ لگاتے ہیں۔ہمارا زیادہ حق ہے کہ ہم خدا کوخوش کرنے کےلئےان کو قربانی کا خون لگایئں۔تو اللہ تعالیٰ نے آیت نازل فرمائی کہ اللہ کے پاس خون اورگوشت نہین پہنچتا۔اس کے پاس پرہیزگاری پہنچتی ہے۔ وما زبح علی النصب کا ترجمہ دو طرح کا ہے۔ایک یہ کے نصب کی تعظیم کے عقیدے سے کوئی چیز ذبح کی جائئے۔دوسرا یہ کہ نصب کے لئے کوئی چیز ذبح کی جائے۔عربی میں لام اور اعلیٰ ہم معنی استعمال ہوتے ہیں۔
پس آیات وتفسیر ما سبق سے واضح ہوا کہ نصب بمعنی شے منصوب کے ہے اورشئ منصوب ہیں علم علم ونسان درایت و جھندا اور چھڑی اور تعزیہ داخل ہیں۔بنا بر تعظیم وتقرب لغیر اللہ کے لا ن حكم المثلين واحد والا مور بمقاصد ہا مین میلہ راون و میلہ تعزیہ کا برابر ہے۔کیونکہ دونوں میں تقرب لغیر اللہ پایا جاتا ہے ۔یعنی جس طرح کفار مکہ نصب سے تقرب چاہتے تھے۔اسی طرح تعزیہ سے تعزیہ دار ایک دوسرے سے بڑھ کر تقرب چاہتے ہیں۔کیونکہ کوئی دو گز کوئی پانچ گز کوئی دس گز کا اونچا ساتھ آرایئش زرق برق کے بنا کر تعظیم تمام واحترام تام چبوترہ پر قائم کر کے نزرونیاز اس پرچڑھاتے ہیں۔اورساتھ ادب کے سلام سجد ہ کرتے ہیں۔تو یہ سارے امور مذکورہ موجب شرک جلی اور شعار مشرکین ہیں۔كما لا يخفي علي العمماء الماهرين بالشريعةاور طرفہ تماشا یہ کہ دونوں فرقے یعنی راون والے او تعزیہ والے بنازم خرام وبتختر تمام مقابلہ دوڑے مرنے پرمستعد ہیں۔اور ہر فرقہ اپنی شان و شوکت بڑھانے پر نعرہ ھل من مبارز کا مارتا ہے۔نعم ما قیل
طرز خرام کرتی ہے سر سینکڑوں قلم تلوار چل رہی ہے نئی چال ڈھال پر
1القاتل والمقتول كلا هما في النار اللہ ہادی کریم تعالیٰ شانہ سارے مسلمانوں کو ایسے عقیدہ فاسد او عمل مزموم شر کی تعزیہ داری سے محفوظ رکھے۔اور دین محمدی پر توفیق رفیق عطا فرما دے۔آمین۔جو لوگ خود نہیں بناتے مگر مددگار امور شرکیہ کے ہوتے ہیں۔ان کو بھی اس بلائے عظیم تایئد شر کی سے توبہ نصیب کرے۔کہ امداد غیرمشروع سے باز آویں۔اور حسب توفیع وقیع ۔
﴿فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّكْرَىٰ مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ﴿٦٨﴾
کے تعزیہ داری کی صحبت سے احتراز کرتے رہیں۔کہ غضب الہیٰ میں گرفتار نہ ہوں۔
عن حذيفة قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم لا يقبل الله لصاحب البدعة صوما ولا صلواة ولا صدقة ولا حجة ولا عمرة ولا جهاد ولا صرفا ولا عدلا يخرج اذا من لاسلام كما يخرج الشعرة من العجين رواه ابن ماجة
اور فرمایا آپﷺ نے کہ جو کوئی احداث بدعت کرے۔ یا محدث کو جگہ دے۔یا اس کی تعظیم کرے۔اس پر بھی لعنت خدا کی اور اس کے نماز روزہ حج زکواۃ مقبول نہیں۔
1۔قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہیں۔
من احدث حدثا اواوي محمد ثا فعليه لعنة الله والملائكة والناس اجمعين لا يقبل الله عنه صرفا ولا عدلا رواه طبراني عن ابن عباس ورواه البزار
اور فرمایا آپﷺ نے جو کوئی کسی قوم کی کثرت اور بھڑ بھاڑ اس کی بڑھاوے یا تشبہ کرے۔وہ اسی قوم سے شمار کیا جائے گا۔
قال قال رسو ل الله صلي الله عليه وسلم من كثر سواد قوم فهو منهم ومن تشبه بقوم فهو منهم كما في المشكواة اي من تشبه بالكفار في اللباس وغيره او بالفساق او بالصلحا ء فهو منهم كذا في مجمع البحار
حاصل یہ کہ مشارقت و مظاہرت صورت سوال میں صورت حمیت جاہلیت اولیٰ کی ہے نہ اسلامی ۔ ﴿فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْأَوْثَانِ وَاجْتَنِبُوا قَوْلَ الزُّورِ ﴿٣٠﴾ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوهُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿٩٠﴾
فریقین یعنی راون والے اورتعزیہ والے پر حجت قاطع اور برہان ساطع ہے۔کیونکہ تعزیہ سازی و نشان و جھندا وغیرہ ومنجملہ نصاب عمل شیطانی بلا اریتاب عند اولے الالباب ہے۔
دل نے جس راہ چلایا میں اسی راہ چلا وادی عشق میں گمراہ کو رہبر سمجھا
﴿وَمَنْ أَضَلُّ مِمَّن يَدْعُو مِن دُونِ اللَّـهِ مَن لَّا يَسْتَجِيبُ لَهُ إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ وَهُمْ عَن دُعَائِهِمْ غَافِلُونَ ﴿٥﴾
1۔یاد آجانے کے بعد ظالم قوم کے ساتھ مت بیٹھو۔2۔آپﷺ نے فرمایا اللہ تعالیٰ بدعتی کا روزہ نماز۔صدقہ حج عمرہ ۔جہاد فرض اور نفل کچھ بھی قبول نہیں کرتے۔وہ اسلام سے اس طرح نکل جاتا ہے۔جیسے بال آٹے سے۔3۔جو بدعت جاری کرے یا کسی بدعتی کو پناہ دے اس پر اللہ فرشتوں اور سارے جہاں کی لعنت ہے نہ اللہ اس کے نفل قبول کرے گا نہ فرض4۔جو کسی قوم کی تعداد بڑھائے وہ اسی مین سے ہے۔جو کسی قوم سے مشابہت پیدا کرے وہ انہی میں سے ہے۔ یعنی کفار یا فساق یا صلحا سے لباس وغیرہ میں۔5۔بتوں کی گندگی سے بچو اے ایمان والو۔شراب جوا بتوں کے تھان اورتیروں کی خالی یہ سب گندے اور شیطانی کام ہیں۔ان سے بچو تاکہ تم خلاصی پائو۔ (الراقم محمد سید نزیر حسین دہلوی)
اور جب تعزیہ پرست تعزیہ کے سبب ظالمین میں داخل ہوئے۔تو تعزیہ پرست مثل راون وکالی والوں کے ہوئے۔تو اب دونوں کی شرکت و اعانت مساوی الاقدام ہوئی بلکہ تعزیہ والوں کی اعانت بدتر ہے۔کیونکہ باسبب تعزیہ پرستی کے کفار اسلام پر بت پرستی کاالزام دیتے ہیں۔اور اکثر اوقات مسلمانوں میں تعزیہ پرستی کو دیکھ کر ہدایت سے باز رہتے ہیں۔پس جس چیز کے سبب اسلام پر دھبہ لگے۔اور طریقہ ہدایت کا مسدود ہو۔اس چیز کی شرکت و اعانت سراسر السلام پر ظلم کرنا ہے اور کیوں ایسے امر قبیح کو مسلمانوں نے اختیار کیا جس کے سبب بمقابلہ کفار ہزیمت اٹھانی پڑے۔پس ہر مسلمان پر فرض ہے کہ ان سب میلوں کی تخریب میں برابر کوشش کرے۔بلکہ میلہ تعزیہ داری کے اندر اس تخریب میں زیادہ کوشش کرے۔تاکہ اسلام پر الزام نہ آوے۔اور طریقہ ہدایت کا مسدود نہ ہو۔اور ہزیمت بھی نہ اٹھانی پڑے۔اور نیز اس میں توہین اہل بیت رضی اللہ عنہم کی لازم آتی ہے۔جیسا کہ ماہرین شرعیت غرا پر مخفی نہیں ہے پس پرائے شگون پر ناک کٹانی عقلمندوں کا کام نہیں ہے۔
من له عقل سليم يقتدي بالمصطفي الراقم العاجو تلطف حسين عفي عيه (فتاوی نزیریہ جلد اول ص 274)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب