سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(114) کیا فرماتے ہیں علماء دین ک بعض اہل سنت کا دعویٰ کرتے ہیں..الخ

  • 3681
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1283

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

کیا فرماتے ہیں علماء دین ک بعض اہل سنت کا دعویٰ کرتے ہیں اورامام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی محبت کو وسیلہ بنا کر عشرہ محرم میں  تعزیہ پرستی کرتے ہیں۔اس کی کیفیت اسی طرھ ہے کہ پانچویں محرم کو کہیں سے دو مشت خاک لے آتے ہیں۔اور اس کو امام  حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی لاش قرار دے کر اس کی تعظیم کرتے ہیں۔اور چبوترہ پر رکھتے ہیں۔پھر ہر روز اس پرشربت فالودہ مٹھائی وغیرہ کے چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔ اس مٹی کو باعث نجات و مطلب براری سمجھتے ہوئے سجدہ کرتے ہیں۔اور اس سے مال ودولت واولاد وغیرہ مانگتے ہیں۔پھر ساتویں رات کو طہارت کرتے ہیں۔ایک پگڑی باندھتے ہیں اور اس پر پھولوں کاسہرا لٹکاتے ہیں۔اور ایک چوکی پر جس کے دونوں طرف ہاتھ کی شکل کی ہوتی ہے۔وہ دستار بڑی عزت سے رکھ دیتے ہیں۔آٹھویں رات کو اس چوکی کو مع ستار کے سر پر اٹھا لیتے ہیں۔ڈھول بجتا ہے۔او ماتم سینہ کوبی کرتے ہوئےگلی کوچوں میں پھرتے ہیں۔اور نویں رات کو اس دشت خاک کو کفن پہنا ک اس قبر میں جو تعزیہ کے اندر بنی ہوئی ہوتی ہے۔دفن کردیتے ہیں۔اور پھر اس کو کندھوں پر اٹھا کر گریہ زاری اورسینہ کوبی کرتے  ہوئے ہائے حسین وائے حسین کہتے ہوئے گشت کرتے ہیں۔ایک آدمی تعزیہ کے  پیچھے مورچھل کرتا جاتا ہے۔اوردسویں تاریخ کو چاشت کے وقت اس کفن میں لپٹی ہوئی مٹی کو بمعہ سازوسامان کے روتے پیٹے ہوئے اپنے بنائے ہوئے کربلا میں لے جا کر دفن کردیتے ہیں۔اور اس کو بعد کئی چیزوں کو جن کو اپنے ہاتھ سے لے جاتے ہیں۔فاتحہ پڑھتے ہیں اور شام کو اس قبر پر چراغ جلاتے ہیں۔ان لوگوں کے متعکق کیا حکم ہے۔جو امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی قبر کی شبیہ اپنی طاقت کے مطابق لکڑی۔سونے چاندی سے بناتے ہیں۔ان کو اپنے گھروں میں نہایت تعظیم سے رکھتے ہیں۔اس کی پوجا کرتے ہیں بعض ہاتھ وغیرہ کا علم بناکر قبر کے ساتھ باندھ دیتے ہیں۔ اور ساتویں رات کو علم تعزیہ سے جدا کرکے گشت کے لئے لے جاتے ہیں۔  اور دسویں دن علم مذکور کو سہرے وغیرہ پہنا کر تعزیہ کے ساتھ کفن میں دفن کر دیتے ہیں۔اور ایسے لوگوں کے متعلق کیا حکم ہے۔جو محرم شروع ہوتے ہی پورے تکلفات سے کمروں کو آراستہ کرتے ہیں۔آدمیوں کو بلاکر مرثیہ خوانہ کرتے ہیں۔کربلا کے واقعات سناتے ہیں۔مستورات کی بے عزتی کی داستانیں بیان کرتے ہیں۔او ر ہائے حسین کہتے ہوئے ماتم کرتے ہیں۔ پھر  شیرینی تقسیم ہوتی ہے۔کیا یہ لوگو اہلسنت والجمعاعت ہیں اور کیا یہ کام جائز ہے۔یا کفر وشرک اور یا گناہ صغیرہ ہے۔یا کبیرہ؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہل سنت والجماعت وہ آدمی ہوسکتاہے۔جو نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کی راہ پر چلتا ہو او ر مقام امور جو سوال میں مندرج ہیں۔نامشروع حرکات ہیں۔نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  اور ایمان داروں کی راہ یہ نہین ہے۔اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کا باعث ہیں۔جہنم میں داخل ہونے کا سبب ہیں۔اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں جو ہدایت کے واضح ہونے کے بعد رسولﷺ کی نافرمانی کرے۔اور ایمان داروں کی راہ چھوڑ کر کوئی اور راستہ اختیار کرے تو جدھر جاتا ہے جائے ہم اس کو جہنم میں داخل کریں گے۔ ہم اس کو جہنم میں داخل کریں گے۔اور وہ بدترین جگہ ہے۔امام بیضاوی کہتے ہیں کہ اس آیت سے اجماع کی مخالفت کی حرمت معلوم ہوتی ہے۔اور ایسے لوگ اہل سنت کا دعوی ٰ کرنے میں بالکل جھوٹے ہیں۔شریعت مطہرہ کے دائرے سے خارج ہیں۔ایسے لوگوں کی کوئی عبادت قبول نہ ہوگی۔اللہ تعالیٰ فرماتا ہے بدعتی آدمی کا روزہ۔نماز ۔صدقہ ۔حج ۔عمرہ۔جہاد۔نفل اور فرض کچھ بھی قبول نہیں کرتے۔وہ اسلام سے اس طرح نکل جاتا ہے۔جیسے آٹے سے بال اس مضمون کی حدیث مین ابن ماجہ۔بزار۔اور طبرانی میں آئی ہے۔شاہ عبد العزیز نے ان امور کو اپنی تفسیر میں شرک کہا ہے اور تعزیہ کو سنجدہ کرنا بت کوسجدہ کرنے کے برابر ہے۔کیونکہ لغتہ ہر و ہ چیز جس کی اللہ کے سوا پوجاکی جائے وہ شرک ہے۔صاحب مجالس الابرار جوہری نے اس کی تصریح کی ہے۔شرح  مواقف مین ہے کہ سورج کو سجدہ کرنا کفر ہے۔اب خود ہی سوچو تعزیہ اور سورج میں کیا فرق ہے۔مسلمانوں کو ان امور بدعیہ سے پرہیز کرنا چاہیے۔تاکہ صحیح مسلمان بن سکیں۔ترمذی میں ابو واقد لیثی سے حدیث ہے۔کہ جب رسول اللہﷺ غزوہ حنین کو نکلے۔تو راستے میں ایک درخت آیا جس پر مشرک لوگ اپنی تلواریں لٹکایا کرتے تھے۔اسی کو ذات انواط کہتے ہیں۔تو مسلمانوں نے کہا کہ یا رسول اللہﷺ ہمیں بھی ایک ذات انواط بتادیں۔آپﷺ نے فرمایا کہ سبحان اللہ یہ تو قوم موسیٰ ؑ کی سی بات ہوئی۔انھوں نے موسیٰؑ سے درخواست کی تھی کہ ان کے خدائوں جیسا کوئی ہمیں بھی خدا بنادیں۔خدا کی قسم تم یہود و نصاریٰ کی ضرور پیروی کرو گے۔پس  تعزیہ داری بھی ذات انواط کی ایک صورت ہے۔کہ لو گ اس پر چڑھاوے چڑھاتے ہیں۔یہ لوگ پورے مشرک و کافر ہیں۔کیونکہ انھوں نے خدا ک لئے شریک بنا دیے۔جس کی مخالفت قرآن مجید کی آیت فلا تجعلو اللہ اندادا میں ہے۔اگر کوئی آدمی سوال کرے کے  تعزیہ وٖضریح بلکہ مشرکوں کے بت وغیرہ کوبھی خدا کا شریک کیسے بنایا جا سکتاہے۔جب کہ وہ ان کوخدا کے برابر درجہ نہیں دیتے۔بلکہ اس سے کم تر سمجھتے ہیں۔تو اس کا جواب یہ ہے  کہ جب اپنی  توجہ ان چیزوں کی طرف کرلی گئی۔اور ان سے اپنی ھاجتیں مانگنے لگے۔اورخدا کی درگاہ  چھوڑ دی۔تو پھر خواہ زبانی برابری تسلیم نہ کریں عملی برابر ہی بلکہ اس سے بڑھ کر ان کوسمجھا جانے لگا۔توان پر مشرک کا لفظ صادق آئے  گا۔چنانچہ تفسیر بیضاوی میں بعینہ یہ مضمون بیان کیا گیا ہے۔پھر یہ بھی یاد رکھنا چاہیے۔کہ یہ تعزیہ  پرستی وغیرہ تمام امور ہوائے نفس اور خواہشات نفسانی کی بنا پر کئے جاتے ہیں۔اور موسیٰ پرستی بھی  تو شرک ہے۔اللہ تعالیٰ قرآن مجید میں فرماتے ہیں ۔کیا وہ آدمی بھی دیکھا ہے جس نے اپنی خواہش کو اپنا بنا رکھا ہے۔اور حدیث شریف میں بھی آیا ہے کہ آپﷺ نے فرمایا ہے کہ مجھے اپنی امت پر ہوائے نفس اور طول حرص کا خوف ہے کیونکہ خواہش راہ حق سے روک دیتی ہے۔اور بس امید آخرت کو بھلا دیتی ہے۔اور یہ اشراک فی الحکم کی قسم ہے۔کہ جب کوئی چیز اچھی معلوم ہوتی ہے۔تو اس کے سامنے جھگ گئے۔ہاں بعض لوگ ان کے عقائد فاسدہ سے خالی الذہن ہوتے ہیں۔اور محض آبائی رسم سمجھتے ہوئے اس پ تعژیہ داری کی رسوم کو بجا لاتے ہیں۔اس صورت میں اسراف اور تضیح مال میں مبتلا ہوئے ہیں۔یہ بھی تو شیطان کے بھائی ہیں۔پس صحیح طریق صرف یہ ہے۔کہ انا للہ و انا الیہ راجعون پڑھا جائے۔ان کے لئے دعائے مغفرت کی جائے۔اور یا پھر کوئی صدقہ وغیرہ کر کے ان کو ثواپہنچا دیا جائے۔وہ بھی بلا تخصیص ایام باقی رہا یہ سینہ کوبی اور نوحہ وششنون وغیرہ تو آپﷺ کی سنت کے بالکل برخلاف ہے۔اور یہ بانس کا اغذ وغیرہ سے تعزیہ بنانا اور اس کی زیارت کرنا لعنت کا موجب ہے حدیث میں آیا ہے۔اللہ اس آدمی پر لعنت کرے۔جو کسی فرضی قبر کی جس میں کوئی مردہ دفن  نہیں ہے۔زیارت کرے۔پس ایس لوگ جو محض اتباع ہوائے نفس کی بنا پر  تعزیہ پرستی وغیرہ کریں۔اور سنت وغیرہ کی پراوہ نہ کرے۔اہل سنت بلکہ دائرہ اسلام سے خارج ہیں ۔آپﷺ نے فرمایا ہے۔جو جماعت سے ایک بالشت بھی علیحدہ ہو جائے۔اس نے اسلام کی رسی اپنی گردن سے نکال لی۔ایسے لوگوں کوشرک وبدعت کو چھوڑ کر توبہ استغفار  کرنی چاہیے۔اور عبادات بدنیہ  و مالیہ کا ثواب ان کو بخشنا چاہیے۔تاکہ سعادت دارین حاصل کریں۔واللہ اعلم(فتاویٰ نزیریہ ص215۔محمد حسین قادری۔سید نزیر ھسین۔سید شریف حسین۔محمد غلام اکبر۔محمد اسحاق ۔محمد عنایت اللہ۔سید احمدحسین۔حسبنا اللہ بس حفیظ اللہ۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 395-403

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ