سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(112) محرم کے دنوں میں شہادت حسین کا تذکرہ کرنا حسب روایت..الخ

  • 3679
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-19
  • مشاہدات : 1218

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

محرم کے دنوں میں شہادت حسین کا تذکرہ کرنا حسب روایت سر الشہادتین جائز ہے۔یا نہیں کہتے ہیں کہ دہلی سے لکھنو تک کے تمام اکابر علماء امامین کی شہادت کے تذکرہ کو اپنا معمول بنائے ہوئے ہیں۔اور مرزا حسن علی بھی جو شاہ عبد لعزیز دہلوی کے اجل تلامذہ سے ہیں۔محرم میں شہادت کا تذکرہ کرتے ہیں۔اور بعض اہل علم اس کو ناجائز بتاتے ہیں۔جیسا کہ علامہ ابن حجر مکی نے صواعق محرقہ میں امام غزالی سے نقل کیا ہے۔کیونکہ اس سے صحابہ میں لڑائی جھگڑا سناجاتا ہے۔اور صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  کے متعلق دل میں حسن ظن نہیں رہتا۔اور شاہ شہید  نے صراط المستقہم میں لکھا ہے۔کہ وہ امام تو شہید ہوکر جنت میں چلے گئے۔یہ خوشی کی بات ہے نہ رونے پیٹنے کی اور  اگر کوئی شخص کسی کو اپنے اقارب کی دردناک داستان سنائے۔او ر دونوں کو بتائے کہ اس کو دشمنوں نے اس طرح مارا تو وہ اسی سے ناخوش ہوگا۔پھر  امامین کے متعلق اس کو کیوں جائز رکھا  جائے اور کتاب سر الشہادتین کہتے ہیں۔کہ شاہ عبد  العزیز کی نہیں ہے۔بلکہ کسی شعیہ کی تصنیف ہے۔جواب مفصل عنایت  فرماہیں۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

صورت مرقومہ میں بہتر یہی ہے۔یہ کربلا کے واقعے کو بیان نہ کیاجائے۔جیسا کہ  صاحب صواعق اور شاہ اسماعیل شہید نے لکھا ہے۔اور شاہ ولی اللہ صاحب نے قول الجمیل میں لکھا ہے۔کہ قصہ گوئی کی سم رسول اللہﷺ اور شیخین کے زمانے میں نہ تھی۔بعد  میں اگر  کوئی قصہ گو آیا۔تو اس کو مسجد سے نکال  دیا گیا۔قصہ  گوئی وعظ نہیں ہے یہ اچھی بھی ہو سکتی ہے۔اور بری بھی وہ آفات جو  آجکل واعظوں کو  پیش آتی ہیں۔ان  میں سے ایک یہ ہے کہ وہ اکثر موضوع اور  محرف روایات بیان کرتے ہیں۔اور ان کی وہ صلواۃ و دعوات کہ جن کو محدثین نے موضوعات سے شمار کیا ہے انہی میں سے کربلا کا واقعہ اور میلاد خوانی کی روایات ہیں۔اور پھر کربلا کے واقعے کے ضمن میں کئی ناجائز امور کا ارتکاب ہوتا ہے۔مثلا نوحہ۔شیون سینہ کوبی۔وغیرہ جو کہ قرون ثلاثہ مشہود لہا بالخیر میں باوجود محبت اہل بیت کے نہیں تھے ہاں ان کے لئے دعائے مغفرت کرنا چاہیے اور انا للہ وانا الیہ  راجمعون ۔پڑھنا  چاہیے۔جیسا کہ صواعق محرقہ کی عبارت سے واضح ہے اور پھر اگر کوئی یہ اچھا کام ہوتا۔تو رسول اللہ ﷺ کی وفات کے دن ماتم و نوھہ ہوتا۔ نہ تو رافضیوں کی طرح ان دنوں میں نوحہ و شیون ہونا چاہیے۔اور نہ ہی خاجیوں کی طرح اس دن خوشی کا اظہار کرنا چاہیے۔

اور سر الشہادتین واقعی شاہ عبد اللہ عبد العزیز کی تصنیف ہے۔اس میں منتہی لوگوں کے فائدہ   کے لئے ہدایات لکھی گئی ہیں۔عوام اس سے فائدہ اٹھانہیں سکتے۔اور عوام کو اس  کا مطالعہ بھی نہیں کرنا چاہیے۔کیونکہ ان کے فتنہ میں مبتلا ہونے کا خطرہ ہے۔امام غزالی نے اپنی تصنیفات میں اسی لئے کربلا کے قصہ کو منیات سے شامر کیا ہے کہ اس سے عوام پر برا اثر پڑتا ہے۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 388-391

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ