سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(103) تعزیہ داری کرنا اور بچوں کو طوق بیری پہنانا اورماتم کرنا

  • 3672
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1032

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

کیا فرماتے ہیں علماء دین اس مسئلہ میں کہ تعزیہ داری کرنا۔اور بچوں کو طوق بیری پہنانا اورماتم کرنا۔اور بھوسا اڑانا وغیرہ۔اور زکر  سوانح ووقائع شہادت وغیرہا میں سامان کرنا اور  اس پر رونااور رولانا۔اور اس کے واسطے انعقاد مجلس تعزیت کرنا موجب ثواب ہے۔یا باعث عقاب اور نوحہ اور مرثیہ خوانی کرنا کیسا ہے۔اور یزید کے بارے میں کیا اعتقاد رکھنا چاہیے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

تعزیہ داری ۔علم داری۔ماتم کرنا۔بچوں کو طوق بیڑیاں پہنانا۔فقیر بنانا۔وغیرہ  قرون ثلاثہ مشہود ہا بالخیر سے ثابت نہیں۔جس کی خبر نہ کسی اصل شرعی کے تحت میں مندرج ہے نہ سلف و خلف صالحین کا اس پر  عمل پس محض بدعات و ضلالت واحداث فی الدین ٹھرا۔جس کے عدم قبول اور رد ہونے پررسول مقبول ﷺ کا یہ قول منقول ہے۔

من احدث في امرنا هذا ما ليس منه فهو رد

اور رونا اور آنکھوں سے آنسو بہانا خواہ بحالت نہایت مسرت ہو جیسے قدوم قادم کے وقت یا محتاجگی پر رونا۔یا بخیال سزائے حاکم یا استاد مربی وغیرہ کے رونا یا کسی کے صدمہ مفارقت جسمانی سے رونا اس میں کوئی مانع شرعی نہیں۔محض محبت الہٰی میں رونا اس کے عذاب و عقاب و محاسبہ کے ڈر سے رونا انبیاء و مرسلین اور صالحین اور زاہدین سے ثابت ہے۔ونیز کم ہنسنا۔اورزیادہ رونا۔آیہ کریمہ سے واضح ہے۔ کسی حکام عادل یا عزیز رشتہ دار یا استادشفیق و مرشد برحق و  پیشوائے دین کے انتقال و زکر انتقال سے بوجہ مزید حزن و ملال رونا۔یا یاد آخرت سے رونا ممنوع نہیں ہے۔آپﷺ کا وفات ابراہیم بن ماریہ قبطیہ میں آبدیدہ ہونا منقول ہے۔

ایک مرتبہ آپﷺ کا ایک جنازے کے ساتھ تشریف لے جانا اور قبر پر بیٹھ کر یاد آخرت و موت پر بہت رونا حضرت براء بن عازب سے مروی ہے۔اسی طرح آیت سن کر آنسو جاری ہونا۔حضرت عبد اللہ ابن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔قرآن مجید کی تلاوت میں رونا نہ آئے تو بتکلف رونا۔اس کے حکم پر بروایت حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے ثابت ہے۔خدا کے خوف سے زرا آنسو نکل آئیں۔پر جو فضیلت وارد ہے۔حدیث مروی حضرت عبد للہ بن مسعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ  میں موجود ہے۔بعد وفات آپﷺحضرت صدیق اکبر و فاروق رضوان اللہ عنہم اجمعین  کا حضرت ام ایمن رضی اللہ عنہا کی خدمت می آنا۔اور انھیں روتا دیکھ کر دونوں کا رونا۔روایت حضرت انس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  میں مذکور ہے۔وقت معین پر ایصال ثواب فاتحہ و درود سے کرنا موجب اجر جزیل ہے مجمع شروع میں میت کے اوصاف کمال و واقعات صحیحہ نتیجہ خیز مفید وقت بیان کرنا اور اس کے نظماو نثرا مغفرت مانگنا جس کا وہ مستحق ہے۔کرنا کسی زبان میں ہو اس کے جواز میں کلام نہیں۔ہاں نوھہ مشرکین جو عہد جاہلیت میںمروج تھا۔وہ ہرگز نہ چاہیے۔وہ نہ میت کے لئے فائدہ رساں ہے۔اور نہ پسماندگان کےلئے مفید حضرت عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  راوی ہیں۔

نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم عن المراثي وفي نسخة يعني النوح

یعنی رسول اللہﷺ نے مراثی سے منع کیا ابن ماجہ کے ایک نسخہ میں ہے۔کہ مراد اس سے نوحہ ہے۔حاصل یہ کہ مراثی سے مطلقاً مراثی مراد نہیں ہوسکتے۔ورنہ بہت سے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  بلکہ خود آپﷺ کے لئے مراثی لکھے گئے۔اور دین اسلام کا کوئی قاعدہ اس کے منع کا متقاضی نہیں ہے۔اس بنا پر شیخ جلال الدین ابو بکر مشہور مصنف الاسلام نے مصباح الذجاجہ میں بذیل حدیث مذکور فرمایا ہے۔

خطابی نے کہا کہ جاہلیت کے زمانے کی طرح مرثیہ کہنا حرام ہے۔ورنہ میت کےلئے دعا کرنا اس کی تعریف کرنا مکروہ نہیں کیونکہ ایسے مرثیہ تو کئی ایک صحابہرضوان اللہ عنہم اجمعین سے بھی منقول ہیں۔''

اور کسی سید کار کے سوء خاتمہ و حسن   خاتمہ کے یقینی علم نہ ہونے پر ہم اس کو کرنے کے لئے  مامور و مجاز نہیں ہیں۔اور رنج میں ترک الذائد وتزیئن ریا بغیر خلوص کچھ مفید نہیں اور خلوص کے ساتھ بنظر زہد ہو تو اس کا فضل معلوم و مسلم ہے۔

هذا ما ظهر لي والله سبحانه اعلم وعلمه اتم واحكم العبد فعماني عفي عنه

ہوالمصوب۔واقعی رسم تعزیہ داری بدعت ہے نہ رسول مقبول ﷺ کے زمانہ میں پایا گیا ہے۔نہ خلفاء کے زمانے میں بلکہ اس کا وجود قرون ثلاثہ میں کہ مشہود لہا بالخیر ہیں منقول نہیں ہوا۔اورتا این دم حرمین شریفین زاد ہما اللہ شرفا و تعظیما میں رائج نہیں ہے۔اور نہ کسی اصل شرعی کے تحت میں مندرجہ  ہے پس یہ بدعت ضلالت ٹھرا۔اوربدعت ضلالت کو اختیار کرنا  لعنت خدا و ملائکہ کا موجب اور رسول مقبول ﷺ کی رنجیدگی کا باعث ہے۔

اور سینہ کوبی کرنا اور کپڑے پھاڑنا۔نوحہ کرنا خاک اڑانا بال نوچنا۔یہ سب افعال منہیات و ممنوعات سے ہیں جیسا کہ حدیث شریف میں ہے۔

ليس منا من حلق وسلق وخرق وليس منا من ضرب الخدود وشق الجيوب ولعن الله النياحة

جو سر کے بال نوچے۔سینہ کوبی کرے۔اور کپڑے پھاڑے۔وہ ہم میں سے نہیں۔اورفرمایا جو رخسار پیٹے۔ گریبان پھاڑے وہ ہم  میں سے نہیں ہے۔اور فرمایا  خدا نوحہ کرنے والے پر لعنت کرے۔''

اور نفس بیان و قائع شہادت اور اس پر رونا بشرط یہ کہ نوحہ وغیرہ سے خالی ہو۔درست ہے۔اور اس کے واسطے خاص مجلس منعقد کرنا تشبہ روافض و کراہت سے خالی نہیں جیسا  کہ جامع الرموز میں ہے۔

''جب امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا واقع بیان کرنا چاہے تو پہلے دوسرے صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کی شہادت کا  تذکرہ کرے تا کہ شیعہ کے ساتھ مشابہہت نہ ہو۔''

''اور صراط مستقیم میں ہے۔زکر قصہ شہادت بعقد مجلس باین قصد کہ مردم بشنوند وتا سفیا نمایندو وگریہ وزاری کنن ہرچند اور نظری ہرخللے دروان ظاہر نمی شود وامافیالحقیقت آن ہم مذمومومکروہ است انتھے۔''

اگر مرثیہ احوال واقعی ہوں۔ پس اس قسم کے مرثیوں کو پڑھنا اور سننا کچھ مضائقہ نہیں رکھتا ہے۔یزید کے بارے میں کہتے ہیں کہ وہ باالاتفاق مسلمانوں کے وہ امیر ہواتھا۔اس کی اطاعت امام پر واجب تھی۔حالانکہ اس کی خلافت پر مسلمانوں کا اتفاق نہ ہوا۔اور ایک جماعت صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  اور اولاد صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  نے اس کی بعیت نہیں کی۔اور جن حضرات نے بعیت کی بھی تھی۔ جب ان کو اس کے فسق و فجور کا حال معلوم ہوا۔خلع بیعت کر کے مدینہ میں واپس آگئے اور بعض قائل ہیں کہ یزید نے اماحسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے قتل کا حکم نہیں دیا تھا۔نہ اس فعل سے راضی تھا۔ یہ بھی باطل ہے۔اور بعض کہتے ہیں کہ قتل امام رضی اللہ تعالیٰ عنہ  گناہ کبیر ہے نہ کفر اور یہ لعنت مخصوص بکفار ہے نازم باین فطانت نہیں جانتے  ہیں۔کہ کفر ایک طرف خود ایزا رسول الثقلین کیا ثمرہ رکھتا ہے۔اور بعض کہتے ہیں کہ اس کے خاتمہ کا حال معلوم  نہیں۔شاید اس نے اس کفر و معصیت کے بعد توبہ کی ہو۔وقت موت کے  تائب ہوگیا ہو۔امام غزالی کا احیاء العلوم میں اسی طرف رجحان ہے ۔جاننا چاہیے کہ توبہ کا احتمال ہی احتمال ہے واللہ اس بے سعادت نے اس امت میں وہ کچھ کیا ہے کہ کسی نے نہیں کیا۔شہادت امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  و اہانت  اہل بیت کے بعد مدینہ منورہ کی تخریب واہلیان مدینہ کی شہادت و قتل کے واسطے لشکر بھیجا تین روز تک مسجد نبوی  بے ازان و نماز رہی۔من بعد حرم مکہ میں لشکرکشی کر کے عین حرم مکہ میں عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو شہید کرایا۔اورانہیں مشاغل میں تھا کہ اس کی موت آگئی۔اس جہان کو پاک کیا اور اس کے بیٹے معاویہ نے برسر منبر اس کی برایئاں بیان کیں۔اور بعض سلف واعلام امت سے اس شقی پر لعن فجویز کرتے ہیں۔چنانچہ علامہ تفتا زانی نے کمال خوش و خروش کے ساتھ اس پر اور اس کے اعوان پر لعنت کی ہے۔اور بعضوں نے اس معاملہ میں توقف کیا ہے۔پس مسلک مسلم  یہ ہے کہ اس شقی کو مغفرت و رحم سے ہرگز یاد نہ کرناچاہیے۔اور اس کے لعن سے کہ حروف میں مختص بکفار ہے اپنی زبان کو روکناچاہیے جیسا کہ قصیدہ امالیہ میں ہے۔(محمد عبد الہادی)

تعزیہ بنانا اس میں شریک ہونا۔اس پر چڑھاوا چڑھانا  ۔یا منت ماننا ان ایام میں عشرہ محرم میں زکر شہادت حسین کرنا رونا پیٹنا۔چلانا۔نوحہ کرنا۔کپڑے پھاڑنا۔یہ سب غلط ہے۔اور بدعت سیہ اور یزید کو  برا کہنا خلاف احتیاط ہے۔فقط واللہ اعلم۔بندہ رشید احمد گنگوی۔رشید احمد ص 1301۔

تعزیہ داری کرنا وغیرہ امور مذکورہ فی السوال ناجائز بندعت ہیں۔اور موجب عقاب یزید اپنے  کئے کو پہنچ گیا۔اب اس پر لعنت کرنا۔اس کو گالی دینا۔برا کہنا ن چاہیے۔فرمایا رسول اللہﷺ نے  ۔

1لا تسبو ا الاموات فانهم قد افضوا الي ما قدموا رواه البخاري (سید محمد عبد السلام۔فتاوی نزیریہ جلد نمبر 1 ص 228)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 368-373

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ