السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
احکام رسولﷺ کی حیثیت
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
(از مولانا عبد الروئف رحمانی ۔نیپال)
صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے مقدس دور میں کچھ مسائل ہیں باہم اگر اختلاف رونما ہوتے تو فرمان رسولﷺ معلوم ہونے کے بعد صھابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین اور خفاء راشدین فرمان رسالت کے سامنے جھک جاتے اوراختلافات ختم کر کے صرف سنت کی پیروی کرتے اگر خلفاء کے کچھ ایسے مسائل ہوتے ہیں۔جو نبی کریمﷺ کی سنت سے مذاحم نظر آتے۔ تو اجلہ صحابہ کرم رضوان اللہ عنہم اجمعین اس کی صاف مخالفت اور سنت کے خلاف نہیں مانی جاتی تھی۔اور نہ ان کا احترام و تقلدس اتباع کی راہ میں کچھ حائل ہوسکتا تھا چنانچہ اس سلسلہ کے چند واقعات پیش خدمت ہیں ان سے تقدیم کتاب وسنت کاحال اچھی طرح آپ کو معلوم ہوسکے گا۔
1۔حضرت عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حج و عمرہ کے لئے ایک ساتھ تلبیہ کو منع فرما رکھا تھا انہیں کے دور خلافت میں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے دونوں کے ساتھ لبیک کی آواز بلند کی جب حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ یہ اطلاع کی گئی توانھوں نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا۔
الم تعلم اني قد نهيت عن هذا
یعنی کیا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو یہ معلوم نہیں کہ میں نے حج تمتع سے منع کر رکھا ہے۔فرمایا آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے اعلان کا پتہ مجھے ضرور ہے۔
ولكن لم اكن لادع قول رسو ل الله صلي الله عليه وسلم لقولك
(مسنداحمد۔ج1 ص 90)لیکن جب میں حضور ﷺ کے ارشاد مبارک کو جانتا ہوں۔توآپ کی بات کی وجہ سے حضور ﷺ کے ارشاد کو ترک نہیں کرسکتا۔
ایک مجلس میں حضرت عبد اللہ بن عباسرضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ حضور ﷺ نے حج تمتع کیا ہے۔اس پر عروہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا مگر ابو بکر اور عمر رضوان اللہ عنہم اجمعین تو اس سے منع کرتے تھے۔توحضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے غصہ سے فرمایا !اے عروہ تو کیا کہہ رہا ہے ۔میں نبی کریم ﷺ کا قول و فعل بیان کر رہا ہوں اور تو کہتا ہےکہ ابو بکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ نے منع کیا ہے مسند احمد ص337 ج اول اس رویات سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین ارشاد نبوت کے مقابلے مین خلفاء راشدین کے سکی قول و عمل کو حجت نہیں قرار دیتے تھے صرف حضورﷺ کے قول و افعال پر عام اعمال کا دارومدار رکھتے تھے۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا اپنے فتوے سے رجوع بھی ثابت ہے۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ میرے والد حضر ت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو روکا کہ آپ کو حج تمتع سے روکنے کا حق حاصل نہیں ہے۔کیونکہ ہم نے حضور ﷺ کے ساتھ حج تمتع کیا ہے۔لیکن آپﷺ نے ہم کو اس سے روکا یہ سن کر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے فتوے سے رجو ع فرمایا (منتخب کنز الاعمال ص336 ج دوم)
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کسی سے پوچھا کہ قربانی کے جانور پر سوار ہونا درست ہے یا نہیں؟ آپ نے فرمایا درست ہے۔کیونکہ حضور ﷺ نے ہدی کے جانوروں پر سواری کی اجازت دی ہے۔اس کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سائل سے فرمایا۔
لا تتبعون شئا افضل من سنة نبيكم صلي الله عليه وسلم
(منتخب کنز الاعمال ص 378 ج2) نبی کریم ﷺ کی سنت سے بڑھ کر کوئی چیز قابل اتباع نہیں۔ مقصود یہ ہے کہ حضور ﷺ کی راہ و روش سے ہٹ کر تقویٰ اور بزرگی کا کوئی اور طریقہ نہیں ہے۔پس آپﷺ کے ارشاد کے بعد ایسے جانور پر سواری نہ کرنا اتباع سنت کے خلاف ہے۔
حضرت ابوالجواز رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے معاملہ صرف کے متعلق پوچھا تو بارہا یہی بتاتے رہے کہ جب ہاتھوں ہاتھ نقد لین دین ہو تو ایک کے بدلے دو لینے میں کوئی حرج نہیں ہے۔ایک سال حج کے موقع پر مسئلہ کی توضیح کے خیال سے پوچھا توفرمایا کہ پورے وزن کے ساتھ برابر برابر لینا ہوگا۔تو میں نے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے عرض کیا پہلے آپ کا فتویٰ کچھ اور توتو اب کچھ اور کیابات ہے۔فرمایامیرا پہلا فتویٰ میری رائے تھی۔او ر اب حضرت ابوسعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس کے متعلق ایک صاف حدیث بیان نظر کرتے ہیں۔فتركت راي اليحدیث رسول اللہﷺ پس میں نے اپنی رائے کو حدیث رسولﷺ کے مقابلے میں پشت ڈال دیا ہے۔
ایک بار حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ارادہ کیا کہ کعبہ میں جو خزانہ مجفوظ ہے۔اس کو براآمد کر کے لوگوں میں تقسیم کر دیا جائے۔ تو شیبہ بن عثمان نے یہ بات سامنے رکھی کہ آپ سے پہلے رسول اکرمﷺ اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ گزر چکے ہیں۔اور ان لوگوں نے ایسا نہیں کیا حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا بے شک میرے لیے ان حضرات کی سنت اور تعامل کی اقتداء کرنی ضروری ہے۔(مسند احمد ص 410 ج3 چنانچہ آپ نے بھی کعبہ کا خزانہ براآمد نہیں کیا۔
حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے ایک شخص نے کہاکہ میں نے فلاں کے ساتھ نماز پڑھی ہے۔تو اس نے 22 تکبیروں کے ساتھ نماز پڑھائی ہے۔چونکہ وہ شخص اس عیب و نقص سمجھ رہا تھا اس لئے عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا!یعنی تجھ پر افسوس ہے تو 22 تکبیروں میں کوئی شرعی نقص کیوں سمھ رہا ہے۔اسی طرح کی نماز تو رسول اکرم ﷺ کی عین سنت ہے۔
فاروق اعظم امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے جب مسجد نبوی ﷺ میں اضافہ کرنے کےلئے حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا مکان جو مسجد کے پہلو میں تھا لینا چاہا تو حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنی زمین کے فروخت کرنے پر راضی نہ ہوئے۔تو حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا کہ تمھیں قطعاً یہ زمین خالی کرنی ہوگی۔خواہ قیمتا تو خواہ مسجد کے لئئے وقف کردو۔انہوں نے کسی طرح منظور نہ کیا۔کیونکہ حضرت عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ حضورﷺ کے محترم چچا تھے۔ان کا احترام بھی واجب تھا۔ادھر حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا حکم بھی وقعت رکھتا تھا۔اس لئے یہ معاملہ ایک حکم یعنی ایک ثالث کے سامنے پیش ہوا۔اور یہ دونوں بزرگ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے فیصلہ پر راضی ہوئے۔چنانچہ جب معاملہ ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی خدمت میں پیش ہوا۔تو مقدار کی رواداداور تفصیلات معلوم کرنے کے بعد حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے فرمایا کہ آپ زمین والے کی رضا مندی کے بغیر کسی کی زمین نہیں لے سکتے۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے منصف سے پوچھا کہ کتاب اللہ یا سنت رسول اللہﷺ کی کونسی دلیل تمار ے پاس ہے۔حضرت ابی ابن کعب رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فرمایا بل سنة من رسول الله صلي الله عليه وسلم
کہ میرے علم میں رسول اللہ ﷺ کی ایک سنت ہے۔چنانچہ اس سنت کا علم حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ہوا تو اپنے اس خیال سے باز آگئے۔منتخب کنز الاعمال ص 262 ج3)
ایک شخص نے حضرت عبد اللہ ابن عباسرضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا۔ کہ سفر میں(نماز قصر) اب بھی پڑھیں۔یا کامل اور پوری پڑھیں تو آپ نے فرمایا۔
لست تقصر ها ولكن تمامها وسنت رسول الله صلي الله عليه وسلم
منتخب کنز العامل ص 229ج3)خلاصہ جواب یہ ہے کہ تم سفر میں نماز قصر کو جیسے حضور ﷺ نے مسنون کیا ہے۔ کچھ قصر و نقص کی بات نہ سمجھو۔بلکہ وہ قصر ہوکر بھی کامل مکمل ہے اور رسول اکرمﷺ کی عین سنت ہے۔
حضرت عبد اللہ بن زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ اور ان بھائی عمرو بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے درمیان ایک جھگڑا تھا دونوں اپنا معاملہ پیش کرنے کےلئے حضرت سعید بن عاصرضی اللہ تعالیٰ عنہ کے پاس گئے چونکہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ ایک مشہور شخصیت کے مالک تھے۔اس لئے سعید رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اپنے ساتھ تخت پر بٹھانا چاہا۔اور جگہ بنا کر بلایا توحضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس عزت افزائی کو قبول کرنے سے انکار کردیا اور فرمایا۔
سنة رسو ل الله صلي الله عليه وسلم ان الخصمين يفعد ان بين يدي الحكم
(مسند احمد ص 4 ج4)یعنی رسول اللہ ﷺ کی سنت یہ ہے کہ مدعی اور مدعا علیہ دونوں حاکم کے سامنے بٹھائے جائیں ایک حاکم کے ساتھ تخت پر بیٹھے اور دوسرا فرش زمین پر ہے یہ سنت رسولﷺ کے خلاف ہے۔
علامہ ابن القیم لکھتے ہیں۔
قال الشافي اجمع الناس علي ان من استبانت له سنة رسو الله صلي الله عليه وسلم لم يكن له ان يدع لقول احد
(کتاب الروح ص 322)یعنی امام شافعی نے فرمایا کہ اس مئلہ پر اجماع امت ہے۔کہ جس کو سنت رسول اللہﷺ معلوم ہو جائے پھر اس کی مجال نہیں ہے۔کے کسی عالم یا کسی امام کے قول کی وجہ سے سنت رسول اللہﷺ چھوڑ دے۔
علامہ ابن القیم لکھتے ہیں کہ حضور ﷺ کے قول وفعل پر کسی کی رائے و قیاس کو مقدم کرنا ہرگز جائز نہیں ہے۔حدیث کی صحت کور وایۃ و درایۃ معلوم کر لینے کے بعد حدیث رسولﷺ سے عدول درست نہیں۔اگر چہ بغرض محال ایک دنیا اس کی مخالفت پرتل جائے آپ کے الفاظ اس موقع پر یہ ہیں۔
ننظر في صحة الحديث اولا ثم في معناه ثانيا فاذا تبين لك لم تعدل عنه ولو خالفك من بين المشرق والمغرب ومعاذ الله ان تتفق الامة علي مخالفة ما جاء به
کتاب الروح ص 323)پھر حافظ ابن القیم نے بڑی قیمتی یہ بات لکھی ہے کہ کچھ لوگ کتاب اللہ وسنت پر کسی امام کی رائے کے خلاف ہونے کی وجہ سے عمل نہیں کرتے اور یہ تاویل کرتے ہیں۔کہ ہمارے امام نصوص شرعیہ کو ہم سے زیادہ جانتے تھے۔لیکن ان کی بات اگر درست ہے تو ہم ان سے کہتے ہیں۔کہ جن آئمہ دین نے نص شرعی کی پیروی کی ہے۔وہ بھی تو ہم سے عالم تھے۔پس کیا وجہ ہے کہ تم نے ان کی موافقت نہ کی ۔اگر عالم ہونا مدار کار تھا تو دجہ ترجیح کیا ہے۔پھر ان علماء وآئمہ کی تصریحات موجود ہیں کہ نصوص کتاب و سنت کو ہمارے اقوال سے مزاحم دیکھو تو نصوص شرعیہ کتاب وسنت کو ہمارے اقوال پر مقدم رکھو۔
حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک دن میرے پاس حضرت عثمان رضی اللہ عنہ بن مظعون رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی بیوی خویلہ رضی اللہ عنہا آئی ہوئی تھیں۔حضور ﷺ کی بھی نظر پڑی تو دیکھا کہ کپڑے میلے اور عام حالت خراب خستہ ہے۔ تو حضرت عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے حضور ﷺ نے پوچھا کہ خویلہ رضی اللہ عنہا کی یہ کیا حالت ہے۔جواب دیا حضورﷺ اس آدمی کی بیوی کی یہ حالت کیوں نہ ہو جس کے شوہر دن بھر روزہ رکھتے ہیں۔اور رات بھر قیام کرتے ہیں۔بیوی سے کچھ واسطہ ہی نہیں رکھتے ہیں۔
فهي كمن لا زوج لها فتركت نفسها واضاعتها
تو انہوں نے اپنے نفس کا تزین چھوڑ دیا۔اور اپنی حالت کو شوہر کی بے اتفاقی کے سبب گرادیا تو حضور ﷺ نے حضرت عثمان بن مظعون کو بلایا اور فرمایا کہ کیا تم میری سنت سے اعراض کرتے ہو۔توانہوں نے عرض کیا۔
ولكن سنتك اطلب يا رسو ل الله
یعنی میں تو آپ ﷺ کی سنت کا ہی طالب ہوں۔ تو حضور ﷺ نے فرمایا کہ مین روزہ کے ساتھ وقت پر سوتا ہوں۔اور بیسیوں سے بھی تعلق رکھتاہوں۔عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ اللہ کا خوف کرو۔اللہ کے حقوق کے ساتھ تم پر تمہارے نفس کا بھی حق ہے اور تمہارے اہل و عیال کے بھی حقوق ہیں اس لئے سب امور میں اعتدال ملحوظ رکھو۔مسند احمد ص368 ج2)
سلیط رضی اللہ تعالیٰ عنہ نامی ایک بزرگ صحابہ گزرے ہیں۔انکو حضور ﷺ نے ایک زمین بطور جاگیر عطا فرمائی تھی۔وہ اپنی زمین کی آبادی کے سلسلے میں اپنے موضع میں جایا کرے تھے۔اور چند دن گزار کر پھر خدمت نبوی ﷺ میں مدینہ آجاتے تھے۔ان سے کہتے تھے کہ تمہارے جانے کے بعد فلاں فلاں آیتیں اتریں۔اور حضورﷺ نے ف لاں فلاں ہدایت فرمائی اور فلاں فلاں فیصلے نافذ فرمائے۔تو ان کواپنی غیر حاضری کا بڑا غم ہوتا ایک بار انہوں نے طے کر لیا کہ یہ سب کو تنہاں زمین داری کے مخمصے کے سبب ہین تو حاضر ہوکر حضور ﷺ سے عرض کرتے ہیں۔کہ حضور ﷺ اس جاکید کی زمین نے مجھے افادات سے محروم کر رکھا ہے۔براہ کرم مجھ سے اس جائیداد کو واپس لے لیجئے۔
فلا حاجة لي في الشئ يشغلني عنك
(کتاب الاعمال ص 272) مجھے ایسی کسی بھی چیز کی ضرورت نہیں ہے۔جو آپ کے سنن احکام اور آپ کے افادات سے مجھے محروم رکھے واقعی زمین داری ایک بڑا بکھیڑا ہے اور سخت مخمصے کا کام ہے۔
نبی اکرم ﷺ کی وفات پر بعض اصحاب رضوان اللہ عنہم اجمعین نے زکر کیا کہ کاش ہم لوگ حضور ﷺ سے پہلے مر گئے ہوتے۔اور بعد میں آنے والے ہر فتنہ سے آذاد رہتے ایک صحابی معن بن عدی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا میں تو آپﷺ کے ارتحال کے بعد زندہ رہنا چاہتا ہوں۔ تاکہ دنیا کو دکھا دوں کہ جس طرح آپﷺ کی سنت سے زندگی مین ہمیں محبت تھی ویسا ہی عشق و محبت سنن نبویہ ﷺسے ہمیں آپﷺ کی محبت کے بعد بھی ہے۔راوی کے الفاظ ہیں۔حتي اصدقة ميتا كما صدقته حيا(صفۃ الصفوہ ص184 ج1)
آپﷺ سے دریافت کیا گیا من اهل السنة کہ سنت پر عمل پیرا کون لوگ سمجھے جایئں گے ما انا عليه واصحابي(ملال و نحل شہرستانی ص5 ج1)یعنی آج میرے زمانہ میں جو طریقہ میرا اور میرے اصحابرضوان اللہ عنہم اجمعین کا ہے۔اس پ چلنے والے اور اس کے کے مطابق عمل کرنے والے اہل سنت ہیں۔
حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے دریافت کیا گیا کہمن اهل السنة کہ اہل سنت سے کون لوگ مراد ہیں فرمایا۔المتمسكون بما سنة الله ورسوله وان قلوا(کنز الاعمال ص 210 ج8)کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے جو شریعت مقرر کر دی ہے اس کے ساتھ تمسک کرنے والے اور اس کے مطابق زندگی بسر کرنے والے اہل سنت ہیں خواہ وہ تھوڑے ہی لوگ ہوں۔
علامہ ابو عبیدہ فرماتے ہیں۔السنة هي المفسرة للتنزيل والموضحة لحدوده اوشرائعهاس کے بعد اس کا مثلہ دیتے ہیں۔کہ ذانی کی حد کوڑے لگانا قرآن سے مقرر کیا بظاہر ہر طرح کے زانی کی یہ سزا معلوم ہوتی ہے۔مگر حضور ﷺ نے کنواروں پر تو کوڑے کی سزا رکھی مگر شادی شدہ کے لئے رجم سنگسار کاحکم لازم فرمایا تو یہ کتاب اللہ کے خلاف نہ سمجھا جائے گا۔بلکہ آپ کی اس توضیح سے یہ سمجھا جائے گا کہ آیت میں بکرین مراد ہیں اس طرح قرآن نے ۔۔۔۔قرآن۔۔۔۔فرما کر ہر اولاد کو وارث بنایا مگر حضورﷺ نے فرمایا۔لا يرث المسلم الكافر ولا لكافر المسلم
تو یہ قرآن کی مخالفت نہیں ہے۔بلکہ اس سے سمجھا گیا کہ دو مختلف دین والون میں وراثت جاری نہ ہوگی۔اس طرح وضو بنانے کے لئے قرآن پاک نے پائوں دھونے کا حکم دیا حضورﷺ نے خفین پر مسح کا حکم دیا تو یہ قرآن کی مخالفت نہین ہوئی بلکہ حضور ﷺ کے قول و عمل سے اس امر کی تشریح ہوئی کہ غسل اس وقت ہے جب پائوں ننگے ہوں۔اور ان پر خف موجود نہ ہو لیکن جب خفاف مستعمل ہوں تو مسح کافی ہے۔وهكذاكتاب الاموال ص 544)معلوم ہوا کہ سنت رسولﷺ کے بغیر قرآنی احکام کی توضیح و تفسیر نہیں ہوسکتی اور ان کے بغیر کتاب اللہ پر صحیح عمل نہیں ہوسکتا۔
خطیب بغدادی لکھتے ہیں کہ ایک شخص صحابی رسول ﷺ حضرت عمران بن حسین کے پاس آیا اور ان سے یہ مطالبہ کیا کہ لا تحدثونا الا بالقرانیعنی ہمیں آپ جو کچھ تعلیم و تبلیح فرمائیے صرف قرآن سے ہی فرمایئے حضرت عمران رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کو اپنے قریب بلایا۔کہا کہ ایسا مطالبہ تم نے کیوں کیا اس نے کہا قرآن ہمیں کافی وافی ہے ۔تفصيلا لكل شئ اس کی تعریف میں وارد ہے آپ نے فرمایا ہاں قرآن میں مکمل جامع ہدایت موجود ہیں مگر ان میں عمل تشکیلات سنت رسولﷺ یعنی احادیث نبوی ﷺ سے معلوم ہوسکتی ہیں۔اگر تم حدیث رسولﷺ کی ضرورت نہیں سمجھتے تو بتلائو کہ الصلواۃ جس ک بار بار مطالبہ قرآن کریم میں مسلمانوں سے کیا گیا ہے اس کی عملی صورت کیا ہوگی۔
اكنت تجد في القران صلوة الظهر اربعا وصلوة العصر اربعا والمغرب ثلاثا
یعنی کیا نماز ظہر کی چار رکعت اور عصر کی چار رکعت اور مغرب کی تین رکعت کا تذکرہ قرآن کریم میں ملے گا۔پھر آپ نے تمثیلا حج کا زکر فرمایا کہ پوچھا ۔
لو وكلت انت واصحابك الي القران اكنت تجد منه الطواف بالبيت سبعا والطواف بالصفا والمروة سبعا
یعنی تمہارے اور تمہارے باپ اور تمہارے دوسرے ہم خیال حضرات کے حوالے قورآن کردیا جائے تو کیا بیت اللہ کے سات سات طواف اور صفا مروہ کے سات سات طوافوں کا مسئلہ قرآن سے دکھا سکتے ہو اس کے بعد دریافت فرمایا کہ چور کے ہاتھ کاٹنے کا حکم دیا گیا ہے۔اسلامی سلنطنت کے قیام کی صورت میں یہ سزا چور کو ضروری جائے گی۔لیکن یہ بتلائو کے قرآن نے اس کی عمل تشکیل نہیں بتلائی تو ہاتھ کہاں سے کاٹا جائے گا۔
واليد من اين تقطع من ههنا او من هننا او من ههنا
راوی کا بیان ہے کہ پہلے آپ نے گھٹنے پر ہاتھ رکھ کر پوچھا گیا کہ یہاں سے کاٹا جائئے گا۔پھرکہنی پر ہاتھ رکھ کر پوچھا یہاں سے پھر کندھے کے قریب ہاتھ لے گئے اور پوچھا کہ کیا یہاں سے (الکفایہ للخطیب ص16)اس واقعہ کی روشنی مین بلا مزید تبصرہ کے سنت رسول اللہﷺ کی ضرورت اوراہمیت صاف واضح ہے۔
مشہور اہل اللہ ابو زید بسطامی رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں۔یعنی تم اگر کسی کو دیکھو کہ وہ ہوا میں اڑ ریا ہے۔وہ بڑی بڑی کرامات دیکھا رہا ہے۔تم اس کا زرااعتبار نہ کرو۔یعنی کوئی ولی کامل غوث قطب اس کونہ سمجھنے لگ جائو۔بلکہ دیکھو کہ شرعیت کے آداب حدود کی پابندی کے معاملے میں اس کا کیا حال ہے۔اورشرعیت و سنت کی تبلیغ اورامر نہی کے معاملہ میں اس کا کیا رویہ ہے۔اگرسنت رسول اللہﷺ اوررب کی شریعت کا متبع اور مبلغ ہے۔تو بلاشبہ وہ ولی بھی ہے اورصوفی بھی ہے۔لیکن حدودشرعیہ سے آذاد ہے۔تواس کومعمولی درجے کا انسان بھی قرار نہ دو حضرت امام ربانی مسجد والف ثانی کا قول ہے ہ جو معارف اور اصول بال بھر بھی شریعت کتاب وسنت کے مخالف ہوں وہ ایک جو کےعوض بھی خرید ے نہیں جاسکتے۔
عارف باللہ ابو حفص نیشا پوری کا مقول ہے۔اور اصوال کا ہر وقت کتاب وسنت کا مقابلہ کر کے اپنے اعمال کو مطابق سنت نہ رکھے۔خواہ وہ کیسا ہی آدمی ہو۔اس کو انسان نہ سمجھو۔اس میں اشارہ ہوا کہ بظاہر وہ تارک سنت خواہ ہوا میں اڑے۔پانی کی چادر پر کرامات دیکھائےلیکن سنت کے تارک و بد عمل کو ولی صوفی توکجا انسان میں بھی شمارنہ کرو۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ لوگوں پر ایک ایسا زمانہ آئے گا کہ ابن کا شیخ امر بالمعروف و نہی عن المنکر پر عامل نہ ہوگا۔سنت کے کام بدعت سمجھیں جایئں گےاور بدعت سنت سمجھی جائے گی۔اس کا وبال یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ ہر سے اورظالم حاکم کو ان پر مسلط کر دے گا۔اوران کے صلحاء و ابرار دعاکریں گے مگرقبول نہ ہوگی۔
امیر المومنین حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اسکندریہ کی فتح کے لئے حضرت عمرو بن عاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی سر کردگی میں مسلمانوں کا ایک لشکر روانہ کیا اس کے فتح ہونے میں کافی تاخیر ہوئی۔حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ برابر اس فکر میں رہنے لگے۔کہ اس تاخیر کا باعث کیا ہے۔آخر سوچ سمجھ کر سالار لشکر حضرت عمرو بن عاصرضی اللہ تعالیٰ عنہ کو ایک خط لکھا اور اس میں واضح کیا کہ اس فتح وتایئد الہٰی میں تاخیر کا سبب میرے نزدیک بجز اس کے اور کچھ نہیں ہے۔کہ مسلمانوں نے کتاب وسنت کے بتائے ہوئے نمونے پر اپنے عمل کو قائم نہیں رکھا لہذا آپ سب مسلمانوں کو جمع کرکے بتلائو کہ وہ اپنی زندگی میں معلوم کریں۔کہ کونسا کامکلاف سنت ہورہا ہے۔چنانچہ ہر شخص نے سوچا اورغور کیا تو پتا چلا کہ ایک سنت سے عام طور پر غفلت تھی۔اس پر اہمتام کے ساتھ عمل کرنا شروع ہوا تو بہت جلد مسلمانوں نے اسکندریہ کو فتح کرلیا۔(منتخب کنز جلد سوم )حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے فوج کی کمی کو اس کا سبب قراردیا نہ گولا گھٹا مصالحہ بارود بندوق و توپ کی کمی کو اس کا باعث قرار دیا اور نہ کسی دیگر مادی چیز کو اس کا باعث گردانا بلکہ تمام تر نصرت و کامیابی کا مدار خدا اور سنت پر سمجھا۔ اور آج ہر نامی کومسلمانوں نے اپنی تعدادی اقلیت اور مادی سروسامان کی قلت پر محمول کرنے کا حیلہ تراش لیا ہے۔اپنی ایمان افلاس نےالدیدین کا کوئی وجہ نہیں قراردیتے یہ حیلہ بھی بجائے خود ایک فتنہ ہے۔
امام شافعی اور امام محمد میں مناظرہ ہوا کہ امام ابو حنیفہ اور امام مالک میں سے کون افضل ہے۔؟تو امام شافعی نے قسم دے کر امام محمد سے پوچھا ۔
من اعلم بالقران صاحبنا ام صاحبكم کہ قرآن کا زیادہ علم کسے ہے۔؟امام محمد نے کہا کہ امام مالک کو پھر قسم دے کر پوچھا من اعلم بالسنۃ کہ سنت نبویہ کا دونوں اماموں سے کس کو زیادہ علم، ہے۔امامحمد نے کہا امام مالک کو پھر پوچھا اصحاب رسولﷺ کے اقوال کازیادہ عالم کون ہے۔انہوں نے کہا امام مالک ہیں۔(صداۃ الجنان ص 376 ج 1 )اس پر امام شافعی نے فرمایا۔کہ جب کتاب وسنت کا زیادہ علم امام مالک کو ہے ۔تواب قیاس کے علاوہ کیا باقی بچا اور پھر قیاس بھی انہی میقات پ ہوتا ہے۔جب ان کا وسیع علم ہی نہیںتو قیاس بھی بے بنیاد ہوگا۔
صفۃ الصتوۃ ص 146 جلد 2 میں امام شافعی کا ارشاد ہے۔ تم میری کتاب میں کوئی مسئلہ رسول اللہ ﷺ کی سنت کے خلاف دیکھو تو میری رائے میرا زانی قول سمجھ کر چھوڑ دو قطعی چھوڑ دو اور سنت رسولﷺ کےمطابق اپنا قول وعمل دیکھو۔
حضرت عبد اللہ ابن مبارک کے کسی شاگرد نے کتاب المناسک کی ایک حدیث کہ آخر میں لکھا ہے۔ہمارے استاد کا یہی خیال ہے۔او ر ہم بھی اس پر عمل کرتے ہیں۔کسی موقعہ پر یہ عبارت آپ کی نظرسے گزری تو ضعف ہئوے اور اس عبارت کو اپنے ہاتھ سے کھرچ دیا میں کون ہوں جو میرا قول لکھا جائے اور اس پر عمل کا مدار رکھا اجائے۔(صفۃ الصفوۃ ص108 ج4) (الاعتصام جلد نمبر 6 ش 10۔11)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب