سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(84) روح سنت

  • 3654
  • تاریخ اشاعت : 2024-10-29
  • مشاہدات : 1765

سوال

(84) روح سنت

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

روح سنت

(غلام محمد اللہ جرمن )


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

سنت اپنے باطنی اور روحانی پہلو کے نقطہ نظر سے بھی اسی درجہ اہمیت رکھتی ہے۔جس درجہ کہ اپنے ظاہری پہلو کے لہاظ سے ظاہری پہلو سے جاری مراد اس کے اسناد کی تایخی استوار ہے۔اور وہ شے ہے جسے ہم شرعی یا اس کی آئنی و فقہی حیثیت سے تعبیر کرتے ہیں۔سوال یہ ہے کہ سنت کی پیروی کو اتنا ضروری کیوں سمجھا جاتا ہے۔ کہ اس کے بغیر سلامی زندگی کا صحیح مفہوم ہی متعین نہ سکے کیا اسلام تک رسائی حاصل کرنے    کا اس کے سوا اور کوئی طریق نہیں کہ ہم اعمال واعادات اورامر و نواہی کے ایک وسیع و عریض سلسلے کو ماننے پ مجبور ہوں جب کہ اس میں بعض نہات معمولی باتیں بھی ہوسکتی ہیں۔جو سنت سے ماخؤذ وستفاد ہوں یہ مانا کہ آپﷺ بہت بڑے انسان تھے۔لیکن ان کی زندگی کے ہر گوشہ کی تقلید و اطاعت کے کہیں یہ معنی تو نہیں کہ اس کہ اس سے فرد کی شخصی آذادی بالکل ختم ہوجاتی ہے۔

اعتراض کی نوعیت بہت پرانی  ہے۔ہمیشہ اسلام دشمن عناصر نے اسکودہرایا ہے۔اور کہا ہے کہ مسلمانوں کے  اسباب زوال میں سب  سے بڑا سبب یہی تھا کہ انہوں نے سنت کی اطاعت اور پیروی کی بجائے تشدد اختیار کیا ان کی یہ رائے ہے کہ اسلام کے بارے میں یہ طرز عمل آیندہ چل کے انسان کی حریت رائے بہت بڑی قدغن ثابت ہوسکتا ہے۔اور معاشرے کے طبعی ارتقاء کو روک دینے باعث بن سکتا ہے۔لیکن ہم یہ کہہ دیتے ہیں اس ضمن میں یہ حقیقت جان لینے کی ہے۔کہ چاہے ہم اس سوال کا تسلی بخش جواب سے سکین یا نہ دے سکیں اسلام کا مستقبل بہرحال سنت لئ صحیح صحیح موقف کی تعین کے ساتھ وابستہ ہے۔اگر سنت کا مقام و موقف سمجھ میں آگیا تواسلام کی روح کو تاریک بنا دینے کے زمہ دار قرار پاییں گے۔ہمیں بجا طور پرناز ہے کہ اسلام دوسرےادیان کیطرح متصو فانہ اذعان کا قائل نہیں بلکہ اس کے دروازے ہمیشہ بحث وتمحیص کے لئے کھلے ہیں۔ یہی سبب ہے کہ ہم صرف یہ معلوم کرنے پر اکتفا نہیں کرتے کہ سنت نے کن چیزوں کو ہمارے لئے ضروری ٹھہرایا ہے۔ بلکہ اس سے آگے بڑھ کر یہ معلوم کرنے کا حق رکنتے ہیں۔کہ اس کی تہہ میں کیا اسباب و علل کارفرما ہیں۔اسلام کا مزاج  ایسا ہے۔کہ توحید کو صرف عقیدہ تک مھدود نہیں رکھتا ہے۔ بلکہ چاہتا ہے کہ زندگی کے تمام گوشے اسی رنگ میں رنگے جایئں۔اور عقید ہ فکر کے دائروں  سے نکل کر اس کے تسلط و اقتداء کے دائرے عمل وحرکت کے ایک ایک حصہ کو اپنی لپیٹ میں لے لیں۔پھر چونکہ اس مقصد جلیل تک پہنچنے کا تنہا ہی راستہ ہے۔ اس لئے قدرتا اس کی آغوش میں تمام مددکات آگے ہیں۔اور اس جامعت کے ساتھ نہ تو رتی بھر اضافہ ممکن ہے۔اور نہ  یہی ہوسکتا ہے کہ ان میں زرہ برابر بھی کمی کر دی جائے۔انتخابیت  اور پسند کو اس میں دخل نہیں جب ہم نے ان تعلیمات کو تسلیم کرلیا۔جن کو قرآن کریم نے ہم تک پہنچایا ہے۔یا آپ ﷺ کو رسالت تک ہماری ان تک رسائی ہوئی ہے۔تو ہمارے لئے ضروری ہوجاتا ہے۔کہ ان کو پورا پورا مانیں بغیر کسی استثناء کے سب کی عقابیت پرایمان لاییں۔ورنہ اندیشہ ہے کہ یہ اپنی اصل قدر وقیمت اور افادیت کھو دین گی۔ اسلام کے بارے میں یہ اصولی اور بنیادی سی غلط  فہمی پائی جاتی  ہے۔ کہ یہ چونکہ عقل ودانش کی اہمیتوں کو مانتا ہے۔ااس لئے اس کی تعلیمات کے رد و قبول میں ہر شخص مختار ہے،۔ کہ جس جس کو حصہ معقول سمجھے۔مان لے۔اور جس کو معقول اوردانش کی کسوٹیوں پر پورا اترتا ہوا نہ دیکھے ترک کردے۔یہ غلط فہمی اس بنا پر ابھری کہ لوگ موجودہ عقابت کے مفہوم سے ناآشنا ہیں۔موجودہ عقلیت اورچیز ہے۔اور نفس عقل شے دیگر عقل کا کامایک طرح کی نگرانی ہے جہاں تک دینی تعلیمات کا تعلق ہے۔اس کے دائرہ فرائض میں صرف یہ بات داخل ہے۔کہ یہ دیکھے کہ جو کچھ اس پر مذہب کی طفف سے عئد کیا جا رہا ہے آیا اس کو یہ آسانی سے برداشت کرسکتی ہے۔ بغیر اس کے کہ یہ فلسفہ کے چکروں میں پڑے اور اس کی سحر طرازیوں سے متاثر ہو اسلام سے متعلق عقل و دنش کا بے لاگ فیصلہ یہی ہے جس کا اظہار کئی مرتبہ ہوچکا ہے۔کہ یہ اس کے تقاضوں کے عین مطابق ہے۔لیکن اس کا یہ ہر گز معنی نہیں کہ جوشخص اسلام سے لگائو رکھتا ہے۔وہ اس کی تعلمیات کو ماننے پر خوامخواہ مجبور ہی ہے۔یہ تو اس شخص کی مزاج طبعیت پر موقوف ہے۔اور یا بالاآخر روھ و باطن کی بیداری اور قلب و ضمیر کی روشنی و ہدایت کا قصہ ہے۔وہ اس کو تسلیم کرتا ہے۔ یا  نہیں اتنا البتہ صحیح ہے۔کہ جس شخص کا بھی دامن  تعصبات سے پاک ہے وہ اس کی تعلیمات کو عقل وحکمت کے تقاضوں کے خلاف نہیں ٹھرا سکتا۔ رہی یہ بات کہ اسلام کی بعض حقیقتیں اس کو فہم و ادراک کی معمولی سطحوں سے اونچی نظر آتی ہیں۔تو یہ ممکن ہے مگر اس کو تناقض نہیں کہیں گے۔عقل اور فلسفہ عقلیت کے فرق کوزیادہ  وضاحت سے سمجھنے کے لئے اس حقیقت پر غور کیجئے کہ ان کے حدود فرائض کیا ہیں۔مذہبی امور میں عقل کا  فریضہ اس کے سوا اور کیا ہوسکتا ہے کہ وہ آلہ تسجیل کی طرح ہر ہر معاملہ میں جو پیش آئے۔ہاں یا نہ کو مثبت دے اور بس جب کہ عقلیت  حیثیت پر قانع نہیں۔یہ اس سے بڑھ کر خیال آرائی کے میدانوں میں قدم زن ہوتی ہے۔پھر صرف عقل کی طرح اس کی حیثیت ایک مستقل بالذات اور منفرد و ظہور کی بھی نہیں۔بلکہ یہ سراسر موضوعی اور مزاج سے تعلق رکھنے والی چیز ہے۔عقل تو اپنے حدود کو پہہچانتی ہے۔مگر عقلیت کا معاملہ اس سے مختلف ہے۔اس کا یہ ادعا ہے کہ تمام عالم اور اس کے اسرارورموز اس کی انفرادی جھپٹ میں آتے ہیں۔اگرچہ فی الواقع اس کا دائرہ درجہ تنگ ہے ایک مین تضاد عقلیت میں یہ بھی ہے کہ یہ مامور دین میں ت و ایسے حقائق کو مان لینے پر آمادہ نہیں جو فکر و اندیشہ کی گرفت میں آنے والے نہ ہوں لیکن جب معاملہ علم کا ہو تو پھر اس کی رائے یہ ہوتی ہے کہ یہ پھرنا پیدا کنار ہے۔اور کوئی ضروری نہیں کہ اس کی تمام پہنایئاں انسان معلوم  کر ہی لے۔عقلیت یا فلسفہ عقلی پر ضرورت سے زیادہ اعتماد ہی ایک بڑا سبب ہے۔اعاد و انکار کا اسی سبب سے بہت سے عصری مسلمانوں نے آپﷺ پر ایمان لانا غیر ضروری سمجھا لیکن ہم یہ کہہ دیتے ہیں کہ حد سے بڑھا ہوا اعتماد صحیح نہیں بات اتنی واضح اور عقلیت کی لئے چارگی اس درجہ مسلم ہے۔کہ اس کی قطعی ضرورت محسوس نہیں ہوتی۔کہ کانٹ عقلیت کے قلعے پر یہ کہہ کر ایک دفعہ پھر حملہ کرے کہ عقل کی پرواز ھددو فضائوں میں ہی ہوسکتی ہے۔کیونکہ جہاں تک دماغ وفکر کی افتاد و مزاج کا تعلق ہے۔کہ ہرگز اس قابل نہیں کہ اس کارخانہ ہست وبود میں جو ایک طرح کی کلیست جاری و ساری ہے۔اس کی حقیقت و کہنہ کو معلوم کرسکے۔ہم جو کچھ معلوم کرسکتے ہیں وہ صرف تفصیلات و عوارض یں از بست ولا نہایت تک ہماری رسائی نہیں ہوسکتی۔مزید براں  ہمارے علم کی رسائی کا یہ حال ہے۔کہ ہم اب تک یہ بھی نہیں جان پائے کہ خود یہ طلسم زندگی کیا ہے۔دینی عقائد کے معاملے میں جو کہ فوق الادراک بنیادوں پر قائم ہیں۔ہمیں ایک ایسی رہنمائی کی ضرورت ہے۔جس کی عقلی صلاحیتیں فلسفہ مادی کی بخشی ہوئی صلاحیتوں سے کہیں زیادہ ہوں اور عمومی و موضوعی عقل سے کہیں بڑھ اس کی خوبیان ہوں جس سے کہ ہم سب بہر مند ہیں دوسرے لفظوں میں یوں کہنا چاہییے کہ ہمیں ایک پیغمبر کی ضرورت ہے اگر ہمیں قرآن کے بارے میں یہ یقین ہے۔ کہ یہ اللہ کا کلام ہے۔اور آپ ﷺ کی رسالت پر ہمارا ایمان ہے۔توصرف اخلاقی نقطہ نظر سے بلکہ عقلا بھی ہم مجبور ہوجاتے ہیں۔کہ آپ کی رہمنائی پر آنکھیں بند کر کے ہم بھروسہ کریں۔بندکر کے بھروسہ کرنے کے معنی یہ نہین کہ ہم  غور و فکر کی صلاحیتوں سے دست بردار ہوجایئں بلکہ اس کے برعکس اس کے معنی یہ ہیں کہ ان کا بہترین استعمال کریں۔اور آپ ﷺ کے اوامر نواہی کے پیچھے جو معانی و حکمت پہناں ہیں ان کا کھوج لگانے کی پوری کوشش کریں۔چاہے ہم اس کھوج اور تفحص میں کامیاب ہوئیں ۔یا نہ ہوسکیں ناکامی کے بعد بھی اطاعت ہرحال ضروری ہے۔اس کو ایک سپاہی اور فوجی کی مثال سے سمجھنے کی کوشش کیجئے۔فرض کیجئے کہ سپہ سالار عسکر نے اسے ایک خاص اہمیت کی جگہ بر قبضہ کر لینے کا حکم دیا ہے اس صورت میں اس فوجی کا یہ فرض ہے کہ فی الفور اس جگہ کو گھرے۔پھر اگر حکم کی اس تعمیلکے ساتھ ساتھ اپنے افسر کے اس حکم کی جنگی اہمیت کو بھی سمجھتا ے تو یہ اس کے لئے اور فوج کے لئے  بلاشبہ خوش آئند ہے۔لیکن اگر اس کی جنگی قدر قیمت اس کی سمجھ میں آئی تب بھی تعمیل حکم اس پر لازم ہے اور اس کو یہ اخیتار ہر گز ھاصل نہیں ہے کہ اس یں ردوقدح کہ لے یا اس کو ٹالی جائے ہم مسلمانوں کا آپﷺ کے متعلق اس سے زیادہ اور کیا عقیدہ ہے کہ آپ اس عسکر اسلام اورسپاہ ایمان کے بہتریناور کامیاب ترین سالار و قائد  ہیں اور امور دین کے اجتماعی وروحانی پہلوں کو اس سے کہیں اچھی طرح سمجھتے ہیں جتنا کہ ہم سمجھ سکتے ہیں۔لہذا جب آپ ہمیں کوئی حکم دیں گے۔یا کسی معصیت سے روکیں گے تو ہم لا محالہ یہ سمجھنے پر مجبور ہوں گے کہ انسانی اصلاح کےلے بہر حال ایسا حکم دینا ناگزیر ہے اوراس میں روھانی اجمتاعی پہلوں کو ملحوظ و مرعی رکھا گیا ےہ یہ ممکن ہے کہ یہ پہلو کبھی تو بالکل واضح ہوں اور کبھی ان میں وضوع کی مقدار بالکل کم ہو اوراس شخص کی گرفت میں نہ آسکیں۔جن کو کہ دینی امور میں زیادہ مہارت نہیں اسیطرح کبھی کبھی تو آپ ﷺ کے احکام و اوامر میں جو گہری حکمت پوشیدہ ہے وہاں تک انسانی فہم کی رسائی ہوجاتی ہے۔اور کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ صرف سطحی اسباب حکم تک ہی نظر و بصر کے دائرے پھیل کے رہ جاتے ہیں۔دونوں صورتوں میں اطاعت  فرمانبرداری کے سوا چارہ نہیں بشرطیکہ ان احکام کا ثبوت مستند ہو پھر ان احکام و اوامر کی ایک تقسیم اہم اور نسبت کم اہم کی بھی ہے۔اس صورت میں ہمارے لئے یہ ضروری ہوجاتا ہے۔کہ ہم کو ترجٰھ دی جائے لیکن کسی حکم کو بھی اس کگمان فاسد کی بنا پر چھوڑ دینا روا نہیں کہ اس میں کوئی بنیادی اہمیت دکھائی نہیں دیتی ۔کیونکہ آپﷺ سے متعلق قرآن میں صراحتا آیا ہے۔۔۔۔قرآن۔۔۔۔۔(نجم)وہ کوئی بات بھی اپنی طرف سے کہنے کے مجاز نہیں۔اس کے صاف صاف معنی یہ یں کہ آپﷺ اس وقت تک کوئی کلمہ نہیں کہتے ہیں جب تک کہ اس کی کوئی مثبت وجہ سامنے نہ آجائے اور یہ کہ جب تک اللہ تعالیٰ اس پرآپﷺ کو مامور نہ فرمائے۔ یہ ہے سبب جس کی وجہ سے تالب و تلب دونوں  لہاظ سے ہم سنت کی پیروی پر مجبو ر ہیں بشرط یہ کہ ہمارا نقطہ نظر اسلا م کے باے میں مختلف نہ ہو پھر جب پیروی سنت کے ایجابی تقاضے ابھر کر سامنے آگئے تو ایہ ہر مسلمان کے لئے ضروی ہوگیا کہ سنت نے اسلام کی جس اجماعیت کی تشکیل کی ہے اس کے حکم اسرار پر غور کرے۔اور یہ بتائے کہ اس تفصیلی نظام حیات کے اندر کیا  روح کار فرما ہے۔جس کو مسلماں ولادت سے لے کر موت تک کہ تمام لمحوں میں ملحوغظ رکھتا ہے اور جس پر  کہ عمل پیرا ہونا اس کے لئے ضروری ہے۔اس نظام حیات میں وہ مسائل بھی داخل ہیں جو خاص اہمیت رکھتے ہیں۔اور وہ بھی جنھیں بظاہر کوئی اہمیت نظر نہیں آتی مسلمان کو اس حقیقت کا کھوج لگانا ہوگا کہ آپﷺ نے یہ ہر بات میں اپنے اسوہ حسنہ کی پیروی اطاعت پر کیوں زور دیا ہے مثلا اگر میرے دونوں ہاتھ صاف ہیں تو بایئں ہاتھ سے کھا لینے میں کیا مضائقہ ہے یا داڑھی رکھ لینے اور منڈا ڈالنے میں کیا فرق ہے۔یہ اور اس طرح کے دوسرے مسائل ایسے نہیں کہہ جن کا  تعلق سراسر صورت و قالب سے ہے کیا ن مسائل کا تعلق انسانی رترقی سے ہے اور اس سے معاشرہ  کی فلاح و بہبودی میں کوئی اضافہ ہوتا ہے اس مرحلہ پر ہمارا فرض ہوجاتا ہے کہ ان سوالات کا متعین جواب دیں کیونکہ ہمارا یہ دعویٰ ہے کہا سلام کی ترقی انحطاط کا داررومدارآپ ﷺ کی پیروی پر ہے۔اگر پیروی اطاعت موجود ہے تو ترقی پائی جائے گی اوراگر بد قسمتی سے اطاعت فرمانبرداری کا داعیہ کمزور ہے تواسی نسبت سے انحطاط وتنزل کا پیش آنا لازمی ہے۔ہمارے نزدیک ہر معماملہ میں سنت کی پیروی کی اہمیت کئی وجود سے ہے۔

پہلی وجہ تو یہ ہے کہ اس طرھ انسان کی عادات واطور کے لئے ایک سانچہ مہیا ہوجاتا ہے اور ہر ہر شخص ایسی زندگی بسر کرتا ہے جس میں شعور کر فرما ہے بیداری جلوہ گرہے اور ضبط نفس نمایاں ہے وہ کام اور اعمال اور افعال جن کی تہہ میں کوئی قاعدہ اور ترتیب نہ پائی جائے فکر و روح کی ترقی میں روکاوٹ ثابت ہوجاتے ہیں لہذا اسیے تماماعمال وفعال کی مقدار انسانی زندگی میں ممکن حد تک کم ہونا چاہییے کیونکہ ان سے فکر و روح کا ارتکاز تباہ ہوجاتا ہے اور وہ اس لائق نہیں رہتی کہ اپنی صلاھتیوں کوکسی ایک  مکز پر مجمع کر سکے اس لے ہم جو قدم بھی اٹھایئں اور جو کام بھیکریں اس کو ہامرےشعور ارادہ کے مطابق ہونا چہیے اور اس پر اخلاقی نگرانی جارہی رہنا چاہیےی مگر یہ اسف وقت تک ہونے ولاال نہیں جب ت ک ک ہم اپنے فکر و شعور کی جنبشوں کا محاسبہ کرنا نہ سیکھیں حضرت عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اعمال کی اس حقیقت کو اس جامع نانع جملے میں نہایت کامیابی سے ادا فرمایا ہے۔اسبو انفسكم قبل ان تحاسبوااس سے پہلے اپنے محاسبہ نفس سے فارغ ہوجائو کہ عند اللہ تمہارا محاسبہ ہو اس سے پہلے ہم اشارۃ بتا چکے ہیں کہ اسلامی نظریہ عبادت صرف عبادات ہی کو اپنے آغوش میں نہیں لیتا ہے۔بلکہ اس میں ہماری پوری زندگی کا انعکاس ہوتا ہے۔اور اس سے یہ مقصد  ہوتا ہے کہ ہماری ذات کے روھانی و مادی دونوں پہلوں میں ایک طرح کی وحدت پیدا ہوجائے اگر یہ صحیح ہے توف حیات انسانی میں ان تمام عوامل کو حتی المقدور کم ہونا چاہییے جن میں شعور و ضبط نفس کے عناصر کا فقدان ہو اور یہ اسی  وقت ممکن ہے جب محاسبہ و نگرانی کہ اس عمل کو ہم جاری رکھیں یہ اس سلسلہ کا پہلا قدم ہے۔اور وہ یقینی راستہ ہے کہ جس سے ہم ضبط نفس کی منزل تک پہنچ سکتے ہیں اگر ہم روز مرہ کے چھوٹے چھوٹے کاموں میں سنت کی پیروی کا خیال رکھتے ہیں۔اور مادۃ ہمارا قدم اسی سمت اٹھتے ہیں۔ تو یہ چھوٹے چھوٹے کام بھی بڑی ہی اہمیت کے ثابت ہوتے ہیں۔کیونکہ ان سے محاسبہ نفس اور ضبط و نگرانی کے ذریعے ہمیشہ بیدار رہتے ہیں رہے بڑےے بڑے کام تو ان کے متلق تو شعور کی بیداری کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اس لئے کہ یہ تو شعور کے بغیر صادر ہو ہی نہیں سکتے۔شور و ادراک کا دامن تو اس وقت چھوٹتا ہے جب چھوٹے چھوٹے ناقابل التفات کامون کا سامنا ہو اس وقت یہ عموما ہو کررہتے ہیں۔اورذہن و رفکر کو غافل رکھتے ہیں ہاں اگر ان حقیر اور کم ردرجہ کے اعمال میں بھی مراقبہ و ضبط کی عادت قائم رہتی ہے تو ہر انکی منفعت دوچند ہوجانے میں کیا شوبابظاہر واقعی اس بات میں کوئی اہمیت مھسوس نہیں ہوتی کہ ہم کس ہاتھ سے کھاتے ہیں۔دایئں ہاتھ سے یا بایئں ہاتھ سے ہم نے داڑھی بڑھا رکھی ہے۔ یا منڈا رکھی ہے۔ لیکن اگر ہمارے اعمال میں ایک تعظیم رونما ہے ہم ایک خاص سانچہ میں اپنی عادات کو ڈھالنے کے عادی یں تب انہیں چھوٹی چھوٹی باتوں کی اہمیت بہت بڑھ جاتی ہے۔کیونکہ مسلسل ضابط و  ترتیب کا خیال رکھنا اور اپنے کو قواعد و پابندیوں میں بندھا  ہوا محسوس کرنا آسان نہیں اگرچہ انسان اس طرح کی خاص تربیت پائے ہوئے ہو وجہ ظاہر ہے ذہن انسانی بھی اس طرھ کسل تساھل کا عادی ہے۔ جس طرح کے انسانی جسم و عضلات ہاں یہ فرق ضرور ہے کہ اگرآپ کسی ایسے آدمی کو پیدل چلنے کی ذحمت دیں گے۔ جو اپنے گوشہ عافیت میں پڑے رہنے کا عادی ہے۔جو کبھی چلا پھرا نہیں تو وہ چند ہی قدم چل کرتھک جائے گا۔اور ایک قدم آگے نہیں بڑھا پائے گا۔بخلاف اس کے کہ جو میلوں چلنے کا عادی ہے اس سے توقع کی جاسکتی ہے۔کہ وہ طویل سے طویل سفر کو بغیر کسی زحمت کے جاری رکھ سکے گا یہ بھی اگرچہ سفر کی کوفت مھسوس کرے گا لیکن ٹھرائے گا نہیں بلکہ ایسامعلوم ہوگا اس کوفت میں بھی لذت کا یک پہلو پایاجاتا ہے۔اور یہ اس سے مانوس ہے۔یہ فلسفہ سنت کی ہمہ گیریوں کا اور یہ دوسی تعطیل ہے اس حقیقت کی وضاحت ہوتی ہے۔ کیونکہ سنت زندگی کے تمام گوشوں پر حاوی ہے۔جب ہم اس طرح مسلسل مشق و تمرین سے اپنے تمام اعمال و مروکات کو امراونہی کے خانوں میں تقسیم کردیں  گے۔ تو اس کا لازمی نتیجہ یہ ہوگا۔کہ نفس شعور میں ضبط و انضباط کے دو اعلیٰ راسخ ہوجایئں گے۔اور زندگی کا ی نہج طبعیت ثانیہ بن جائے گا۔یہی میں اس کا یہ فائدہ بھی ہوگا کہ جس نسبت و مقدار سے محاسبہ کی مشق و تمرین کا یہ سلسلہ دراز ہوتا جائے گا اسی نسبت سے اخلاقی وذہنی کسلمندیاں کم ہوتی چلی جایئں گی اور ہم اخلاق و آداب کی منزلوں کے زیادہ قریب ہوتے جاوے گے۔مشق و تمرین کا لفظ چاہتا ہے کہ اس کی  تہ میں شعور اور احساس کا جذبہ ہمیشہ کار فرما رہے کیونکہ اگر عمل بالغۃ کی سطح سے اس حد تک آگرے کہ ہماری تمام زندگی مکان کی ہو کررہ جائے اور بے جان مشینری کی طرح انزمات و منہیات کا علمیہ جاری رہے تو اس  کے یہ معنی ہوں گے۔کہ سنت نے اپنی قدرو قمیت کھو دی اور روح ختم ہوگئی جو مقصود اصلی تھی۔

آپ ﷺ کے بعد آخری دور میں کیا ہوا یہی نا کہ ظاہر سنت توقائم ہے  اور ان کا چرچا بھی ہو امگر ان کے ساتھ جو احساس مھاسبہ اور جذبہ نگرانی وابستہ تھا ہو جارتا رہا صحابہرضوان اللہ عنہم اجمعین  کی زندگیان اس اناز کی نہ تھیں ان کی پیروی سنت کا مطلب نہ تھا کہ انہوں نے اپنے آپ کو جان بوجھ کر اورشعور و ادراک سے مالا مال ہو کر ایک ہادی اور رہمنا ک سپرد کردیا تھا تاکہ وہ ان کے اعمال کی  سمتوں کوقرآن کی طرف پھر دے یہی وجہ ہے کہ انہوں نے سنت کی پیروی سے فوائد حاصل کیے جو دوسرے نہیں حاصل کر سکے اور اس میں خطا اس نظام سنت کی نہیں ان کے لئے وضع کے گئے تھے عمل بالسنۃ کی اہمیت کو ختم کرنے والے عوامل میں پلا بمبر تصوف کا ہے اس نے ان قوتوں کو ک زور کیا جن کا  تعلق انسنی فعالیت سے ہے اور ان صلاحیتوں کو چمکایا جن کا  تعلق انسان کی داخلی تاثر یز یوں سے ہے۔عمل بالسنہ کو عملی زندگی میں ختم کردینا توتصوف کے  لئے اس بناء پر ممکن نہ تھا کہ ابتداء ہی سے اس کو اسلامی زندگی میں ایک بنیادی عنصر کی حیثیت حاصل رہی ہے۔لیکن صوفیائے عظام کی کوششوں سے اتنا ضرور ہوا کہ اس کا مزاج ار رخ یکسر بدل گیا۔اور یہ بجائے ایک فعالی قوت و ھڑکت ہونے کے مضح افاطونی رمزیت ہو کرہ گیا۔فقہا او عاملۃ الناس کے نقطعہ نظر سے بھی اس کو گزند پہنچا ہے۔کیونکہ فقہا ء نے سنت سے یہ مراد لیا کہ یہ محض ایک قانون ہے۔اورسلسلہ ضوبط سے تعبیر ہے۔اور عوام نے یہ خیال کیا کہایک خوبسورتسرف ہے جو معنی کے در سہوا سے بالکل نہی ہے۔لیکن تعیب اس پ ہے کہ مسلما نوں کے تمام گروہوں نے اگرچہ قرآن اور اس کی ان تعبیرات و تشریھات کماحقہ استفادہ نہیں کیا جوسنت میں مذکورہ ہیں تاہم اسلامی تعلیمات کا وہسرچشمہ جو سنت سے فیضیاب ہوتا ہے جوں کاتوں قایم رکھتا ہے اور اس میں عملی دشواری حائل نہیں کہ اس کی طرفدووبارہ رجو کیا جا سکے۔پھر سنت جیسا کہ مغرب زدہ معاندین اسلام سمجھتے ہیں۔ایسے لوگوں کی کوششوں سے ہم تک نہیں پہنچی ہے۔جو فریسیوں کی طرح الفاظ پرست اور جامد ہوں بلکہ یہ ان لوگوں کی مساعی جمیلہ کا نسخہ ہے جو بلا کی شعور رکھتے تھے جن مین غضب کی عزیمت اور کہری بصیرت و عمل کے واعی موجزن تھے  اس کا صحیح اندازہ کرنا ہو تو صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  کودیکھو ان میں یہی صفات تھیں جو ان کطرہ امتیاز ہیںان کو تاریخ میں حیرت انگیز کامیابی کیوں نصیب ہوئی اسی بنا پر کہ ان میں ہمیشہ ذہنی شعور زندہ رہا یہ سنت کی ایک جزئی میں جو حکمت پوشیدہے۔اس سے باخبر رہےاور ان زمہ داریوں سے آگاہ رہے جو مذہب نے ان کے کندھوں پر ڈالیں۔سنت کی اہمیت کا یہ  ہے انفرادی پہلو۔

دوسری وجہ جس سے کہ عمل بالسنۃ کا فلسفہ واضح ہوتا ہے یہ ہے کہ اس کی برکت سے اجتماعی زندگی کا تصور پیدا ہوتا ہے اور اجمتاعیخیر و فلاحکا ایک نقشہ ترتیب پاتا ہے کبھی آپ نے غور کیا عام انسانوں میں اختلاف کا کیا سبب ہے اور یہ کیونکر بڑھتا اور  فروغ پاتا ہے۔بات یہ ہے کہ چونکہ ہر شخص کے دل میں دوسروں کے اعمال مقاصد بارہ میں ایک طرح کی غلط فہمی پائی جاتی ہے۔

اس لئے کوئی بھی ایک دوسرے کو سمجھانے کی سعی نہیں کرتا اور یہ غلط فہمی کیوں پیدا ہوتی ہے۔اس لئے کہ ہر ہرشخص کے مزاج و طبیعت کا یہ قدرتی اختلاف صرف معمولیاختلاف میں پیدا نہیں کرتا بلکہ اس سے ہر قوم کی عادات و اطوار کے مگطابق زندگی بسر کرتے کسی قوم پر ایکعرصہ گزر جاتا ہے تو یہی عادات و اطوار کا اختلاف تہذیب و تمدن کا اختلاف بن جاتا ہے۔اور باہمی اتفاق و اتھاد کی راہ میں رکاوٹثابت ہوتا ہے پھر اگر کوئی قوم یہ فیصلہ کر لیتی ہے۔کہ اس کی زندگی میںایک اہم آہنگی پیدا ہوجائے اور اس کی عاد واطوار اورتہزیب و ثقابت کا ایک متعین قالب تیار ہوجائے تو ان میں باہمی اختلاف ختم ہوجاتا ہے اور یہ صلاحیت پیدا ہوجاتی ہے۔کہ یہ ایکدوسرے کے اعمال و مقاصد کو اچھی طرح سمجھ سکیں۔اس بنا ء پر اسلام نے جو انفرادی بہبودی کے ساتھ ساتھ اجتماعی فلاح کا بھی ضامن ہے۔اپنی تعلیمات مین اس نکتہ کو بینادی ٹھرایا کہمعاشرہ کے تمام افراد میں عادات واطوار کی کامیابی پائی  جائے۔اور ان میں سنت کے التزام سے اسیے کوائف بیدار ہوجایئں جر ہر حال میںان کے تہذیبی و دینی اتحاد کو برقرار رکھیں چاہے ان کے اجتماعی و اقتصادی حالات ایک دوسرے سے کتنے ہی مختلف اور جدا کیوں نہ ہوں یہ سچ ہے کہ بعض لوگ سنت کے اس نظام میں ایک گونہ سختی اورتشدد محسوس کریں گے لیکن اس کی ااس خدمت کو کون بھلا سکتا ہے۔کہ اس نے اسلامی معاشرہ کو استحاکم بخشا ہے۔

اس کوایک متعین شکل اور صورت میں ڈھالا ہے۔اور ہر ہرنزاع و اختلاف کی مضرتوں سے   بچایا ہے۔اس کی اس افادیت کو سمجنے کے لئے ان انقلابات پر غور کیجئے جو مغرب میں معاشرتی اصلاحات کے نام سے وقع پزیر ہوئے اورایسا ہونا ضروری بھی تھا کیونکہ اس طرح کے مسائل کسی قوم میں اس وقت پیدا ہوتے ہیںجب لوگ یہ محسوس  کرنے لگیں کہ ہمارے بعض قوانین اور رسم رواج مکمل نہیں ہیں۔اس لئے ان میں کچھ تبدییلیاں ہونی چاہییں۔اہل مغرب نے چونکہ اپنے ہاں ان نقائص کو پالیا اس لئے اصلاح کے درپے ہوئے مسلمان اس سورت ھالات پر اس بناء پر محفوظ رہے کہ یہ اہنے آپ کو قرآن کا پابند ٹھراتے ہیں اور اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہیں کہ ہامرے تمام اعمال آپﷺ کے اسوہ حسنہ کے مطابق ہونے چاہییں۔یہ اصول اپنی جگہ ایسا مستحکم اور استوار ہے کہ ااس کو اپنانے کے بعد تبدیلی و تفسیر کا سوال پیدا نہین ہوتا۔مگر یہ کہ خود یہ اصول ہی شک وریب کا نشانہ بنے۔اور ان کی صداقت ہی محل نظر قرار  پائے اس سے ہم مسلمانوں مین اتحادو اتفاق کے اس امکان کو عملا نافز ہوتے دیکھ سکتے ہیں جس کو بنیاد مرصوص کے الفاٖظ سے ظاہر کیا گیا ہے اورف گر ہم اصول کو پوری طرح حرز جان بنالیں تو معاشرہ ان تمام بے کار او طائل کوششوں سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔جو فروعی مسائل کے لئے کی جاتی ہیں ۔پھر اگر معاشرہ ان اختلافات سے بازف آئے جسکو جدل و بحث کے تقاضوں نے پیدا کیا ہے اور اس پریشانی خاطر سےدستکش ہوجائے۔جس کو کہ کلامی موشگافیوں نے جنم دیا ہے۔اور اس کے بعد اس کی بیاد کتاب وسنت کی پیرری پر رکھی جائےتو ایسے مواقع نکل آیئں گے کہ معاشچرہ اپنی تمام صلاحیتوں کو افراد کی اجتماعی و نفاردی فالح و بہبودی کے لئے استرعمال میںلائیں یہی  نہیں بلکہ معاشرے کے لئے یہ بھی ممکن ہوجائے گا۔کے  تمام افراد کے روحانی ارتقآئ کے لئے موٖر جدوجہد ک سکے انسانی معاشرہ کی  تنظیم و اصلاح کا یہی وہ نصب العین ہے جو اسلام کی اصلی غرض و غائت ہے آیئے۔اب عمل بالسنۃ میں جو تیسری بڑی مصلحت ہے اس پر غو ر کریں۔یہ تو ظاہر ہے کہ ہم جب  سنت پر  عمل کی زمہ داری کو قبول کریں گے تو اس کا مطلب یہ ہوگا کہ کہ ہم اپنی  روز مرہ کی زندگی آپﷺ کی اقتدائ کو پیش نظر رکھیں گے۔اور اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ ہم عمل کی ہر ہر صورت میں چاہے وہ اخیتار پر مبنی ہوچایے ترک پر ۔آپﷺ کی عملی زندگی پر غور و کر کرنا کی عادت ڈالیں گے کیونکہ ہمیں اپنے تمام اعمال کا جائز لینا ہے اور اپنی زندگی میں نہ دیھنا ہے کہ آپﷺ کی اطاعت و پیروی کا مقصد پورا ہورہا ہے۔یا نہیں۔اس طرح گویا ایک عظیم ترین انسانی شخصیت کو اثر نفوظ کو ہمارے روز مرہ کے مشاغل میں منعکس ہونے کا موقع میسر آئے گا بلکہ یہی وہ روھانی اثر نفوذ ہوگا جو ہماری زندگی کی سٹینری کو متحرک رکھے گا۔اس کا یہ فائدہ ہگا کہ شعوری یا غیرشعوری طور پر ہم یہ رائے رکھن پر مجبور ہوں گے۔کہ علاوہ اس کے آپﷺ اللہ کے محبوب ترین اخلاقی پیغمبر ﷺ ہیں آپﷺ ایک مکمل زندگی بخشنے والے بھی ہیں اس مرحلہ پر جب کہ عمل بالسنۃ کی یہ فصلاختام و پہنچ رہی ہے ہمیں اس بات کا فیصلہ بھی کر لیناچاہیے کہ ہم آپﷺ کے منصب و موقف کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں۔کیا ہم انہیں دوسری مصلمین و حکم ا ی طرھ صرف ایک حکم مصلح اور فلسفی ہی سمجھتے ہیں۔یا اللہ کا ایسا فرستادہ خیال کرتے ہیں کہ جو ہرآن وحی و الہام کی روشنی میں اسی کی اطعت و پیروی میں مصروف ہے جہاں تک قرآن کا تعلق ہے اس کا نقطعہ نظراس سلسلہ میں بالکل واضح ہے اور اس میں کسی غلط فہمی کے ابھرنے کا امکان ہی نہیں کہ اللہ کا یہ بندہ جس کو نبی آخر الزمان ﷺ قرار دیا گیا۔۔اور جس کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کربھیجا گیا ہے۔اس کے سوا ور کچھ ہو ہی نہیں سکتا۔ کہ صبح شام زندگی کے ہر عمل میں اللہ کی وحی اس کے قلب و فکر کو روشنی بخشنے اور یہ وحی ہدایت کے ان انور سے اس کے بندوں کے لئے اجالوں کا بندوبست کرے۔اگرآپ ﷺ کے متعلق یہ  وضاحت صحیح ہے۔تو اس کا انکار یا اس کی تعلیمات کے بعض  حصوں کا انکا ر ہو ا یا کم از کم اس کا یہ مطلب ہوا کہ اس کی عطا ء کردہ ہدایت کی قدر قیمت گھٹا دی گئی ہے۔اوراگر یہ وضاحت درست نہیں ہے ہم اس خیال کو منطقی طو ر پر آگے بڑھاتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ اسلامی تعلمیمات کوئی آخری فیلہ نہیں ہین۔اور موجودہ مسائل و مشکلات کا کوئی دوسرا معقول حل بھی سوچاہا سکتا ہے تو یہ خیال او جن نتائج کی طرف بھی لے جائے ممکن ہے۔ اسلام کی روح بہرحال اس سے متفق نہیں ہوسکتی۔کیونکہ قرآ ن نے اس معاملے میں دو ٹوک رائے کا اظہار فرمایا ہے۔۔۔۔قرآن۔۔۔۔۔آج میں نے تہمارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا۔اور اپنی نعمت اتمام حجت تک پہنچادی۔اور تمہارے لئے ادیان میں اسلام کو پیروی و اطاعت کے لئے چن لیا ہم اسلام کو تمام تمدنی تنظیمات سے بلند اور اونچا مانتے ہیں کیونکہ یہ پوری زندگی سے تعرض کرتا ہے اس میں دنیا کی گھتیوں کو بھی سلجھایا گیا ہ۔اورعقبیٰ کی پیچدگیوں کو بھی اور نفس روح کے مسائل بھی اس کی لپیٹ میں آتے ہیں۔اور جسم ک تقاضے بھی فرد کی زندگی کا نقشہ بھی کھینچتا ہے۔اور اجتماعی زندگی کی تشکیل بھی اس کے فرائض میں داخل ہے۔یہ صرف اس سے بحث نہیں کر سکتا۔کہ انسان کو مادی و طبعی قیود سے آذادی دلائے۔بلکہ ان مادی و طبعی قیود کا خیال بھی رکھتا ہے۔یہ انسان سے محالات کا مطالبہ نہیں کرتا بلکہ اس کا تقاضا صرف اس ھد تک محدود ہے۔کہ انسان میں جس قدر صلاحتیں مضمر ہیں۔ان سے پورا پورا فائدہ اٹھایا جائے۔اور ایسی سطح تک پہنچنے کی جدو جہد کی جائے جو حق سے قریب      تر ہے جس میں رائے اور عمل میں کامل ترین توفیق ہے اسلام صرف ایک راہ نہیں بلکہ تنہا یہی راہ ہے جو حق وصواب کی طرف لیجانے والی ہے اور جو شخص اس دعوت کو لایا ہے وہ صرف ہادی نہیں بلکہ تنہا وہی ہادی ہے پس اس کی اطاعت عین اسلام کی اطاعت ہے اور اس کی اطاعت روگردانی حقیقت اسلام سے روگردانی کے مترادف ہے۔(الاعتصام لاہور حجیت حدیث)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 318-331

محدث فتویٰ

تبصرے