سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(77) شیعہ بھائی ایام محرم میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یاد میں تعزیہ..الخ

  • 3649
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-24
  • مشاہدات : 2627

سوال

(77) شیعہ بھائی ایام محرم میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی یاد میں تعزیہ..الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

شیعہ بھائی ایام محرم میں حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی یاد میں تعزیہ نکالتے ہیں۔اور ماتم کرتے ہیں کیا شعیہ لٹریچر میں اس کا ثبوت ہے۔؟

سوال۔نمبر2۔سب سے پہلے ماتم کرنے والا کون ہے؟

سوال۔ نمبر 3۔قاتلان حسین کون تھے۔مذمت موجود ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شعیہ کی معتبر کتب میں ماتم کی سختی سے حرمت او ر مذمت موجود ہے۔چنانچہ  چند شیعی روایات پیش خدمت ہیں۔

1۔فرمان رسول مقبول ﷺ

قال النبي صلي الله عليه وسلم عند وفانه لفاطمةلا تهمشيعلي وجهك ولا ترخي علي شعر ولا تنادي بالوكيل ولا تقيمي علي نائمة

(فروع کافی ج2 ص 214) حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کووصیت فرمائی کہ میری وفات کے بعد اپنے چہرے کو زخمی نہ کرنا ۔بال نہ لنکانا۔واویلا نہ کرنا۔نوحہ نہ کرنا۔

2۔ابن بابویہ بسند معتبر ازامام محمد باقر و امام جعفر صادق روایت کردہ است کہ حضرت رسول ﷺ ورہنگام وفات خود حضرت فاطمہ  رضی اللہ عنہا گفت کہ چوں من بمیرم روئے خود را برائے من مخراش و گیسوئے خد ر ا پریشان مکن واویلا مگر و برمن ۔نوحہ۔مکن و نوحہ گراں را مطلب و پیش کن حیات القلوب جلد 2 ص 538 جلائو العیون نمبر33)

شعیی مترجم نے اس عبارت میں یوں ترجمہ کیا ہے۔ابن بابویہ نے بسند معتبر حضرت امام محمد باقر سے روایت کی ہے کہ حضرت رسولﷺ نے وقت وفات جناب فاطمہ رضی اللہ عنہا سیدہ سے کہا اے فاطمہ جب میں مرجائوں اس وقت تو اپنے بال میری مفارقت سے نہ نوچنا اور اپنے گیسو پریشان اور واویلا نہ کرنا اور مجھ پر نوحہ نہ کرنا اور نوحہ کرنے والوں کو نہ بلانا (جلال العیون اردو ص 67)

3۔عن ابي عبد الله قال قال رسول الله صلي الله عليه وسلم ضرب المسلم يده علي فخذه عند المصيبة احباط

حضرت جعفر صادق فرماتے ہیں۔کہ جنابت محمد رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ وقت مصیبت رانوں پر ہاتھ مارنے سے مسلمانوں کے عمل ضائع ہو جاتے ہیں۔

حضرت علی  رضی اللہ عنہ سے ماتم حرمت

آپﷺ کے خلیفہ چہارم حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بھی ماتم کی حرمت اور مذمت منقول ہے چنانچہ کتاب فروع کافی میں ہے۔

قال علي ورثناالعفو من ال يعقوب وورثناالصبرمن ال يعقوب

(فروع کافی جلد نمبر 3 ص 144) نو لکشور حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا قول ہے۔کہ دشمن کو معاف کرنا آل یعقوب ؑ سے اور مصیبت کے وقت صبر کرنا آل یعقوب ؑ سے ہم کو ورثہ میں ملا ہے۔

5۔حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  وفات رسولﷺ پر فرماتے ہیں۔

قد النقطع بموتك ما لم ينقطع بكوتغيركلولا انكامرتبالصبرونهيت عن الجزع لا نضدنا عليكماء المسون

(نہج البلاغہ طہران ص338) کہ آپﷺ کی وفات سے وہ امور منقطع ہوئے جوج کسی اور نبی کی وفات سے نہ ہوئے اگر آپﷺ نے ہمیں صبر کا حکم اورجزع فزع سے منع نہ کیا ہوتا تو آج ہم آپ ﷺ کی موت پر رو رو کر آنکھوں کا پانی خشک کر ڈالتے۔

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا دوسرا فرمان

نهي رسول الله صلي الله عليه وسلم عن النيا حة والا ستماع من لا ينحصره الفقيه

(نہج البلاغہ ج4 ص 466) رسول اللہ ﷺ نے نوحہ کرنے سے اور اس کے سننے سے منع فرمایا۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ اورماتم

 فروع کافی میں ہے۔

لما اصيب امير المومينين صلوات الله عليه نعي الحسن الي الحسين عليهم السلام وهو بالمدائن فلما قرا الكتاب قال ما من مصيبة ما اعظمها مع ان رسول الله صلي الله عليه وسلم قال من اصيب منكم من مصيبة فليذكر مصابه بي فا نه يصاب بمصيبة اعظم منا صدق صلي الله عليه وسلم

(فروع کافی ج1 ص 119) بحوالہ آفتاب ہدایت ص 323) جب حضرت حسن  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی شہادت کی خبر حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو بھیجی۔توانہوں نے خطبہ پڑھ کر فرمایا کے کتنی بڑی مصیبت کا سامنا ہے۔ لیکن نانا جی  ﷺ کا فرمان ہے۔کہ جب تمھیں کوئی مصیبت پہنچے تو میری موت کی مصیبت کو یاد کرو کیونکہ مسلمانوں کے لئے میری موت کی مصیبت سے بڑھ کر کوئی مصیبت نہیں آسکتی حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا کہ آپ ﷺ کا یہ ارشاد سچا ہے۔

حضرت حسین رضی اللہ عنہ کی آخری وصیت

حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے کربلا میں اپنی ہمشیرہ حضرت زینب کو فرمایا کہ بہن جومیرا حق تم پر ہے۔اسی کی قسم دے کرکہتا ہوں۔میری مصیبت مفارقت صبر کرو پس جب میں مارا جائوں۔تو ہرگز منہ نہ پیٹنا اور بال اپنے نہ نوچنا اور گریبان چاک نہ کرنا کہ تم  فاطمہ رضی اللہ عنہا کی بیٹی ہو۔جیسا کہ انہوں نے پیغمبر خداﷺکی مصیبت میں صبر فرمایا تھا۔اسی طرح تم بھی میری مصیبت میں صبر کرنا۔(انارۃ البصائر 296 بحوالہ افتاب ہدایت 333)

امام زین العابدین

فرماتے ہیں۔لا ايمان لمن لا صبر له(اصول کافی جلد 2 ص 175) یعنی مصیبت میں صبر نہ کرنے والا دولت ایمان سے محروم ہوتا ہے۔

جناب جعفر صادق کا فتویٰ

عن ابي عبد الله قال الصبر من الايمان بمنزلة الراس من الجسد فاذ ذهب الراس ذهب الجسد كذالك اذا ذهب الصبر ذهب الايمان

(نھج البلاغۃ ج2 ص 165۔اصول کافی ص 410 باب الصبر)جناب جعفر صادق ؒ فرماتے ہیں۔ک صبر ایمان کے لئے سر کے بجائے ہے۔جیسے سر کے بغیر بے کار ہے۔اسی طرح ایمان بغیر صبر کسی کام کا نہیں رہتا۔

حضرت جعفر صادقؒ کا دوسرا فتویٰ

عن ابي عبد الله قال الصبر والبلاء يستبقان الي المومن فيا تيه البلاء وهو جزوع

(فروع کافی  ج1 ص 1219)امام جعفر صادق فرماتے ہیں۔کہ صبر اور مصیبت دونوں مومن کو پیش آتے ہیں۔لیکن جب مومن کو مصیبت آتی ہے۔تو صبر اور اشکبائی کرتا ہے۔ اور کافر کو جب گھبراہٹ ہوتی ہے۔اور مصیبت آتی ہے۔تووہ جزع فزع کرتا ہے۔

جزع کی تعریف

عن جعفر بن ابي جعبر قال قلت له ما الجز قال اشدا الجزع الصراخ بالويل والعويل ونطم الوجه والصدر وجز الشعر من النواصي ومن اقام النواحة فقد ترك الصبر و اخذ في غير طريقه

فروع کافی جل نمبر 1 ص 121 امام صادق سے جب جزع کی حقیقت پوچھی گئی تو فرمایا کہ انتائی جزع ہائے والئے چیخ و پکار کرنا گالوں کو پیٹنا سینہ کوبی کرنا بال توڑنا ہے۔اور جس نے نوحہ کیا اس نےصبر چھوڑدیا اور غیر شرعی طریق اختیار کیا۔

سب سے پہلا نوحہ گرہ

جواب سوال نمبر2 سب سے  پہلے ماتم اور نوحہ کا بندوبست کرنے والا شعیی کتب کے مطابق خود یزید تھا۔چنانچہ ملا ں باقر مجلسی لکھتے ہیں۔جب اہل حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کا قافل کوفہ سے دمشق آیا اور یزید کےدربار میں  پیش آیا۔تو یزیز کی بیوی ہندہ نے بے تاب ہوکر بے پردہ مجلس یزید میں چلی آئی۔یزید نے دوڑ کر اس کے سر پر کپڑا ڈال دیا۔کہا گھر میں جا اورآل رسولﷺ قریش کے پربزرگوار پر بد نوحہ زاری کر کہ عبید اللہ بن زیاد نے ان کے بارے میں جلدی کی میں ان کے قتل پر ہرگز راضی نہ تھا۔جلد نمبر 1 جلال العیون اردو جلد نمبر 2 ص 142)

جواب۔نمبر 2۔جب اہل بیت یزید کے محل میں داخل ہوئے تو اہل بیت یزید نے  زیور اتار کر ماتمی لباس پہنا صدائے نوحہ گریہ بلند کی اور یزید کے گھر تین  روز تک ماتم برپا رہا۔اسی طرح اخبار ماتم منہج اور تاریخ نواسخ التاریخ یزید اور خاندان یزید کے ماتم اور نوحہ کا زکر موجود ہے۔یہ برووایت شعیہ ہے۔مگر راقم کو یزید کے نوحہ گر ہونے میں تامل ہے۔

دوسرا نوحہ گرہ

اور پھر یزید کے بعد مختار بن ابی عبید جو سیاسی شعیہ تھا نے اس رسم کو بہت رواج دیا اور بعد ازاں نبوت کا دعویٰ کرنے پر جناب معصب بن زبیر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے ہاتھوں جہنم رسید ہوا۔

تیسرا نوحہ گرہ

معز الدولہ ہے۔جو المطعع اللہ ابو القاسمکے دہد اقتدار 341ء و 353 ہجری میں  با ا ثرشیعہ تھا۔اسی غالی شعیہ نے حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پر اور آگ معاویہ  پر لعنت کے کتبے بغداد کی مساجد میں لگوائے تھے۔اور 1352ھ میں پہلی دفعہ بغداد کے بازاروں میں عاشقان حسین کو دسویں محرم میں  مکمل ہڑتا ل کر کے رونے پیٹنے کا حکم دیا۔بغدادتاریخ الخفلاء ص 303۔304۔)معز الدولہ نے حکم دیا کہ مکمل ہڑتا کریں اور نابنائی روٹی نہ پکائیں اور بازاروں میں تابوت اورنقلی قرین تیار کی جایئں۔اور عورتوں کو بازارو ں میں بال کھولے پیٹنے کے لئے بھیجا جائے۔اور حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ  پر ماتم  کریں بغداد میں  یہ پہلا ماتم تھا۔ـ(اخبار الاعتصام جلد 26 شمارہ 26)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 243-245

محدث فتویٰ

تبصرے