سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(69) ایک شخص دعوی کرتا ہے ہے لیکن اپنے آپکو حنفی،شافعی...الخ

  • 3644
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1214

سوال

(69) ایک شخص دعوی کرتا ہے ہے لیکن اپنے آپکو حنفی،شافعی...الخ

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته 

کیا فرماتے ہیں علماء دین کے ایک شخص خدا فرشتوں تمام منزلہ کتابوں اور پیغمبروں اور قیامت پریقین رکھتا ہے شہادتین کا اقرار کرتا ہے۔نماز روزے ک پابند ہے۔حج اور ذکواۃ اگرفرض ہو جائے۔تو ان کے ادا کرنے کی نیت رکھتا ہے۔خدا کی رحمت کا امیدوار اور اس کے عذاب سے ترساس ہے۔تمام بُرے کاموں سے پرہیز کرتا ہے۔بزرگان دین صحابہ و تابعین کو اپنا مقتدا جانتا ہے۔غرض یہ کہ اہل سنت کےھ عقائد میں سے کسی میں کمی نہیں کرتااور اپنی غلطیوں سے ہر وقت استغفار کرتا  رہتا ہے۔حتی المقدور نیک کام کرنے کی  کوشش کرتا رہتا ہے۔لیکن اپنے آپ کو حنفی یا شافعی نہیں کہلاتا۔ایسا شخص مسلمان ہے یا نہیں۔اور اگرکوئی اس کو کافر کہے تو اس کا پنا ھال کیا ہے۔بینوا توجروا۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

جوشخص ایسے آدمی کو کافر کہے وہ خود کافر ہے۔کیونکہ آپ ﷺ نے فرمایا!جو اپنے بھائی کو کافر کہے تو وہ اگر واقعی کافر ہو تو وہ کفر کا فتویٰ اس پر جاری ہوگا۔اور اگر وہ نہ ہو تو کہنے والا خود کافر ہو جائے گا۔اور ظاہر بات یہ ہے کہ اپنے  آپ کوآئمہ مجتہدین میں سے کسی کی طرف منسوب نہ کرنا ایمان کے منافی نہیں ہے۔کہ اس کے سبب سے آدمی کافر ہوجائے۔مسلم الثبوت اصول فقہ میں ایک نہایت بیش قیمت کتاب ہے۔اس کے مصنف نے حاشیہ پر لکھا ہے۔کہ عراقی کہتے ہیں اس بات پر  اجماع منعقد ہوچکا ہے۔کہ جو بھی آدمی مسلمان ہو اس کو حق ہے۔کہ آئمہ مجتہدین کمیں سے کسی ایک کی تقلید کرے۔اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین  کا اس پر اجماع ہے۔ کوئی آدمی ابو بکر و عمر امیر المومنین سے مسئلہ پوچھے تو اس کو یہ بھی حق ہے کہ ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  اور معاذبن جبلرضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے بھی مسئلہ پوچھ لےاور جس کے قول پر چاہے عمل کرے اور اگر کوئی اس کے برخلاف کہے تو وہ دلیل بیان کردے۔ان دونوں اجماعوں خصوصا دوسرے اجماع سے ثابت ہوا کہ اگر کوئی آدمی کسی مجتہد کی طرف منسوب نہ ہو۔تو وہ کافر نہیں ہوجاتا۔اور اگر کوئی اسے کافر کہے تو پہلے اسے چاہیے کہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  اور تابعین پر کفر کا فتویٰ لگائے اگربااجماعکوئی یہ کہے کہ یہ دونوں اجماع تیسرے اجماع سے منسوخ ہو گئے۔کیونکہ بعد میں اپنے آپ کو کسی طرف منسوب کرنے پر اجماع ہوگیا۔تواس کا جواب یہ ہے کہ یہ تیسرا اجماع جس کا حوالہ دیا جارہا ہے۔کہاں ہے روئے زمین پر اس کی کوئی دلیل نہیں ہے۔اور پھر علم اصول کا مسئلہ ہے کہ اجماع نہ ناسخ ہوتا ہے اورنہ منسوخ اگر بالفرض محال تیسرااجماع ثابت بھی ہو جائے تو یہ فقہاء کا اصول باطل ہوجائے گا۔اورچونکہ اصول ثابت ہے ۔لہذایہ دعویٰ باطل ہے۔

اب یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ زمانے میں دو گروہ پید ا ہو گئے ہیں۔کچھ تو آئمہ مجتہدین کوگالی وغیرہ دیتے ہیں۔اور کہتے ہیں کہ ہم اپنے آپ کو حنفی یا شافعی کہنا زناکاری اورشراب نوشی سے بھی بڑا گناہ سمجتے ہیں۔خدا کی پناہ اوراپنے متعلق دعویٰ کرتے ہیں کہ ہم حدیث پر عمل کرتے ہیں۔ان کا جواب تو یہ ہے کہ حدیث پر عمل کرناتو صحیح ہے۔لیکن آئمہ مجتہدین کو برے الفاظ میں یادکرنا بے دینی اور گمراہی ہے۔اور ان کے مقابلے میں دوسراگروہ جو محدثین کے بارے میں  زبان درازی اوربے ادبی کرتے ہیں۔اور اگر صحیح ھدیث ثابت بھی ہو جائے تو بھی اس پرعمل نہیں کرتے۔اوراگر کوئی ان کو سمجھانے کی کوشش کرے تو بھی نہیں سمجھتے۔ایسے لوگوں سے بھی خدا کی پناہ نوبت یہاں تک پہنچ گئی ہے۔تشہد انگشت کے اشارہ کو خلاصہ کیدانی والے جیسے آدمی کے پیچھے لگ کر حرام کہہ دیتے ہیں۔حالانکہ یہ حدیث صحیح سے بھی ثابت ہے اورامام ابو حنفیہ بھی اس کے قائل ہیں۔جیسا کہ امام محمدنے موطا میں اس کی تصریح کی ہے۔اگر کوئی ایسے لوگوں کو دلائل سے سمجھانے کی کوشش کرے تو جاہل ہونے کے باجود بڑ بڑ کرنے لگتے ہیں۔ایسے لوگ علماء کے نزدیک  زلیل ہیں۔ان کے جواب میں انا للہ وانا الیہ راجعون کہہ دینا کافی ہے۔مومن کو چاہیے کہ اعمال کو شرعیت کے ترازو میں تولے اور کسی فاسق فاجر کے فتوے کفر و فسق کی پرواہ نہ کرے۔ایسے لوگوںکے فتووں سے کوئی آدمی کافر نہیں ہوجاتا۔

کتبہ محمد حیدرعلی۔سید محمد نزیرحسین۔محمد نور الحق۔علی احمد۔ جعفر علی۔محمد انعام اللہ ۔محمد امام دین ۔عبد المجید خان

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 225-229

محدث فتویٰ

تبصرے