السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
کتاب التقلید والاجتہاد
بعض عالم تقلید کو فرض بتاتے ہیں۔اور آیت ﴿فاسئلوا أهل الذكر﴾اور آیت﴿يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ﴾
میں اہل ذکر اور اولی الامر سے آئمہ مجتہدین مراد لیتے ہیں کیا ان کی یہ بات صحیح ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
بعض علماء کی یہ بات صحیح نہیں ہے۔ کیونکہ ان دونوں آیتوں سے تقلید کا کچھ بھی تعلق نہیں ہے۔ان دونوں آیتوں میں اہل زکر اور اولی الامر سے آئمہ مراد نہیں ہیں۔بلکہ پہلی آیت میں اہل زکر سے مراد اہل کتاب ہیں۔اور اس آیت کے مخاطب کفار مکہ ہیں۔جو رسول اللہﷺ کی رسالت سے انکار کرتے تھے۔اور کہتے تھے کہ یہ آدمی محمد رسول اللہﷺ تو آدمی ہیں۔پیغمبر کیونکر ہوئے۔اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں ان کفار کو جواب دیا کہ پہلے بھی جتنے پیغمبر ہوئے۔سب آدمی تھے فرشتہ نہ تھے۔اگرتم کو یہ بات معلوم نہ ہو تو یاد والوں یعنی اہل کتاب سے دریافت کرلو۔پوری آیت اسطرح پر ہے۔۔۔قرآن 3
1۔اہل زکر سے پوچھ لو۔2۔اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسولﷺ اور اپنے حاکموں کی اطاعت کرو۔3 ترجمہ۔ہم نے آپ سے پہلے آدمی ہی رسول بنا کر بھیجے ہیں۔اگر تم کو اس بات کا علم نہیں تو اہل زکر سے پوچھ لو۔
(سورۃ نحل) شاہ ولی اللہ صاحب اس آیت کا ترجمہ اس طرح لکھتے ہیں۔
ونہ1 فرستادہ ایم پیش از تو مگر مردانے راکہ وحی می فرستادیم لیسوئے ایشان پس سوال کینیسدا از اہل کتاب اگر نمی دانید اور اس آیت کے فائدہ میں لکھتے ہیں۔کے یعنی پیغمبران سابق آدمی بووند فرشتہ نہ بووند انتہیٰے اور شاہ عبد القادر صاحب اس آیت کا ترجمہ اس طرح لکھتے ہیں۔اور تجھ سے پہلے بھی ہم نے یہی مرد بھیجے تھے کہ حکم بھیجے تھے ان کی طرف سو پوچھو یاد رکھنے والوں سے اگر تم کو معلوم نہیں۔اور شاہ صاحب موصوف اس کے فائدے میں لکھتے ہیں۔یاد رکھنے والے یعنی اہل کتاب کہ اگلے احوال جانتے تھے۔الحاصل بعض علماء کا اہل زکر سے آئمہ مراد لینا اور اس آیت سےتقلید کو فرض بتانا نہایت ہی غلط اور واہی بات ہے۔اور دوسری آیت میں اولوا الامر کے معنی حکومت والے ہیں۔اور یہی معنی مراد بھی ہیں۔یعنی بادشاہ اسلام اور حاکم جو صاحب حکومت اور بااختیار ہوتے ہیں۔شاہ ولی اللہ صاحب اس آیت کا ترجمہ اس طرح لکھتے ہیں۔اے مومنان فرمانبرداری کیند خدا راو فرمانبرداری کنید پیغامبر راو فرمانروایان راز از جنس شما اور شاہ عبد القادر صاحب اس طرح لکھتے ہیں۔اے ایمان والو! حکم مانو اللہ
1۔شاہ ولی اللہ صاحب کے صاھب زادے شاہ رفیع الدین نے اردو میں یہ ترجمہ لکھا ہے۔اور نہیں بھیجے تجھ سے پہلے ہم نے مگر مرد کہ وہی بھیجتے تھے ہر طرف انکی پس سوال کرو یاد والوں سے اگر ہو تم نہیں جانتے یعنی سابق پیغمبر ؑ آدمی تھے۔فرشتے نہ تھے۔
اور اس کے ر سول ﷺ کا اور ان کا جو تم میں سے اختیار والے ہیں۔اور فائدہ میں لکھتے ہیں۔اختیار والے بادشاہ اور قاضی اور جو کسی کام پر مقرر ہوں۔اس کے حکم پر چلنا ضرور ہے۔الخ
پس بعض علماء کا اس دوسری آیت میں اولی الامر سے آئمہ مجتہدین مراد لینا اور اس سے تقلید آئمہ مجتہدین کی فرض بتانا بالکل غلط ہے۔کیونکہ آئمہ مجتہدین میں سے کوئی بھی صاحب حکومت نہیں تھے۔اور اگر بالفرض ان میں کوئی صاحب حکومت یا بااختیار ہوتا بھی تو بھی اس آیت سے اس کی تقلید کرنے کا ثبوت نہیں ہوتا ہے۔ہاں اس آیت سے اس کے زیر حکومت رعایا پر اس کے حکم کا ماننا فرض اور ضروری ہوتا ہے۔اور یہ بھی اس کے حاکم ہونے کی وجہ سے نہ کے اس کے امام دین ہونے کے سبب سے اور حاکم کا حکم ماننا اور بات ہے۔اور مسائل دینیہ میں اس کی تقلید کرنا اور بات۔دیکھو مثلاً سلطان روم کی تمام رعایا جو ان کے زیر حکومت ہیں۔ان کےحکم ماننے کو ضروری سمجھتے ہیں۔اور مانتے بھی ہیں۔مگر نہ ان کی تقلید کو ضروری سمجھتے ہیں۔اور نہ ان کے مقلد ہیں۔قصہ مختصر تقلید نہ تو کسی قرآن کی آیت سے ثابت ہے اور نہ کسی حدیث سے اور نہ کسی امام نے اپنی تقلید کرنے کی اجازت دی ہے۔تقلید کے بطلان میں سےبہت اچھے اچھے رسالے تصنیف ہوچکے ہیں۔اس کے بطلان کی وجوہ مفصل طور پر دیکھنا ہو تو ان رسالوں کی طرف رجوع کرنا چاہیے۔کتبہ علی محمد عفی عنہ(سید محمد نزیرحسین دیلوی)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب