السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
علمی سوال کا جواب الجواب متعلق تقلید علماء
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
علماء سلف میں علمی مذاکرات ہوا کرتے تھے۔جن کو وہ موجب ترقی علم سمجھتے تھے مگر آج ہماری حالت اس کے برخلاف ہے جو بھی کوئی علمی سوال ہمارے سامنے پیش آتا ہے۔اس کو سائل کی بدنیتی پر محمول کر کے ہم اعلان جنگ کر دیتے ہیں۔یہ طریقہ علماء سلف کا پسندیدہ نہیں ہے۔اہل حدیث مورخہ 5 دسمبر 43ء میں ناضرین کی نظر سے ایک علمی سوال گزرا ہوگا جومسئلہ تقلید کے متعلق تھا اس کا خلاصہ یہ ہے کہ تقلید اپنی جامع ومانع تعریف کے لہاظ سے علماء مقلدین پر صادق نہیں آتی۔پھروہ مقلد کیوں کہلاتے ہیں۔سوال کی عبارت نہایت شیریں تھی۔اور مضمون بالکل صاف تھا۔اس کا جواب جمعیت الاحناف مو ناتھ نھجن صلح اعظم گڈھ کی طرف سے دیا گیا جن صاحب نے یہ جواب لکھا ہے۔ہم ان کو جانتے ہیں اس لئے ان کو مخاطب کر کےکہتے ہیں۔
چھپ نہ تو ہمسے کہ اماہ جبییں دیکھ لیا
امرتسر کے جلسہ ء احناف منعقدہ 5 دسمبر 45ء کے موقع پر میں نے ایک اشتہار کے ذریعہ ارباب تقلید سے ایک علمی سوال کیا تھا۔جس کا خلاصہ یہ ہے کہ تقلید کی تعریف جو علماء اصول نے کی ہے۔وہ ان علماء پر صادق نہیں آتی جو خدا کے فضل سے علمی استعداد اتنی رکھتے ہیں کہ مسائل فقیہ کو دلائل کے ساتھ جانتے ہیں۔جتنے اقوال تقلید کی تعریف میں میں نے نقل کیے تھے۔ان کا ترجمہ اور مطلب بھی میں نے اپنے الفاظ میں نہیں بیا ن کیاتھا۔بلکہ مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم کے لفظوں میں بتایا تھا جو ہ ہیں۔تقلید کہتے ہیں کسی کا قول محض اس حسن ظن پر مان لینا کے یہ دلیل کے موافق بتائے گا۔اور اس سے دلیل کی تحقیق نہ کرنا۔(الاقتصاء ص17)
اس اشتہار سے میری غرض یہ تھی کہ معزز علماء تقلید کو ان کے علم کی حیثیت سے اطلاع دوں کہ آپ مقلد کے درجہ میں کیوں بیٹھے ہیں جو ادنی درجہ ہے آپ اعلیٰ درجہ میں بیٹھں جس کا ٹکٹ آ پ کے ہاتھ میں ہے۔اس کی واضح مثال یہ ہے کہ کوئی مسافر جس کے اول یا دوم درجہ کا ٹکٹ ہو وہ تھرڈ کلاس (تیسرے درجہ) میں بیٹھ جائے اس کو کیا کہا جائے گا کہ اپنے آپ ٹکٹ کی عزت کیجئے۔میری یہ غرض نہ تھی کہ جماعت مقلدین کی یا کسی شخص کی توہین کی جائے مگر افسوس ہے کہ علماء مقلدین نے میری منشاء بلکہ ر وش کے بھی خلاف توہین آمیز الفاظ میں ایک اشتہار دیا ہے۔جو مٹر ضلع اعظم گڑھ سے 6 مارچ سن رواں کومیرے پاس پہنچا ہے جس میں میری نسبت بہت سے الفاظ ایسے لکھے ہیں جن سے ان کا غیظ و غضب نمایاں معلوم ہوتا ہے۔لیکن میں ان کے جواب میں اپنے مسلک کو نہیں چھور سکتا بقول۔
مجھے تو ہے منظور مجنون کو لیلیٰ نظر اپنی اپنی پسند اپنی اپنی
اس لئے میں ان الفاظ کو نہ نقل کرتا ہوں اور نہ جواب دیتاہوں جب مذکورہ کا خلاصہ یہ ہے کہ مجیب نے میری منقولہ تعریفات تقلید کو صحیح مان کر لکھا ہے ۔کہ دلیل کی پوری معرفت ہدایہ وغیرہ پڑھنے سےنہیں ہوتی کیونکہ معرفت دلیل اس کو کہتے ہیں کہ دلیل کوپورے طور پر جاننا با الفاظ دیگر یہ جاننا کہ اس کا معارض کوئی نہیں اور یہ منسوخ بھی انہیں وغیرہ ایسا جاننا مجتہد کا خاصہ ہے۔
میں کہتا ہوں کہ مجیب نے جوکچھ لکھا ہے بالکل صحیح ہے مگر مجیب صاحب نے یہ خیال نہیں فرمایا کہ جن علماء کی نسبت میرا سوال ہے وہ دلیل کی معرفت تامہ رکھتے ہیں اب میں مجبورا چند علماء کے اسماء گرامی بطور مثال پیش کر کے پوچھتا ہوں۔کہ کیا مولانا رشید احمد گنگوہی مرحوم مولانا انور شاہ دیوبندی مرحوم ۔مولانا محمود الحسن مرھوم۔مولانا حسین احمد ۔مولانا اشرف علی مرحوم۔مولانا احمد رضا بریلوی مرحوم وغیرہ اکابر علماء حنفیہ کو بھی دلیل کی معرفت تامہ حاصل تھی۔یا نہ تھی۔واللہ مجھے اس کی نفی کرتے ہوئے جھجگ محسوس ہوتی ہے۔کیونکہ میں ایسا خیال کرنا ان بزرگوں کی ہتک سمجھتاہوں یا ہی لطف ہے کہ درسوں میں اور ہی تصنیفوں میں بڑے زور سے اپنے مسائل کو مدلل بیان کریں۔اورفریق مخالف اہل حدیث ہوں یا شافعہ مالکیہ حنابلہ اشعریہ یا ما تریدیہ کے دلائل کی تردید اوراپنی تایئد پورے طور پر کریں جس سے معلوم ہوا کہ یہ حضرات جو کچھ کہتے اور لکھتے ہیں اعلیٰ وجہ البصیرت کہتے او ر لکھتے ہیں۔چنانچہ مجیب صاحب خود لکھتے ہیں۔علماء دیو بند اور دیگر علمائ مقلدین حدیث کا درس دیتے ہیں اور علل حدیث و رجال پر محققانہ و عالمانہ گفتگو کرتے ہیں۔اشتہار مذکورہ پھر معلوم نہیں کہ مجیب صاحب ہماری تایئد کرتے ہیں یا تردید مختصر یہ ہے کہ ہماری دلیل کے دو مقدمے ہیں اول یہ کہ آجکل کہ اکابر علماء حنفیہ دلائل شرع کی معرفت تامہ رکتھے ہیں دوسرا مقدمہ یہ ہےھ کہ جس صاحب کو دلیل کی معرفت تامہ حاصل ہو وہ مقلد نہیں نجیب صاحب کے جواب سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کو دونوں مقدمے مسلم ہیں اور ہر ایک طالب علم جانتا ہے جس دلیل کے دونوں مقدمے صغریٰ کبریٰ مسلم ہوں نتیجہ معلوم ہوتاہے کہ مقام شکر ہے کہ ہمارا اور ہمارے مجیب کا دعویٰ کی صحت پراتفاق ہوگیا۔
شکر اللہ کہ میاں من او صلح فتاد حوریاں رقص کناں سجدہ شکرانہ زوند
مقلد کے بعد دوسرا مرحلہ مجتہد کاہے پہلے اشتہار میں ہم نے اپنا سوال محض تقلید اور مقلد پرمنحصر رکھا تھا۔ اب مجیب کی تحریک سےہم مجتہد کا بھی زکر کرتے ہیں خدا جانے ان حضرات نے مجتہد کا رتبہ کیا سمجھا ہوا ہے کتب اصول فقہ سے تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ دلالت اربعہ (عبادت النص۔اشارت النص۔اقتضاح النص۔دلالت النص)سے کام لینا مجتہد کا کام ہے۔(نور الانوار ص13 مطبوعہ انوار احمدی لکھنو)
پس مجتہد وہ ہے جو ان دلالت اربعہ سے استدلال کر سکے۔ہمارا خیال ہی نہیں بلکہ یہ امر واقع ہے کہ ہندوستان کے اکابر علماء مقلدین دلالت اربعہ سے استدلال کر سکتے ہیں بلکہ کرتے ہیں۔یہ ان پر خدا کا فضل اور علمی نعمت ہے مقلد کہلانے سے اس نعمت کی ناقدری لازم آتی ہے اس بات کا ان کو اختیار ہے کہ خدا کی نعمت کی قدر کریں۔یا ناقدری ۔
من نگوئم کہ ایں مکن آن کن مصلحت ہیں وکار آساں کن
کسی اہل علم سے مخفی نہیں ہے کہ ہر علم کی معرفت اس علم کے آئمہ کے اقوال سے ہوتی ہے علم صرف اور نحو کے قواعد علماء صرف اور علماء نحو سے ماخوذ ہوتے ہیں علم لغت کی تحقیق علماء لغت سے ہوتی ہے اس کا نام تقلید رکھ کر تقلید مذہبی کو ثابت کرنا نار عنکبوت سےزیادہ ضعیف ہے پس مجیب کے سوال مندرجہ اشتہار کا جواب مختصر یہی ہے کہ بقول آپ کے جو علماء علیٰ وجہ البصیرت علوم شرعیہ کا درس دیتے ہیں وہ مقلد نہیں ہیں۔بلکہ میں تو ان کو با اصطلاح علم اصول مجتہد کہنا بھی جائز سمجھتا ہوں۔ہاں آپکو اختیار ہے کہ فسٹ وسینکڈ کلاس (اول و دوم درجوں)کا ٹکٹ رکھنے والوں کو تھرڈ کلاس (تیسرے درجہ) میں بٹھلایئں۔ میں آپ کو اس سے منع نہیں کر سکتا ہاں میں اپنا عندیہ ان لفظوں میں عرض کروں گا۔
گر بر سرو چشم من نشینی نازت کمبشم کہ ناز نینی
(خادم العلماء ابو الوفا ثناء اللہ امرتسری)
امسال جلسہ احناف مئوائمہ ضلع الہٰ آباد خطبہ صدارت مولوی محمد طیب صاحب دیو بندی نے پڑھا قریباً سارے خطبے میں آپ نے مسئلہ تقلید کا زکر کیا پھر اس مضمون کو اتنی اہمیت دی کہ رسالہ دارالعلوم دیو بند کے خاص نمبر میں اس کو جگہ دی گئی ہے اس لئے فریق ثانی نے بھی با غرض تحقیق ایک علمی سول کے عنوان سےاشتہار شائع کیا جو پانچ دسمبر 42ء کو جلسہ احناف امرتسر میں تقسیم ہوا اور اسی تاریخ کے اہل حدیث میں بھی درج کیا گیا سوال اس بنا پرتھا کہ علم معقول میں یہ بات مصرح ملتی ہے۔کہ ہر تعریف کے لئے ضرووی ہے کہ وہ دو اوصاف سے موصوف ہو اس لئے ہم نے تقلید کی تعریف علماء اصول کے لفظوں میں بتائی تھی اور امام غزالی سے لے کر مولنا اشرف علی تھانوی تک اقوال نقل کیے تھے ساری تعریفوں کا خلاصہ مولانا اشرف علی تھانوی مرحوم کے لفظوں میں یہ بتایا تھا کہ
تقلید۔کہتے ہیں کسی ک قول محض اس حسن ظن پر مان لینا کہ یہ دلیل موافق بتلائے گا اور اس سے دلیل کی تحقیق نہ کرنا (الاقتصاء ص17)
بات تو مختصر تھی کہ تقلید کی تعریف جامع و مانع ہونی چاہیے برادران احناف جو باوجود عالم معلم علیٰ وجہ البصیرت مصنف ہونے کے اور معرفت تامہ رکھنے کے مقلد کہلاتے ہیں اس سے تقلید کی تعریف مانع نہین رہتی۔ ایسے افراد کو چاہیے کہ تقلید کی تعریف پر ٖغائر نظر دال کر اپنے کو اس سے علیحدہ رکھیں اس معقول سوال کے جواب میں ایک اشتہار جعیت الاحناف موضع اعظم گڑھ کی طرف سے نلا جو تردید کی بجائے ہمارے سوال کی تایئد میں تھا کیونکہ اس میں لکھا تھا کہ علاوہ دیو بند جو ہر سال دورہ حدیث پڑھاتے ہیں۔اور علل حدیث و رجال پر نہایہت مجققانہ و عالمانہ گفتگو کرتے ہیں۔ اسی طرح ہندوستان کے اور بہت سے علماءہیں جو اپنی تصانیف میں بہت سی خوبی سے بحث کرتے ہیں۔اہل دانش کے نزدیک اس اعتراف سے ہمارا خیال مزید قوت پا گیا جو حضرات اتنی قابلیت رکھتے ہیں۔ان پر تقلید کی تعریف صادق نہین آتی۔مگر بغرض مذید توضیح ہم نے ایک مضمون بعنوان جواب الجواب اہل حدیث مورخہ 24 مارچ سن رواں میں بذریعہ اشتہار مورخ 10 مارچ کو شائع کیا جو ناظرین کے ملاحظہ سے گزرا ہوگا اس کا جواب لیں پھر ایک دوسرا اشتہار جمعیت الاحناف مئو نے بے تاریخ شائع کیا جو 23 مارچ سن رواں کو بذریعہ ڈاک ہمیں ملا اس جواب میں بحث کو مرکز پر لا کر گفتگو کرتا ہوں پس ناظرین اور سامعین غور سے پڑھیں اور سنیں۔
اصول کو جنھوں نے تقلید کی جامع مانع تعریف کرنے کے علاوہ مقلد کے استدلال کا ترازو ایسے صاف الفاظ میں پیش کیا ہے۔جو ہمارے اور ہمارے مخاطبوں کے درمیان فیصلہ کن ہیں۔پس ہمارے مخاطب نظر انصاف سے دیکھیں اور سماع قبول سے سنیں علم اصول میں توضیح چوٹی کی کتاب ہے۔اس میں مقلد کا طریق استدلال یوں لکھا ہے کہ
''مقلد کا استدلال یوں ہے کہ ہ مسئلہ امام ابو حنیفہ کی رائے ہے اور امام ابو حنیفہ کی جو رائے ہو وہ میرے نزدیک صحیح ہے کہ
کیا آپ کا ط رز استدلال یہی ہے کیا شعیہ کے سامنے مسئلہ خلافت کے ثبوت میں آپ اس طرز عمل پر قناعت کر سکتے ہیں۔ہاں اہل حدیث اور شوافع وغیرہ کے مقابلے میں مسئلہ فاتحہ خلف الامام کے متعلق اتنا ہی کافی جانتے ہیں کہ فاتحہ خلف الامام نہ پڑھنا امام ابو حنیفہ کی رائے ہے۔اس لئے یہی مسئلہ صحیح ہے۔واللہ مجھے یقین ہے کہ آپ ہرگز ایسا نہیں کرتے۔اور نہ کرسکیں گے۔ کیونکہ ایسا کرنا آپ کے نذدیک بھی بجوئے نیرز کا مصداق ہے بلکہ اس سے آگے چل کر آیات او ر احادیث سے استدلال کریں گے۔اب مین پوچھتا ہوں کہ وہ استدلال آپ کا اعلیٰ وجہ البصیرت اور معرفت تامہ کے ساتھ ہوگا۔یا بے بصیرت اور معرفت ناقصہ کے ساتھ بس یہ ایک سوال ہے جس کے متعلق آپ لوگوں کے ضمیر سے میری اپیل ہے ۔
خدا بھلا کرے مولوی خیر محمد:::صاحب جالندھری کا جنھوں نے باوجود دیوبندی مقلد ہونے کے مسئلہ تقلید کا بہت سا حصہ صاف کردیا آپ اپنے رسالے خیر التنقید میں لکھتے ہیں کہ قرآن حدیث کی نصوص میں تقلید نہیں ہے۔تقلید صرف مسائل استنباطیہ میں ہے۔اس بنا پر جملہ علماء احناف سے پوچھا کرتا ہوں آپ نماز میں جو جو ارکان ادا کرتے ہیں۔یہ آپ کے نزدیک منصوص ہیں یا نہیں مثلا قیام رکوع۔سجود۔اور قعدہ وغیرہ۔منفرد حالت میں فاتحہ پڑھنا مقتدی ہونے کی صورت میں نہ پڑھنا کیا یہ سب افعال منصوص نہیں ہیں۔اسی طرح دیگر ارکان سب منصوص ہیں پھر بتایئں کے ارکان اسلام کے ادا کرنے میں آپ مقلد ہوئے ہیں یا محقق
بس یہ ایک سول ہے جو قابل ٖغور ہے باوجوداس کے اگر آپ مقلد ہی کہلانا چاہتے ہیں تو ہمارا اس میں کوئی نقصان نہیں۔البتہ اس سے دو خرابیاں لازم آیئں گی ایک یہ کہ تقلید کی تعریف مانع نہ رہے گی۔دوسری یہ کہ آپ مخاطب آپ کا میدان کلام تنگ کرنے کو کہہ سکتا ہے کہ آپ بحثیت مقلد پیش ہوئے ہیں تو صرف اپنے امام کا قول پیش کیجئے۔استدلال بالنص نہ کیجئے۔بس یہ ہے مدار گفتگو اور یہ ہے مرکز بحث
حضرات مقلدین کی تصنیفات ملاحظہ کیجئے کہ ہر مسئلہ پر نصوص پیش کرتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ وہ نصوص ان کے مدعا کو مثبت ہوں یا نہ ہوں حضرات دیو بند نے کتب حدیث کی جو شرح لکھی ہیں ان پر سرسری نظر ڈال کر دیکھیے۔تو صاف معلوم ہوسکتا ہے کہ مصنف جو کچھ لکھتا ہے۔بڑی بصیرت اور معرفت کے ساتھ لکھتا ہے۔مگر جب پوچھا جائے تو مجیب صاحب کہتے ہیں کہ ان کو معرفت تامہ حاصل نہیں کیا خوب ہم بہت خوش ہو کر اپنا سوال واپس لے لیں گے۔اگر حضرات مقلدین یہ اعلان شایع کر دیں کہ ہم نے اپنی تفصیلات میں جو کچھ لکھا ہے یا ہم درس میں اپنے خیالات کی تایئدیں جو کچھ کہتے ہیں سب کچھ بصیرت اور بے معرفت کہتے ہیں اس وقت ہم صرف یہ عرض کریں گے کہ آپ حضرات زرا ٖغور فرمایئں۔کہ ضروری متعلقہ نقیض ممکنہ عامہ ہوتی ہے۔اور یہ منطقی قاعدہ آپ کی جملہ تحقیقات علمیہ کے متزلزل کرنے کے لئے کافی ہوگا۔باقی رہی بحث مجتہد کی اس کے لئے محاذ قائم کرنا ابھی ہمارا مقصود نہیں وقت آنے پر اس بحث کے لئے بھی ہم تیار ہیں۔ہم علماء اصول کی تصریحات سے دکھایئں گےکہ اجتہاد کا منصب رسالت کی وہبی نہیں ہے۔بلکہ کسبی ہے اور یہ کبھی بند نہیں ہوا بلکہ برابر چلا آیا ہے۔اگر یار لوگوں نے امام بخاری جیسے مجتہد کو بھی مقلد لکھ دیا ہے تو یہ ان کی خوش فہمی اور خوش اعتقادی ہے۔مجیب نے اشتہار میں یہ بھی سوال کیا ہے۔کہ تم علماء دیو بند میں سے مولانا حسین احمد صاحب سے پوچھو کہ وہ معرفت تامہ رکھتے ہیں یا نہیں۔؟
مجیب نے اس سوال کو مدار فیصلہ قرار دیا ہے۔میں کہتا ہوں مولانا حسین احمد کو پوچھنے کی ضرورت ہی کیا ہے آپ نے ان کو درس دیتے ہوئے دیکھا ہوگا اگر نہیں دیکھا تو جب رہا ہوکر آئیں گے۔تو آپ دیکھ لیجئے گا۔وہ اپنے مذہب کا اثبات اور فریق مخالف کا ابطال معرفت تامہ سے کرتے ہیں۔نہ معرفت یا غیر تامہ سے۔اچھا اسے بھی جانے دیجئے میں دو عادل گواہ پیش کرتا ہوں۔مولانا انور شاہ مرحوم کی درسی نوٹ دو کتابوں کی شکل میں شائع ہوئے ہیں۔ترمذی کے حواشی عرف الشذی او ر بخاری کے حواشی فیض الباری کے نام سے شائع ہوتے ہیں۔یہ کتابیں بڑے فخر و مباہات کے ساتھ مصرمیں چھپوائی گئی۔ان دونوں کتابوں کو دیکھ لیجئے۔تو ان کے درس کی حقیقت معلوم ہو جائےگی۔کہ مرحوم کس طرح اپنے مسائل کو معرفت تامہ کے ساتھ مدلل بیان کرتے ہیں۔ہاں اس سوال کا جواب میرے زمہ نہیں ہے۔ کہ علماء دیو بند وغیرہم باوجود معرفت تامہ رکھنے کے مقلد کیوں کہلاتے ہیں۔میں کہوں گا کے یہ ان کی تواضع ہے۔یا پرانا دستور ہے۔دیکھنا یہ ہے کہ ان کا طریق عمل کیا ہے۔اگر ان کا طریق عمل بقول صاحب توضیح محض امام کے قول سے استدلال ہے۔تو بے شک مقلد ہیں۔اور اگر اس بڑ ھ کر نصوص کے ساتھ استدلاال ہے۔تو آپ ہی ان کا نام تجویز کیجئے۔
اطلاع۔ہماری یہ گفتگوسردست محض تقلید کی جامع مانع تعریف پر ہے ابھی مسائل فرعیہ پر نہیں ہے۔مشتہرین نے مولانا حسین احمدصاحب سےدریافت کرنے کو لکھا ہے۔اس کی ضرورت نہیں ہے ہم مئو ہی کی جماعت احناف کو مخاطب کر کے پوچھتے ہیں۔کہ وہ اپنا حلفیہ بیان شائع کرے۔کے ہمارے علماء کو مسائل شرعیہ کی معرفت تامہ نہیں ہے۔اس وقت ہم بڑی خوشی سے مندرجہ زیل شعر ان کی نذر کریں گے۔
ہوا ہے مدعی کا فیصلہ اچھا مرے حق میں زلیخا نے کیا پاک دامن ماہ کنعان کا (فتاوی ثنائیہ جلد 1 صفحہ نمبر 157)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب