السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
خواجہ حسن نظامی دہلوی کے سوالات علماء اہل حدیث سے
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
خواجہ صاحب دہلوی نے مختلف فرقوں سے چند سوال کئے ہیں۔مثلاً شعیوں سے قادیانیوں سے اور علمائے اہل حدیث سے خواجہ صاحب نے جو سوالات کیے ہیں۔اہل حدیث کی طرف سے ان کے جوابات خواجہ صاحب کو غالباً معلوم ہوں گے۔چونکہ مذہب اہل حدیث اور اسلام دو مترادف لفظ ہیں۔ اس لئے جواب سے پہلے تو ہمای گزارش یہی ہے۔
نئے لوگوں کی کیجئے آزمائش ضرورت کیا ہمارے امتحان کی
بہر حال خواجہ صاحب کے سوالات مع جوابات درج زیل ہیں۔
سوال نمبر 1۔کیا فرماتے ہیں جماعت اہل حدیث کے علماء کے جو مسلمان آیات قرآنی اور احادیث نبوی ﷺپر ایمان رکھتے ہیں۔مگرچاروں اماموں میں سے ایک امام کی تقلید ان کے ایمان میں فتور پیدا کرتی ہے یا نہیں؟
جواب۔ نمبر 1۔اس سوال کا جواب شمس العلماء سید نزیر حسین صاحب دہلوی المعروف میان صاحب نے اپنی کتاب معیار الحق میں دیا ہوا ہے۔مرحوم نے مسئلہ تقلید شخصی کو چند قسموں میں تقسیم کیا ہے۔ان میں سے ایک قسم مباح بتائی ہے۔یعنی اس پرکوئی گناہ مرتب نہیں ہوسکتا۔وہ یہ ہے کہ مقلد کسی امام کومحقق سمجھ کر ہمیشہ اس کی بات مانتارہے۔مگر اس تعین کو شرعی حکم نہ سمجھے بلکہ ایسےمقلدکو اگراپنے امام کے قول کے خلاف کوئی حدیث معلوم ہوجائے تو فوراً اس کی طرف رجوع کرے۔اپنے امام کی بات پر اصرار نہ کرے۔مرحوم نے دوسری قسم کوحرام بتایا ہے۔یہ وہ تقلید جس میں مقلد اس تعین کو حکم شرعی سمجھے۔اس فتوے میں میاں صاحب مرحوم متفرد نہیں ہیں۔ بلکہ فقہاء حنفیہ بھی اس کے قائل ہیں۔رد المختارشامی شرح در مختار میں بالتصریح مذکور ہے۔ليس علي الانسان التزام مذهب معين
(شامی مطبوعہ مصر جلد1 ص 53) بس اس سوال کا جواب تقلید کرنےوالوں پرموقوف ہے۔
سوال نمبر 2۔جو مسلمان اہل حدیث کے عقائد و اعمال سے الگ ہیں۔اور کسی امام کی تقلید میں اس طرح ارکان اسلام کو ادا کرتے ہیں۔جن میں جماعت اہل حدیث کے عقائد اور اعمال کے مقابلہ میں کچھ فروعی فرق اور اختلاف معلوم ہوتا ہے۔ تو ایسے مقلد مسلمانوں سے فراحمت کرنا ضروری ہے۔یا نہیں ایسی حالت میں کہ وہ مقلد مسلمان غیر مقلد مسلمانوں کے عقائد اور اعمال کے خلاف کچھ نہ کہتا ہو۔
جواب نمبر 2۔ اس کا جواب بھی پہلے سوال کے جواب میں آگیا ہے۔تقلید کرنے والا پہلی دو قسموں میں سے جس قسم میں داخل ہوگا۔ویسا ہی حکم اس پرلگے گا۔فقہا حنفیہ نےتقلیدشخص کے متعلق صاف لکھا ہے۔کہ کوئی شخص کسی ایک امام کی تقلید اپنے اوپر لازم کر لے تو بھی یہ لازم نہیں ہوتی۔(رد المختار مصری جلد 3 ص 196)
سوال نمبر 3۔کیا علمائے اہل حدیث سیاسی معاملات میں اپنے عقائد کے اختلافات کا محدود رکھنااوردوسرے فرقوں کے مسلمانوں سے متحد ہوجانا جائز سمجھتے ہیں یا نہیں؟
جواب نمبر 3۔بے شک جائز سمجھتےہیں۔ کیونکہ علمائے اہل حدیث ازروئے علم منطق جانتے ہیں۔کہ انواع ممتازہ اپنی جنس اورجنس الاجناس میں ضرور شریک ہوئی ہیں۔اس کی مثال یہ ہے کہ الانسان والفرس والبقر ما هم کے جواب میں حیوان آتا ہے۔اگر آپ چاہیں گے تو ہم ان علماء اہل ھدیث کے نام بتا دیں گے۔جو اس وقت بھی ہندوستان کی سیاسیات میں بلا تکلف شریک ہیں۔
خواجہ صاحب۔ہم آپ کے سوالات سے فارغ ہوگئے ہیں اب ہمارا بھی سوال حل کر دیجیئے۔اگر آپ اسے حل کردیں گے تو ہم آپ کے بہت مشکور ہوں گے۔پس توجہ سے سنیے۔آپ جو اپنی تحریر میں جملہ ہو لکھا کرتے ہیں۔اس کے کیا معنی ہیں اس میں تو شک نہیں کہ ھو کی ضمیر اللہ کی طرف راجح ہے۔اورالکل سے مراد کل کائنات ہے۔ پس ہمارا یہ سوال ہے کہ یہ کل افرادی ہے۔ یا مجموعی افرادی ہونے کی حالت میں کاینات میں سے ہرشے اسی ھو کی جو مبتدا ہے خبر بنے اس کی صورت میں اس کے معنی ہوں گے۔ھو کل شئ جو بحکم حیوان عکس القضیہ یوں بولا جائے گا۔کل شئ ھو مثلاً انسان ۔چڑیا ۔کوا۔ طوطا مینا وغیرہ میں سے ہر ایک اللہ کا مصداق ہوگا یعنی اللہ انسان سے چڑیا ہے۔ طوطا ہے اور مینا ہے۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ اس قول کے قائل کے نزدیک ہر ایک جانورطوطا مینا وغیرہ الہٰ (معبود) ٹھہرے گا۔کیونکہ یہ ھو (مبتدا) کی خبر ہے۔کل کو مجموعی کہنے کی صورت میں یہ ترجمہ ہوگا۔کہ کل کائنات کا مجموعہ مل ک معبود ہے۔جس میں اس قول کا قائل بھی داخل ہے۔جس کا مطلب ہے کہ معبودیت میں وہ بھی حصہ دار ہے۔آپ خود ہی فرمایئے کہ ان تشریحوں میں سے آپ کی مراد کونسی تشریح ہے۔یا انکے علاوہ کوئی اور تشریح مراد ہے۔ہم سے پوچھیں تو ہم اپنا عقیدہ مولانا روم ؒ کے الفاظ میں پیش کیے دیتے ہیں۔جو فرماتے ہیں۔
اے بروں ازدم ہم و قال ق قیل من ناک برفرق من و تمثیل من
اس مضمون کو آپ کے دیلوی شاعر مرزا غالب مرحوم نے یوں ادا کیا ہے۔
ہے پرے سرحد ادراک سے اپنا مسجود معبود قبلہ کو اہل نظر قبلہ نما کہتے ہیں۔
(فتاویٰ ثنایئہ جلد 1 ص 14)
آج اسلامی دنیا سے ایک گونج دار آواز آ رہی ہے کہ مسلمانوں کو فرقہ بندی نے تباہ کردیا مگر یہ نہیں بتایا جاتا کہ فرقہ بندی کیا جیز ہے۔اور اس کی ابتداء کب سے ہوئی؟کچھ شک نہیں کہ زمانہ رسالت اور عہد خلافت میں اسلام ایک ہی شکل میں تھا۔مسائل میں اختلاف تھا۔باوجود اس کے فرقہ بندی نہ تھی۔جس کسی کو ضرورت پیش آتی۔ وہ اپنے ہاں کے جس عالم سے چاہتا مسئلہ پوچھ لیتا شیخ ابن الہام رئیس الحنفیہ کا قول رد المختار شامی میں ایسا ہی منقول ہے۔(مصری جلد سوم ص196)
اتفاق حسنہ سے رسالہ برھان دہلی بابت جولائی 45 ء میری نظر سے گزرا تو اس میں یہ مضمون با الفاظ ذیل ملا مولوی مناظر احسن صاحب حیدر آباد میں لکھتے ہیں۔ کہ عہد صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین سے ہی مسلمان ان امور میں مختلف ہوتے رہے۔لیکن نہ اس اختلاف کو انھوں نے چنداں اہمیت دی۔اور یہ تو کبھی ہوا ہی نہیں کہ محض اس اختلاف کی وجہ سے افاد نے کے نت نئے پہلو مختلف زبانوں میں مسلمان جو پیدا کرتے رہے۔ ان کی ایک حد تک تفصیل سنائی جا چکی ہے۔(برھان دہلی بابت ماہ جولائی)
اس کے ساتھ ہی حضرت حجۃ اللہ شاہ ولی اللہ کا بیان ملایا جائے۔تو بات واضح ہوجاتی ہے۔کہ فرقہ بندی ارباب تقلید نے پیدا کی ہے۔حضرت حجۃ اللہ میں فرماتے ہیں تین سو سال تک فرقہ بندی بشکل تقلید نہیں تھی۔چوتھی صدی کے شروع میں اس کی ابتداء ہوئی۔انا للہ
کے مسائل میں اختلاف ہونے سے فرقہ بندی نہیں ہوتی ہاں فرقہ بندی یہ ہے کہ کہا جائے کہ یہ ہمارا مذہب ہے۔اور وہ شافعی کا اور وہ مالک کا اور وہ احمد بن حنبل کا یہاں تک کہ طریق استدلال بھی جدا جدا بتایا جائے چنانچہ صاحب توضیح نے حنفی مقلد کا طریق استدلال یوں بتایا ہے۔
هذا ما ادي اليه راي ابي حنيفة وكل ما ادي اليه راي ابي حنيفة فهو عندي صحيح
یعنی یہ مسئلہ ابو حنیفہ کی رائے ہے۔اور جو ابو حنیفہ ؒ کی رائے ہے۔وہ میرے نزدیک صحیح ہے۔یہی حق شافعیوں کو دیا گیا ہے۔
هذا راي شافعي وكل راي شافعي فهو عندي صحيح
منطقی اصطلاح میں یوں سمجھنا چاہیے کہ ہر صنف کو نوع بتایا جائے جیسا یہ غلط ہے۔ویسا فرقہ بندی بھی غلط ہے۔
مولانا حالی مرحوم نے ایک بند اس کے متعلق یوں لکھا ہے۔
سدا اہل تحقیق سے دل میں بل ہے حدیثوں پہ چلنے میں دین کا خلل ہے۔
فتاووں پہ بالکل مدار عمل ہے ہر اک رائے قرآن کا نعم البدل ہے۔
کتاب او رسنت کا ہے نام باقی خدا اور نبی سے نہیں کام باقی
اس عنوان سے اخبار سچ لکھنو میں ایک سلسلہ مضمون نکلا ہے۔فاضل مضمون نگار (مولانا مناظر احسن استاد جامعہ عثمانیہ حیدر آباد دکن) کا نام دیکھ کر ہم نے اس مضمون کو بغور دیکھا گمان تھا کہ فاضل موصوف مسئلہ تقلید کو اپنے علم وفضل سے کما حقہ منقح کر کے ناظرین کو مستفید فرماییں گے۔مگر سارا مضمون دیکھ کر ہماری تشنگی بحال رہی کیوں۔اس لئے کہ مسئلہ تقلید کی تنقیح اورتحقیق کرنے والے کا فر ض ہوتا ہے کہ پہلے تقلید کی تعریف کرے۔پھر اس کی تقسیم پھر اس کا حکم ہونا چاہیے سسلسلہ مذکورہ کو ہم نے اس سے خالی پایا بلکہ مولانا موصوف ان سب مراتب سے آگے جا کر ایک فقرہ لکھ گئے جس کی وجہ سے ہمیں یہ نوٹ لکھنا پڑا۔ورنہ ہم اس پر توجہ نہ کرتے۔مولانا موصوف فرماتے ہیں۔ سچ ہے کہ آئمہ اسلام اصول میں نہیں بلکہ بہت دور کے بعض فروعی مسائل میں باہم کچھ اختلاف ضرور رکھتے ہیں۔لیکن ان اختلافات کو تم اتنی اہمیت کیوں دیتے ہو۔اختلاف جس سے تفرق پیدا ہوتا ہو قابل ملامت ہے۔ہم سے کیا گیا ہے۔قرآن۔۔۔۔ترجمہ۔اور نہ ہوجانا لوگوں کی مانندجو بکھر گئے اور مختلف ہوئے کھلی باتوں کے آجانے کے بعد۔لیکن کون کہہ سکتا ہے کہ حنفیت اورشافعیت کے اختلاف نے باہم مسلمانوں کو جدا کیا حنفیوں نے ہمیشہ شافعیوں سے تعلیم حاصل کی شافعیوں نے بسا اوقات حنفیوں کے ہاتھ پر بعیت کی مرید ہوئے اور دیکھو۔عرب میں عجم میں مصر میں مراکو میں کیا مالکیوں نے حنفی امام کے پیچھے نمازیں نہیں پڑھیں۔ کتنے حنفی تھے جن کو شافعی غزالی نے صوفی بنایا اور کتنے شافعی تھے جو حنبلی شیخ الشیوخ قطب الاسلام گیلانیؒ کے توسل سے فلاح وفود کی بلندیوں تک پہنچ 14۔8۔31۔
اس دعوے کی تحقیق کےلئے ہم آئمہ اصول کے اقوال سامنے رکھ کر پوچھیں گے کہ خدا کا انصاف!
کی جامع مانع تعریف یہ ہے کہالتقليد اخذ قول من غير معرفة دليله
(متن جمع الجوامع للسبکی)یعنی کسی غیرنبی کا قول بغیر اس کی دلیل پہچانے کے قبول کرنا تقلید ہے۔اس کا نتیجہ شارح کے الفاظ میں یوں ہے۔واخذ قول الغير مع معرفة دليله اجتهاد وافق اجتهاد القائل (شرح جمع الجوامع جلد 2 ص251) یعنی کسی غیر نبی کی بات کو اس کی دلیل کے ساتھ قبول کرنا تقلید نہیں بلکہ اجتہاد ہے۔فاضل مضمون نگار حیدر آباد میں رہتے ہیں اس لئے تعریف تقلید میں حیدر آباد کے ایک بزرگ کا قول ہم نقل کرتے ہیں۔تقلید کے یہ معنی ہیں کے کسی شخص کو معتبر سمجھ کر اس کے فعل و قول کی پیروی بغیر طلب دلیل کی جائے۔)حقیقۃ الفقہ مولانا انوار اللہ مرحوم حیدر آبادی حصہ دوم ص 51) اس تعریف کے بعد تقلید کی تقسیم۔
یہ ہے کہ بغیر تعین کسی عالم سے مسئلہ پوچھ کر عمل کیاجائے جواہل حدیث کا مذہب ہے۔
یہ ہے کہ خاص آئمہ اربعہ میں سے ایک امام کی بات مانی جائے جو مقلدین کا مذہب ہے یہ ہے۔تعریف اور تقسیم اب سوال یہ ہے کہ تقلید کا حکم کیا ہے۔اصحاب تقلید کہتے ہیں کہ تقلید فرض واجب ہے۔اس پر غورطلب امر یہ ہے کہ جس صورت میں تقلید کی تعریف میں عدم معرفت دلیل داخل ہے۔اور ان کےنزدیک دلیل نام ہے۔قرآن وحدیث اجماع اور قیاس کا تو ااس صورت میں تقلید کے فرض واجب ہونے کا صاف نتیجہ ہے کہ مقلد کو بوقت تقلید قرآن وحدیث وغیرہ کا پڑھنا حرام ہے۔ کیونکہ اس تقلید کی فرضیت میں نقص آتا ہے۔یا للجب خیر یوں تو ہے۔تقلید۔تقسیم اور حکم پر بحث اب ہم فاضل نگار کے مقولہ پر متوجہ ہوتے ہیں۔آپ نے لکھا ہے کہ آئمہ اسلام اصول میں مختلف نہیں تھے۔حالانکہ علماء اصول کی تصریحات اس کے خلاف علامہ تاج الدین امام صاحب کے اصول میں مخالف ت تھے۔
مولانا عبد الحئی لکھتے ہیں۔
فان مخالفتهما لا ما مها في الاصول غير فليلة حتي قال الا ما م الغزالي في المنخول انهما خالفا ابا حنيفة في ثلثي مذهبه
(مقدمہ شرح وقایہ ص 8)یعنی امام ابو یوسف اور امام محمد کی امام صاحب سے اصول میں مخالفت بہت زیادہے۔یہاں تک کے امام غزالی نے لکھا ہے کہ یہ دونوںصاحب امام ابو حنیفہ کے مذہب کےدو ثلث مخالف ہے۔قاضی دبوسی نے کتاب تاسیس النظر میں ان کی اصول کی تفصیل دی ہے۔جن میں شاگراپنے استاد معظم کے مخالف تھے۔اس کے سوا وہ اصول بھی لکھے ہیں۔جن میں آئمہ اربعہ باہمی مخالف ہیں۔
اس بحث کی تفصیل ہمارے ر سالہ تقلید شخصی اور سلفی میں ملتی ہے۔اب ہم یہ بتانا چاہتے ہیں۔کہ فاضل مضمون نگار نے جو حنفیت اورشافعیت وغیرہ کو موجب تفریق ہونا تسلیم نہیں کیا ہماری دلی تمنا ہے کہ موجب تفریق نہ ہو مگرعلماء اصول کی تصریحات اس کے خلاف ہیں۔ فاضل موصوف سے مخفی نہ ہوگا۔کہ جن دو فریقوں میں حجت شرعیہ اور طریق استدلال الگ الگ ہوں ان میں فرق لازمی ہے۔
علم اصول کی مستند کتاب توضیح کے مصنف صدر الشریعہ حنفی مقلد کی دلیل اور طرز استدلال بناتے ہیں۔
(توضیح تعریف علم الفقہ)یعنی حنفی مقلد کی دلیل یوں ہونی چاہییے۔کہ یہ قول ابی حنیفہ کا ہے۔اور جو قول ابو حنیفہ ہے وہ میرے نزدیک صحیح ہے ٹھی اسی طرح شافعیہ کا صول ہے اور ہونا چاہیے کہ یہ قول شافعی کا ہے اور جو قول شافعی کا یرے نزدیک وہی صحیح ہے ۔علیٰ ھذا دوسرے مقلدین کا۔فرمایئے جب ہر فریق کے نزدیک اس کے امام کی شخصیت یا نسبت داخل فی الدلیل ہے تو تفریق ہوئی یا وحدت
میں اس کی مثال یوں ہے کہ جنس فصول مختلف سے ملک کر انواع مختلف بلتی ہے اور انواع مختلف قسم میں جو یقینا الگ الگ ہیں اسی دلیل قرآن اور حدیث کی حجیت میں جب امام کا فہم داخل ہے تو قرآن اور حدیث بمنزلہ جنس کے ہوئے جو فہم ابو حنیفہ او فہم شافعی وغیر مل کر انواع بنتے ہیں۔پس تفریق لازم
ہوا کہ کعبہ شریف جیسے واحد مرکزی مقام میں چار مصلے بنائے گئے جس کا اثر یہ ہوا کہ ایک گروہ کے جماعت کہ ایک گروہ کی جماعت کراتے ہوئے دوسوا اوردوسرے کے کاتے ہوئے تیسرا او ر تیسرے کے کراتے ہوئے چوتھا گروہ بیٹھا رہتا تھا۔حتیٰ کہ کسی عارف خدا کو کہنا پڑا۔
دین حق را چار مذہب ساختند رخنہ در دین بن اندا ختند
جلالہ الملک ابن سعود (ایدہ اللہ بنصرہ)کو جن کی حکمت عملی سے چار مصلوں کی بجائے ایک ہی جماعت ہوگئی۔الحمد اللہ۔(فتاویٰ ثنائیہ جلد1 ص151)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب