سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(51) عامل بالحدیث جو کہ تقلید شخصی کا قائل نہیں...الخ

  • 3627
  • تاریخ اشاعت : 2024-04-24
  • مشاہدات : 1818

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

عامل بالحدیث جو کہ تقلید شخصی کا قائل نہیں جس کے اعتقاد کا مدار فقط حدیث رسول اللہ ﷺ پر ہو اور وہ خود کو آئمہ اربعہ میں سے کسی کی جانب منسوب نہیں کرتا بلکہ خود اہل حدیث کہلاتا ہے یہ یہ بدعت نہیں اور اس سے ایک نیا فرقہ اسلام میں پیدا نہیں ہوتا خدائے پاک نے ہم کو قرآن مجید میں مسلم اور مسلمان کے پیارے لقب سے یاد کیا ہے۔اتنا بس نہیں کیا خلفائے راشدین رضوان اللہ عنہم اجمعین  یا تبع تابعین ؒ میں سے کسی نے آپ کو اہل حدیث کہلایا ہے پھر یہ کیسے جائز ہوسکتا ہے۔؟


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

اہل حدیث میں جو لفظ حدیث ہے۔اس کا مضاف الیہ رسول اللہﷺ ہیں۔پس معنی اس لقب کے یہ ہیں کہ حضرت محمد ﷺ کی  تعلیم پر عمل کرنے والے یہی معنی مسلم ہیں دیگر فرقوں کی نسبتیں اس طرف نہیں آپ خود دیکھ لیں حنفی اورشافعی کے کیا معنی ہیں ان بزرگوں کی طرف منسوب ہیں۔اس لئے یہ لقب ایک جدید فرقہ پیدا کرتے ہیں۔اہل حدیث کا لفظ جدید فرقہ پیدا نہیں کرتا رہا یہ سوال کہ ک یہ لقب پہلے نہ تھا۔اب کیوں رکھا گیا اس کا جواب یہ ہے کہ اسلام میں جب مذاہب مختلف ہوئے  تو ایک فریق اس وقت بھی ایسا تھا۔ جس کا یہی دعویٰ تھا۔کے ہم ہم مذہبی امور میں  کسی اور کی بات نہ سنیں گے۔نہ عمل کریں گے۔ بلکہ خاص رسول اللہﷺ کی تعلیم بصورت قرآن و حدیث ہماری نصب العین رہے گی۔ چونکہ قرآن مجید امت میں مشرک تھا اور حدیث ہی مابہ الامتیاز چیز تھی اس لیے اس گروہ کا نام اصحاب الحدیث یا اہل حدیث مشہور ہوگیا پس یہ اہل حدیث عملی امتیازی لقب ہے مسلمان مذہبی لقب ہے۔درحقیقت دونوں کا مصداق ایک ہے ۔

شرفیہ

یہ نام مرفوع حدیث اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین  سے ثابت ہے۔

عن انس قال قال النبي صلي الله عليه وسلم اذا كان يوم القيامة يجي اصحاب الحديث ومعهم المابر فيقول الله لهم انتم اصحاب الحديث الي قوله انطلقوا الي الجنة اخرجه الطبراني

(القول البدیع السماوی ص189)حضرت ابو ہریرۃ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے اپنے آپ کو اہل حدیث کہا دیکھو صابہ ج3 ص 304)تذکرۃ الحفاظ ج1 ص 29) حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کو بھی اہل حدیث کہا گیا دیکھو تاریخ بٖغداد ج3 ص 227 و ج9 ص 154)

حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے فرمایا۔

انتم خلوفنا وهل الحديثي بعد نا كتاب اشريف للخطيب ص 21)

امام شعبی  ؒ  تابعی جنھوں نے سو صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  کو دیکھا اور 48 صحابیوں رضوان اللہ عنہم اجمعین  سے حدیثیں پڑھیں تھیں  وہ کہتے ہیں کہ تمام صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  اہل حدیث تھے۔(تذکرہ الحفاظ ج1 ص 72 حدیث مرفوع)

لا يزال طائفة من امتي منصورين لا يضرهم من خذ لهم الخ

جس طائفہ حقہ  کی بابت آ پﷺ نے  پیش گوئی فرمائی ہے۔ابن مدینی جو امام بخاری کے استاد ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ اس  اصحاب لحدیث مراد ہیں۔رواہ ترمذی و قال حدیث حسن  صحیح مشکواۃ ج2 ص 584)

ایک ضروری سوال۔

ایک مخلص دوست نے سوال کیا ہے کہ اہل حدیث کیوں کہلاتے ہیں چونکہ سوال و جواب عام ناضرین اور جماعت اہل حدیث سے تعلق رکھتے ہیں اس لئے اخبار کیے جاتے ہیں آپ لکھتے ہیں۔

مولانا! دام فیوکم۔۔۔السلام و علیکم ۔۔۔آپ کا اور مولانا ابراہیم سیالکوٹی کا دعویٰ ہے کہ ہم اہل حدیث ہیں۔

اہل حدیث کون تھے۔؟

ان کے خیال میں اہل حدیث وہ لوگ تھے۔کہ جو کسی خاص مجتہد کی تقلید نہیں کرتے تھے بلکہ مسئلہ کو پہلے قرآن مجید اور پھر حدیث شریف صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کے عمل سے تلاش کرتے پھر مجتہدین کی عرق ریزی سے فائدہ اٹھاتے پھر اپنا دماغ خرچ کرتے۔

نوٹ۔

اصل مسئلہ مذہب بھی یہی ہے اصغر بھی اسی کو قابل عمل یقین کرتا ہے۔

کیا وہ اہل حدیث کہلائے۔

میرے خیال میں اس درجے کے علماء نے اپنے آپ کو اس نام سے بالکل نہیں گردانا بلکہ دوسرے علماء نے واسطے شناخت ان کا نام ایسا رکھ دیا کیونکہ حنفی مالکی شافعی حنبلی کے مقابلے میں ان کا نام اہل حدیث رکھا۔انہوں نے اپنے نام کے ساتھ یہ لفظ بلکل نہیں لگایا

کیا عامی لوگ بھی اہل حدیث کہلا سکتے ہیں۔

جو ہری وہ ہے جو  ہر ایک قسم  کے جوہر سے پوری مہارت رکھتا ہو ہر فرد جوہری نہیں ہے۔مولوی وہ ہے کہ جو علوم عربیہ فارسی سے واقف ہو ہر آدمی مولوی نہیں کہلاسکتا بالکل اسی طرح اہل حدیث وہ ہے جو کہ مذکورہ تعریف پر پورا اترے جس کو قرآن مجید پڑھنا نہیں آتا بلکل ان پڑھ ہے۔وہ اہل حدیث کسی طرح ہوسکتا ہے۔آجکل کے اہل حدیث (ان پڑھ یا معمولی) کیا ہیں۔لیاقت کے آدمی کیا ہیں۔حضرت مولانا آپ معافف فرمایئں گے اگر احقر آپ کے پیروں کو آپ کا مقلد کہے جو کہ دراصل صحیح ہے کیا وجہ سو اس  کا جواب یہ ہے کہ میں قرآن مجید کو نہیں مانتا اور نہ ہی حدیث شریف کو لہذا میرے لئے ضروری ہے  کہ میں آپ کے علم پر بھروسہ کروں اور آپ سے فتویٰ طلب کر کے اس کے مطابق عمل کروں بس اسی کو مقلد کہتے ہیں۔لہذا اس بات سے بخوبی ثابت ہوا کہ عامی لوگ مقلد ہوتے ہیں۔خواہ آپ کے یا مولوی ابراہیم صاحب کے یا آپ کے شہر کے قاضی کے

کیا آپ کا مقلد اچھا ہے یا آئمہ اربعہ کا؟

میرئے خیال میں آئمہ اربعہ کا مقلد آپ کے مقلد سے اچھا ہے۔کیونکہ وہ عالم بے بدلج قاضی اجل تھے ان کے علم اورتقوے میں کسی کو کلا م نہیں۔انہوں نے اپن زندگیاں فی سبیل اللہ خرچ کردیں۔اور اپنے مرشد کامل پیر کامل محمد رسول اللہﷺ کی امت کے لئے فقہ  تدوین کی اور نہایت جانفشانی اور دیہانت داری سے ہر ایک مسئلہ کی بال کی کھال نکالی اور کتابیں تصنیف کیں۔  تاکہ عامہ مسلمین ان کی تصنیفات سے مستفید ہوویں۔ اور جو کچھ کیا فی سبیل اللہ کیا۔اور آپ بھی ان ہی بزرگوں کے خوشہ چین ہیں۔

نتیجہ

لہذا صاف ثابت ہوا کہ عام مسلمین کا مقلد ہونا ضروری ہے اور آئمہ اربعہ کا مقلد موجودہ عالموں کے مقلدوں سے اچھا اور افضل ہے۔

مذاہب خمسہ

مذاہب اربعہ لکھا جاتا تھا تو  کہا جاتا تھا کہ ان چاروں اماموں ک مقلدین نے اہل سنت والجماعت کو چار ٹکڑوں میں تقسیم کر دیا ہے او ر یہ تقسیم نہایت ہی بری ہے وغیرہ وغیرہ لیکن جب سے ایک گروہ نے دعویٰ کیا ہے کہ اہم اہل حدیث ہیں اورہم ہی اصل مسلمان ہیں اس سے ہمارے پانچ گروہ ہو گئے ہیں۔حنفی ۔شافعی۔مالکی۔حنبلی۔ اہل حدیث اس قسم کے الزام میں جیسے کہ ایک حنفی پر تشنیع کی جاسکتی ہے۔ بالکل اتنی ہی کا اہل حدیث بھی مستحق ہے۔سرمو فرق  نہیں ہے۔لہذا بالکل واضح ہوگیا کہ مزکورہ بالا پانچ  گروہوں میں شامل ہونے والا اہل سنت والجماعت کو پانچ حصوں میں تقسیم کرنے والا ہے۔

ہم کو کیا کہلانا چاہیے۔

اس بات میں ہم کو کسی اور شخص عالم مجتہد بادشاہ امیر کی تابعداری نہیں کرنی چاہیے۔بموجب ۔۔۔قرآن۔۔۔

اب دنیا کی ساری کتابوں کو الگ کردیجئے۔کہ قرآن کریم ہمارا نام کیا رکھتاہے۔آیئے قرآن مجید کو کھولئے اور پڑھیے۔

قرآن مجید میں شاید پچاس دفعہ مسلمین کا لفظ آیا ہے۔ اگر اور زیادہ فہرست دوں توبہت زیادہ لمبی ہو جائےگی۔درخانہ اگر کسی ہست بیک حرف بس است مولانا آپ عالم فاضل ہیں۔بلکہ باریک بین ہیں۔میرے خیال میں یہ بھی ایک ٹھوکر ہے جو ہم نے کھائی ہے۔اور فرقہ فرقہ مبارک اسلام کو کردیا ہے۔کوئی حنفی کوئی حنبلی وغیرہ۔

نتیجہ۔

ہم کو مسلمان کہلانا چاہیے اور شرع میں مقدم قرآن مجید پھر حدیث شریف پھر صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  کے اقوال و افعال پھر آئمہ مجتہدین کی محنت اور جان فشانی کی قدر کرنی چاہیے۔اور دعا مانگنی چاہیے۔(احقر العباد غلام حسین کلرک محکمہ نہر )

اہل حدیث

کچھ شک نہیں کہ مذہب سچا وہی اسلام ہے۔ جس کی تعلیم حضور ﷺ نے امت کو دی۔اور اپنے سامنے اس پر عمل کرتے دیکھا وہ کیا تھا قر آن او ر سنت نبویﷺ اصل دین بس یہی دو ہیں۔ بس انھیں  کی وجہ سے ہمارا نام مسلمان تھا۔یعنی تابعدار آج اگر اسی صورت اور شکل   کو دیکھنا ہے کہ جو اسلام جو کچھ حضور ﷺ سکھا گئے تھے کہاں ہے تو اس کی پہچان صاف ہے کہ ہر ایک فرقہ کے انتسابات کودیکھا جائے۔کہ وہ کس کس طرف اپنے آپ کو منسوب کرتا ہے۔ یعنی جو فرقہ اسلام کی ماہیت میں ایسے کچھ اجزاء داخل کرتا ہے۔جن کا دخول نہ حضور  ﷺ کے حکم سے ہوا اور نہ آپﷺ کے زمانے میں تھا تو یہ سمجھا جائے گا کہ وہ فرقہ اسلام میں بوجہ چند باتیں اضافہ کر کے جدید اور جو فرقہ اپنے اندر کسی زائد بات کو یہاں تک کے اپنی نسبت کو بھی داخل نہیں کرتا وہی اسلام کا نمونہ اور وہی قدیم ہے آج جس فرقہ کا نام اہل حدیث ہے۔اس کا دعویٰ ہے۔

اصل دیں آمد کلام معظم داشتن

پس حدیث مصطفےٰ برجاں مسلم داشتن

یہ فرقہ نا تو اپنی نسبت کسی غیر کی طرف کرتا ہے۔نہ کرنا جائز جانتا ہے اس فرقہ کا نام  اہل حدیث بھی اسی بنا پر  ہے کہ یہ لوگ سوائے قرآن پاک کے کسی اور کلام کو حجت شرعی نہیں جانتے ہاںیہ بات میں صاف لفظوں میں کہتا ہوں۔اس فرقے کا نام جو اہل حدیث بولا جاتا ہے۔یہ نام مسلمان کی طرح مذہبی اسم یا لقب نہیں بلکہ عملی طریق کا اظہار ہے۔ اس لئے اگر کوئی شخص قرآن وحدیث پر عمل کرے۔اوراپنی نسبت کسی غیر کی طرف نہ کرے۔ تو گو وہ اہل حدیث نہ کہلائے ۔ تاہم وہ اہل حدیث کی اصطلاح میں اہل حدیث ہے۔گو وہ اپنا نام مسلمان ظاہر کرے اور مسلمان ک سوا کوئی دوسرا نام اپنے اوپر بولنا پسند نہ کرے۔اس سے ثابت ہوا کہ اہل حدیث مذہبی نام نہیں مذہبی نام صرف مسلمان ہے۔اور یہ نام عملی ہے اس کی مثال ی ہے کہ ایک شخص جس کا نام والدین نے ابراہیم رکھا ہے۔اس کو علمی زندگی کے لہاظ سے اس کو مولوی ابراہیم کہا جاتا ہے۔ اگر وہ اپنے دستخطوں میں صرف ابراہیم لکھے تو وہ بھی مولوی ابراہیم ہے۔

عام و خاص میں کیا فرق

رد المختار میں شامی نے لکھا ہے کہ حنفی وہ ہے جسے مذہب حنفی میں بصیرت او  ر واقفی ہو جس کو مذہب سے واقفی نہیں اس کا اپنے آپ کو حنفی یا شافعی کہنا ایسا ہے جیسے وہ اپنے آپ کو نحوی یا منطقی کہنےلگے۔(جلد 3 مصری ص 196) اس تعریف سے ثابت ہوتا ہے کہ ہندوستان میں تعداد ہزار پانچ سو سے زائد نہ ہوگی کیونکہ ایسے لوگ جو مذہب حنفی میں براہ راست بصیرت رکھتے ہوں۔ اسی قدر ہوں گے۔اللہ اعلم تو کیا ہمارے حنفی بھایئوں کو یہ شمار منظور ہے۔ہرگز نہیں بلکہ وہ تو اپنا شمار کروڑوں میں پہنچاتے ہیں۔کیونکہ اس طرح کی حنفی کی تعریف ان کے نزدیک ایک تو یہ ہے جو علامہ شامی نے کی ہے۔اس کو اصطلاح خاص میں رکھ کر ایک اور اصطلاح بیان کرتے ہیں۔حنفی وہ ہے جو اما م ابو حنیفہ کی فقہ کا تابع ہو عام اس سے کہ اپنی واقفیت سے ہو یا کسی دوسرے کے بتلانے سے ہوـ(بہت خوب) یہی اصطلاح اہل حدیث کے متعلق ہے ایک تو وہ اصطلاح وہ جو آپ نے لکھی ہے۔جو قرآن وحدیث کی واقف پر اطلاق باقی ہے دوسری اصطلاح یہ ہے کہ جو محض قرآن وحدیث کےتابعداری اپنے نفس پر واجب جان کر عمل کرتا ہو عام سے اس سے کہ وہ قرآن وحدیث کا خود واقف ہو یا کسی دوسرے کے بتلانے سے واقف ہو اہو ان معنی سے وہ تمام لوگ بھی جو آجکل اہل حدیث کہلاتے ہیں۔ اہل حدیث ہیں جیسے کہ آجکل  عوام  حنفی ہیں۔اسی اصطلاح کو ہم اور  زرا وسیع کریں تو مسلمان پر بھی اس کا اجرا ہوتا ہے مسلمان وہ ہے جو مذہب اسلام میں براہ راست واقفی حاصل کر کے اس کا تابعدار ہوا ان معنی سے مسلمانوں کی تعداد جتنی ہوگی۔

عیاں راچہ بیان

دوسرے معنی مسلمان  کے یہ ہیں۔ک جو شخص اسلام کا تابعدارہو۔عام اس سے کے خود واقف ہو یا کسی کے بتلانے سے واقف ہوا ہو رہا یہ مسئلہ کہ آئمہ اربعہ کے مقلد آجکل کے اہل حدیث سے جو علماء کو  پوچھ کر عمل کرتے ہیں۔قابل غور ہے کسی کی اچھائی یا برائی کا علم اللہ کو ہے۔مگر قواعد علمیہ سے  جو معلوم ہوسکتا ہے۔یہ ہے کہ اصل مقصود حضورﷺ کی اطاعت ہے۔یہی معیار ہے اچھائی اور برائی کا پس اس اصول سے معلوم کرنا آسان  ہے کہ مقلدین کو اس منزل تک پہنچنے میں کتنے وسائط طے کرنے پڑتے ہیں۔اور اہل حدیث کو کتنے کچھ شک نہیں آجکل کا مقلد آجکل کے علماء کو پوچھے گا ایک مرحلہ یہ ہوا کہ پوچھے گا تو یہ کہ ہمارے امام نے اس مسئلہ کی بابت کیا  ارشاد رفرمایا ہے تاکہ ہم اس کی پیروی کر کے اطاعت کی منزل تک پہنچیں یہ دو مرحلے ہیں اہل حدیث کو حضور نبوی ﷺ میں  پہنچنے کےلئے صرف ایک مرحلہ ہے یعنی اپنے زمانے کے عالم کو پوچھ کر عمل کر لینا۔بتلائیے۔بلحاظ بعد و قرب مسافت کون اچھا ہے۔ہاں یہ بات آپ کی کے آئمہ اربعہ موجودہ دور کے علماء کرام سے ہربات میں افضل تھے۔واجب الایمان اور قابل تسلیم امر ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ موجودہ دور کا مقلد براہ راست تو آئمہ سے نہیں پوچھ سکتا  آخر وہ اپنے زمانے کے کسی عالم سے پوچھے گا۔ کیا موجودہ زمانہ کے مقلد عالم کی نسبت بھی یہی خیال کرنا چاہیے کہ اہل حدیث عالم سے ہر بات میں افضل ہے۔جہاں تک میرا خیال ہے  آپ بھی اس کے قائل نہ ہوں گے۔مختصر یہ کے اہل حدیث نہ کوئی نیا فرقہ ہے نہ اس کانام کوئی مذہبی اسم ہے۔ بلکہ طریق عمل کا نام ہے۔جو حسب ضروریات رکھا گیا اس فرقے کے عامی آدمی بھی اپنے خیال اور اعتقاد کی ر و سے اہل حدیث ہیں۔کوئی شخص قرآن وسنت پر عمل کر کے اہل حدیث نہ کہلائے تو خدا کے ہاں اس کو کوئی مواخذہ نہ ہوگا اس لئے میں آپ کی دعا میں شریک ہونے کو کہتا ہوں۔

اللهم من احييته منا فاحيه علي الاسلام والسنة ومن توفيته منا فتو فه علي الايمان اللهم الحقنا با اهل الاسلام والايقان (امين)

مزید تشریح از مولانا ابو مسعود خاں صاحب قمر بنارسی پروفیسر چندوسی کالج

جس طرح ہمیں قرآن شریف نے مسلم کہا ہے اسی طرح یہوو و نصاریٰ وغیرہ اگلے دین والوں کو بھی مسلم کا خظاب دیا گیا ہے۔نصرانیوں کے اولین گروہ یعنی حواریوں کا مقولہ قرآن شریف میں ہے۔۔۔قرآن۔۔۔۔ترجمہ۔یعنی گواہ رہو کہ ہم مسلمان ہیں''لیکن ان مسلمانوں کو  خودفرماتا ہے۔۔۔قرآن۔۔۔یعنی اہل انجیل کو خدا کی نازل کردہ وحی کے مطابق ہی احکام جاری کرنے چاہیے۔

ان دونوں آیتوں سے روز روشن کی طرح واضح ہوگیا کہ مسلمان اپنی کتاب کی طرفف بھی منسوب ہو سکتے ہیں۔عیسایئوں کا مسلم ہونا پھر ان کا اہل انجیل ہونا قرآنی لفظوں سے ثابت ہے۔ان کی کتاب کا نام انجیل تھا۔ہماری کتاب کا نام خود کتاب ہی میں حدیث رکھا گیا ہے۔ارشاد ہے۔﴿فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ﴾ دوسری جگہ ارشاد ہے۔

﴿اللَّهُ نَزَّلَ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ

اسی طرح رسول اللہﷺ کے متعلق ارشاد ہے۔﴿وَإِذْ أَسَرَّ النَّبِيُّ إِلَىٰ بَعْضِ أَزْوَاجِهِ حَدِيثًا﴾

مختصر

 یہ کہ قرآن و فرمان و سنت رسول کا نام حدیث ہے اس لئے رسول اللہﷺ نے ارشاد فرمایا ہے کہ !نضر الله امرا سمع منا حديثایعنی خدائے تعالیٰ اسے ترو  تازہ رکھے جو میری حدیث کو سن کر یاد کر کے دوسروں کو پہنچائے پس ان دونوں کے ماننے والوں اور ان پرعمل کرنے والوں کو اہل حدیث کہتے ہیں۔رسول اللہﷺ کا ارشاد  فرماتے ہیں۔

عن انس قال قال النبي صلي الله عليه وسلم اذا كان يوم القيامة جاء اصحاب الحديث ما بين يدي الله ومعهم المابر فيقول الله انتم اصحاب الحديث  كنتم تصلون علي النبي صلي الله عليه وسلمادخلو ا الجنة (تاریخ خطیب بغدادی ص3 وصواعق الیہیہ و جواہر الاصول )

یعنی رسول اللہ ﷺ ارشاد فرماتے ہیں۔ کہ جب قیامت کا دن آئے گا اہل حدیث جناب باری تعالیٰ کی خدمت میں پیش ہوں گے اور ان کے باکثرت درود لکھنے پڑھنے کی وجہ سے ان سے خدا فرمائے  گا۔کہ تم جنت میں چلے جائو حضرت امام خطیب بغدادی ؒ نے شرف اصحاب الحدیث کے ص 21 پر ایک روایت بیان کی ہے کہ

عن ابي سعيد الخدري انه كان اذا راي الشباب قال مرحبا لوصية رسول الله صلي الله عليه وسلم ان نوسع لكم في المجلس وان نفهمكم الحديث فانكم خلوفنا واهل الحديث بعد نا

یعنی حضرت ابی سعید الخدری صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  جب نوجوانان طالب علم حدیث کو دیکھتے تو فرماتے تمھیں رسول اللہﷺ کی وصیت مبارک ہو ہمیں اللہ کے پیغمبر ﷺ نے حکم دے رکھا ہے۔کے تمہارے لئے اپنی مجلسوں میں کشادگی کریں اور حدیثیں سمجھایئں تم ہمارے  لئے ہو اور ہمارے بعد تم ہی اہل حدیث ہو اس سے ثابت ہوا کہ صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین  بھی اپنے آپ کو اہل حدیث کہتے تھے۔تذکرۃ الحفاظ میں امام شعبی جو پانچ سو صحابہ کے شاگر تھے ایک موقع  پر فرماتے ہیں۔

لو الستقبلت من امري ما استد برت ما حد ثت الا ما اجمع عليه اهل الحديث

یعنی اگر مجھے پہلے سے یہ نتیجہ معلوم ہوتا تو میں صرف وہی حدیثیں بیان کرتا جن پر اہل حدیث یعنی صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا اجماع ہے۔اس سے معلوم ہوا کہ تابعین بھی صحابیوں رضوان اللہ عنہم اجمعین کو اہل حدیث ہی جانتے اور کہتے تھے نیز کتاب حدائق الحنفیہ مطبوعہ فول کشور ص 133 ملاحظہ کیجئے تو معلوم ہے کہ حضرت سفیان بن عینیہ  اور  خود حضرت اما م ابو حنیفہ بھی اپنے آپ کو اہل حدیث ہی کہا کرتے تھے۔مندرجہ بالا سے ثابت ہوگیا کہ اہل حدیث نام عملی اور منسوب الی النبی ہے اور  خدا اور رسول ﷺ سے ثابت ہے۔اور جملہ اصحاب و تابعین   اپنے کو اہل حدیث ہی کہا کرتے تھے۔پس ہم اپنے آپ کو اہل حدیث ہی کہنا چاہیے ۔حنفی شافعی وغیرہ منسوب الاالامتی ہے اس لیے محبان  رسول کو رسول ہی کی طرف منسوب ہونا چاہیے  لا غیر ۔ع(فتاوی ثنائیہ جلد 1 صفحہ 139)

بلبل ہمیں کہ قافیہ گل شود بس است

مولانا عبد العلی بحر العلوم نے شرح مسلم الثبوت میں لکھا ہے۔

وقيل لا يجب الاستمرار ويصح الانتقال وهذا هو الحق الذي ينبغي ان يو من به ويعتقد عليه لكن ينبغي ان الا يكون الانتقال التلهي فان التلهي حرام قطعا في التمذهب كان او غيره اذ لا واجب الا ما اوجبه الله تعالي والحكم له ولم يوجب علي احد ان يتمذهب بمذ هب رجل من الامة فا يجا به تشريح جديد

(فتاویٰ نزیریہ ج1 ص 151)خلاصہ اس عبارت کا یہ کہ مذاہب مروجہ سے کسی ایک ہی مذہب کو اپنے اوپر لازم کرنا شرعا کوئی چیز نہیں ہے۔بلکہ ایک مذہب سے دوسرے مذہب کی طرف منتقل ہوجانا صحیح ہے  لیکن یہ انتقال محض لہو و لعب کے طور پر نہ ہونا چاہیے۔اس طرح کہ نفسانی خواہش کے لئے کسی صحیح دلیل کو چھوڑ کر کوئی اس کے خلاف ضعیف دلیل پاویں اور اس کے پیچھے لگ جاویں ایسا کرنا قطعا حرام ہے۔مذہب کے بارے میں لھو لعب یا دیگر امور میں بہر حال حرام ہے اور  واجب صرف وہی چیز ہے ۔جس کو اللہ نے واجب کیا ہے اور یہ ایک حقیقت ہے کہ امت میں کسی آدمی کے مذہب کو لازمی پکڑنا اللہ نے ہرگز واجب نہیں قرار دیا ایسا خیال اپنی طرف سے ایک  نئی شریعت گھڑنا ہے۔طوالع الانوار میں ہے۔

وجوب تقليد مجتهد معين لا حجة عليه لا من جهة الشريعة ولا من جهة العقل كما ذكره الشيخ ابن الهمام من الحنفية في فتح القدير و في كتابه المسمي بتحرير الا صول (محمد دائود راز)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 172-181

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ