سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(50) مسئلہ خلق قرآن کے متعلق

  • 3626
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 3791

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

مسئلہ خلق قرآن کے متعلق


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

مسئلہ خلق قرآن ک متعلق میر ے عنایت فرما کچھ کہتے رہتے ہیں۔لہذا میں اعلان کرتا ہوں کہ مسئلہ ہذا میں  ہیں وحی عقیدہ رکھتا ہوں جو امام بخاری کا ہے۔(مولانا ثناء اللہ امرتسری جلد 1 ص 119)

از مولانا محمد صاحب مرحوم ۔۔۔خدا آپ کو جزائے خیر دے اور آ پ کی عزت و وقعت دوبالا کرے۔

تشریح

باب ما جاء في تخليق السموات والارض وغيرها منالخلاءق وهو فعل الربوامره فالرببصفاته وفعله وامره وكلا مه هو الخالق الملكون غيرمخلوق وما كان بفعله وامره وتخليقه وتكوينه فهو مفعول مخلوق مكون

(بخاری شریف ج2 س1110) مقصد امام الحدیث ؒ کا یہ ہے کہ آسمان وزمین اور جملہ خلائق اللہ تعالیٰ کے فعل اورامر سے عالم تکوین میں آئی اس لئے یہ سب کچھ مخلوق قرار پائے پس رب تعالیٰ اپنی صفات اپنے فعل اپنے امراور اپنے کلام کی رو سے خالق ہے  ٖغیر مخلوق پس وہ جس طرح خود غیر مخلوق ہے اسی طرح اسی کی صفات بھی غیر مخلوق ہے ۔اور امر و کلام اس کی صفات ہیں لہذا یہ غیر مخلوق ہیں اور تخلیق و تکوین کے نتائج ہیں جو کچھ عالم کون میں ہے وہ مخلوق ہے پس بقول علامہ ابن حجر شارع بخاری

ان ذاته و صفانه غير مخلوقة والقران صفةله هو غير مخلوق

(حوالہ مذکور کا حاشیہ) بے شک اللہ کی ذات جس طرح غیر مخلوق ہے یہ عقیدہ ہے امام بخاری ؒ کا جس کی طرف مولانا مرحوم نے اشارہ فرمایا ہے۔(از مولانا ظفر عالم صاحب میرٹھی صدر مدرس دارلحدیث مالیگاں)

حدیث بالا کے ما تحت فرقہ ناجیہ کی تشریح از قلم   مولانا ابو تمیم محمد ابراہیم صاحب میر سیالکوٹی

حضرات!فرقہ ناجیہ کا تصور و خیال ایک حدیث شریف سے اٹھتا ہے۔جس کا خلاصہ مطلب یہ ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ میری امت تہتر فرقوں میں منقسم ہو جائے  گی۔ایک فرقہ کے سوائے دیگر سب دوزخ میں جایئں گے۔اس ایک فرقے کے قائم رکھنے میں حکمت خداوندی یہ ہے کہ رسول اللہﷺ کی ساری امت گمراہ نہ ہوجائے۔اور دین محمدی ﷺ محرف نہ ہو جائے نیز یہ کہ  اس فرقہ حقہ سے دوسروں پر حجت پوری ہوتی ہے۔چنانچہ حضرت شاہ ولی اللہ صاحب حجۃ اللہ میں فرماتے ہیں۔

فان الله طائفة من عباده لا يضرهم من خذلهم حجة الله في الارض

(حجۃ اللہ مصری جلد اول صفحہ 153)یعنی خدا تعالیٰ کے بندوں میں سے ایک گروہ ہے جن کو وہ شخص جو ان کا ساتھ چھوڑ دے ۔کچھ بھی ضرر نہیں پہنچا سکتا اور وہ زمین میں خدا کی حجت ہیں۔اگلے دین اسی سبب سے محرف ہوگئے کہ اختلاف کے وقت ان میں کوئی فرقہ بھی سنن انبیاء پرقائم نہ رہا تھا۔یہ امر اس شخص  پر  بہت آسان ہے۔جو تاریخ یہودو نصاریٰ اور ان کی کتابوں کا مطالعہ گہری نظر سے کرے۔اور ان کے باہمی اختلافات کو فکر سائب سے سوچے۔

یہ ایک فرقہ کونسا ہوگا۔جن لوگوں کی آنکھ پر تخرب و تشنیع کی پٹی بندھی ہے۔وہ حقیقت کو نہ دیکھتے ہوئے یہ ہی زعم کریں گے۔ کہ بس وہ فرقہ ہمارا ہی ہے۔باقی سب فی النار والسقر جیسا کہ اگلی امتوں کے اختلافات کی نسبت ان کے مذعومات کا زکر کیا۔

﴿ فَتَقَطَّعُوا أَمْرَهُم بَيْنَهُمْ زُبُرًا كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ‎﴿٥٣﴾‏ سورة المؤمنون

یعنی انبیاء ؑ کے بعد ان کی امتوں نے دین (واحد) کو ٹکڑے ٹکڑے کر دیا اور ہر فرقہ اپنے عندیہ پر نازاں ہو رہا ہے۔لیکن قربان جایئں اس رسول  پاک ﷺ پر کے آپ ﷺ  نے اس فرقہ ناجیہ کی حقیقت پر کوئی پردہ نہیں رہنے دیا۔اور اس کی تعین کے لئے ہمیں بھول بھلیوں میں نہیں چھوڑ گئے کہ  ہرکوئی اپنے مذعومات و تخیلات وتوہمات پر ڈینگیں مار سکے چنانچہ حدیث مذکور الفوق کا تمتہ یوں ہے کہ صحابہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا حضرت! وہ فرقہ کون سا ہوگا۔آپﷺ نے  فرمایا! ما انا علیہ و اصحابی یعنی جو اس طریق پر ہوں گے جس   پر میں ہوں اور تم میرے اصحاب ہو۔

پیارے بھایئو!حدیث کے پہلے ٹکڑے یعنی اختلافات امت اور مختلف فرقے بن جانے کی تصدیق واقعات نے کر دی ہے۔اور اب اس کے لئے کسی حالت منتظرہ کا انتظار باقی نہیں ہے تو کیا دوسرا ٹکڑا تعین مصدا ق کے سوا ہی رہے گا یہ ہرگز نہیں ہوسکتا ہے۔کہ مخبر صادق کی خبر ایک تو درست اترے اور دوسری میں ہم ڈانواں ڈول رہیں۔اب تعصب کی پٹی کھول کر ما انا علیہ و  اصحابی کے مطابق اور تعامل صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  کے موافق ہوں اے حق پر جانتے ہوئے اس میں شامل ہو  جایئں۔بس اللہ اللہ خیر سلا نہ اس می کوئی آپ کو تردد نہ ہونا چاہیے۔اس حقیقت کو مقدر کرنے کےلئے قرآن و حدیث کے  نصوص میں بہت کچھ کھینچ تان کی گئی ہے۔اورطرح طرح کی تاویلات بلکہ تحریفات سے کوشش کئ گئی ہے۔کہ اپنے مذعومات کو قرآن و حدیث سے  ماخوذ بنایا جائے۔لیکن حضرات مین یہ مضمون ایسے طریقے پر بیان کرتا ہوں۔ جس میں اپنے اپنے خیال کی پنچ نہیں ہے۔اور وہ فرقہ بندی کی قید سے آزاد ہے۔حقیقت مطلوبہ کو نمایاں کرنے  کے لئے ایک اور امر کی وضاحت ضروری ہے۔جس پر اس کی بنیاد ہے۔ وہ یہ کہ صحیح بخاری میں حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے اور صحیح مسلم میں حضرت جابر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  او ر ثوبان  رضی اللہ تعالیٰ عنہ  سے روایت ہے۔کہ آپﷺ نے فرمایا کہ میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ رہے گا۔جو حق پر ہو کر لڑتا رہے گا۔حتیٰ کے خدا کا حکم آجائے۔او ر وہ اسی حالت معنونہ پر ہوگا۔ اس وقت میرا  استدالال حدیث کے  الفاظ لا تذال سے ہے۔کہ آپﷺ اپنی امت میں سے ایک جماعت ک ہر زمانے مین قائم رہنے کی بشارت سناتے ہیں۔اس بناء پر ہم کو دیکھنا چاہیے کہ کس فرقے کا وجود بلحاظ عقائد و عملیات کے ہر زمانے میں پایا جاتا رہا ہے۔یا یہ کسی روش ک آثار حوادث کی پامالی سے  زمانے میں بھی نہیں مٹ سکے۔سو معلوم ہو کہ حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی خلافت کے آخری سال میں ایک  یہودی نسل شخص عبد اللہ بن سبا نے آپﷺ کے برخلاف سیاسی ایجی ٹیشن شروع کی جس سے سبائی جماعتیں بن گئیں۔اور اس کا انجام حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی شہادت سے ہوا۔آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے بعد حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  خلیفہ ہوئے۔اور سبائی ان کے ساتھ ہو گئے۔عثمانی حضرات حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے خون کا انتقام لینے کے لئے ان کے بالمقابل کھڑے ہو گئے اور باقاعدہ صف آرائی سے جنگ شروع ہوگئی۔ جنگ صفین میں اس بات پر لڑائی تھم گئ کہ ایک منصف حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی طرف سے اور ایک حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی طرف سے مقرر ہو جو کچھ وہ  دونوں فیصلہ کریں وہ طرفین کو منظور کرلیا جائے۔سبائی صلح نہیں چاہتے تھے کہ ایک بہانے سے کہ حضرت  علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  نے ایک انسان کا حکم مانا ہے۔اور خدا کو چھوڑ کر ان کا حکم ماننا شرک ہے۔کوئی بارہ ہزارسبائی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی اطاعت سے خارج ہو گئے ان کا نام خارجی ہوا۔لوگ حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کے طرفدار تھے۔ان کے مقابلے ان کا نام شیعہ علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  یعنی حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی جماعت پڑا۔اس فتنہ عظیم کے وقت ایک بڑی جماعت غیر جانبدار رہی اور انہوں نے کسی طرف بھی  حصہ نہ لیا ۔اس لئے کہ آپﷺ نے ایسے موقع پر  فتنہ میں حصۃ نہ لینے کی بابت حکم دیا تھا۔رفتہ رفتہ اسی سیاسی فتنے نے ایک مذہبی صورت اختلاف پکڑ لی اور  ہر طرف کی عملی اور اعتقادی بدعات شروع ہوگئیَں ۔جس طرح ایک کثیر جماعت نے سیاسی فتنے میں حصہ نہیں لیا تھا۔ اور ہر طرح سے فتنے سے بچتے رہے تھے۔اسی طرح ان بدعات کے وقت بھی ایک بھای جماعت طرز اول اوطرز  قدیم  پرقائم رہی۔یعنی آپﷺ کے عہد میں اور اس فتنے سے پہلے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  کے وقت میں دین کی جو حالت تھی اس پر قائم رہیف اور ان کانام اہل سنت ہوا اہل سنت  ان اہل بدعت کی بدعی روایات  کی قبولیت سے پرہیز کرتے رہے چنانچہ محمد بن سیرین تابعی کا قول ہے۔

فينظر الي اهل السنة فيوخذ حديثهم وينظر الي اهل البدع فال يوخذ حديثهم

(مقدمہ صحیح مسلم) اس قول سے معلوم ہوا کہامام ابن سیرین کے وقت تک ایک گروہ کا نام اہل سنت پڑ چکا تھا۔جن کی روایات قابل اعتبار سمجھی جاتی تھیں۔امام ابن سیرین تابعی ہیں۔اپنے وقت کے امام تھے۔33ہجری میں حضرت عثمان رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی خلافت میں پیدا ہوئے۔بڑے بڑے مشہور صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  سے روایت لی مثلا ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا ۔حضرت انس بن مالکرضی اللہ تعالیٰ عنہ  حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  عبد اللہ بن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ  عبد اللہ بن زبیررضی اللہ تعالیٰ عنہ  معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  ابو سعید خدریرضی اللہ تعالیٰ عنہ  زید بن ثابترضی اللہ تعالیٰ عنہ  ابو درداءرضی اللہ تعالیٰ عنہ  ابو قتادہرضی اللہ تعالیٰ عنہ  حضرت حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت حسن رضی اللہ تعالیٰ عنہ  آپ کی وفات 77 سال میں ہوئی 9 شوال 110 ہجری کو ہوئی اس سے صاف ثابت ہے  کہ اہل سنت نام پہلی صدی ہجری میں پڑ چکا تھا۔اور یہ جو کہا جاتا  ہے کہ اہل سنت کا مذہب مذاہب اربعہ شافعی مالکی حنفی حنبلی میں منحصر ہے  جو  کوئی ان چاروں  کی تقلید سے خارج ہو وہ اہل سنت سے خار ج  ہ ہے۔صریحا غلط ہے کیونکہ پہلی صدی میں ان چاروں مذاہب کا وجود ہرگز نہیں تھا۔کیونکہ حنفی امام ابو حنیفہ کی طرف منسوب ہیں۔آپ 80 میں کوفہ میں پیدا ہوئے۔ اور 150 ھ میں بغداد میں قید خانہ میں ظلما زہر سے شہید کئے گئے اور مالکی امام مالک کی طرف منسوب ہیں۔آپ 93 ھ میں مدینہ طیبہ میں پیدا ہوئے۔ اور اسی پاک زمین میں 179 ء میں فوت ہوئے۔اورشافعی امام محمد بن ادریس شافعی کی طرف منسوب ہیں۔اور آپ150 ھ میں پیدا ہوئے۔اور 23 ھ میں مصر میں فوت ہوئے اورحنبلی امام احمد بن حنبل کی طرف منسوب ہیں۔ آپ 164ھ میں بغداد میں پیداہوئے۔اور بغداد میں ہی 241ھ میں فوت ہوئے۔اس تفصیل سے معلوم ہوگیا کہ پہلی صدی ہجری میں مذاہب اربعہ کا وجود ہی نہیں تھا۔ تو ان کی تقلید کہاں تھی۔کہ جو شخص ان کی تقلید سے خارج ہے وہ اہل سنت سے خارج ہے۔اس کے معنی یہ ہیں کہ معاذاللہ۔صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  تابعین اہل سنت نہیں تھے۔ اور یہ کہ ان سے  پیشتر جس قدر آئمہ اہل سنت نہیں تھے۔یہ کیسی غلط اور بے معنی بات ہے۔ کہ آئمہ اہل سنت اہل سنت نہ تھے۔ان آئمہ اربعہ سے پیشتر ہی مشہور مروج ہوچکا ہے۔اب  نفی کے کیا معنی۔

نیز یہ کہ صحیح بخاری میں حضرت عمران بن حصین رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے۔کہ آپﷺ نے فرمایا!

خير امتي قرني ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم ثم الذين يلونهم قال عمران فلا ادري اذكر بعد قرنه مرتين او ثلا ثا

یعنی آپﷺ نے فرمایا کہ میری امت میں سے میرا زمانہ سب سے بہتر ہے۔پھر وہ لوگ جو ان سے ملیں گے۔ حضرت عمران صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کہتے ہیں کہ مجھے یاد نہیں رہا۔کہ آپﷺ نے اپنے زمانے کے زکر کے بعد دو دفعہ دو زمانوں کا  زکر کیاہے۔تین دفعہ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  تابعین و اتباع تابعین بہترین امت ہیں۔اورانہی کو قرون ثلاثہ کہتے ہیں۔اور چونکہ آپﷺ نے ان کی خیریت کی شہادت دی ہے۔ اس لئے انھیں مشہود لھا بالخیر کہتے ہیں۔ان تین زمانوں کی حدیں بھی سن لیجئے۔پیارے بھایئو! کہ میں کوئی بھی بات اپنی طرف سے نہین کہتا جو کچھ کہتا ہوں صحیح کتابی حوالے سے کہتا ہوں۔اور اللہ کے فضل سے وہ بات ہوتی بھی حق او درست  ہے۔ واقعہ و عقل دین میں مقبول ہے۔

1۔آپﷺ کا زمانہ 11ھ؁ تک رہا یعنی آپﷺ کی وفات 11ھ میں ہوئی۔

2۔صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  کا زمانہ 110 ھ تک رہا کیونکہ آخری صحابی ابو طفیلرضی اللہ تعالیٰ عنہ  110ھ میں فوت ہوئے۔

3۔تابعین کا زمانہ 180ھ تک رہا۔

4۔اتباع تابعین کا زمانہ 220 ھ تک رہا۔

نوٹ۔ان زمانوں کی مذکورہ بالا تحدید فتح الباری (ج14 ص 353)اور تدریب الراوی (ص 209 اور 215ھ) میں مذکور ہے اس سے بھی معلوم ہوسکتا ہے کہ قرون خیار کی معیاد 180 ھ تک یا زیادہ سے زیادہ 220 ھ تک ہے اور بہر چہار مذہب کی تقلید اس معیاد تک نہیں تھی۔کیونکہ چوتھے امام احمد ؒ کی وفات 241ھ میں ہوئی ہے۔او ر یہ کوئی نہں کہہ سکتا کہ امام احمد کی تقلید ان کی زندگی میں واجبا کی جاتی تھی۔پس جس طریق پر قرون ثلاثہ مشہود لھا بالخیر گزرے وحی طریقہ حق اور موجب نجات ہے اور وہ کیا تھا بغیر کھینچ تان کے اور بغیر کسی خاص شخص کی  تقکید کے قرآن و حدیث پرعمل کرنا چنانچہ حضرت شاہ صاحب فرماتے ہیں۔

اعلم ان الناس كانة ا قبل المائةالرابعة غير مجمعين علالتقليد الخالص لمذهب واحد بعينه

ٰ(حجۃ اللہ مطبوعہ مصر ج1 ص152)اس بات کو جانے رکھو کہ امت محمدیہ کے لوگ چوتھی صدی (ہجری) سے پیشتر بعینہ کسی کاص مذہب کی تقلید پر جمع نہیں تھے،۔ان  تاریخی حوالوں کے بعد میں یہ کہنا چاہتا ہوں کہ جماعت اہل حدیث کو اہل سنت کا مصداق قرار دینا میرا پنا اختراع نہین ہے۔بلکہ آئمہ محدثین نے انھیں کو قرار دیتے ہوئے چنانچہ امام ترمذی حضرت قرہ بن ایاس رضی اللہ تعالیٰ عنہ  کی حدیث نقل کر کے لکھتے ہیں۔

قال محمد بن اسماعيل (البخاري)قال علي بن المديني هم اصحاب الحديث

(ترمذی ج2 ص 42)امام بخاری ؒ نے کہا کہ (میرے استاز) علی بن مدینی نے کہا کہ وہ اصحاب حدیث میں اسی طرح حافظ ابن حجر حضرت مغیرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ  والی حدیث کی شرح میں فر ماتے ہیںَ

اخرج الحاكم في علوم الحديث بسند صحيح عن احمد ان لم يكونو ا اهل الحديث فلا ادري من هم

امام حاکم نے اپنی کتاب علوم الحدیث میں امام احمد سے بسند صحیح نقل کیا کہ آپ نے فرمایا اگر ان سے مراد اہل حدیث نہیں تو  پھر میں نہیں جانتا کہ کون لوگ مراد ہیں۔

اورحضرت پیران پیر صاحب فرقہ ناجیہ کےزکر میں  فرماتے ہیں ہ ا ن کا نام تو بس اصحاب الحدیث اور اہل سنت ہی ہے۔(غنیہ ص212 مترجم فارسی)

اسی طرح امام ابن حزم قرطبی فرماتے ہیں۔

واهل السنة الذين يذكرهم اهل الحق ومن وراء هم قاهل الباطل فانهم الصحابة وكل من سلك تهجهم من خيار التابعين ثم اصحاب الحديث ومن التبعهم من الفقهاء جيلا مجيلا الي يو منا هذا ومن القتدي بهم من العوام في شرق الارض وغرابها

اور اہل سنت جن کو ہم اہل حق کے نام سے یاد کریں گے اور ان کے سوا کو اہل باطل کہیں گے  پس تحقیق و اہل سنت تو صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  ہیں۔اور نیک تابعین میں سے ہر وہ جو ان کی پیروی کرے۔پھر ان کے بعد اصحاب حدیث ہیں۔اور ہمارے اس زمانے تک جس قدر فقہاء کے بعد دیگرے جو بھی ان کے پیرو ہوئے دنیا کے مشرق مغرب تک وہ سب عوام بھی جنھون نے ان کی پیروی کی ان سب پر خدا کی رحمت ہو۔اس حوالہ سے معلوم ہوگیا کہ لفظ اہل سنت کے پورے مستحق اہل حدیث ہی ہیں اور انہی کی بابت آپﷺ کلی نجات کی بشارت سنا رہے ہیں۔الحمد للہ

دفع دخل

بعض لوگ کہا کرتے ہیں کہ جماعت اہل حدیث  تھوڑے عرصہ سے قائم ہوئی ہے۔یہ بات بلکل غلط ہے اور تاریخی ناواقفیت کی وجہ سے ہے۔ہم فقہ کی ایک  معتبر اور مشہور کتاب کے حوالہ سے ظاہر کرنا چاہتے ہیں کہ جماعت اہل حدیث اللہ کےفضل سے قدیمی گروہ ہے۔بلکہ ان چاروں مذاہب کے قائم ہونے سے بھی پہلے کی ہے۔چنانچہ شامی درمختار میں ہے۔

حكي ان رجلا من اصحاب ابي حنيفة خطب الي رجل من اصحاب الحديث ابنته في عهد ابي بكر الجوز جاني فابي الا ان يترك مذهبا فيقرء خلف الامام ويرفع يديه عند الانحنا ء ونحوذالك فا جا به فزوجه

(شامی جلد 4 آص 293)حکایت کی گئی ہے۔کہ قاضی ابو بکر زجانی کے عہد میں ایک حنفی نے ایک اہل حدیث سے اس کی بیٹی کا رشتہ مانگا تو اس (اہل حدیث ) نے انکارکر دیا مگر اس صورت میں کہ وہ(حنفی اپنا) مذہب چھوڑ دے۔اور امام کے پیچھے (سورۃ فاتحہ ) پڑھا کرے اور رکوع جاتے وقت  رفع الیدین کیا کرے۔ مثل اس کے اہل حدیث کے دوسرے کام بھی کیا   کرے۔پس اس (حنفی) نے  اس بات کو منظور کر لیا تو اس (اہل حدیث )نے اپنی لڑکی اس کے نکاح م میں دے دی۔اب قاضی ابو بکر جوز جانی کا زمانہ دیکھنا چاہیے کہ کونسا زمانہ ہے آپ تیسری صدی کے قاضی ہیں اور ابو سلمان کے شاگردہیں۔اور بلاواسطہ امام محمد کے شاگر دتھے۔(الفوائد البہیہ ص12) اس حوالے سے صاف ظاہر ہوا کہ تیسری صدی میں بھی مستقل ایک گروہ موجود تھا جن  کولوگ اصحاب الحدیث یا اہل حدیث پکارتے تھے۔اور ان کے امتیازی مسائل میں سے قراءت فاتحہ خلف الامام۔اور رکو جاتے وقت رفع الیدین بھی تھے۔ کیا اس میں بھی انہی مسائل کی وجہ سے اہل حدیث سے عداوت نہیں کی جاتی جس کے جواب میں ہماری طرف سے صرف یہی مظلومانہ آواز ہے۔

کمش بہ تیغ ستم و الہان سنت را

نکر وہ اند بجز پاس حق گناہ دگر

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 164-172

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ