سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(45) قرآن کریم کے متعلق مغربی دنیا کی رائے

  • 3621
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 2741

سوال

(45) قرآن کریم کے متعلق مغربی دنیا کی رائے

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

قرآن کریم کے متعلق مغربی دنیا کی رائے


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

قرآن عالم اسلامی کا ایک مشترکہ قانون ہے جو معاشرتی ملکی تجارتی فوجی۔عدالتی تعزیری معاملات پر حاوی مذہبی ضابطہ جس نے ہرچیز کو باقاعدہ بنایا۔مذہبی رسوم سے لے  کر حیات روز مرہ  کے افعال ر وحانی نجات  سے جسمانی صحت اجتماعی حقوق سے انفرادی حقوق شرافت سے نائب اور دنیاوی سزا سے لے کر اخروی عقوبت تک تمام امور کو سلک ضابطہ میں منسلک کر دیا ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے حضرت محمد رسول اللہﷺ کے دل پر انسان کی رہنمائی کے لئے نازل فرمایا تمام مذہب عالم میں مکمل دستور العمل ہونے کا فخر  الام اور صرف اسلام ہی کو حاصل ہے جس پرستر کروڑ انسان فخر کر رہے ہیں۔مغرب کے نامور علماء کی ایک بڑی جماعت اسلام کا سب سے برگزیدہ اور مکمل مذہب مانتی ہے اور جس کی تعریف میں رطب اللسان ہے۔ان میں سے چندہ متشرقین کے  خیالات جو بجائے خود ایک ضخیم کتاب کی صوت ہوگی اس لئے بہ اختصار درج کئے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر موریسس

جو فرانس کے مشہور ماہر علوم عربیہ ہیں جنھوں نے بحکم گورنمنٹ فرانس قرآن کریم کا ترجمہ فرانسیسی زبان میں کیا تھا۔اپنے ایک  مضمون میں جو لاباروں فرانس رومان میں شایع ہوا  تھاکہ ایک اور فرانسیسی مترجم قرآن موسیو سالان رمیناش کے اعتراضات کا جواب دیئے ہویے لکھتے ہیں۔کہ مقاصد کی خوبی اور مطالب کی خوش اسلوبی کے اعتبار سے یہ قرآن تمام آسمانی کتابوں پر فائق ہے۔اس کی فصاحت اور بلاغت ک آگے سارے جہاں کےبڑے بڑے انشاد پرداز و شاعر سر جھکا دیتے یں ایک اورجگہ فرماتے ہیں ملاحظہ ہو تنقید الکلام مصنفہ سید امیر علی باپ دے۔روم کے عیسایئوں کو جو کہ ضلالت کی خندق میں گر پڑے تھے کوئی چیز نہیں نکال سکتی تھی بجز اس آواز کے جو غارحرا سے نکلی۔

پروفیسر اڈوالر مونتے نمبر 2

اپنی تالیف اشاعت مذہب عیسوی اور ااس کے مخالف مسلمان (ص 17 و 18 ) پیرس  1890؁ء میں لکھتے ہیں۔حضور ﷺ کا مذہب تمام کا تمام ایسے اصولوں کا مجموعہ ہے جو معقولیت کے امور مسلمہ پر مبنی ہے۔اور وہ یہ کتاب ہے جس  میں مسئلہ  توحید ایسی پاکیزگی اور جلالت و جبروت کمال تیقن کے ساتھ بیان کیا گیاہے کہ اسلام کے سوا اور کسی مذہب میں اس کی مثال مشکل سے ملے گی۔

ریونڈ آریکسوئل کنگ نمبر3

اپنی تقریر دین اسلام میں جو 17 جنوری 1915ء؁ کو قدیم پرلیبائٹر ین چرچ نیو نارڈذ میں کی گئی فرماتے ہیں۔اسلام کی آسمانی کتاب قرآن ہے اس میں نہ صرف مذہب اسلام کے اصول و قوانین درج ہیں۔بلکہ اخلاق کی تعلیم روز مروہ کے متعلق ہدایت اور قانون ہے اکثر کہا جاتا ہے کہ قرآن محمد رسول اللہﷺ کی تصنیف سب توریت و انجیل سے لیا گیا ہے۔مگر میرا ایمان ہے۔اگر الہامی دنیا میں الہام کا وجود مکمل ہے۔ توقرآن شریف ضرور الہامی کتاب ہے۔بلحاظ اصول اسلام مسلمانوں کو عیسایئوں پر فوقیت ہے۔

موسیلو اوجین کلاقل4

نامور فرانسیسی متشرق ہیں۔جنھوں نے مسلمانوں اور یہودیوں اور عیسایئوں کے مذہب کی تحقیق میں عمرصرف کردی۔1901ء کے فرانسیسی اخبارات میں مضمون شائع کرتے ہیں کہ قرآن مذہبی قواعد و احکام ہی کا مجموعہ نہیں بلکہ وہ ایک عظیم الشان ملکی اور تمدنی نظام پیش کرتا ہے۔

کونٹ ہنری دی کاسٹری5

اپنی کتاب اسلام جس کا ترجمہ مصر کے مشہور مصنف احمد فتحی بک زاغلول نے 1898ء میں شائع کیا لکھتے ہیں۔کہ عقل بالکل حیرت زدہ ہے۔کہ اس قسم کا (قرآن ) کلام اس شخص  کی زبان سے کیونکر ادا ہوا جو بالکل امی تھے تمام مشرق نے اقرار کیا کہ یہ وہ کلام ہے کہ نوع انسانی لفظ و معنا ہر لہاظ سے نظیر پیش کرنے سے قاصر ہے۔محمد(ﷺ)قرآن کو اپنی ر سالت کیدلیل کے طور پر لائے جو تاحال ایک ایسا مہتم بالشان راز چلا آتا ہے کہ اس طلسم کو توڑنا انسانی طاقت سے باہر ہے۔

انگلستان کا نامور مورخ

ڈاکٹر گین اپنی تصنیف انحطاط و زوال سلطنت روما کی جلدہ باب 50 میں لکھتے ہیں قرآن کی نسبت بحر اطلانتک سے لے کر دریائے گنگا تک نے مان لیا ہے کہ وہ شریعت ہے اور ایسے دانشمند انہ اصول اور عظیم الشان قانونی انداز پر مرتب ہوئی کہ وہ سارے جہاں میں اس کی نظیر نہیں مل سکتی۔

مسٹر مارما ڈیوک پکھتال 7

نے ''اسلام اینڈ ماڈر نزم''پر لندن میں تقریر کرتے ہوئے بیان کیا کہ وہ قوانین جو قرآن میں درج ہیں۔اور پیغمبر ﷺ نے سکھائے وہی اخلاقی قوانین کا کام دے سکتے ہیں اور اس کتاب کی سی کوئی کتاب صفحہ عالم پر موجود نہیں ہے گزشتہ چند سالوں میں مسلمانوں نے کسی شیخ السلام یا مجتہد کے فتوے کی  اندھی تقلید میں قرآن کے اصلی مدعا کو خبط کر دیا ہے۔حالانکہ اس قسم کے تمام امور کو قرآن نے بہت مذموم قرار دیا ہے۔(شیدایان  تقلید و مقلد مولوی صاحبان غور کرو دیکھو کہ کہتی ہے تجھے خلف خدا غائبانہ کیا۔

الکس لوازون

فرانسیسی فلاسفر اپنی کتاب لائف آف محمد ﷺ میں لکھتا ہے۔محمد (ﷺ ) نے جو فصاحت و بلاغت شریعت کا دستور العمل دنیا کے سامنے پیش کیا یہ وہ مقدس کتاب(قرآن) ہے جو اس وقت تمام دنیا کے  حصہ میں معتبر اور مسلم سمجھی جاتی ہے۔ جدید علمی انکشافات میں جن کو ہم نے بذور علم حاصل کیا ہے یا ہنوز وہ ذیر تحقیق ہیں وہ تمام علوم اسلام و قرآن میں سب کچھ پہلے ہی سے پوری طرح موجود ہیں۔

موسیو سید لو

فرانسیسی خلاصہ تاریخ عرب صفحہ 59۔63۔64 میں لکھتے ہیں اسلام بے شمار خوبیوں کا مجموعہ ہے۔ اسلام کو جو لوگ وحشیانہ مذہب کہتے ہیں۔ان کو تاریک ضمیر بتلاتے ہیں۔وہ غلطی پر ہیں۔ہم بذور دعویٰ کرتے ہیں۔ کہ قرآن میں تمام آداب و اصول حکمت فلسفہ موجود ہیں۔

موسیو گاسٹن کار 10

نامور فریخ مستشرق کے مضمون کا ترجمہ اسی زمانے کے بیروت کے مشہور اخبار البلاغ 13 صفر 1330ھ نے شائع کیا ہے لکھتے ہیں کہ اسلام حقیقت میں ایک طرح کا اجتماعی مذہب ہے  جس کو دنیا کا 2 بٹہ 3 حصہ آبادی نے حق تسلیم کر لیا ہے۔اس عاقلانہ مذہب کے قانون (قرآن) میں وہ تمام فوائد و مصالح موجود ہیں جن سے زمانہ حال کا تمدن بنا ہے۔اسلام نے ہی دنیا کی عمرانی ترقی کے لئے ہر قسم کےذرائع یورپ کو باہم  پہچنچائے۔اگر کوئی ہم میں سے اعتراف نہ کرے۔مگر امر واقعی  یہی ہے او ر سوال کرتا ہے۔ اگر روئے زمین سے اسلام مٹ گیا مسلمان نیست نابود ہو گئے قرآن  کی حکومت جاتی رہی۔تو کیا دنیا مین امن قائم رہ سکے گا۔پھر خود ہ جواب دیتا  ہے ہر گز نہیں۔

نامور جرمن فاضل

اور مستشرق جو ایکمروی بولف جرمن کے رسالہ دی ہائف بابت 1913ء میں اسلام اور حفظ صحت پربحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں قرآن کریم کو حفظ صحت کے اعتبار سے ساری دنیا کی آسمانی کتابوں میں خاص امتیاز حاصل ہے۔اسلام نے صفائی طہارت اور پاک بازی کے صاف اور صریح ہدایت نافذ کر کے جراثیم ہلاکت کو مہلک صدمہ پہنچایا ہے۔

محقق عمانویں ڈی اش اسرائیلی

کوارٹر لی ریولو جلد 127 نمبر 254 میں زیر عنوان اسلام تحریر فرماتے ہیں۔یہی عرب لوگ قرآن کی مدد سے یورپ کو انسانیت کی روشنی دیکھانے آئے جنھوں نے یونان کی مردہ عقل اور  علم کو زندہ کیا اور مغرب و مشرق کو فلسفہ طب اور ہیت اور دلچسپ فن سکھانے کے لئے آئے اور علوم جدیدہ کے بانی ہوئے۔

پرو فیسر ٹی ڈبلیو آرنلڈ

اپنی کتاب ''پریچنگ آف اسلام''صفحہ 379 ، 381 میں لکھتے ہیں۔ مدارس میں قرآن کی تعلیم دی جائے تو کچھ کم ترقی کا ذریعہ نہیں ہوسکتا۔افریقہ کو ایک یہ بھی فائدہ ہوا کہ بجائے اپنی رائے سے   حکومت کرنے کے انتظام سلطنت کے لئے ایک ضابطہ اور دستور العمل مل گیا مسلمانوں کی تاثیر اور طرز اسلام سے  افریقہ کے ملک میں اتنےبڑے شہر قائم ہوگئے کہ یورپ کو ا ن باتوں کا یقین نہ آیا۔

مسٹر ایچ ایس لیڈر۔

بعنوان ''عربوں کا احسان تمدن پر''اورینٹل سرکل لندن میں فرماتے ہیں کہ قرآن و حدیث کی تعلیم دینی و دنیوی ترقیوں کا سرچشمہ ہے۔عرب بحیثیت فاتح قوم امن و ترقی بخش قوم کی شان اختیار کرنے لگے تو اس کے لئے قرآن حدیث کی جانب رجوع کرنا ہوگا۔

مسٹر ای ڈی ماریل

نے 1912ء میں رائل سو کا آف آٹسی میں ایک لیکچر شمالی نایئجریا پر دیتے ہوئے فرمایا کہ قرآن نے نظام تہذیب و تمدن پید ا کیا شائستگی کی روح پھونکی سول گورنمنٹ کا نظام اور حدود عدالت کے قیام میں (اسلام ) بڑا معاون ثابت ہوا ہے۔جہاں ابھی تک اسلام کی ر وشنی نہیں پہنچی۔لوگوں کے فائدے کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ حکومت برطانیہ اس کو (اسلام) قائم رکھ کر اس کو مظبوط اور طاقتور بنانے کی کوشش کرے۔

خان جاک ولیک

مشہور فلاسفہ جرمن نے مقامات حریری تاریخ ابو الفدا اور معلقہ طرقہ عربی تصانیف کا لاطینی میں ترجمہ کیا ہے۔اور ان پر حواشی لکھے ہیں۔لکھتا ہے کہ تھوڑی عربی جاننے والے قرآن کا مذاق اُڑاتے ہیں۔اگر وہ خوش نصیبی سے کبھی آنحضرت ﷺ کی معجز نما قوت بیان سے تشریح سنتے تو یقینا یہ شخص بے ساختہ سجدہ  میں گر پڑتے اور سب سے پہلی آواز ان کے منہ سے  یہ نکلتی کہ  پیارے نبی ﷺ پیارے رسول خداﷺ ہمارا ہاتھ پکڑ لیجئے۔اور ہمیں اپنے پیروں میں شامل کر کے عزت اورشرف دینے میں دریغ نہ فرمایئے۔

لندن کا مشہور ہفتہ وار اخبار

یزایسٹ ''13 اپریل 1922ء؁ کی اشاعت میں لکھتا ہے۔قرآن  کی حسن و خوبی سے جنھیں انکا ر ہے۔ وہ عقل و دانش سے بیگانہ ہے۔

مشہور مسیحی پادری

ڈین وسنٹیلی نے مشرقی کلیسا کے ص279 میں لکھا ہے قرآن کا قانون بے شبہ بائبل کے قانون سے زیادہ موثر ثابت ہوا ہے۔

ایک عیسائی فاضل

دائود آفتدی محاعص نے بیروت کے مسیحی اخبار الوطن 1911ء؁ میں دنیا کا  سب سے بڑا ہیرو کون پر بحث کرتے ہوئےلکھتا ہے۔جب کوئی مسلمان قرآن و حدیث کا یکسوئی سے مطالعہ کرے۔یا اس پر تدبر کی نظر ڈالے تو ان میں دین و دنیا کے فلاح  وبہبودی کے تمام اسباب   پائے گا۔

مسٹر رچرڈسن

نے قانون ازالہ غلامی انڈیا کونسل میں پیش کرتے وقت  1810ء؁ میں  فرمایا غلامی کی مکروہ رسم کے اٹھانے کے  لئے یہ ضروری ہے کہ ہندو شاستر قرآن سے بدل دیا جائے۔

کرنل انگر سال امریکہ

کے ایک مشہور دھریہ ہیں جن کو اسلام اور عیسایت تو کجا دنیا کے کسی مذہب سے کوئی  تعلق نہیں ہے۔اس لئے اس فہرست میں ان کو خاص طور پرشریک کیا جاتا ہے فرماتے ہیں کہ ہندسے کا رواج الجبراء علم المثلثات کے گر علم پیمائش ستاروں کے نقشے زمین کا حجم اعوجا ج طریق شمس۔سال کی صحیح مدت آلات ہیت وغیرہ مختلف قسم کے کلاک  علم الکیمیا علم المناظرہ وٖغیرہ جنھوں نے اس  قدر ایجادات و اختراعات کیں او ر علوم  فنون اس قدر نشو نما وی وہ عیسائی نہ تھے ہم کو خوب یاد رکھنا چاہیے کہ موجودہ سائنس کا سنگ بنیاد پیروان اسلام کو ہی رکھنے کا شرف حاصل ہے۔جو کسی مفید کام کےلئے عیسایئت یا کلیا کے منت پزیر نہیں ہیں۔

ہسٹری آف دی مورش ایمپائر ان یورپ

کے مصنف اور مشہور مستشرق جناب ایس بی جناب اس کاٹ لکھتے ہیں۔ہم کوچاہیے کہ اس غیر معمولی مذہب (اسلام) کی سرعت ترقی اور اس کے دوامی اثرات کی قدر کریں کہ جو کہ ہر جگہ امن و امان دولتو حشمت فرح و سرور اپنے ساتھ لے گیا۔

مشہور فرانسیسی مورخ والیٹر

تہذیب اسلام پر بحث کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔پادریوں راہبو اور مجاورو! اگر  تم کو ماہ جولائی میں (جب کہ ماہ رمضان المبارک کا مہینہ اس میں آئے۔)چار بجے صبح سے دس بجے شام تک (شب) آپ پر کھانے پینے کی ممانعت کاقانون عائد کردیاجائے کسی قسم کی قمار بازی ہو سب سے منع کردیا جائے اپنی آمدنی کا 2 صحیح 1بٹہ 2 فی صدی حصہ محتاجوں میں تقسیم کردیں۔اگر آپ 18 عورتوں کی رفاقت کا لطف اُٹھاتے ہوں ان میں سے14 یک لخت کم کر دی جایئں۔ تو کیا آپ ایمانداری سے یہ کہنے کی جرائت کر سکتے ہیں کہ ایسا مذہب عیش پرست ہے۔میں پھر کہتا ہوں کہ وہ لوگ جاہل اور ضعیف العقل ہیں۔ جو مذہب اسلام ر اتہامات و الزام عائد کرتے ہیں یہ سب بے جا اور صداقت سے معرا ہیں۔

بلبل ہند مسز سروجنی نائیڈو

ان سے کون ناواقف ہے۔مسجد ود کنگ میں جماعت المسلمین کے رو برو 28 دسمبر 1919ء؁ میں تقریر کرتے ہوئے کہا (ازار اسلامک ریویو جنوری 1920ء؁ )قرآن کریم غیر مسلموں سے رواداری کا برتائو سکھاتا ہے۔دنیا کے تمام بڑے بڑے مذہب کم و بیش ایثار علی النفس کی تعلیم دیتے ہیں مگر  اسلام اس باب میں سب سے آگے ہے۔بنی نوع انسان کی خدمت تعلیم اسلام کا سرمایہ ناز ہے اس لئے اسلام نے تمام عالم گیر اخوت کا اصول دنیا کے رو برو پیش کیا ہے دنیا اس اصول کی پیروی کرنے سے خوش حال ہوسکتی ہیں۔

مہاتماگاندھی

اپنے مضمون میں جو (خدا ایک ہے ) کے موضوع سے آپ ہی کے اخبار ینگ انڈیا میں شائع ہوا کہتے ہیں کہ  مجھے قرآن کو الہامی کتاب تسلیم کرنے میں زرہ برابر تعامل نہیں ہے۔ہندو مسلم اتحاد اور موپلوں کے بلوہ پر گاندھی جی نے ایک مضمو ن اپنے اخبار میں لکھا  کہ پیغمبر اسلام ﷺ کی تمام ذندگی کے واقعات مذہب میں کسی سختی کو ر وا رکھنے کی مخالفت سے لبریز ہے جہاں تک مجھ کو علم ہے کسی مسلمان نے آج تک زبردستی مسلمان بنانے کو پسند نہیں کیا اسلام اگر اپنی اشاعت کے لئے قوت اور  زبردستی کو استعمال کرے گا۔تو تمام دنیا کا مذہب باقی نہ رہ جائے گا۔یہ ہے وہ اسلام''با خوذ از پیام امن''آج کل جو لوگ محض ضد او اندھی تقلید اور زعم باطل کی وجہ سے انصاف سے ہٹ کر مقدس برگزیدہ اسلام پر جا و بیجا الزام تراشنے میں جو مشغول ہیں۔ان کو چاہیے کہ میدان علم میں آنکھ کھو لیں اور  دیکھیں کہ مشاہیر عالم کے آراء کیا ہیں۔ اور خود اپنے ہاں  کے نامور اہل قلم چندر پال و مسٹر بھو پندر ناتھ۔ما سوائے اسلام کے متعلق کیا خیال رکتھے ہیں دور حاضرہ کی عالم گیر شخصیت کا انسان مہاتما گاندھی کے ذریں ارشاد کو بہ نظر غائر دیکھو کہ صداقت اسلام کے وہ کس قدر دلدادہ ہیں کیا وہ طبقہ جو اسلام پر اعتراض و الزام دھرتا ہے۔ یہ جاہل ضعیف العقل و عقل و دانش سے بیگانہ ہیں اس کا جواب فرانس ک مورخ و الیٹر و لندن کا مشہور اخبار ہفتہ دار رایٹر ایسٹ13 اپریل 1922ء؁ کی اشاعت میں دے چکا ہے کہ بے شک اسلام کو الزام دینے والا جاہل ضعیف العقل و دانش سے بیگانہ ہے۔(محمدی فتاویٰ ثنائیہ جلد 1 ص87)

سوال۔آپ نے کتاب حضرت محمد  رشی علیہ ااسلام جو رلکھا ہے۔اور ہندوں کی مذہبی  کتاب سام وید کی عبارات سے اپنی ﷺ کا رشی (رسول) ہونا ثابت کیا ہے سوال یہ ہے کہ کیا وید بھی زبور ۔توریت انجیل کی طرح کتب آسمانی میں سے ہے۔اگر نہیں تو مذکورہ ویدکی کتابوں سے ثابت کرنا اس کتاب کو آسمانی کتاب کا درجہ دینا ہوا یا نہیں۔کیونکہ نبی و رسول کے متعلق بشارات آمد سوائے آسمانی کتب کے دیگر کتب میں ہرگز نہیں ہوسکتیں۔لہذا اگر یہ بھی دیگر اگلی آسمانی کتابوں سے ہے تو اس کا ثبوت قرآن مجید و احادیث سے ہونا چاہیے۔

الجواب۔ہمارا اعتقاد ہے کہ وید مجموعی طور   پر الہامی نہیں بلکہ بعض کلام اس میں کسی صاحب باطن درج ہوتو ممکن ہے جس کلام سے محمد ر شی لکھا گیا ہے وہ کشفی معلوم ہوتا ہے اگر اس جواب سے آپ کی تشفی نہیں ہوئی تو سمجئے کہ محمد  رشی معتقدین وید کے لئے الزامی دلیل ہے جیسے انجیل توراۃ موجودہ کے حوالے الزامی ہیں۔

وید اور اس کے تراجم اور تفاسیر

اسلام پیارا ۔نورانی اور تبلیغی مذہب ہے۔ اور اس حیثیت سے دیگر مذاہب کی  تسلم کردہ الہامی کتابوں سے واقفیت رکھنا اس کے مبلغین کے لئے فرض کفایہ ہے ہمارے ملک ہندوستان کے عام باشندے وید کو الہامی کتاب مانتے ہیں۔اور اس ملک میں فریضہ ء تبلیغ کے ادا کرنے کے لئے مسلمانوں کا وید سے واقف ہونا ضررویات  دین ہے لیکن اآج کتنے مسلمان ہیں جو اس دینی ضرورت کے پورا کرنے والے یں ہمارے اندازے میں آٹھ کروڑ میں با مشکل دس  صد پچاس مسلمان ایسے نکلیں گے جنھوں نے چار ویدوں یا ان کے ایہک معتدبہ  حصے کا مطالبہ کیا ہو ۔آج جب کہ ہمارے پاس ملک میں کانگریس کا صرف اثر بلکہ حکو ت قائم ہوتی جا رہی ہے۔اورشدھی کا سلسلہ بھی مستقل طور سے قائم ہوچکا ہے۔مسلمانوں کے لئے پہلے سے زیادہ ضروری ہوگیا ہے کہ وہ ویدوں کا مطالعہ کریں جس سے نہ صرف اشاعت اسلام میں مدد ملے بلکہ اغیار کے حملوں کی مدافعت بھی کما حقہ ہو سکے اسی واسطے اسی عاجز کی دلی آرزو ہے کہ مسلمانوں میں کم از کم ایک چھوٹی سی جماعت جس کی تعداد چند سو تک پہنچتی ہو ایسی تیار ہوجائے جوج ویدوں سے خاص طور  پر واقفیت رکھتی ہو۔

ہمارے بہت سے نوجوانوں کے لئے ایک ایسی جماعت کے افراد بن جانا کوئی مشکل نہیں ہے ۔کیونکہ اس کام کےلئے سنسکرت کا جاننا چنداں ضروری نہیں رہا ہے وجہ یہ ہے کہ جب تک ویدک درھم ایک تبلیغی مذہب نہیں کہا جاتا تھا اس وقت تک وید کے پیر اس شخص سے جو وید کا مطالعہ کرناچاہیے یہ کہنے کا ایک حد تک حق رکھتے تھے کہ جناب پہلے سنسکرت پڑھ آیئے۔ تب اس مقدس کتاب کو ہاتھ لگایئے گا لیکن اب جطب کہ ویدک دھرم تبلیغی مذہب کی شان ہی یہ ہے کہ  وہ کسی ایک زبان جاننے والے کے  لئے مخصوص نہیں ہوتے بلکہ ان  کی کتب مقدسۃ کے ترجمے ہر زبان میں پڑھے جاسکتے ہیں۔اور پڑھے جاتے ہیں۔غرض کہ سنسکرت کا منہ جاننا ہمارے نوجوانوں کے لئے وید کے مطالعہ کا مانع نہ ہو نا چاہیے۔بلکہ ان میں سے جو افراد انگریزی یا ہندی سے  ایک اچھی حد تک واقف ہوں انھیں ویدوں کو ضروری ہی پڑھنا اور  اپنے دیگر بھایئوں کو پڑھانا چاہیے کیونکہ انگریزی میں بہت سے پہلے سے اور آج کل ہندی میں بھی ویدوں کے متعلق بہ کثرت لٹریچر فراہم ہوچکا ہے اس سے فائدہ اٹھایا جاسکتا ہے  پیروان وید کا جدید ترین فرقہ (آریہ سماج) اگرچہ انگریزی تراجم اور اکثر ہندی تراجم کو مستند نہیں ماننا لیکن ان کے اس انکار سے ان کے مستند ہونے میں فرق نہیں آسکتا یہ تراجم ہندووں کے کثیر طبقہ کے نزدیک مستند ہیں اور مستند رہیں گے اور اگر کوئی  چھوٹا سا طبقہ ان کی صحت سے  انکار کرئے تو اسے چینلج دیا جاسکتا ہے کہ ترجمہ  میں ٖغلطی ثابت کرے۔البتہ ایک امر ہے جو انگریزی یا ہندی دال مسلمان نوجوانوں کو شوق رکھنے پر بھی ویدوں کے مطالعہ میں مانع آسکتا ہے اور آتا ہے اور وہ یہ ہے کہ عزیز مفید کتابوں کے ناموں اور پتوں سے ناواقف ہیں اور اسی وجہ سے وہ ان سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے یہ مضمون ہم اسی غرض سے لکھ رہے ہیں کہ ان کتابوں کا تذکرہ ایکجا کیا جائے تاکہ شائقین ان سے فائدہ اٹھاسکیں۔ان کتابوں کے پڑھنے سے پہلے جو جو معاملات طالب علم کو ہونے چاہیں۔ان کوبھی اس مضمون میں فراہم کر دیا گیا ہے ہم یہ بھی چاہتے ہیں کہ جو لوگ انگریزی یا ہندی نہیں جانتے وہ ویدوں کو پڑھیں ان کے لئے ہم نے ویدوں کے ضروری حصص کا ترجمہ اردو میں کر لیا ہے خدا وہ دن بھی کرے کہ یہ انتخابات کتابی شکل میں طبع ہو کر تمام شائقین کے ہاتھوں تک پہنچ سکیں۔

شرتی اور سمرتی کا بیان

واضح ہو کہ برادران ہنود کی ک کتب مقدسۃ کی دو  قسمیں ہیں ایک شرتی یعنی الہامی کتابیں دوسرے یعنی کتاب روایات عام ہندوں یعنی ستاتن دھرمیوں کے نزدیک تو بہت سی الہامی کتابیں ہیں لیکن فرقہ آریہ سماج الہام کو صرف  چار ویدوں میں محدود جانتا ہے ؛1۔روگ وید 2۔سامد وید۔3۔یجر وید 4۔اتھر و دید

 یہ چاروں نظم میں ہیں اگرچہ اور اتھر وید میں کہیں نثر کے فقرے بھی پائے جاتے ہیں۔وید کی ہر نظم ہرشعر منتر یاد چا کہلاتا ہے منتروں کے ایک بڑے مجموعے کو وید کہتے ہیں مجموعہ کے لئے سنسکرت میں سنگھتا کا لفظ ہے اور کبھی کبھی وید کے بعد سنگھتا کا لفظ بھی ملا دیتے ہیں۔مثلاً

رگ وید وید سنگھتا یجر وید سنگھتا ۔یعنی مجوعہ رک وید مجوعہ یجر وید وٖغیرہ وید سنگھتائوؐں کے بعد ہندووں کی مقدس ترین کتابیں وہ   ہیں جو برہمن گرنتھ کہلاتی ہیں یہ کتابیں وید کی عمد  ترین تفسریں ہیں سناتن دھرمی ان  گرنتھوں کو الہامی بلکہ ویدوں کے ہی جز لا ینفک کے طور پر ماننے ہیں لیکن آریہ سماج ان کو شرتی کا  درجہ نہیں دیتے بلکہ سمرتی ک درجہ ہیں رکھتے ہیں یعنی ان کو غیر الہامی مقدس کتابیں سمجھتے ہیں۔

برہمن گرنتھ اگرچہ متعدد  ہیں لیکن ان میں چھ زیادہ مشہور ہیں

 1۔تیریہ برہمن

2۔ کوشیتکی  برہمن یہ دونوں برہمن رک وید کے متعلق ہیں۔

3۔ٹانڈیہ مہاجر برہمن یہ سام وید ک متعلق چونکہ اس میں 25 ابواب ہیں اس لئے اس کو پنچ وش برہمن  بھی بولتے ہیں۔

4۔شت پت برہمن

5۔تیتریہ برہمن یہ دونوں بجز وید کے متعلق ہیں۔

6۔گو پتھ برہمن ۔یہ اتھر وید کے متلق ہے۔

برہمن گرنتھوں کے خاص خاص فلسفانہ اور صوفیانہ حصص آرنکیوں اپنشدوں کے نام سے مشہہور ہیں۔اس لئے سنتاتین دھرمیوں کے نزدیک وید گو یا چار  طرح کی کتابوں کو کہتے ہیں۔یعنی سنگھتا۔برہمن ۔آرنیک اور اپنشدان کے نزدیک سمرتیاں ہیں ہندووں کے ہر طبقہ میں اپنشد بڑی مقبول اور خوب پڑی جانے والی کتابیں ہیں۔عام طور پر ان کو ویدوں کا عطر سمجھا جاتا ہے۔سمرتیوں میں اگرچہ منوسمرتی بہت مشہور ہے لیکن ہم اس کا زکر نہیں کریں گے۔کیونکہ ویدوں سے اس کا تعلق دور ہے قرب کا نہین ہے ویدوں سےقریب کا تعلق رکھنے والی وہ سمرتیاں ہین جو شروت سوتر کے نام سے مشہور ہین شروت ک معنی ہیں وہ کتاب جو شرقی سے تعلق رکھے۔اور سوتر سوت پاتا گے کو کہتے ہیں ثروت سوتر بھی متعدد ہیں لیکن ان میں سے چند مشہور سوتروں کے نام یہ ہیں۔1۔اشو لائن۔2۔شانکھا ین۔یہ دونوں رگ وید کے متعلق ہیں۔3۔آپستمب4۔بودھا بن5۔کاتیا ین ی تینوں یجر وید کے متعلق ہیں 6۔لایتا ین سام وید کے متعلق ہے ۔7۔کوشک۔8۔ویتان یہ دونوں اتھر وید کے متعلق ہیں۔

وید سنگھتائوں کی ضخامت او ر ان کے مختلف نسخے

آجکل عموما ویدک نیترا لیہ اجمیر کے چھپے ہوئے وید دیکھتے جاتے ہیں۔یہ وید سنگھتایئں معمولی کتابی سائز پر جو ساڑے چھ ایچ چوڑا اور سف اینچ لمبا ہوتا ہے چھپی ہیں ہر صفحۃ میں 29 سطریں ہیں اور ہر وید کے صفحات کی  تعداد حسب زیل ہیں۔

رگ وید 699۔صفحات۔سام وید 120 آصفحات یجر وید 159۔اتھر وید 298 میزان کل چار ویدوں میں بارہ سو چھتیس صفحات ۔یہ ضخمات ان ویدوں کی ہے جو آج کل عام طور پرملتے  ہیں اور جو ہر  ایک وید می مشہور ترین قسم ہے۔ورنہ ایک ایک وید کئی طرح کا ملتا ہے کہتے ہیں۔کہ قدیم زمانہ میں سرف سام ویدف صرف ایک نہرار  طرح کا یا ایک نہرا شاخوں کا ملتا تھاچاروں ویدوں کی ایک نہرار ایک سو اکتیس شاخیں مشہور ہیں گویا باقی تین ویدوں کی ملا کر 131 شاخیں یہ شاخیں اس طرح سے  پیدا ہوگئیں۔ہونگی۔کے ایک گھرانا ایک وید کو کسی طرح سے  پڑھتا ہوگا دوسرا گھرانا اس وید کو زرا فرق سے پڑھتا ہوگا تیسرے گھرانے میں کچھ اور  فرق ہوگا ایجک استاد کسی طرح پڑھتا ہوگا۔ دوسرا کسی طرح پھر ان کے شاگردوں میں اختلاف ہوا ہوگا۔آجکل بھی بہت سے ویدوں کی کئی کئی شاخین چھپی ہوئی ملتی ہیں رگ و ید پہلے 21 قسم کا ملتا تھا اب اس کی صرف ایک قسم یعنی شاکل شاکھا ملتی ہے  رگ وید کی ایک دوسری شاخ یعنی وا شمکل شاکھا کی نسبت معلوم ہوا کہ اس میں اور شاکل میں بہت کم فرق تھا یعنی واشکل میں شاکل سے چند گیت زاید تھے اور بعض کی ترتیب مختلف تھی ۔یہ زاید گیت آجکل بھی ملتے ہیں اور شاکل نسخہ میں عموماً بطور ضمیمہ شائع کر د یئے جاتے ہیں۔اس طرح گویا رگ وید  کی دوشاخیں اس وقت موجود ہیں۔سام وید کی آجکل جو شائع عام طور پر  پائی جاتی ہے۔وہ رانا نئی شاکھا ہے۔سام وید کی ایک دوسری شاخ کو  تھمی ہے رانا ئنی اور کتھمی شاخوں میں  تھورا فرق تھا۔آج کل کوتمی کا صرف ایک حصہ پایا جاتاہے۔ تسیر ی شاخ سام وید ی جے متی ہے۔اس شاخ کاکچھ حصہ موجود ہے۔

یجر وید کی کئی شاخین تھیں لیکن پانچ ملتی ہیں۔ان تمام شاخوں میں تھوڑا بہت فرق ہے۔ یجر وید کی دو  شاخیں یعنی شکل کہلاتی ہیں۔یجر وید کو واجسی سنگھتا بھی کہتے ہیں۔تیسری شاخ  تیتری سنگھتا اور چوتھی کٹھ اور پانچویں  میتر اپنی کہلاتی ہے۔کرشن یجر وید کا رواج دکھن میں اور شکل یجر وید شمآلی ہندوستان میں زیادہ ہے اتھر وید کی کسی زمانہ میں تو شاخیں تھین۔صرف شوکھا شاکھا ہی آجکل ملتی ہے۔دوسری پلیلا شاکھا۔ کا صرف ایک نسخہ کشمیر میں تھا۔فاضل محترم کے اس مضمون کی  یہ ابتدائی قسطین ہیں مضمون بہت طویل ہے اور معلومات جو اہل حدیث کی گئی اشاعتوں سے نکلا ہے مناسب تھا کہ ہم یہ مضمون سارا نقل کرتے مگر فتاویٰ کی محدود ضخمات ہمیں اس کے چھوڑنے  پر مجبور کر رہی ہے۔جو سارا مضمون پڑھنا چاہیے وہ اہل حدیث مرحوم 57 ء؁ و 58ء؁ کی فائل ملاحظہ فرمایئں۔

کیا وید الہامی ہیں؟

اس علمی بحث کی  تفصیلات کے لئے  9 رجب سن 58 ہجری سے اہل حدیث کے فائلوں کو ملاحظہ  فرمایئے۔افسوس کے ساتھ اس بحث کو بھی توجہ عدم گنجائش ک یہاں درج نہیں کرسکے فقط۔

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 149-162

محدث فتویٰ

تبصرے