السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
اگر امام مولنا عبد الوہاب صاحب دہلی کے مستنبط مسائل پرعمل کرنا ضروری ہے۔تو آئمہ اربعہ کے مسائل استنباط شدہ پرعمل کرنا فقہ حنفی۔مالکی۔شافعی۔حنبلی۔وغیرہ کے ناموں سے مروج ہیں ان پرعمل کرنا کیوں ضروری نہیں ہے۔سو اس کا کیا جواب ہے براہ کرم جواب مدلل ہونا چاہیے قرآن وحدیث اور صحیح معتبر کتابوں سے مع حوالہ صفحہ کے ساتھ۔؟
نوٹ۔
مذکورہ بالا کے جواب دو ہفتوں میں دینے چاہیے کیوں کہ مولانا حنفی صاحب نے فرمایا کہ اگر اس مدت میں جواب نہ دیا گیا تو دال میں کالا ہے۔
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
ہم مولانا عبد الوہاب مرحوم کے کردہ مسائل کو مانتے ہیں۔اس لیے کہ انھوں نے قرآن و حدیث سے مسائل پیش کیے ہیں۔اپنی طرف سے نہیں بتائے۔آئمہ کے زمانے میں قرآن وحدیث ایک جگہ جمع نہ تھے۔اس وجہ سے انہوں نے قیاس سے بھی فتوے دیے اس بنا پر ان کے وہ مسائل جو قرآن وحدیث کے خلاف ہوتے ہیں۔ہم اہل حدیث رد کردیتے ہیں۔کیونکہ قرآن وحدیث کے خلاف کسی بندے کی کوئی بات نہیں ماننی چاہیے۔بلکہ فرمان نبوی ﷺ اگر موسیٰ بھی (بغرض محال) زندہ ہوکر آجایئں۔تو قرآن وحدیث کے مقابلہ میں موسیٰؑ کی بات چھوڑ کر حدیث ر سول ﷺ ہی کی اتباع کریں گے۔تو نجات ہے ورنہ نہیں فقط (فتاویٰ ستاریہ عبد القہار جلد 4 صفحہ 104)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب