سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(33) فقہ حنفی ۔مالکی۔شافعی۔اور حنبلی کی ابتداء

  • 3609
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-27
  • مشاہدات : 4959

سوال

(33) فقہ حنفی ۔مالکی۔شافعی۔اور حنبلی کی ابتداء

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

فقہ حنفی ۔مالکی۔شافعی۔اور حنبلی کی ابتداء


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

کتب تاریخ کے کھنگالنے سے معلوم ہوتا ہے۔کہ عہد ابو  جعفر منصور خلیفہ عباس دوم میں  754؁ بعد از میلاد میں فقہ حنفی اور فقہ مالکی کی کتابیں وضع ہویئں۔اور شدہ شدہ بڑھتی گئیں۔اور جو  آیا اس نے ان میں زیادتی کی۔یہاں تک کے عالم گیر کے زمانے میں فتاویٰ عالم گیری لکھا گیا۔اور دین خدا کو آراء کی شکل میں پیش کرنے کی بناء جو 754؁ میں ڈالی گئی تھی۔اس نے آج بلند او ر  بظاہر خوشنما شکل میں  مکمل قرآن حدیث کو پس  پشت کردیا۔اور اللہ کا یہ فرمان پورا ہوگیا۔

یعنی اپنے ہاتھوں کتابیں تصنیف کرتے ہیں۔اور پھر انھیں دین خدا کی کتابوں ک نام سے مشہور کر دیتے ہیں۔

جواب۔ان کی  دیکھا دیکھی 813؁ بعد از میلاد میں شافعیوں نے بھی اپنی فقہ کی کتابوں کی باقاعدہ  تصنیف شروع کی اور ان دو عمارتوں کے مقابلے میں یہ تیسری عمارت بھی کھڑی کر دی گئی۔حنبلی گو پیچھے رہ گئے تھے۔لیکن آخران سے بھی صبر نہ ہوسکا اور فورا ہی ان کی توجہ اس کے بعد اس طرف ہوئی اور  اسے بھی بلندی تک پہنچایا گیا۔ ان چاروں مذاہب کی فقہ میں جہاں حدیث و قرآن کا صحیح لہاظ ہرہر موقع پر نہ کیا گیا۔ وہاں خود ان آئمہ کی نصوص کا خیال بھی کچھ ضروری نہ سمجھا گیا بلکہ ان کے اقوال سے سینکڑوں حصے زیادہ بعد والوں کے اقوال اور مصنفین کے قیاسات کو جمع کیا گیا او کک مجموعہ کا نام فقہ رکھا گیا۔رفتہ  رفتہ یہاں تک تو بت پہنچی کہ اب حدیث و قرآن پر عمل لا مذہبی ٹھیرا۔اور ان مخترعات اور قیاسات پر عمل ہی مسلمانی ٹھری لطف تو یہ ہے کہ جہاں حدیث و قرآن کا ان کتب فقہ میں احترام نہ کیاگیا جہاں ان کتابوں کا صرف اقوال آئمہ پر ہی انحصار نہ رکھا گیا۔وہاں خود ان چاروں مذاہب کی فقہ میں آپس میں وہ اختلاف اور کار زار گرم رہا ہے کہ گویا دو مقابل سلطنتیں آپس میں بھڑ گئی ہیں۔

دل فریبوں نے کہی جب بھی نئی بات کہی

ایک نے دن کہا اور دوسرے نے رات کہی۔

(اخبار محمدی دہلی جلد 17 نمبر 14)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 141

محدث فتویٰ

تبصرے