سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(29) محفل میلاد کا انعقاد کتاب وسنت سے ثابت نہیں

  • 3606
  • تاریخ اشاعت : 2024-05-26
  • مشاہدات : 1442

سوال

(29) محفل میلاد کا انعقاد کتاب وسنت سے ثابت نہیں

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

محفل میلاد کا انعقاد کتاب وسنت سے ثابت نہیں مفتی اعظم سعودی عرب کا مفصل فتویٰ


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

ترجمہ۔متعلم جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ سعودی عرب رئس الجامعۃ العلوم الاثر یہ جہلم جریدہ عکاظ مجریہ 28۔2۔96ھ شمارہ نمبر 356 میں یہ خبر شائع ہوئی۔

تحریر موعد الاحتفال بالمولد النبوی الشریف عالم اسلام اتوار کے روز ربیع الاول کے چاند نظر آنے پرمحفل میلاد منعقد کرے گا۔اور دارالافتاء نے بیان جاری کیاہے۔تاکہ تم لوگ ۔۔۔میلاد النبی ﷺ کی مجالس  منعقد کرو۔

جریدہ کا یہ بیان کہ دارالافتاء نے ایسا بیان صاددر بیان کیا ہے۔محض جھوٹ او ر افتراء  پردازی ہے۔چنانچہ (ادارۃ البحوث العلمیۃ والا فتاد والدعوۃ والارشاد) کی انتظامیہ نے اس جھوٹے بیان  کی تکذیب کردی۔اور اس تمام مقامی اخبارات میں شائع کروادیا۔میلاد النبی ﷺ اور دوسرے بدعتی میلادی پروگراموں کی اہمیت کی وجہ اور بغض لوگوں کے اس بارہ میں مشتبہ ہونے کی وجہ سے ہم نے اسے دوبارہ سہ بارہ شایع کرنے کی ضرورت محسوس کی ہے۔تاکہ پورے عالم اسلام اسی قسم کے بدعات سے  اجتناب کرے۔اور اپنے اعمال کوکتاب وسنت کے ڈھانچے میں ڈھال لے اور یہ دارالافتاء کی تحریر کا اصل ہے۔

نبی کریم ﷺ کے میلاد اور ان کے میلاد کی محفل ناجائز ہے۔کیونکہ دین میں ہر نیا کام بدعت ہے۔نہ تو نبی کریم ﷺ نے یہ کام کیا۔نہ خلفاء  راشدین اوردیگر صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  نے ایسا کیا اور نہ ہی تابعین نے یہ امور سر انجام دییئے۔حالانکہ وہ کتاب وسنت کے بہت بڑے عالم تھے۔اور رسول اللہ ﷺ سے محبت رکھنے والے ان کی شریعت کی پوری مطابعت رکھنے والے تھے۔اورنبی کریم ﷺ سے سند صحیحہ کے ساتھ یہ ثابت ہے کہ آ پﷺ نے فرمایا جو کوئی ہمارے کام (دین) میں نئی بات داخل کرے۔جواس میں پہلے نہ تھی۔وہ مردود ہے۔قابل قبول نہیں ہے۔اوردوسری حدیث میں اس طرح آیا۔

عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين ا لمهدين من بعدي تمسكو ا بها وعضوا عليها النواجدواياكم ومحدثات الامور كل محدثة بدعة وكل بدعة ضلا لة

میری سنت اور  میرے بعد خلفاء راشدین کے طریقہ کو مظبوطی سے پکڑ لو او اسے خوب اپنے دانتوں سے چمیٹ لو اور اپنے آپ کو نئے نئے کاموں سے بچائو۔ہرنیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے۔ان دونوں حدیثوں میں بدعت کے پیدا کرنے اور اس پرعمل کرنے سے بہت سختی سے ڈرایا اور  منع کیا گیا ہے۔اور اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب مبین میں فرمایا ہے۔قرآن

جو کچھ تمھیںرسول دے  اسے پکڑو اور جس سے منع کرے اس سے رک جائو۔اوراللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے۔

ان لوگوں کو اس امر کی مخالفت سے بچنا چاہیے۔ کہ انھیں فتنہ یا دردناک عذاب نہ آئے۔اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا!قرآن

یقینا تمہارے لئے اللہ کے رسول بہترین نمونہ ہیں۔اس شخص کے لئے جو اللہ اور آخرت کے دن کی امید رکھتا ہے۔اور اللہ تعالیٰ کو بہت یاد رکھتا ہے۔اورفرمایا!

اور سبقت کرنے والے مہاجرین سے پہلے لوگ اور انصار اور جنہوں نے ان کی اتباع کی اللہ تعالیٰ ان سے راضی ہوگیا او ر وہ اللہ سے راضی ہوگئے۔اور ان کے لئے باغات تیار کئے ہیں۔جنکے نیچے نہریں چلتی ہیں۔اوراس میں ہمیشہ رہیں گے۔یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔اور فرمایا!

آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین پورا کردیا۔اور تم پراپنی نعمت پوری کردی۔اور تمہارے لئے دین اسلام کو پسند کر لیا۔اور اس معنی میں آیات بہت زیادہ ہیں۔اور ان میلادوں جیسا نیاکام نکالنااس سے یہ سمجھا جائے گا۔ کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لئے دین کو مکمل نہیں کیا۔اوررسول کریم ﷺ نے امت کو  وہ چیز نہیں پہنچائی کہ اس پر عمل کرے۔حتیٰ کہ ان متاخرین نے شریعت الہٰہیہ میں نئی چیزیں ایجاد کردیں۔یہ گمان کرتے ہوئے   کہ ان کو اللہ تعالیٰ کے قریب کردیں گی۔یہ یقینی طور پربہت بڑی خطرناک بات ہے۔اور اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ﷺپر اعتراض ہے۔کہ انھوں نے دین کو ناقص رہنے دیا تھا او ر ہم نے اس کی کمی اور نقص کو  پورا کردیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نےقرآن میں فرمایاہے۔کہ اس نے اپنے بندوں کے لئے دین کو مکمل کردیا ہے اور ان پر نعمت کو پورا کردیا ہے۔اور رسول کریم ﷺ نے ابلاغ کاحق ادا کردیا اور تمام ان راہوں کو جو جنت تک پہنچتی ہیں۔اور ان طریقوں سے جو جہنم سے دور کرتے ہیں۔امت  پر واضح کردیئے جیسا کہ صحیح حدیث میں ثابت کردہئے۔عبد اللہ بن عمررضی اللہ  تعالیٰ عنہ  روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا۔کہ اللہ تعالیٰ نے جس  رسول کو بھی مبعوث فرمایا اس پر زمہ داری عائد کی کہ جو کچھ بھی وہ اللہ کی طرفسے جانتاہے لوگوں کی بھلائی کےلئےسب کچھ بتادے۔اوربرائی کے راستوں سے انہیں ڈرا دے۔(مسلم)یہ تو حقیقت ہے کہ ہمارے نبی ﷺ افضل الانبیاء اور خاتم الرسل ہیں۔تمام انبیاء سے تبلیغ و نصحیٹ میں کامل  ترین ہیں۔اگر محافل میلاد کاانعقاد اس دین سے ہوتا جو دین اللہ تعالیٰ نے پسند فرمایا تو رسول کریمﷺ اسے امت کے لئے واضح فرمادیتے یا اپنی زندگی میں کرتے یا ان کے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  اسے کرتے۔جب اس طرح نہیں ہوا۔ بلکہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  کے بعد بھی مدت تک اس کا نام و نشان نہ تھا تو اس سے معلوم ہوا کہ اسلام کا اس سے کوئی تعلق نہیں۔بلکہ یہ محدثات بدعات ہیں جن سے نبی کریم ﷺ نے اپنی امت کو ڈریا تھا اور اس کی وضاحت سابقہ آیات و حدیث سے ہوچکی ہے اور اسی معنی و مفہوم کی اور بہت سی آیات اور احادیث ہیں جسے نبی کریمﷺہر خطبہ جمعہ اور دیگرخطبات میں فرمایا کرتے تھے۔

فان خير الحديث كتاب الله وخير الهديهدي محمد صلي الله عليه وسلم وشر الامور  محدثا تها وكل محدثة بدعةوكل بدعة ضلا له(روامسلم)

بے شک بہتر کلام اللہ کی کتاب ہے۔او ربہتر راستہ نبی کریم ﷺ کا راستہ ہے۔اور برے کام محدثات ہیں اور ہر نیا کام بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی ہے (مسلم)آیت اور احادیث اس بارہ میں بہت زیادہ ہیں علماءکرام کی کثیر جماعت نے ا ن میلادوں کے انکار کی وضاحت کردی ہے۔ان مذکورہ دلائل  اوردیگردلائل کثیرہ پر عمل کرتے ہوئے امت مسلمہ کو اس بدعت سے بچنے کی دعوت دی بعض متاخرین نے کتاب و سنت کی مخالفت کی اور اس کی اجازت دے دی جب کہ اس میں منکرات  نبی اکرم ﷺ کی ذات میں ٖغلواورعورتوں مردوں کا میل جو اور کھیل تماشہ کے آلات کااستعمال اور دیگر امور جن کا شریعت مطرہ  انکار کرتی ہے۔شامل نہ ہو اور انہوں نے خیال کیا ہے کہ یہ بدعت حسنہ ہے اور شریعت کا قاعدہ ہے کہ جس مسئلہ میں لوگوں کے مابین تنازعہ  ہو جائے اسے کتاب اللہ اور سنت مصطفیٰ ﷺ کی طرف لوٹادو۔جیسے کہ اللہ کا فرمان ہے۔

اے ایمان والو! اللہ اور  اس کے رسول اور اولی الامر کی اطاعت کرو۔اوراگر کسی شئ میں تم میں اختلاف ہو جائے تو اسے اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی طرف لوٹا دو۔اگر تم اللہ اور آخرت پریقین رکھتے ہو۔اور فرمایا یہ بہتر ہے اور احسن طریقہ ہے ۔اس مسئلہ محفل میلاد  میں ہم نے کتاب اللہ کی طرف رجو ع کیا تو ہم نے پایا کہ ہمیں کتاب اللہ رسول اللہ ﷺ کہ اتباع کا حکم دیتی ہے۔یعنی جو تمھیں اللہ کا رسول ﷺ حکم دے اس کی پیروی کرو او جہاںسے روکے رک جائو۔مزید خبر دیتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس امت کے لئے اس کا دین مکمل کر دیا ہے۔اس محفل میلاد کا دین کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔اور اسمیں ہمیں اتباع رسول ﷺ کا حکم ہے۔تو ہم نے سنت رسول ﷺ کی طرف رجو ع کیا۔تو ہم نے پوری چھان بین کرنے کے بعد پایا کہ نہ تو رسول کریم ﷺ نے عمل کیا اور نہ ہی اس کاحکم دیا۔اور نہ ہی ان کے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین  نے یہ کام کیا تو ہمیں یقین ہوگیا  کہ یہ دین کامل سے نہیں ہے بلکہ من گھڑت ہے او بدعت ہے۔اور یہود و نصاریٰ ک میلوں او ر ان کی عیدوں کی تشبیہ ہے۔اور اس سے ہر اس آدمی کے لئے واضح ہوجاتا ہے جسے ذرہ بھر بھی حق وانصاف کے طلب کرنے میں بصیرت اوررٖغبت ہے کہ محفل میلاد کا اسلام کے ساتھ کوئی تعلق نہیں ہے بلکہ ان کا بدعات و محدثات کے ساتھ تعلق ہے  جن کے بارے میں اللہ او اس کے رسول ﷺ نے ترک کرنے کا اور ان سے بچنے کا حکمدیا ہے۔عقل مند ک ولائق نہین ہے کہ کہ کثیر لوگوں کے اس فعل اور اکثر ممالک میں اس بدعات کے جاری ہونے سےدھوکہ میں پڑجائے حق کثرت سےنہین پہچانا جاتا بلکہ وہ تو شرعی دلائل سے پہچانا جاتا ہے ۔جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے یہود و نصاریٰ کے متعلق فرمایاہے۔

اور انہوں نےکہا کہ ہرگز جنت میں داخل نہیں ہوں گے۔ مگر جو یہود ہوگا اور عیسائی یہ ان کی خواہشات ہیں کہہ دیجئے اپنی دلیل لایئے اگر تم سچے ہو اور فرمایا

اور تم زمین میں رہنے والی اکثریت کی اطاعت کرو گے تو وہ تم کو اللہ کی صراط مستقیم سے گمراہ کردیں گے۔یہ پرمحافل بدعت ہونے کے ساتھ دوسری برایئوں پر بھی مشتمل ہوتی ہین جیسے عورتوں مردوں کا اختلاط گانے بجانے کے آلات کا استعمال اوربھنگ اور نشے کی چیزوں کا ستعمال وغیرہ پربھی مشتمل ہوتے ہیں۔اوران میں ان تمام سے بڑی برائی شرک اکبر بھی ہوتا ہے اور یہ رسول اکرم ﷺ اور ان  کے علاوہ ان اولیاء کی مدح میں غلو اور ان سے استغاثہ فریاد رسی اور مددطلب کرنا اور یہ اعتقاد رکھنا ہے کہ وہ غیب جانتے ہیں او اسی طرح کے کفر یہ امور جن کو لوگ نبی کریم ﷺ اوردیگر نام نہاد اولیاء کی محافل میلاد میں کرتے ہیں حالانکہ نبی کریم ﷺ سے صحیح حدیث حضرت عمر رضی اللہ  تعالیٰ عنہ  اس طرح روایات ہے کہ فرمایا!

اياكم والغلوا  في الدين فانما اهلك من كان قبلكم الغلو في الدين

دین میں غلو کرنے سے بچو تم سے پہلے لوگوں کعدین یں ٖغلو کرنے نےھ تباہ و برباد کر دیا اور نبی کریم ﷺ نے فرمایا میری تعریف کرتے ہوئے مجھے حد سے نہ بڑھا دینا چاہے جیسے عیسائیوں نے ابن مریم کو حد سے بڑھا دیا میں تو صرف بندہ ہوں پس تم کہواللہ کا بندہ اور اس کا رسول (بخاری)

ہم اللہ تعالیٰ سے اپنےاور تمام مسلمانوں کے لئے معافی کی بھیک مانگتے ہیں۔یہ بھی  انھیں بدعات سے ہے  کہ بعض لوگ گمان کرتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ میلاد کی محفل میں خود حاضر ہوتے ہیں۔اس لئے سلام پڑھتے ہوئے اورخوش آمدید کہتے ہویے کھڑے ہوجاتے ہیں۔یہ بہت بڑی جہالت اور بدترین لاعلمی ہے۔حالانکہ رسول کریمﷺ قیامت سے پہلے اپنی قبر سے نہیں نکلیں گے۔نہ سکی آدمی سےملیں گے اور نہ ہی کسی اجتماع میں شریک ہوں گے۔بلکہ وہ قیامت تک قبر میں مقیم رہیں گے۔اوران کی روح قدس اعلیٰ علین میں اپنے رب کے پاس ہے جیسے کہ سورۃ مومنوں میں آتا ہے۔

پھر بے شک اس کے بعد تم مرجائو گے اور یقینا تم قیامت کے دن اٹھائے جائو گے۔نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ میں پہلا ہوں جس کی قیامت کے دن قبر پھٹ جائےگی۔اور میں پہلا سفارش کرنے والا ہوں۔او ر پہلا ہوں جس کی سفارش قبو ل ہوگی۔ان پران کے رب کی افضل صلواۃ سلام ہویہ آیت کریمہ اور حدیث شریف اورجو ان کے معنی میں دیگرآیات و احادیث ہیں تمام کی تمام اس پر دلالت کرتی ہیں۔کہ نبی کریم ﷺ اور دیگرتمام مردے اپنی قبروں سے قیامت ک دن نکالے جایئں گے۔یہ ایسا امر ہے جس پرپوری امت کے علماء کا اجماع ہے تمام مسلمانوں کو ان امور سے متنبہ ہو جاناچاہیے۔اور جاہل اوربے وقوف لوگوں کی پیدا کی ہوئی بدعات و خرافات سے اجتناب کرنا چاہیے کہ ان کو کوئی دلیل اللہ تعالیٰ نے نازل نہیں فرمائی یہ محض ان کی نفسانی کواہشات کا نتیجہ ہے اللہ مددگار ہے اور اسی پر بھروسہ ہے (ولاحول ولا قوۃ الا باللہ) باقی رہا کہ نبی کریم ﷺ پر صلواۃ و سلام کا مسئلہ تو یہ اللہ تعالیٰ کے تقرب کا افضل ترین ذریعہ ہے اوربہت بڑا عمل صالحہ ہے جیسے کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا!

ترجمہ ۔نے شک اللہ تعالیٰ اور اس ک فرشتے نبی کریم ﷺ پر رحمت بھیجتے ہیں۔اے ایمان والو تم بھی ان پر صلواۃ اور سلام پڑھو۔اور رسول اکرم ﷺ نے فرمایا جو کوئی مجھ پر ایکبار  صلواۃ پڑھتا ہے اللہ تعالیٰ اس پر دس بار رحمت کرتے ہیں۔اورشریعت ےکے مطابق یہ تمام اوقات میں جائزہے۔اور ہر نماز کے آخر میں تاکیداً ہے۔ بلکہ تمام اہل علم کے نزدیک ہر نماز کے آخری تشہد میں واجب ہے خواہ نماز فرضی ہو یانفلی اور اکثر مواقع پرسنت موکدہ ہے اذان کے بعد اور نبی کریمﷺ کا اسم گرامی زکر کرنے کے بعد اور جمعے کے دن رات جیسے کہ اس پر بہت سی احادیث دلالت کرتی ہیں۔(اخبار اہل الاسلام 1396ھ 1976ء)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 122-128

محدث فتویٰ

تبصرے