السلام عليكم ورحمة الله وبركاته
فرقہ الناجیہ سے متعلق سوالات کے جوابات
وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!
الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!
سوال اول کا جواب یہ ہے کہ حدیث افتراق امت سند کے لہاظ سے حسن یا صحیح ہے ضعیف نہیں ہے۔اگر اس کا کوئی طریق سند ضعیف ہے تو اس حدیث کا ضعیف ہونا لازم نہیں آتا۔صحت حدیث کے لئے اس کے تمام طریق پر ٖغور کرنا اور نفس مسئلہ جواس حدیث سے ظاہر ہے اس کو دیگر احادیث صحیحہ کی رو سے جانچنا ضروری ہے سوا اس اعتبار سے یہ حدیث حسن یا صحیح ہے اور قابل حجت ہے امام ترمذی نے اس حدیث کے بیان کرنے والے چار صحابی زکر کئے ہیں۔ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ عبد اللہ بن عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ حضرت سعید بن وقاص رضی اللہ تعالیٰ عنہ عوف بن مالکرضی اللہ تعالیٰ عنہ اور شارح سفر اسعادت نےگیارہ او ر بتائے ہیں پس یہ حدیث کل پندرہ صحابہ سے مروی ہے۔ اور جموع طرق کے اعتبار سے صحیح ہے۔اور دیگر احادیث صحاح اس کی موئید ہیں۔
حدیث ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو امام ترمذی نے حسن قرار دیا ہے۔اور حافظ سخاوی نے اس کی صحت کو مقاصد حسنہ میں تسلیم کیا ہے۔اور علامہ شاطبی نے کتاب الاعتصام ص 123 جلد 2 میں ا س کی صحت کو برقرار رکھا ہے۔اور امام ذہبی نے اس کو شرط مسلم پر بتایا ہے۔(مستدرک حاکم جلد 1 ص 128 موضوعات کبیر ص31 میں ہے۔
قال الحاكم انه حديث كبير في الاصول
کے یہ حدیث اصول دین کے لہاظ سے بہت بڑی ہے اور تذکرہ الموضوٹ ص15 میں حدیث افتراق امت نقل کی ہے جس میں جملہ ما انا عليه واصحابيوارد ہے۔اس پر یہ لکھا ہے۔حسن صحیح
عن ابي هريره وسعدو ابن عمر وانس وجابر وغيرهم یعنی یہ حدیث حسن صحیح ہے۔جو ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سعد بن عمر انس و جابر رضوان اللہ عنہم اجمعین وغیرہ سے مروی ہے۔تنقیح الرواۃ ص 41 ج میں اس حدیث کو حسن قرار دیاہے۔اور وہ روایت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو بھی حسن کہاہے۔اور یہ فرمایا ہے کہ
ورواه ايضا الحاكم باسناد حسن وفيه زيادة ما انا عليه واصحابي اليوم
یعنی اس حدیث کو امام حاکم نے اسناد حسن کے ساتھ روایت کیا اور اس میں یہ جملہ زوائد ہے۔ ما انا عليه واصحابي اليوم یعنی وہ فرقہ نجات پائے گا۔جو اس عقیدے پر قائم رہا۔جس پر آپ ﷺ اور آپ کے صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین عہد نبوی میں قائم تھے۔عوف بن مالک کی روایت پر امام حاکم فرماتے ہیں۔ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پرصحیح ہے۔(مستدرک جلد 4 ص430ٰ)اورابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی حدیث پریہ لکھتے ہیں۔''یہ سندیں ایسی ہیں۔ کہ اس حدیث کو صحیح کہنے پر ان سے حجت لی جاسکتی ہے۔''امام ذہبی نے بھی ان حدیثوں پرسکوت فرمایا ہے۔جس سے ظاہر ہے کہ ان کا بھی اس پر صاد ہے اور پھر وہ حدیث صحیح جس پر یہ جملہ وا رد ہے۔
لا يزال طائفة من امتي قائمين علي الحق لايضرهم من خالفهم حتي ياتي امر الله
(رواۃ البخاری و مسلم) یعنی میری امت میں سے ایک گروہ ہمیشہ حق پر قائم رہے گا۔جس کو مخالفین کوئی ضرر نہ پہچنا سکیں گے۔اس کی موئد ہے عزیزی نے سراج منیر میں علامہ علقمی سے حدیث افتراق امت نقل کر کے لکھا ہے۔کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے۔ اور امام بہیقہی نے بھی اس کو حسن صحیح کہا ہے۔(تاریخ اہل حدیث عربی ص49) اس تصریح سے یہ واضح ہوا کہ اس حدیث کے مجموعہ اسناد کا اعتبار کیا جائے تو یہ حدیث حسن صحیح ہے۔؟
سوال۔دوم کا جواب۔دخول نار سے مراد یہ ہے کہ وہ گمراہ فرقے جو اپنے عقائد و اعمال کی رو سے آپ ﷺ اور آپ ﷺ کےصحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کے خلاف ہیں۔اور ان کے عقائد اور اعمال میں بدعت پائی جاتی ہے۔اور اسی بدعی عقائد و اعمال کے اعتبار سے ہی وہ فرقہ ناجیہ سے علیحدہ شمار ہیں ان کے اوصاف او ر ان کے فرقوں کی ہیت کذائی گروہ ناجیہ کے بلکل منافی ہے۔و ہ جہنم میں داخل کئے جایئں گے۔ چنانچہ مسند احمد اور ابو دائو د کی روایت جو حضرت معاویہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے۔ اس میں یہ صراحت ہے۔اثنتان وسبعون في النار وواحد في الجنةیعنی بہتر فرقے دوزخ میں جایئں گے۔اور ایک جنت میں جائے گا۔دوزخ او ر جنت کے تقابل سے تمام تاویلیں بے کار ہوگئیں۔اور اس سےثابت ہوگیا کہ اس دخول سے مراد حقیقی جنت اور دوزخ میں جانا ہے۔پس جو شخص جنت کا داخلہ منظور کرانا چاہتا ہے۔اس کو چاہیے کہ مسلک سنت کو لازم پکڑے اور بدعت سےکلی پرہیز کرے۔حدیث ناطق ہے۔
من احب سنتي فقد احبني ومن احبني كان معي في الجنة (مشكواة)
یعنی جو شخص میرے طریقے کو پسند کرتا ہے۔وہ میرے ساتھ محبت رکھتا ہے۔اور جو مجھ سے محبت رکھتا ہے وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔ تنقیح الرواۃ میں اس حدیث کے تحت یہ لکھا ہے۔معني حب السنة العمل علبي وفق السنت
سنت کی محبت یہ ہے جہ سنت پر عمل کرنا چاہیے۔
سوال سوم کا جواب۔باقی رہا یہ سوال کہ حدیث کلھم فی النار سے دخول خلود ہے۔یا غیر خلود سو اس کا جواب یہ ہے کہ ا لا الس میں تفصیل ہے کہ جن فرقوں کے عقائد و اعمال حد شرک و کفر کو پہنچ گئے ہیں ان کے لئے تو خلود فی النار ہے اور جن کے عقائد و اعمال حد شرک وکفر کو نہیں پہنچتے ۔ان کے لئے خلود نہیں ہے۔صرف ابتداء دوزخ میں جایئں گے۔اور سزا بھگت کر انتہا نجات پا جایئں گے۔
سوال چہارم کا جواب۔دیگر یہ جو فرمایا گیا ہے کہ اگر غیر خلود مراد ہے ۔ تو فرقہ ناجیہ اورغیر ناجیہ میں کوئی فرق نہیں رہتا ہے۔ تو اس کا جواب یہ ہے کہ دخول نار کے مختلف اسباب اور موجبات ہیں ۔مثلاً ایک غیر مسلم کا دوزخ میں داخلہ اور سبب سے ہے۔اور ایک مسلمان چور سود خور ذانی قاتل وغیرہ گناہ گار کا داخلہ اور وجہ سے ہے۔بعض لوگ غیر اسلام دین رکھنے کی وجہ سے جہنم میں جایئں گے۔ان کے لئے جہنم کا طبقہ اور ہوگا۔اور جو مسلمان گناہ گار جایئں گے۔ان کا طبقہ جہنم میں او ر ہوگا۔کفار کے لئے تو خلود ہے۔ اور مسلمان فساق کے لئے خلود نہیں ہے۔حالانکہ دونوں گروہ دوزخ میں داخل ہیں۔لیکن اعتبار اور حیثیت کا فرق ہے۔چنانچہ ابن کثیر میں ہے کہ طبرانی میں ہے۔رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں۔ کہ ه الا الله کے کہنے والوں میں سے بعض لوگ بسبب اپنے گناہوں کے جہنم میں جایئں گے۔پس لات و عزی کے پجاری ان سے کہیں گے۔ کہ تمہارے لا اله الا اللهکہنے نے تمھیں کیا نفع دیا۔تم تو ہمارے ساتھ ہی جہنم میں جل رہے ہو۔اس پر اللہ تعالیٰ کی رحمت کو جو شف آئے گا۔اور اللہ تعالیٰ ان سب کو وہاں سےنکال لے گا۔اور نہر حیات میں انھیں غوطہ دے کر ایسا کر دے گا۔جیسے چاند گرہن سے نکلا ہو۔پھر یہ سب جنت میں جایئں گے۔وہاں انھیں جہنمی کہا جائے گا۔(ابن کثیر اردو ص2 پ 14)
اب دیکھیے! کفار مشرکین اور گناہ گار جہنمی کہلاتے ہیں۔لیکن اسباب دخول میں اور ان کی معیاد میں فرق ہے ۔اوردوزخ میں ان کے درجات و طبقات میں بھی فرق ہے۔اس طر ح کفار اور منافقین کے درجات اور طبقات میں بھی فرق ہے۔پس اسی طرح فرقہ ناجیہ کے بھی دو حصے ہیں۔ایک وہ جو مطلقا ہی دخول نار سے محفوظ ہوں گے وہ تو وہ لوگ ہیں جو من حیث الاعتقاد اور من حیث العمل بطریق نبویﷺ و صحابہ کرام پورے پابند رہے۔جیسے صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین محدثین تھے۔دوسرے وہ لوگ ہیں۔جو تقصیرات اعمال سے گناہ گار اور مجرم ہیں ان کو اللہ چاہے تو اللہ بخش دے اور چاہے تو کچھ معیاد تک عذاب کرے اور پھر نکال لے۔
اور غیر ناجیہ فرقہ کے لوگوں کی بھی دو قسمیں ہیں۔ ایک وہ جو اپنے اعتقاد اور اعمال کی وجہ سے کفا ر مشرکین کے جرم تک پہنچ گئے ہیں۔وہ تو ان کے ہمراہ مطلق دائمی جہنمی ہوں گے۔اور جو حد کفر تک نہیں پہنچے۔صرف احداث اور افتراق سے گناہ گار ہو گئے ہیں۔ توان کو گناہ گا رمسلمانوں کی طرح معیادی عذاب ہوگا۔ لیکن گناہ گار مسلمان کا جرم یہ ہے کہ ا س نے ایک چیز کو ۔۔۔گناہ جان کر پھر ہواہش نفس سے عمداً وہ گنا ہ کیا۔ اور ایک غیر مشروع کو مشروع ٹھرایا۔او ر ایسا کام کیا جس ثبوت شرع میں نہ تھا۔اورپھر اس کے کرنے کا ثواب اللہ سے چاہا۔حالانکہ اللہ نے اپنے رسول اللہﷺ کی زبان مبارک پر اس کے ثواب دینے کا وعدہ نہیں کیا۔یہ ابتداء ناجیہ نہیں ہے۔ لیکن انتہا ناجیہ ہے کیونکہ گناہ گار مسلمانوں کی حد میں داخل ہے۔اور اس نے یہ گناہ کیا ہے کہ آپﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کی جماعت اہل اتفاق کا طرز عمل چھوڑ کر یہود وغیرہ گمراہ اقوام اہل افتراق کا طریقہ اخیتار کرلیا اور حکم الہیٰ تھا۔
کہ دین کو اکھٹے ہوکر اتفاق سے بصورت جماعت قائم رکھو اور اس میں باہم تفرقہ پیدا نہ کرو۔نیز ارشاد ہے۔
تم ان لوگوں کی طرح نہ ہوجائو جو فرقہ فرقہ ہوگئے۔اور انہوں نے باوجود دلائل شرعیہ کے پھر اختلاف کیا۔ اور ان کے لئے بہت بڑا عذاب ہے ۔
مسلمانوں میں جو گناہ گار ہیں۔وہ بھی دوزخ کی سزا کے مستحق ہیں۔اب ان کو کفار کے مقابلے میں جو ناجیہ کہیں گے۔کیونکہ انتہا نجات پایئں گے۔اور جو ابتداء نجات پر کر جنت کو گئے ہیں۔ان کے مقابلے میں دوذخی کہہ سکتے ہیں۔اور غٖیر ناجیہ بھی۔صرف اعتبارات او حیثیات مختلف ہیں۔از جناب شاہ عبد العزیز صاحب محدث دہلوی کے جوابات سنئے۔انہوں نے حدیث
ستفترق امتي علي ثلاثة وسبعين فرقة كلهم في النار الا واحدة
(ج1 آص 24۔25)پر لکھ کر یہ سوال کیا ہے۔کہ جمعیع فرقوں کے فی النار ہونے سے کیا مرا د ہے۔؟خلود یا غیر خلود ؟اور ناجیہ کے نانی ہونے سے کیا مراد ہے۔کیا مطلقا جہنم میں نہ جایئں گے۔یا بعض گناہ گار جایئں گے۔اس کا جواب شاہ صاحب نے مختلف علماء سے کئی طر ح نقل کیا ہے۔
اول یہ کہ مراد دخول من حیث الاعتقاد ہے فرقہ ناجیہ کو اعتقاد کی چھت سے دخول نار بالکل نہیں ہوگا۔اگرچہ کچھ معیاد تک تقصیرات اعمال کی جھت سے دخول نار ہوگا،۔
دوم۔جواب جو مختار امام غز الی ہے جو محدثین اور محقیقین ن بھی پسند کیا ہے۔کہ مراد ناجیہ سے وہ لو گ ہیں جن کو من حیث الاعتقاد ور من حیث الاعمال دخول نار مطلق ہوگا۔اور وہ ابتداء ہی داخل بہشت ہوں گے۔او رتفسیر فرقہ ناجیہ کی جو یہ ہے کہ
الذين هم علي ما انا عليه واصحابي
یعنی جولوگ اس عقیدہ و عمل پرہے۔اور میرے صحابہ ہیں ۔وہ ناجی ہیں۔اس گروہ پر خوب چسپاں ہے۔کیونکہ عہد نبوی ﷺ اور عہد صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین میں عقیدہ اور عمل میں کوئی بدعت ظاہر نہ ہوئی تھی۔
تیسراجواب یہ ہے کہ تمام فرقے باطل پر ہیں۔اگرچہ ان کا ایک عقیدہ باطل پر ہے۔یا دو عقیدے ایک عمل باطل ہے یا دو عمل فرقہ ناجیہ وہ ہے کہ جن کے عقیدے اور عمل میں کوئی بطلان نہیں ہے۔اور پھر جواب اول کو ارحج اور اقوی قرار دیا ہے۔ اور فرمایا کہ تعریف فرقہ ناجیہ کی یہ عبارت الذين هم علي ما انا عليه واصحابي دلالت کرتی ہے کہ و ہایسی جیز پر کہ وہ فرقہ ناجیہ اور رسول اللہ ﷺ اور تمام صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے درمیان مشترک ہے اور یہ بدہیی امر ہے کہ سوائے عقائد کے دوسری کوئی چیز مشترک نہیں ہوسکتی۔لہذا عقائد کی روح سے یہ فرقہ ناجیہ ہے۔
میں کہتا ہوں کہ آپ ﷺ نے حدیث افتراق میں جب سلسلہ کلام شروع فرمایا تو یہ فرمایا کہ میر ی امت پر ایک دور ایسا آئے گا۔کہ وہ بنی اسرایئل کی روش پر چلنے لگیں گے۔اور بالکل ان کے مطابق ہو جائیں گے۔حتیٰ کہ ان میں سے کسی نے اپنی ماں سے ناجائز فعل کیا ہے تو میری امت میں سے بھی ایسے لوگ ہوں گے۔جو ایسابرا فعل کریں گے۔بنی اسرایئل بہتر فرقے ہو گئے تھے میر ی امت تہتر فرقے ہو جائے گی۔ وہ سب دوزخ میں جایئں گے۔مگر ایک فرقہ سلامت رہے گا۔صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین نے کہا کہ وہ کون سا ہے۔آ پﷺ نے فرمایا کہ جس پرمیں ہوں اور میرے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین ہیں۔(مشکواۃ)
اس میں ماں سے بدکاری کرنے کا زکر کر کے یہ ظاہر کردیا۔کہ میری امت کی عملی حالت نہایت سوز ہوجائے گی۔اور بنی اسرائیل کے افتراق سے یہ ظاہر کر دیا کہ میری امت کئی فرقوں میں بٹ جائے گی۔
سوال ۔پنجم کاجواب۔دیکر سوال یہ ہے کہ صحابہرضوان اللہ عنہم اجمعین کا سوال فرقہ ناجیہ کے متعلق تھا تو جواب میں صرف ما انا علیہ کافی تھا۔کیونکہ شریعت الہٰی کا کامل نمونہ او ر اسوۃ حسنہ صرف آپﷺ کی ذات اقدس ہے۔آپﷺ کے اقوال اور افعال ہی تمام امت کے لئے حجت ہیں۔اور کسی کا قول و فعل خواہ صحابی رضی اللہ تعالیٰ عنہ ہویا تابعی حجت شریعہ نہں۔پھر اپنے ساتھ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کوفرقہ ناجیہ کی تعریف میں شامل کیوں کیا گیا ہے۔؟سو اس کا جواب یہ ہے کہ تعریف میں واصحابی کے الفاظ سے اصحاب کا کوئی جداگانہ طریقہ مراد نہیں ہے۔کہ آ پﷺ کے اصحاب رضوان اللہ عنہم اجمعین کا طریقہ آپﷺ کے طریق کے سوا کوئی او ر طریق تھا۔اس کے مستقل بیان کرنے کی ضرورت ہوتی۔بلکہ آپﷺ اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کاطریقہ بالکل واحد تھا۔آپﷺ نے جو اپنی ذات کے ساتھ اپنے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کو رکھا ہے۔ تو اس کی معقول وجہ اور ہے۔جس کی تفصیل یہ ہے کہ سائل نے اس دور فتن کی جماعت حقہ کی تعین اور تعریف طلب کی ہے۔جس کی برائی کی خبر آپﷺ نے دی تھی۔تب آپﷺ نے جواب میں صرف کتاب و سنت پر عمل کرنا معیار نہیں بتلایا حالانکہ حقیقت میں معیار یہی ہے۔لیکن یہ جواب اس نازک دور پرفتن کے مناسب حال نہ تھا۔کیونکہ اس دور فتن میں ہر باطل فرقہ کا یہ دعویٰ ہوسکتا تھا۔کہ ہم ہی کتاب وسنت کے حامل اور عامل ہیں۔چنانچہ اب اس زمانے میں ایسا ہی ہورہا ہے۔ اسی لئے آپ ﷺ نے اس زمانے کی مناسب حال تعریف فرمائی اور یہ واضح کردیا کہ یہ فرقہ ناجیہ وہ ہے جس کا تعامل کتاب وسنت پر اس عملی تصویر اور مکمل نقشہ کے مطابق ہو۔جس کو نبی کریم ﷺ اور صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین نے باہمی تعامل سے تیار کیا ہے۔آپﷺ نے صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے تعامل کو بھی اپنے ساتھ زکر کیا۔تاکہ امت کو صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا وقار و احترام بھی ملحوظ رہے اور ان سے بغض و عناد رکھ کر ان پر زبان درازی نہ کریں رسول ﷺ اور صحابہ کرام رضوان اللہ عنہم اجمعین کے درمیان عملی اور مذہبی تفریق نہ کریں۔
دوسری وجہ ہے کہ ہر نبی کے حواری ہوتے ہیں۔جو اپنے نبی کی اقتداء کرتے ہیں۔اوران پر فدا کا ر اور جانباز ثابت ہوتے ہیں۔او ر وہ مقاصد شریعت جو نبی نے بیان کیے ہوئے ہیں۔ان کو بلا واسطہ ہی سے سمجھا جاتا ہے۔جن کو انھوں نے اپنے افعال اور اقوال سے دوسرے لوگوں تک پہنچانا ہوتا ہے۔اور وہ اپنے نبی کریم اور دوسرے لوگوں کے درمیان واسطہ ہوتے ہیں۔جن پر نبی کو پورا اعتماد ہوتا ہے۔اس لئے آپﷺ نے فرقہ ناجیہ کی تعریف میں صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے تعامل کو بھی ساتھ رکھا۔اب اگر آپﷺ کے کسی قول و فعل کے سمجھنے میں شبہ پیدا ہو تو صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے تعامل میں اس کو نمونہ دیکھ لیا جائے کیونکہ صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کا مجموعی عمل بھی عین شریعت تھا۔اور وہ نور نبوت سے کامل طور پر منور تھے۔چنانچہ آپﷺ نے ایک موقع پر حیوانات کے کلام کرنے کے مسئلہ میں یہ فرمایا تھا۔''کہ میں ﷺاور ابو بکررضی اللہ تعالیٰ عنہ اور عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ حیوانوں کے کلام کرنے پر ایمان رکھتے ہیں۔حالانکہ ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اورعمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اس وقت موجود ہی نہ تھے تو ان کی ٖغیر حاضری میں یہ بیان فرمانا اس مسئلے کی مذید تصدیق اور ان پرکامل اعتماد ظاہر کرنے کے لئے تھا اور اسی بناء پر عليكم بسنتي وسنة الخلفاء الراشدين فرمایا گیا۔اللہ تعالیٰ نے بھی آیت ﴿محمد رسول الله والذين معه﴾
میں صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے اوصاف او ر تعامل حمیدہ کی تعریف کی ہے اس لئے کہ وہ حضورﷺ کی تعلیم کا عملی نمونہ تھے۔جس طرح کہ آپ ﷺ تعلیم وہدایت الٰہی کے عملی نمونہ تھے۔پس جب عہد نبوی ﷺ میں نبی کریم ﷺ اور آپﷺ کے صحابہ کرامرضوان اللہ عنہم اجمعین کا شریعت کا عملی نقشہ کھینچنے میں اشتراک تھا۔تو آپﷺ کا انکو اپنے عملی نمونہ پیش کرنے میں ساتھ بیان کرنا عین انصاف تھا۔نیز یہ واضح ہو کہ اقوال صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے حجت ہونے میں تو اختلاف ہے۔بعض حجت قرار دیتے ہیں۔اور بعض انکار کرتے ہیں۔لیکن صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کے مجموعی تعامل کو جس کو اجماع صحابہ رضوان اللہ عنہم اجمعین کہتے ہیں۔اہل سنت کے نزدیک بالاتفاق حجت ہے۔كما لا يخفي علي اهل العلمبلکہ علامہ ابن حزم باوجود اہل ظاہر ہونے کے طائفہ اہل حق کے اجماع کی حجت قطعی قرار دیتے ہیں۔یعنی یہ صحیح طور پرثابت ہوچکا ہے کہ کوئی زمانہ اہل حق سے خالی نہیں ہے۔جب طائفہ اہل حق کسی شے پر اتفاق کر لیں تو وہ حق قطعی ہے۔بشرط یہ کہ یہ یقینی طور پر ظاہر ہو جائے کہ اہل حق تمام اس چیز پرمتفق ہیں اور کوئی ان کا مخالف نہیں ہے۔یہی مطلب لا تجتمع امتي علي ضلا لة ۔کا ہے۔(اخبار الاعتصام جلد 9 ش 8۔9)
ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب