سرچ انجن کی نوعیت:

تلاش کی نوعیت:

تلاش کی جگہ:

(10) نماز میں ہاتھ باندھا سنت ہے۔

  • 3588
  • تاریخ اشاعت : 2024-03-28
  • مشاہدات : 5195

سوال

السلام عليكم ورحمة الله وبركاته

نماز میں ہاتھ باندھا سنت ہے۔


الجواب بعون الوهاب بشرط صحة السؤال

وعلیکم السلام ورحمة الله وبرکاته!

الحمد لله، والصلاة والسلام علىٰ رسول الله، أما بعد!

شیعہ کو جواب۔

بشیر حسین سلمہ!بعد دعا کے معلوم ہو کہ خط تمارا آیا حالات سے مطلع ہوا تم نے جو لکھا ہے کہ کوئی قرآنی آیت ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے کے بارے میں لکھو تو اولا! ہر چیز کا حکم قرآن میں بالتفصیل نہیں۔مثلاً نماز میں صبح کی دو رکعت ظہر وعصر چار چار مغٖرب کی تین اس  کے متعلق قرآن میں کہیں نہ ملے گا۔اب یہ حکم حدیث کے ذریعہ رسول اللہﷺ سے ملا ہے۔ا س لئے واجب العمل  ہے قرآ ن نے تو اتنا بتایا ہے کہ ہم مسلمانوں کو مجرموں کی شکل میں دیکھنا نہیں چاہتے مجرم کیونکہ ہاتھ باندھے یا جوڑے ہوئے حاکم کے سامنے کھڑا ہوتاہے۔اس کو خداوند عالم اپنے سامنےگوارا نہیں کرتا ہے۔ کہ جب بندے میری بارگاہ میں آیئں۔ تو دنیاوی طریقے سے ہاتھ باندھے ہوئے  میری عبادت نہ کریں۔اس لئے قرآن مجید میں ارشاد  فرمایا ہے۔انجعل المسلمين  كالمجرمينکیا ہم مسلمانوں کو مجرموں کی طرح بنادیں۔اب رہ گیا یہ کہ قدرت کے طریقے پر ہم کو بھی یہی عمل کرنا چاہیے۔اگر وہ ہم سے سخاوت کوچاہتا ہے۔تو سخاوت کریں۔اگر علم کو چاہتاہے۔توعلم حاصل کریں۔یہاں تک کہ اگر اس نے اپنے متعلق یہ کہہ دیا ہو۔کہ میری قدرت کے ہاتھ کھلے ہوئےہیں۔تو ہم کو بھی یہی چاہیے کہ ویسے ہاتھ ہم بھی رکھیں۔چنانچہ قرآن مجید میں موجود ہے کہ اللہ کے ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔قرآن

رسول کو خدا فرماتا ہے۔کہ اے رسول ﷺ ان سے کہہ دو۔کہ اللہ کے دونوں ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔جب  اللہ کے  ہاتھ کھلے ہوئے ہیں۔تو پھر اللہ ہی کے طریقے کو اختیار  کریں۔تاکہ وہ راضی ہو۔لہذا جب ہم خدا کے سامنے نماز میں کھڑے ہوں۔تو ہاتھ کھلے ہونے چاہیں۔

تیسرے یہ کہ اسلام فطرتی مذہب ہے۔یعنی جو ہماری فطرت  ہے وہی مذہب اسلام ہے۔تو اب ہم کو اپنے جسموں کے اعضاء پرغور کرنا چا ہیے۔چنانچہ سر بلند ہے پیر نیچے ہیں۔ہاتھ لٹکے ہوئے ہیں۔جب ہاتھ رانوں پرلٹکے ہوئے ہیں۔تو پھر نماز میں ہم خلاف فطرت کیوں کریں۔اس لئے ضروری ہے کہ موافق ہی اس کی درگاہ میں جائیں۔ تاکہ بناوٹ نہ ہو اس جگہ سے نماز میں ہاتھوں کا کھولنا ضروری ہے۔

چوتھے یہ کہ اہل سنت کی کتابوں میں ہاتھ کھول کرنماز پڑھناجائز ہے۔اور ہاتھ کھول کرنماز پڑھنے میں شیعہ اور سنی دونوں متفق ہیں۔اور ہاتھ باندھ کرنماز پڑھنا فقط سینوں میں ہی پایا جاتاہے۔اور ہاتھ کھول کر نماز پڑھنا دونوں مذہبوں میں تو  پھر وہ چیز کے جس پر دونوں کا اتفاق ہو زیادہ بہتر ہے ۔ یا وہ کہ جس پر ایک کا اتفاق ہو۔اہل سنت کی کتابوں سے ہاتھ کھول کر  نماز پڑھنا واجب ہے۔ او ررسول خدا ﷺ بھی ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے تھے۔

قول مالك العزيمة في الارسال و الرخصة في الوضع والاخو كان النبي صلي الله عليه وسلم كان يفعل كذا لك وكذا اصحابة حتي تنزل الدم من روس اصابعهم

(کنز الدقائق ص25 مطبوعہ نو لکسور لکھنو)ترجمہ۔امام مالک جو چار یعنی امام ابو حنیفہ۔امام شافعی۔امام احمد بن حنبلؒ اور امام مالکؒ ) نے کہا ہے کہ واجب ہے ہاتھ کھول کرنماز پڑھنا او اجازت ہے۔کہ ہاتھ باندھ کرنماز پڑھے۔کیونکہ نبی کریم ﷺ ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے تھے۔ اور ان کے اصحاب رضوان اللہ عنہم اجمعین  بھی ایسا ہی کرتے۔اور اتنی اتنی دیر تک ہاتھ کھول کر نماز پڑھتے کہ انگلیوں کے پوروں میں خون جھول آتا ہے۔؟

الجواب۔الحمد لله وكفي وسلام علي عباده الذين اصطفي اما بعد!

مجیب کا کلام عجیب ہے کہ ایک امر کو پہلے تسلیم کرچکا ہے۔کہ یہ قرآن میں بالتفصیل نہیں لہذا اس کا حدیث سے ثبوت لازم ہے پھر اپنے غلط قیاس سے اس کو قرآن مجید سے ثابت کرنے کی کوشش کی اور ثابت نہ ہوسکا مجیب کو لازم تھا۔کہ جب قرآن میں تصریح نہ تھی۔تو حدیث صریح  پیش کرتا۔جو نہ کرسکا۔اے جناب! اللہ تعالیٰ پرمخلوق پر قیاس کرنا قیاس  مع الفارق ہے عابد کو معبود پر قیاس لا حول ولا قوة الا بالله لا يسئل عما يفعل وهم يسئلونمعاذ اللہ:::کیا وہ نماز پڑھتا ہے۔جو اس کے ہاتھوں پر قیاس کیا اتنی دور گئے اور  اللہ تعالیٰ کا حکم واضمم يدك الي جناحك ِآیت کا خیال نہ کیا۔کہ ضم کا حکم ہے۔فافہم و تدبر پھر  انجعل المسلمين  كالمجرمينکا مطلب بھی غلط بتایا گیاہے۔اس سے پہلے ایک واقعہ نقل کر کے منکرین کو وعید فرمائی

خلاصہ کہ ہم مجرموں یعنی کافروں کو مسلموں کی طرح جنت میں داخل کر کے آرام نہ دیں گے۔بلکہ جہنم میں داخل کر کے عذاب کریں گے۔اور بس اس میں ہاتھ جوڑنے یا باندھنے کا زکر بالکل خیال باطل ہے۔اور  يداه مبسوطتاناول تو متشابہات میں سے ہے۔نیز اس سے دائمی داد دہش مراد ہے۔نہ کے ہاتھ لٹکا کر کھڑے  رہنا یا چلنا پھرنا وغیرہ۔مجیب نے قرآن مجید میں تدبر ہی نہیں کیا۔یوں ہی سنی سنائی باتوں کو نقل کردیا۔جن کا نہ سر ہے نہ  پیر ہاتھ باندھ کردربار میں  کھڑے ہونا اعلیٰ درجہ کا ادب و تہذیب ہے اور ہاتھ لٹکانا ایک گو نہ سو۔بے ادبی اور بدتہذیبی ہے۔جیسے کشتی گیر مقابلہ میں کھڑا ہوتا ہے۔مگر سیدھے کو الٹا سمجھنا آپ کی سمجھ کا پھیر ہے۔اور کچھ نہیں۔اے جناب! پھر آپ نے وہی غلط قیاس شروع کردیا۔فطرۃ کا زکر کر کے بھی آپ کو کچھ حاصل ہوا۔آپ کا قیاس  ایسا ہے کہ جیسے کوئی کہے کہ فطرۃ  نے تو آپ کو شکم مادر سے ننگا اور خون وغیرہ سے آلودہ اور سر نیچے او ر پائوں اوپر کی طرف زمین پر اوند پا پیدا کیا۔پھر آپ کسی منہ سے اللہ کے سامنے نہا دھو باوضو کپڑے پہن ک قبلہ رو سر اوپر اور پائوں نیچے کر کے کھڑے ہوتے ہیں۔اور خط و حجامت وناخن تراشی وغیرہ بھی نہ تھی۔پھر آپ اسی ہیت سے برہنہ نماز کیوں نہیں پڑھتے ۔بلکہ ہر وقت ایسے ہی کیوں نہیں رہتے۔فطرت کے خلاف کس لئے کرتے ہیں۔ہاتھی کے دانت صرف دیکھانے کےلئے ہی ہیں۔ نہ کھانے کےلئے نیز قیام میں تو آپ نے ہاتھ لٹکائے مگر رکوع او سجود اور قعود میں کہاں رکھیں گے۔پھر ان کے لئے کیا دلائل ہوں گے۔اے جناب!  یہ بناوٹ نہیں یہ سنت رسول اللہﷺ ہے جس کا ثبوت تمام کتب صحاح وغیرہ میں موجود ہے۔اورسلف اورخلف اور تمام صلحاء امت کا عمل درآمد ہے اگر آپ کو روز روشن میں کھڑا کر کے دھوپ میں بھی سورج نظر نہ آئے۔تو قصور کس کاہے۔یہ آپ نے غلط لکھا ہے کہ ہاتھ کھول کر نماز پڑھنے میں شیعہ او ر سنی متفق ہیں۔کتب حدیث میں شروع حدیث اہل سنت وکتب فقہ ہدایہ شرح وقایہ سعایہ کنز الدقائق وغیرہ میں ہاتھ باندھ کر نماز پڑھنا  سنت ہے۔ہاں امام مالک کی  طرف لوگوں نے عدم وضع منسوب کیا ہے خود ان سے موطا میں منقول  نہیں۔پھر آپ کی منقولہ عبارت میں واضح اور اخذ کو  رخصت و ثابت بتیا ہے اور آپ اس کوک بناوٹ بتاتے ہیں لہذا یہ بھی جآصپج جکے خلاف ہے اور احادیث صحیح اورآثار صحابہ و تابعین وصلحاء امت کے مقابلے میں ایک مروجہ و بے اصل روایت جس کی وئی سند بھی نہیں جو امام مالک کی طرف منسوب ہے کوئی چیز نہیں اور تمام امت کے عمل و روایات کے بھی خلاف ہے۔لہذا باطل ہے۔(اور نماز میں سینہ پر ہاتھ رکھنا سنت ہے۔) (ابو سعید شرف الدین ناظم مدرسہ سعیدیہ دہلی 25 ذی الحجہ 1258ھ)

ھذا ما عندي والله أعلم بالصواب

فتاویٰ علمائے حدیث

جلد 11 ص 92-95

محدث فتویٰ

ماخذ:مستند کتب فتاویٰ